Tafheem ul Quran

Surah 52 At-Tur, Ayat 1-27

وَالطُّوۡرِۙ‏ ﴿52:1﴾ وَكِتٰبٍ مَّسۡطُوۡرٍۙ‏ ﴿52:2﴾ فِىۡ رَقٍّ مَّنۡشُوۡرٍۙ‏ ﴿52:3﴾ وَالۡبَيۡتِ الۡمَعۡمُوۡرِۙ‏ ﴿52:4﴾ وَالسَّقۡفِ الۡمَرۡفُوۡعِۙ‏ ﴿52:5﴾ وَالۡبَحۡرِ الۡمَسۡجُوۡرِۙ‏ ﴿52:6﴾ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لوَاقِعٌ ۙ‏ ﴿52:7﴾ مَّا لَهٗ مِنۡ دَافِعٍۙ‏ ﴿52:8﴾ يَّوۡمَ تَمُوۡرُ السَّمَآءُ مَوۡرًا ۙ‏ ﴿52:9﴾ وَّتَسِيۡرُ الۡجِبَالُ سَيۡرًا ؕ‏ ﴿52:10﴾ فَوَيۡلٌ يَّوۡمَـئِذٍ لِّـلۡمُكَذِّبِيۡنَۙ‏ ﴿52:11﴾ الَّذِيۡنَ هُمۡ فِىۡ خَوۡضٍ يَّلۡعَبُوۡنَ​ۘ‏ ﴿52:12﴾ يَوۡمَ يُدَعُّوۡنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّاؕ‏ ﴿52:13﴾ هٰذِهِ النَّارُ الَّتِىۡ كُنۡتُمۡ بِهَا تُكَذِّبُوۡنَ‏ ﴿52:14﴾ اَفَسِحۡرٌ هٰذَاۤ اَمۡ اَنۡتُمۡ لَا تُبۡصِرُوۡنَ​ۚ‏ ﴿52:15﴾ اِصۡلَوۡهَا فَاصۡبِرُوۡۤا اَوۡ لَا تَصۡبِرُوۡا​ۚ سَوَآءٌ عَلَيۡكُمۡ​ؕ اِنَّمَا تُجۡزَوۡنَ مَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿52:16﴾ اِنَّ الۡمُتَّقِيۡنَ فِىۡ جَنّٰتٍ وَّنَعِيۡمٍۙ‏ ﴿52:17﴾ فٰكِهِيۡنَ بِمَاۤ اٰتٰٮهُمۡ رَبُّهُمۡ​ۚ وَوَقٰٮهُمۡ رَبُّهُمۡ عَذَابَ الۡجَحِيۡمِ‏  ﴿52:18﴾ كُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا هَـنِٓـيـْئًا ۢ بِمَا كُنۡـتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَۙ‏ ﴿52:19﴾ مُتَّكِـئِيۡنَ عَلٰى سُرُرٍ مَّصۡفُوۡفَةٍ​ ۚ وَزَوَّجۡنٰهُمۡ بِحُوۡرٍ عِيۡنٍ‏  ﴿52:20﴾ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَاتَّبَعَتۡهُمۡ ذُرِّيَّتُهُمۡ بِاِيۡمَانٍ اَلۡحَـقۡنَا بِهِمۡ ذُرِّيَّتَهُمۡ وَمَاۤ اَلَـتۡنٰهُمۡ مِّنۡ عَمَلِهِمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ​ؕ كُلُّ امۡرِیءٍۢ بِمَا كَسَبَ رَهِيۡنٌ‏ ﴿52:21﴾ وَاَمۡدَدۡنٰهُمۡ بِفَاكِهَةٍ وَّلَحۡمٍ مِّمَّا يَشۡتَهُوۡنَ‏ ﴿52:22﴾ يَـتَـنَازَعُوۡنَ فِيۡهَا كَاۡسًا لَّا لَغۡوٌ فِيۡهَا وَلَا تَاۡثِيۡمٌ‏ ﴿52:23﴾ وَيَطُوۡفُ عَلَيۡهِمۡ غِلۡمَانٌ لَّهُمۡ كَاَنَّهُمۡ لُـؤۡلُـؤٌ مَّكۡنُوۡنٌ‏  ﴿52:24﴾ وَاَقۡبَلَ بَعۡضُهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ يَّتَسَآءَلُوۡنَ‏ ﴿52:25﴾ قَالُـوۡۤا اِنَّا كُـنَّا قَبۡلُ فِىۡۤ اَهۡلِنَا مُشۡفِقِيۡنَ‏ ﴿52:26﴾ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيۡنَا وَوَقٰٮنَا عَذَابَ السَّمُوۡمِ‏ ﴿52:27﴾

