21. اب یہاں سے رکوع دوم کے اختتام تک انبیاء علیہم السلام اور بعض گزشتہ قوموں کے انجام کی طرف پے در پے مختصر اشارات کیے گئے ہیں جن سے دو باتیں ذہن نشین کرانی مقصود ہیں۔ ایک یہ کہ انسانی تاریخ میں خدا کا قانون مکافات برابر کام کرتا رہا ہے جس میں نیکو کاروں کے لیے انعام اور ظالموں کے لیے سزا کی مثالیں مسلسل پائی جاتی ہیں۔ یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ دنیا کی اس زندگی میں بھی انسان کے ساتھ اس کے خالق کا معاملہ صرف قوانین طبیعی (Physical Law) پر مبنی نہیں ہے بلکہ اخلاقی قانون (Moral Law) اس کے ساتھ کار فرما ہے۔ اور جب سلطنت کائنات کا مزاج یہ ہے کہ جس مخلوق کو جسم طبیعی میں رہ کر اخلاقی اعمال کا موقع دیا گیا ہو اس کے ساتھ حیوانات و نباتات کی طرح محض طبیعی قوانین پر معاملہ نہ کیا جائے بلکہ اس کے اخلاقی اعمال پر اخلاقی قانون بھی نافذ کیا جائے، تو یہ بات بجائے خود اس حقیقت کی صاف نشاندہی کرتی ہے کہ اس سلطنت میں ایک وقت ایسا ضرور آنا چاہیے جب اس طبیعی دنیا میں انسان کا کام ختم ہو جانے کے بعد خالص اخلاقی قانون کے مطابق اس کے اخلاقی اعمال کے نتائج پوری طرح برآمد ہوں، کیونکہ اس طبیعی دنیا میں وہ مکمل طور پر برآمد نہیں ہو سکتے۔ دوسری بات جو ان تاریخی اشارات سے ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جن قوموں نے بھی ابنیاء علیہم السلام کی بات نہ مانی اور اپنی زندگی کا پورا رویہ توحید،رسالت اور آخرت کے انکار پر قائم کیا وہ آخر کار ہلاکت کی مستحق ہو کر رہیں۔ تاریخ کا یہ مسلسل تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ خدا کا قانون اخلاق جو انبیاء کے ذریعہ دیا گیا، اور اس کے مطابق انسانی اعمال کی باز پرس جو آخرت میں ہوئی ہے، سراسر مبنی بر حقیقت ہے کیونکہ جس قوم نے بھی اس قانون سے بے نیاز ہو کر اپنے آپ کو غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ سمجھتے ہوئے دنیا میں اپنا رویہ متعین کیا ہے وہ آخر کار سیدھی تباہی کی طرف گئی ہے۔
22. یہ قصہ قرآن مجید میں تین مقامات پر پہلے گزر چکا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص 353 تا 355، 509 تا 511۔ جلد سوم، ص 696۔
23. سیاق و سباق کو دیکھتے ہوئے اس فقرے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خود ان مہمانوں سے فرمایا کہ آپ حضرات سے کبھی پہلے شرف نیاز حاصل نہیں ہوا، آپ شاید اس علاقے میں نئے نئے تشریف لائے ہیں۔دوسرے یہ کہ ان کے سلام کا جواب دے کر حضرت ابراہیم نے اپنے دل میں کہا، یا گھر میں ضیافت کا انتظام کرنے کے لیے جاتے ہوئے اپنے خادموں سے فرمایا کہ یہ کچھ اجنبی سے لوگ ہیں، پہلے کبھی اس علاقے میں اس شان اور وضع قطع کے لوگ دیکھنے میں نہیں آئے۔
24. یعنی اپنے مہمانوں سے یہ نہیں کہا کہ میں آپ کے لیے کھانے کا انتظام کرتا ہوں بلکہ انہیں بٹھا کر خاموشی سے ضیافت کا انتظام کرنے چلے گئے، تاکہ مہمان تکلفاً یہ نہ کہیں کہ اس تکلیف کی کیا حاجت ہے۔
25. سورہ ہود میں عِجْلٍ حَنِیْذٍ (بھنے ہوئے بچھڑے ) کے الفاظ ہیں۔ یہاں بتایا گیا کہ آپ نے خوب چھانٹ کر موٹا تازہ بچھڑا بھنوایا تھا۔