1 - قسم ہے ُطور کی، 1 2 - اور ایک ایسی کُھلی کتاب کی 3 - جو رقیق جِلد میں لکھی ہوئی ہے، 2 4 - اور آباد گھر کی، 3 5 - اور اُونچی چھت کی، 4 6 - اور مَوجْزَن سمندر کی،5 7 - کہ تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے 8 - جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں۔ 6 9 - وہ اُس روز واقع ہوگا جب آسمان بُری طرح ڈگمگائے گا7 10 - اور پہاڑ اُڑے اُڑے پھریں گے۔ 8 11 - تباہی ہے اُس روز اُن جُھٹلانے والوں کے لیے 12 - جو آج کھیل کے طور پر اپنی حجّت بازیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ 9 13 - جس دن انہیں دھکے مار مار کر نارِ جہنم کی طرف لے چلا جائے گا 14 - اُس وقت اُن سے کہا جائے گا کہ”یہ وہی آگ ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے، 15 - اب بتاؤ یہ جادُو ہے یا تمھیں سُوجھ نہیں رہا ہے؟ 10 16 - جاؤ اب جُھلسو اِس کے اندر ، تم خواہ صبر کرو یا نہ کرو، تمہارے لیے یکساں ہے، تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جار ہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے۔ 17 - متقی لوگ 11 وہاں باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے، 18 - لُطف لے رہے ہوں گے اُن چیزوں سے جو اُن کا رب انہیں دے گا، اور اُن کا رب اُنہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے گا۔ 12 19 - (ان سے کہا جائے گا) کھاؤ اور پیو مزے سے 13 اپنے ان اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو۔ 20 - وہ آمنے سامنے بچھے ہوئے تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے اور ہم خوبصورت آنکھوں والی حوریں اُن سے بیاہ دیں گے۔ 14 21 - جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد بھی کسی درجہٴ ایمان میں ان کے نقشِ قدم پر چلی ہے ان کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملادیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے۔ 15 ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔ 16 22 - ہم اُن کو ہر طرح کے پھل اور گوشت، 17 جس چیز کو بھی ان کا جی چاہے گا، خوب دیے چلے جائیں گے۔ 23 - وہ ایک دوسرے سے جامِ شراب لپک لپک کر لے رہے ہوں گے جس میں نہ یادہ گوئی ہوگی نہ بدکرداری۔ 18 24 - اور اُن کی خدمت میں وہ لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو انہی کیلیے مخصوص ہوں گے، 19 ایسے خوبصورت جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔ 25 - یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے (دنیا میں گزرے ہوئے) حالات پوچھیں گے۔ 26 - یہ کہیں گے کہ ہم پہلے اپنے گھروالوں میں ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے، 20 27 - آخر کار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جھلسادینے والی ہوا 21 کے عذاب سے بچالیا ۔


Notes

1. طُور کے اصل معنی پہاڑ کے ہیں ۔ اور الطور سے مراد وہ خاص پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو نبوت سے سرفراز فرمایا تھا۔

2. قدیم زمانے میں جن کتابوں اور تحریروں کو زمانہ دراز تک محفوظ رکھنا ہوتا تھا انہیں کاغذ کے بجائے ہرن کی کھال پر لکھا جاتا تھا۔ یہ کھال خاص طور پر لکھنے ہی کے لیے رقیق جلد یا جھلی کی شکل میں تیار کی جاتی تھی اور اصطلاح میں اسے رَقّ کہا جاتا تھا۔ اہل کتاب بالعموم توراۃ،زَبور، انجیل اور صُحُف انبیاء کو اسی رَقّ پر لکھا کرتے تھے تاکہ طویل مدت تک محفوظ رہ سکیں ۔ یہاں کھلی کتاب سے مراد یہی مجموعہ کتب مقدسہ ہے جو اہل کتاب کے ہاں موجود تھا۔ اسے ’’کھلی کتاب‘‘ اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ نایاب نہ تھا، پڑھا جاتا تھا، اور بآسانی معلوم کیا جا سکتا تھا کہ اس میں کیا لکھا ہے ۔

3. ’’ آباد گھر‘‘ سے مراد حضرت حسن بصری کے نزدیک بیت اللہ، یعنی خانہ کعبہ ہے جو کبھی حج اور عمرہ اور طواف و زیارت کرنے والوں سے خالی نہیں رہتا۔ اور حضرت علی، ابن عباس، عِکرِمہ، مجاہد، قَتَادہ، ضحّاک، ابن زَید اور دوسرے مفسرین اس سے مراد وہ بیتِ معمور لیتے ہیں جس کا ذکر معراج کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے ، جس کی دیوار سے آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ٹیک لگائے دیکھا تھا۔ مجاہد، قتادہ اور ابن زید کہتے ہیں کہ جس طرح خانہ کعبہ اہل زمین کے لیے خدا پرستوں کا مرکز و مرجع ہے ، اسی طرح ہر آسمان میں اس کے باشندوں کے لیے ایسا ہی ایک کعبہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لیے ایسی ہی مرکزیت رکھتا ہے ۔ ان ہی میں سے ایک کعبہ وہ تھا جس کی دیوار سے ٹیک لگائے حضرت ابراہیم علیہ السلام معراج میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نظر آئے تھے ، اور اس سے حضرت ابراہیمؑ کی مناسبت فطری تھی کیونکہ آپ ہی زمین والے کعبہ کے بانی ہیں ۔ اس تشریح کو نگاہ میں رکھا جائے تو یہ دوسری تفسیر حضرت حسن بصری کی تفسیر کے خلاف نہیں پڑتی، بلکہ دونوں کو ملا کر ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں قَسم صرف زمین ہی کے کعبہ کی نہیں کھائی گئی ہے بلکہ اس میں ان تمام کعبوں کی قَسم بھی شامل ہے جو ساری کائنات میں موجود ہیں ۔

4. اونچی چھت سے مراد آسمان ہے جو زمین پر ایک قُبّے کی طرح چھایا ہوا نظر آتا ہے ۔ اور یہاں یہ لفظ پورے عالم بالا کے لیے استعمال ہوا ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ ’’قٓ‘‘، حاشیہ نمبر 7)۔

5. اصل میں لفظ اَلْبَحْرِالْمَسجُوْر استعمال ہوا ہے ۔ اس کے متعدد معنی بیان کیے گئے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس کو ’’ آگ سے بھرے ہوئے‘‘ کے معنی میں لیا ہے ۔ بعض اس کو فارغ اور خالی کے معنی میں لیتے ہیں جس کا پانی زمین میں اتر کر غائب ہو گیا ہو، بعض اسے محبوس کے معنی میں لیتے ہیں اور اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ سمندر کو روک کر رکھا گیا ہے تاکہ اس کا پانی زمین میں اتر کر غائب بھی نہ ہو جائے اور خشکی پر چھا بھی نہ جائے کہ زمین کے سب باشندے اس میں غرق ہو جائیں ۔ بعض اسے مخلوط کے معنی میں لیتے ہیں جس کے اندر میٹھا اور کھاری، گرم اور سرد ہر طرح کا پانی آ کر مل جاتا ہے ۔ اور بعض اسکو لبریز اور موجزن کے معنی میں لیتے ہیں ۔ ان میں سے پہلے دو معنی تو موقع و محل سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے ۔ سمندر کی یہ دونوں کیفیات کہ اس کی تہ پھٹ کر اس کا پانی زمین کے اندر اتر جائے اور وہ آگ سے بھر جائے، قیامت کے وقت ظاہر ہوں گی، جیسا کہ سورہ تکویر آیت 6، اور سورہ انفطار آیت 3 میں بیان ہوا ہے ۔ یہ آئندہ رونما ہونے والی کیفیات اس وقت موجود نہیں ہیں کہ انکی قسم کھا کر آج کے لوگوں کو آخرت کے وقوع کا یقین دلایا جائے۔ اس لیے ان دو معنوں کو ساقط کر کے یہاں البحر المسجور کو محبوس، مخلوط، اور لبریز و موجزن کے معنی ہی میں لیا جا سکتا ہے ۔

6. یہ ہے وہ حقیقت جس پر ان پانچ چیزوں کی قَسم کھائی گئی ہے ۔ رب کے عذاب سے مراد آخرت ہے ۔ چونکہ یہاں اس پر ایمان لانے والے مخاطب نہیں ہیں بلکہ اس کا انکار کرنے والے مخاطب ہیں ، اور ان کے حق میں اس کا آنا عذاب ہی ہے ، اس لیے اس کو قیامت یا آخرت یا روز جزا کہنے کے بجائے’’ رب کا عذاب‘‘ کہا گیا ہے ۔اب غور کیجیے کہ اس کے وقوع پر وہ پانچ چیزیں کس طرح دلالت کرتی ہیں جن کی قَسم کھائی گئی ہے ۔

طور وہ جگہ ہے جہاں ایک دبی اور پسی ہوئی قوم کو اٹھانے اور ایک غالب و قاہر قوم کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا، اور یہ فیصلہ قانونِ طبیعی (Physical Law) کی بنیاد پر نہیں بلکہ قانون اخلاقی (Moral Law ) اور قانون مکافات (Law of Retribution) کی بنیاد پر تھا۔ اس لیے آخرت کے حق میں تاریخی استدلال کے طَور پر طُور کو بطور ایک علامت کے پیش کیا گیا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل جیسی ایک بے بس قوم کا اٹھایا جانا اور فرعون جیسے ایک زبردست فرمانروا کا اپنے لشکروں سمیت غرق کر دیا جاتا، جس کا فیصلہ ایک سنسان رات میں کوہ طُور پر کیا گیا تھا، انسانی تاریخ میں اس امر کی ایک نمایاں ترین مثال ہے کہ سلطنت کائنات کا مزاج کس طرح انسان جیسی ایک ذی عقل و ذی اختیار مخلوق کے معاملہ میں اخلاقی محاسبے اور جزائے اعمال کا تقاضا کرتا ہے ، اور اس تقاضے کی تکمیل کے لیے ایک ایسا یوم الحساب ضروری ہے جس میں پوری نوع انسانی کو اکٹھا کر کے اس کا محاسبہ کیا جائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ ذاریات، حاشیہ 21)۔