26. یعنی جب ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہ بڑھے تو حضرت ابراہیمؑ کے دل میں خوف پیدا ہوا۔ اس خوف کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اجنبی مسافروں کا کسی کے گھر جا کر کھانے سے پرہیز کرنا، قبائلی زندگی میں اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ وہ کسی برے ارادے سے آئے ہیں۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ ان کے اس اجتناب ہی سے حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ یہ فرشتے ہیں جو انسانی صورت میں آئے ہیں، اور چونکہ فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا بڑے غیر معمولی حالات میں ہوتا ہے اس لیے آپ کو خوف لا حق ہوا کہ کوئی خوفناک معاملہ در پیش ہے جس کے لیے یہ حضرات اس شان سے تشریف لائے ہیں۔
27. سورہ ہود میں تصریح ہے کہ یہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کا مژدہ تھا۔اور اس میں یہ بشارت بھی دی گئی تھی کہ حضرت اسحاق سے ان کو حضرت یعقوب علیہ السلام جیسا پوتا نصیب ہو گا۔
28. یعنی ایک تو میں بوڑھی، اوپر سے بانجھ۔ اب میرے ہاں بچہ ہوگا؟ بائیبل کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت ابراہیمؑ کی عمر سو سال، اور حضرت سارہ کی عمر 90 سال تھی (پیدائش،18:17 )۔
29. اس قصے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس بندے نے اپنے رب کی بندگی کا حق دنیا میں ٹھیک ٹھیک ادا کیا تھا، اس کے ساتھ عقبیٰ میں تو جو معاملہ ہوگا سو ہوگا، اسی دنیا میں اس کو یہ انعام دیا گیا کہ عام قوانین طبیعت کی رو سے جس عمر میں اس کے ہاں اولاد پیدا نہ ہو سکتی تھی، او ر اسکی سن رسیدہ بیوی تمام عمر بے اولاد رہ کر اس طرف سے قطعی مایوس ہو چکی تھی، اس وقت اللہ نے اسے نہ صرف اولاد دی بلکہ ایسی بے نظیر اولاد دی جو آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔ دنیا میں کوئی دوسرا انسان ایسا نہیں ہے جس کی نسل میں مسلسل چار انبیاء پیدا ہوئے ہوں۔ وہ صرف حضرت ابراہیم ہی تھے جن کے ہاں تین پشت تک نبوت چلتی رہی اور حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام جیسے جلیل القدر نبی ان کے گھرانے سے اٹھے۔
30. چونکہ فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا کسی بڑے اہم کام کے لیے ہوتا ہے، اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی آمد کا مقصد پوچھنے کے لیے خطب کا لفظ استعمال فرمایا۔ خَطْب عربی زبان میں کسی معمولی کام کے لیے نہیں بلکہ کسی امر عظیم کے لیے بولا جاتا ہے۔
31. مراد ہے قوم لوط۔ اس کے جرائم اس قدر بڑھ چکے تھے کہ صرف ’’مجرم قوم‘‘ کا لفظ ہی یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ اس سے مراد کون سی قوم ہے۔ اس سے پہلے قرآن مجید میں حسب ذیل مقامات پر اس کا ذکر گزر چکا ہے : تفہیم القرآن، جلد دوم، ص 51 تا 53۔ 355 تا 359۔ 510 تا 515۔ جلد سوم، ص، 170۔ 526 تا 530۔ 586۔ 587۔594 تا 598۔ جلد چہارم، الصافات، ص 306۔
32. یعنی ایک ایک پتھر پر آپ کے رب کی طرف سے نشان لگا دیا گیا ہے کہ اسے کس مجرم کی سرکوبی کرنی ہے۔ سورہ ہود اور الحجر میں اس عذاب کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ ان کی بستیوں کو تلپٹ کر دیا گیا اور اوپر سے پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسائے گئے۔ اس سے یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ شدید زلزلے کے اثر سے پورا علاقہ الٹ دیا گیا، اور جو لوگ زلزلے سے بچ کر بھاگے ان کو آتش فشاں مادے کے پتھروں کی بارش نے ختم کر دیا۔