کُتُب مُقدَّسہ کے مجموعے کی قَسم اس بنا پر کھائی گئی ہے کہ خداوند عالم کی طرف سے دنیا میں جتنے بھی انبیاء آئے اور جو کتابیں بھی وہ لائے، ان سب نے ہر زمانے میں وہی ایک خبر دی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم دے رہے ہیں ، یعنی یہ کہ تمام اگلے پچھلے انسانوں کو ایک دن از سر تو زندہ ہو کر اپنے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا پانی ہے ۔ کوئی کتاب آسمانی کبھی ایسی نہیں آئی ہے جو اس خبر سے خالی ہو، یا جس نے انسان کو الٹی یہ اطلاع دی ہو کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے ، اور انسان بس مر کر مٹی ہو جانے والا ہے جس کے بعد نہ کوئی حساب ہے نہ کتاب۔

بیت المعمور کی قَسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ خاص طور پر اہل عرب کے لیے اس زمانے میں خانہ کعبہ کی عمارت ایک ایسی کھلی نشانی تھی جو اللہ کے پیغمبروں کی صداقت پر اور اس حقیقت پر کہ اللہ جل شانہ کی حکمت بالغہ و قدرت قاہرہ ان کی پشت پر ہے ، صریح شہادت دے رہی تھی۔ ان آیات کے نزول سے ڈھائی ہزار برس پہلے بے آب و گیاہ اور خیر آباد پہاڑوں میں ایک شخص کسی لاؤ لشکر اور سر و سامان کے بغیر آتا ہے اور اپنی ایک بیوی اور ایک شیر خوار بچے کو بالکل بے سہارا چھوڑ کر چلا جاتا ہے ۔ پھر کچھ مدت بعد وہی شخص آ کر اس سنسان جگہ پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ایک گھر بناتا ہے اور پکار دیتا ہے کہ لوگو، آؤ اس گھر کا حج کرو۔ اس تعمیر اور اس پکار کو یہ حیرت انگیز مقبولیت حاصل ہوتی ہے کہ وہی گھر تمام اہل عرب کا مرکز بن جاتا ہے ، اس پکار پر عرب کے ہر گوشے سے لوگ لبیک لبیک کہتے ہوئے کھچے چلے آتے ہیں ، ڈھائی ہزار برس تک یہ گھر ایسا امن کا گہوارہ بنا رہتا ہے کہ اس کے گرد و پیش سارے ملک میں کشت و خون کا بازار گرم ہوتا ہے مگر اس کے حدود میں آ کر کسی کو کسی پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی، اور اسی گھر کی بدولت عرب کو ہر سال چار مہینے ایسے امن کے میسر آ جاتے ہیں جن میں قافلے اطمینان سے سفر کرتے ہیں ، تجارت چمکتی ہے اور بازار لگتے ہیں ۔ پھر اس گھر کا یہ دبدبہ تھا کہ اس پوری مدت میں کوئی بڑے سے بڑا جبار بھی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکا، اور جس نے یہ جرأت کی وہ اللہ کے غضب کا ایسا شکار ہوا کہ عبرت بن کر رہ گیا۔یہ کرشمہ ان آیات کے نزول سے صرف 45 ہی برس پہلے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اور اس کے دیکھنے والے بہت سے آدمی اس وقت مکہ معظمہ میں زندہ موجود تھے جب یہ آیات اہل مکہ کو سنائی جا رہی تھیں ۔ اس سے بڑھ کر کیا چیز اس بات کی دلیل ہو سکتی تھی کہ خدا کے پیغمبر ہوائی باتیں نہیں کیا کرتے ۔ اس کی آنکھیں وہ کچھ دیکھتی ہیں جو دوسروں کو نظر نہیں آتیں ۔ ان کی زبان پر وہ حقائق جاری ہوتے ہیں جن تک دوسروں کی عقل نہیں پہنچ سکتی۔ وہ بظاہر ایسے کام کرتے ہیں جن کو ایک وقت کے لوگ دیکھیں تو دیوانگی سمجھیں اور صدیوں بعد کے لوگ ان ہی کو دیکھ کر ان کی بصیرت پر دنگ رہ جائیں ۔ اس شان کے لوگ جب بالاتفاق ہر زمانے میں یہ خبر دیتے رہے ہیں کہ قیامت آئے گی اور حشر و نشر ہو گا تو اسے دیوانوں کی بڑ سمجھنا خود دیوانگی ہے ۔

اُونچی چھت (آسمان) اور موجزن سمندر کی قَسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ یہ دونوں چیزیں اللہ کی حکمت اور اس کی قدرت پر دلالت کرتی ہیں اس اسی حکمت و قدرت سے آخرت کا امکان بھی ثابت ہوتا ہے اور اس کا وقوع و وجوب بھی۔ آسمان کی دلالت پر ہم اس سے پہلے تفسیر سورۃ ’’ق‘‘ حاشیہ نمبر 7 میں کلام کرچکے ہیں ۔ رہا سمندر، تو جو شخص بھی انکار کا پیشگی فیصلہ کیے بغیر اس کو نگاہ غور سے دیکھے گا اس کا دل یہ گواہی دے گا کہ زمین پر پانی کے اتنے بڑے ذخیرے کا فراہم ہو جانا بجائے خود ایک ایسی کاریگری ہے جو کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ پھر اس کے ساتھ اتنی بے شمار حکمتیں وابستہ ہیں کہ اتفاقاً ایسا حکیمانہ نظام قائم ہو جانا ممکن نہیں ہے ۔ اس میں بے حد و حساب حیوانات پیدا کیے گئے ہیں جن میں سے ہر نوع کا نظام جسمانی ٹھیک اس گہرائی کے لیے موزوں بنایا گیا ہے جس کے اندر اسے رہنا ہے ۔ اس کے پانی کو نمکین بنا دیا گیا ہے تاکہ روزانہ کروڑوں جانور جو اس میں مرتے ہیں ان کی لاشیں سڑ نہ جائیں ۔ اس کے پانی کو ایک خاص حد پر اس طرح روک رکھا گیا ہے کہ نہ تو وہ زمین کے شگافوں سے گزر کر اس کے پیٹ میں اتر جاتا ہے اور نہ خشکی پر چڑھ کر اسے غرق کر دیتا ہے ، بلکہ لاکھوں کروڑوں برس سے وہ اسی حد پر رُکا ہوا ہے ۔اسی عظیم ذخیرہ آب کے موجود اور برقرار رہنے سے زمین کے خشک حصوں پر بارش کا انتظام ہوتا ہے جس میں سورج کی گرمی اور ہواؤں کی گردش اس کے ساتھ پوری باقاعدگی کے ساتھ تعاون کرتی ہے ۔ اسی کے غیر آباد نہ ہونے اور طرح طرح کی مخلوقات اس میں پیدا ہونے سے یہ فائدہ حاصل ہوا ہے کہ انسان اس سے اپنی غذا اور اپنی ضرورت کی بہت سی چیزیں کثیر مقدار میں حاصل کر رہا ہے ۔ اسی کے ایک حد پر رکے رہنے سے وہ بر اعظم اور جزیرے قائم ہیں جن پر انسان بس رہا ہے اور اسی کے چند اٹل قواعد کی پابندی کرنے سے یہ ممکن ہوا ہے کہ انسان اس میں جہاز رانی کر سکے ۔ ایک حکیم کی حکمت اور ایک قادر مطلق کی زبردست قدرت کے بغیر اس انتظام کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور نہ یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ انسان اور زمین کی دوسری مخلوقات کے مفاد سے سمندر کے اس انتظام کا یہ گہرا تعلق بس الل ٹپ ہی قائم ہو گیا ہے ۔ اب اگر فی الواقع یہ اس امر کی ناقابل انکار شہادت ہے کہ ایک خدائے حکیم و قادر نے انسان کو زمین پر آباد کرنے کے لیے دوسرے بے شمار انتظامات کے ساتھ یہ بحر شور بھی اس شان کا پیدا کیا ہے تو وہ شخص سخت احمق ہوگا جو اس حکیم سے اس نادانی کی توقع رکھے کہ وہ اس سمندر سے انسان کی کھیتیاں سیراب کرنے اور اس کے ذریعہ سے انسان کو رزق دینے کا انتظام تو کر دے گا مگر اس سے کبھی یہ نہ پوچھے گا کہ تو نے میرا رزق کھا کر اس کا حق کیسے ادا کیا، اور وہ اس سمندر کے سینے پر اپنے جہاز دوڑانے کی قدرت تو انسان کو عطا کر دے گا مگر اس سے کبھی یہ نہ پوچھے گا کہ یہ جہاز تو نے حق اور راستی کے ساتھ دوڑائے تھے یا ان کے ذریعے سے دنیا میں ڈاکے مارتا پھرتا تھا۔ اسی طرح یہ تصور کرنا بھی ایک بہت بڑی کند ذہنی ہے کہ جس قادر مطلق کی قدرت کا ایک ادنیٰ کرشمہ اس عظیم الشان سمندر کی تخلیق ہے ، جس نے فضا میں گھومنے والے اس معلق کُرّے پر پانی کے اتنے بڑے ذخیرے کو تھام رکھا ہے ، جس نے نمک کی اتنی بڑی مقدار اس میں گھول دی ہے ، جس نے طرح طرح کی ان گنت مخلوقات اس میں پیدا کی ہیں اور ان سب کی رزق رسانی کا انتظام اسی کے اندر کر دیا ہے ، جو ہر سال اربوں ٹن پانی اس میں سے اٹھا کر ہوا کے دوش پر لے جاتا ہے اور کروڑوں مربع میل کے خشک علاقہ پر اسے بڑی باقاعدگی کے ساتھ بر ساتا رہتا ہے ، وہ انسان کو ایک دفعہ پیدا کر دینے کے بعد ایسا عاجز ہو جاتا ہے کہ پھر اسے پیدا کرنا چاہے بھی تو نہیں کر سکتا۔