33. بیچ میں یہ قصہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے یہ فرشتے کس طرح حضرت لوط کے ہاں پہنچے اور وہاں ان کے اور قوم لوط کے درمیان کیا کچھ پیش آیا۔ یہ تفصیلات سورہ ہود، الحجر اور العنکبوت میں گزر چکی ہیں۔ یہاں صرف اس آخری وقت کا ذکر کیا جا رہا ہے جب اس قوم پر عذاب نازل ہونے والا تھا۔
34. یعنی پوری قوم میں، اور اس کے پورے علاقے میں صرف ایک گھر تھا جس میں ایمان و اسلام کی روشنی پائی جاتی تھی، اور وہ تنہا حضرت لوط علیہ السلام کا گھر تھا۔ باقی پوری قوم فسق و فجور میں ڈوبی ہوئی تھی، اور اس کا سارا ملک گندگی سے لبریز ہو چکا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس ایک گھر کے لوگوں کو بچا کر نکال لیا اور اس کے بعد اس ملک پر وہ تباہی نازل کی جس سے اس بد کار قوم کا کوئی فرد بچ کر نہ جا سکا۔
اس آیت میں تین اہم مضامین بیان ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کا قانون مکافات اس وقت تک کسی قوم کی کامل تباہی کا فیصلہ نہیں کرتا جب تک اس میں کچھ قابل لحاظ بھلائی موجود رہے۔ برے لوگوں کی اکثریت کے مقابلے میں اگر ایک قلیل عنصر بھی ایسا پایا جاتا ہو جو بدی کو روکنے اور نیکی کے راستے کی طرف بلانے کے لیے کوشاں ہو تو اللہ تعالیٰ اسے کام کرنے کا موقع دیتا ہے اور اس قوم کی مہلت میں اضافہ کرتا رہتا ہے جو ابھی خیر سے بالکل خالی نہیں ہوئی ہے۔ مگر جب حالت یہ ہو جائے کہ کسی قوم کے اندر آٹے میں نمک کے برابر بھی خیر باقی نہ رہے تو ایسی صورت میں اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو دو چار نیک انسان اسکی بستیوں میں بُرائی کے خلاف لڑتے لڑتے تھک کر عاجز آ چکے ہوں انہیں وہ اپنی قدرت سے کسی نہ کسی طرح بچا کر نکال دیتا ہے اور باقی لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہے جو ہر ہوش مند مالک اپنے سڑے ہوئے پھلوں کے ساتھ کیا کرتا ہے۔
دوسرے یہ کہ ’’مسلمان‘‘ صرف اسی امت کا نام نہیں ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیرو ہے، بلکہ آپ سے پہلے کے تمام انبیاء اور ان کے پیرو بھی مسلمان ہی تھے۔ ان کے ادیان الگ الگ نہ تھے کہ کوئی دین ابراہیمی ہو اور کوئی موسوی اور کوئی عیسوی۔ بلکہ وہ سب مسلم تھے اور ان کا دین یہی اسلام تھا۔ قرآن مجید میں یہ حقیقت جگہ جگہ اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے مثال کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں: البقرہ، 128، 131،133،۔ آل عمران، 67۔ المائدہ،44،111۔ یونس، 72،84،۔یوسف، 101۔الاعراف، 128۔ انمل 31،42،44۔
تیسرے یہ کہ ’’مومن‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے الفاظ اس آیت میں بالکل ہم معنی استعمال ہوئے ہیں۔ اس آیت کو اگر سورہ حجرات کی آیت 14 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو ان لوگوں کے خیال کی غلطی پوری طرح واضح ہو جاتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ’’مومن‘‘ اور ’’مسلم‘‘ قرآن مجید کی دو ایسی مستقل اصطلاحیں ہیں جو ہر جگہ ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال ہوئی ہیں اور ’’مسلم‘‘ لازماً اُسی شخص کو کہتے ہیں جو ایمان کے بغیر محض بظاہر دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ حجرات، حاشیہ 731۔