7. اصل الفاظ ہیں تَمُوْرُ السَّمَآءُ مُوْراً۔ مَور عربی زبان میں گھومنے ، اَونٹنے ، پھڑکنے ، جھوم جھوم کر چلنے ، چکر کھانے اور بار بار آگے پیچھے حرکت کرنے کے لیے بولا جاتا ہے ۔ قیامت کے دن آسمان کی جو حالت ہوگی اسے ان الفاظ میں بیان کر کے یہ تصور دلایا گیا ہے کہ اس روز عالم بالا کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور دیکھنے والا جب آسمان کی طرف سیکھے گا تو اسے یوں محسوس ہوگا کہ وہ جما جمایا نقشہ جو ہمیشہ ایک ہی شان سے نظر آتا تھا، بگڑ چکا ہے اور ہر طرف ایک اضطراب برپا ہے ۔

8. دوسرے الفاظ میں زمین کی وہ گرفت جس نے پہاڑوں کو جما رکھا ہے ، ڈھیلی پڑ جائے گی اور وہ اپنی جڑوں سے اکھڑ کر فضا میں اس طرح اڑنے لگیں گے جیسے بادل اڑے پھرتے ہیں ۔

9. مطلب یہ ہے کہ نبی سے قیامت اور آخرت اور جنت و دوزخ کی خبریں سن کر انہیں مذاق کا موضوع بنا رہے ہیں اور سنجیدگی کے ساتھ ان پر غور کرنے کے بجائے محض تفریحاً ان پر باتیں چھانٹ رہے ہیں ۔آخرت پر ان کی بحثوں کا مقصود حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں ہے ، بلکہ ایک کھیل ہے جس سے یہ دل بہلاتے ہیں اور انہیں کچھ ہوش نہیں ہے کہ فی الواقع یہ کس انجام کی طرف چلے جا رہے ہیں ۔

10. یعنی دنیا میں جب رسول تمہیں اس جہنم کے عذاب سے ڈراتے تھے تو تم کہتے تھے کہ یہ محض الفاظ کی جادوگری ہے جس سے ہمیں بے وقوف بنایا جا رہا ہے ۔ اب بولو، یہ جہنم جو تمہارے سامنے ہے یہ اسی جادو کا کرشمہ ہے یا اب بھی تمہیں نہ سوجھا کہ واقعی اسی جہنم سے تمہارا پالا پڑ گیا ہے جس کی خبر تمہیں دی جا رہی تھی؟

11. یعنی وہ لوگ جنہوں نے انبیاء کی دی ہوئی خبر پر ایمان لا کر دنیا ہی میں اپنا بچاؤ کر لیا اور ان افکار و اعمال سے پرہیز کیا جن سے انسان جہنم کا مستحق بنتا ہے ۔

12. کسی شخص کے داخل جنت ہونے کا ذکر کر دینے کے بعد پھر دوزخ سے اس کے بچائے جانے کا ذکر کرنے کی بظاہر کوئی حاجت نہیں رہتی۔ مگر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ دونوں باتیں الگ الگ اس لیے بیان کی گئی ہیں کہ آدمی کا دوزخ سے بچ جانا بجائے خود ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ اور یہ ارشاد کہ ’’ اللہ نے ان کو عذاب دوزخ سے بچا لیا‘‘ در اصل اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ آدمی کا دوزخ سے بچ جاتا اللہ کے فضل و کرم ہی سے ممکن ہے ، ورنہ بشری کمزوریاں ہر شخص کے عمل میں ایسی ایسی خامیاں پیدا کر دیتی ہیں کہ اگر اللہ اپنی فیاضی سے ان کو نظر انداز نہ فرمائے اور سخت محاسبے پر اتر آئے تو کوئی بھی گرفت سے نہیں چھوٹ سکتا۔ اسی لیے جنت میں داخل ہونا اللہ کی جتنی بڑی نعمت ہے اس سے کچھ کم نعمت یہ نہیں ہے کہ آدمی دوزخ سے بچا لیا جائے۔

13. یہاں ’’ مزے سے ‘‘ کے الفاظ اپنے اندر بڑا وسیع مفہوم رکھتے ہیں ۔ جنت میں انسان کو جو کچھ ملے گا کسی مشقت اور محنت کے بغیر ملے گا۔ اس کے ختم ہو جانے یا اس کے اندر کمی واقع ہو جانے کا کوئی اندیشہ نہ ہوگا۔ اس کے لیے انسان کو کچھ خرچ کرنا نہیں پڑے گا۔وہ عین اس کی خواہش اور اس کے دل کی پسند کے مطابق ہوگا۔ جتنا چاہے گا اور جب چاہے گا حاضر کر دیا جائے گا۔ مہمان کے طور پر وہ وہاں مقیم نہ ہوگا کہ کچھ طلب کرتے ہوئے شرمائے بلکہ سب کچھ اس کے اپنے گذشتہ اعمال کا صلہ اور اس کی اپنی پچھلی کمائی کا ثمرہ ہوگا۔اس کے کھانے اور پینے سے کسی مرض کا خطرہ بھی نہ ہوگا۔ وہ بھوک مٹانے اور زندہ رہنے کے لیے نہیں بلکہ صرف لذت حاصل کرنے کے لیے ہوگا اور آدمی جتنی لذت بھی اس سے اٹھانا چاہے ، اٹھا سکے گا بغیر اس کے کہ اس سے کوئی سوء ہضم لاحق ہو اور وہ غذا کسی قسم کی غلاظت پیدا کرنے والی بھی نہ ہوگی۔اس لیے دنیا میں ’’ مزے سے ‘‘ کھانے پینے کا جو مفہوم ہے ، جنت میں مزے سے کھانے پینے کا مفہوم اس سے بدر جہا زیادہ اور وسیع اور اعلیٰ و ارفع ہے ۔

14. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ الصافات حواشی 26۔ 29۔ الدخان حاشیہ 42۔

15. یہ مضمون اس سے پہلے سورہ رعد آیت 23، اور سورہ مومن آیت 8 میں بھی گزر چکا ہے ، مگر یہاں ان دونوں مقامات سے بھی زیادہ ایک بڑی خوش خبری سنائی گئی ہے ۔ سورہ رعد والی آیت میں صرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ اہل جنت کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویوں میں سے جو جو افراد بھی صالح ہوں گے وہ سب ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے ۔ اور سورہ مومن میں ارشاد ہوا تھا کہ فرشتے اہل ایمان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ان کی اولاد اور ازواج اور آباء میں سے جو صالح ہوں ا نہیں بھی جنت میں ان سے ملا دے ۔ یہاں ان دونوں آیتوں سے زائد جو بات فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر اولاد کسی نہ کسی درجہ ایمان میں بھی اپنے آباء کے نقش قدم کی پیروی کرتی رہی ہو، تو خواہ اپنے عمل کے لحاظ سے وہ اس مرتبے کی مستحق نہ ہو جو آباء کا ان کے بہتر ایمان و عمل کی بنا پر حاصل ہو گا، پھر بھی یہ اولاد اپنے آباء کے ساتھ ملا دی جائے گی۔ اور یہ ملانا اس نوعیت کا نہ ہو گا جیسے وقتاً فوقتاً کوئی کسی سے جا کر ملاقات کر لیا کرے ، بلکہ اس کے لیے اَلْحَقْنا بِھِمْ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے معنی یہ ہیں کہ وہ جنت میں ان کے ساتھ ہی رکھے جائیں گے ۔ اس پر مزید یہ اطمینان دلایا گیا ہے کہ اولاد سے ملانے کے لیے آباء کا درجہ گھٹا کر انہیں نیچے نہیں اتارا جائے گا، بلکہ آباء سے ملانے کے لیے اولاد کا درجہ بڑھا کر انہیں اوپر پہنچا دیا جائے گا۔

اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ارشاد اس بالغ اولاد کے بارے میں ہے جس نے سنِ رُشد کو پہنچ کر اپنے اختیار اور ارادے سے ایمان لانے کا فیصلہ کیا ہو اور جو اپنی مرضی سے اپنے صالح بزرگوں کے نقش قدم پر چلی ہو۔ رہی ایک مومن کی وہ اولاد جو سن رشد کو پہنچنے سے پہلے ہی مر گئی ہو تو اس کے معاملہ میں کفر و ایمان اور طاعت و معصیت کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسے تو ویسے ہی جنت میں جانا ہے اور اس کے آباء کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ان ہی کے ساتھ رکھا جانا ہے ۔