35. اس نشانی سے مراد بحیرۂ مُردار (Dead Sea) ہے جس کا جنوبی علاقہ آج بھی ایک عظیم الشان تباہی کے آثار پیش کر رہا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا اندازہ ہے کہ قوم لوط کے بڑے شہر غالباً شدید زلزلے سے زمین کے اندر دھنس گئے تھے اور ان کے اوپر بحیرۂ مُردار کا پانی پھیل گیا تھا، کیونکہ اس بحیرے کا وہ حصہ جو ’’اللِّسان‘‘ نامی چھوٹے سے جزیرہ نما کے جنوب میں واقع ہے، صاف طور پر بعد کی پیداوار معلوم ہوتا ہے اور قدیم بحیرۂ مُردار کے جو آثار اس جزیرہ نما کے شمال تک نظر آتے ہیں وہ جنوب میں پائے جانے والے آثار سے بہت مختلف ہیں۔ اس سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ جنوب کا حصہ پہلے اس بحیرے کی سطح سے بلند تھا، بعد میں کسی وقت دھنس کر اس کے نیچے چلا گیا۔ اس کے دھنسنے کا زمانہ بھی دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ معلوم ہوتا ہے، اور یہی تاریخی طور پر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت لوط کا زمانہ ہے۔ 1965 ء میں آثار قدیمہ کی تلاش کرنے والی ایک امریکی جماعت کو اللسان پر ایک بہت بڑا قبرستان ملا ہے جس میں 20 ہزار سے زیادہ قبریں ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قریب میں کوئی بڑا شہر ضرور آباد ہو گا۔ مگر کسی ایسے شہر کے آثار آس پاس کہیں موجود نہیں ہیں جس سے متصل اتنا بڑا قبرستان بن سکتا ہو۔ اس سے بھی یہ شبہ تقویت پاتا ہے کہ جس شہر کا یہ قبرستان تھا وہ بحیرے میں غرق ہو چکا ہے۔ بحیرے کے جنوب میں جو علاقہ ہے اس میں اب بھی ہر طرف تباہی کے آثار موجود ہیں اور زمین میں گندھک، رال، کول تار اور قدرتی گیس کے اتنے ذخائر پائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ کسی وقت بجلیوں کے گرنے سے یا زلزلے کا لاوا نکلنے سے یہاں ایک جہنم پھٹ پڑی ہوگی (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الشعراء، حاشیہ 114)۔
36. یعنی ایسے صریح معجزات اور ایسی کھلی کھلی علامات کے ساتھ بھیجا جن سے یہ امر مشتبہ نہ رہا تھا کہ آپ خالق ارض و سما کی طرف سے مامور ہو کر آئے ہیں۔
37. یعنی کبھی اس نے آپؑ کو ساحر قرار دیا، اور کبھی کہا کہ یہ شخص مجنون ہے۔
38. اس چھوٹے سے فقرے میں تاریخ کی ایک پوری داستان سمیٹ دی گئی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ذرا چشم تصور کے سامنے یہ نقشہ لے آئیے کہ فرعون اس وقت دنیا کے سب سے بڑے مرکز تہزیب و تمدن کا عظیم فرما نروا تھا جس کی شوکت و سطوت سے گرد و پیش کی ساری قومیں خوف زدہ تھیں۔ ظاہر بات ہے کہ وہ جب اپنے لشکروں سمیت اچانک ایک روز غرقاب ہوا ہوگا تو صرف مصر ہی میں نہیں، آس پاس کی تمام قوموں میں اس واقعہ کی دھوم مچ گئی ہوگی۔ مگر اس پر بجز ان لوگوں کے جن کے اپنے قریبی رشتہ دار غرق ہوئے تھے، باقی کوئی نہ تھا جوان کے اپنے ملک میں، یا دنیا کی دوسری قوموں میں ماتم کرتا یا ان کا مرثیہ کہتا، یا کم از کم یہی کہنے والا ہوتا کہ افسوس، کیسے اچھے لوگ تھے جو اس حادثہ کے شکار ہوگئے۔ اس کے بجائے، چونکہ دنیا ان کے ظلم سے تنگ آئی ہوئی تھی، اس لیے ان کے عبرتناک انجام پر ہر شخص نے اطمینان کا سانس لیا، ہر زبان نے ان پر ملامت کی پھٹکار برسائی، اور جس نے بھی اس خبر کو سنا وہ پکار اٹھا کہ یہ ظالم اسی انجام کے مستحق تھے۔ سورہ دخان میں اسی کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَآءُ وَا لْاَرْضُ، ’’پھر نہ آسمان ان پر رویا نہ زمین ‘‘۔(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ دخان، حاشیہ 25 )۔
39. اس ہوا کے لیے لفظ عقیم استعمال ہوا ہے جو بانجھ عورت کے لیے بولا جاتا ہے، اور لغت میں اس کے اصل معنی یا بِس (خشک) کے ہیں۔ اگر اسے لغوی معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ایسی سخت گرم و خشک ہو اتھی کہ جس چیز پر سے وہ گزر گئی اسے سکھا کر رکھ دیا۔ اور اگر اسے محاورے کے مفہوم میں لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ بانجھ عورت کی طرح وہ ایسی ہوا تھی جو اپنے اندر کوئی نفع نہ رکھتی تھی۔ نہ خوشگوار تھی، نہ بارش لانے والی، نہ درختوں کو بار آور کرنے والی، اور نہ ان فائدوں میں سے کوئی فائدہ اس میں تھا جن کے لیے ہوا کا چلنا مطلوب ہوتا ہے۔ دوسرے مقامات پر بتایا گیا ہے کہ یہ صرف بے خیر اور خشک ہی نہ تھی بلکہ نہایت شدید آندھی کی شکل میں آئی تھی جس نے لوگوں کو اٹھا اٹھا کر پٹخ دیا، اور یہ مسلسل آٹھ دن اور سات راتوں تک چلتی رہی، یہاں تک کہ قوم عاد کے پورے علاقے کو اس نے تہس نہس کر کے رکھ دیا (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ حٰم السجدہ، حواشی نمبر 20۔21۔ الاحقاف، حواشی نمبر 25 تا 28)۔
40. مفسرین میں اس امر پر اختلاف ہے کہ اس سے مراد کون سی مہلت ہے۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ یہ اشارہ سورہ ہود کی اس آیت کی طرف ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ثمود کے لوگوں نے جب حضرت صالح کی اونٹنی کو ہلاک کر دیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو خردار کر دیا گیا کہ تین دن تک مزے کر لو، اس کے بعد تم پر عذاب آ جائے گا۔ بخلاف اس کے حضرت حسن بصری کا خیال ہے کہ یہ بات حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی دعوت کے آغاز میں اپنی قوم سے فرمائی تھی اور اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم توبہ و ایمان کی راہ اختیار نہ کرو گے تو ایک خاص وقت تک ہی تم کو دنیا میں عیش کرنے کی مہلت نصیب ہو سکے گی اور اس کے بعد تمہاری شامت آ جائے گی۔ ان دونوں تفسیروں میں سے دوسری تفسیر ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے، کیونکہ بعد کی آیت فَعَتَوْ ا عَنْ اَمْرِ رَبِّھِمْ (پھر انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی)یہ بتاتی ہے کہ جس مہلت کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے وہ سرتابی سے پہلے دی گئی تھی اور انہوں نے سرتابی اس تنبیہ کے بعد کی۔اس کے برعکس سورہ ہود والی آیت میں تین دن کی جس مہلت کا ذکر کیا گیا ہے وہ ان ظالموں کی طرف سے آخری اور فیصلہ کن سرتابی کا ارتکاب ہو جانے کے بعد دی گئی تھی۔
41. قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اس عذاب کے لیے مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ کہیں اسے زَجْرہ (دہلا دینے والی اور ہلا مارنے والی آفت) کہا گیا ہے۔ کہیں اس کو صیحہ (دھماکے اور کڑکے ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔کہیں اس کے لیے طاغیہ (انتہائی شدید آفت) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اور یہاں اسی کو صاعقہ کہا گیا ہے جس کے معنی بجلی کی طرح اچانک ٹوٹ پڑنے والی آفت کے بھی ہیں اور سخت کڑک کے بھی۔ غالباً یہ عذاب ایک ایسے زلزلے کی شکل میں آیا تھا جس کے ساتھ خوفناک آواز بھی تھی۔
42. اصل الفاظ ہیں مَاکَا نُوْا مُنْتَصِرِیْنَ۔ انتصار کا لفظ عربی زبان میں دو معنوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ایک معنی ہیں اپنے آپ کو کسی کے حملہ سے بچانا۔ اور دوسرے معنی ہیں حملہ کرنے والے سے بدلہ لینا۔