16. یہاں ’’ رہن‘‘ کا استعارہ بہت معنی خیز ہے ۔ ایک شخص اگر کسی سے کچھ قرض لے اور قرض دینے والا اپنے حق کی ادائیگی کے لیے ضمانت کے طور پر اس کی کوئی چیز اپنے پاس رہن رکھ لے تو جب تک وہ قرض ادا نہ کر دے اس وقت تک فکِّ رہن نہیں ہو سکتا،اور اگر مدت مقررہ گزر جانے پر بھی وہ فکِّ رہن نہ کرائے تو شئے مر ہو نہ ضبط ہو جاتی ہے ۔ انسان اور خدا کے درمیان معاملہ کی نوعیت کو یہاں اسی صورت معاملہ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ خدا نے انسان کو جو سرو سامان، جو طاقتیں اور صلاحیتیں اور جو اختیارات دنیا میں عطا کیے ہیں وہ گویا ایک قرض ہے جو مالک نے اپنے بندے کو دیا ہے ، اور اس قرض کی ضمانت کے طور پر بندے کا نفس خدا کے پاس رہن ہے ۔ بندہ اس سرو سامان اور ان قوتوں اور اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کر کے اگر وہ نیکیاں کمائے جن سے یہ قرض ادا ہو سکتا ہو تو وہ شئے مرہونہ، یعنی اپنے نفس کو چھڑا لے گا، ورنہ اسے ضبط کر لیا جائے گا۔ پچھلی آیت کے معاً بعد یہ بات اس لیے ارشاد فرمائی گئی ہے کہ مومنین صالحین خواہ بجائے خود کتنے ہی بڑے مرتبے کے لوگ ہوں ، ان کی اولاد کا فکِّ رہن اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ وہ خود اپنے کسب سے اپنے نفس کو چھڑائے۔ باپ دادا کی کمائی اولاد کو نہیں چھڑا سکتی . البتہ اولاد اگر کسی درجے کے بھی ایمان اور اتباع صالحین سے اپنے آپ کو چھڑا لے جائے تو پھر یہ اللہ کا فضل اور اس کا کرم ہے کہ جنت میں وہ اسکو نیچے کے مرتبوں سے اٹھا کر اونچے مراتب میں باپ دادا کے ساتھ لے جا کر ملا دے ۔ باپ دادا کی نیکیوں کا یہ فائدہ تو اولاد کو مل سکتا ہے ، لیکن اگر وہ اپنے کسب سے اپنے آپ کو دوزخ کا مستحق بنا لے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ باپ دادا کی خاطر اسے جنت میں پہنچا دیا جائے۔اس کے ساتھ یہ بات بھی اس آیت سے نکلتی ہے کہ کم درجے کی نیک اولاد کا بڑے درجے کے نیک آباء سے لے جا کر ملا دیا جانا دراصل اس اولاد کے کسب کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ان آباء کے کسب کا نتیجہ ہے ۔ وہ اپنے عمل سے اس فضل کے مستحق ہوں گے کہ ان کے دل خوش کرنے کے لیے ان کی اولاد کو ان سے لا ملایا جائے۔ اسی وجہ سے اللہ ان کے درجے گھٹا کر انہیں اولاد کے پاس نہیں لے جائے گا بلکہ اولاد کے درجے بڑھا کر ان کے پاس لے جائے گا، تاکہ ان پر خدا کی نعمتوں کے اتمام میں یہ کسر باقی نہ رہ جائے کہ اپنی اولاد سے دوری ان کے لیے باعث اذیت ہو۔

17. اس آیت میں اہل جنت کو مطلقاً ہر قسم کا گوشت دیے جانے کا ذکر ہے ، اور سورہ واقعہ آیت 21 میں فرمایا گیا ہے کہ پرندوں کے گوشت سے ان کی تواضع کی جائے گی۔ اس گوشت کی نوعیت ہمیں ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں ہے ۔ مگر جس طرح قرآن کی بعض تصریحات اور بعض احادیث میں جنت کے دودھ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ جانوروں کے تھنوں سے نکلا ہوا نہ ہوگا،اور جنت کے شہد کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ مکھیوں کا بنایا ہوا نہ ہوگا، اور جنت کی شراب کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ پھلوں کو سڑا کر کشید کی ہوئی نہ ہوگی، بلکہ اللہ کی قدرت سے یہ چیزیں چشموں سے نکلیں گی اور نہروں میں بہیں گی، اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جنت کا گوشت بھی جانوروں کا ذبیحہ نہ ہوگا بلکہ یہ بھی قدرتی طور پر پیدا ہوگا۔ جو خدا زمین کے مادوں سے براہ راست دودھ اور شہد اور شراب پیدا کر سکتا ہے اس کی قدرت سے یہ بعید نہیں ہے کہ ان ہی مادوں سے ہر طرح کا لذیذ ترین گوشت پیدا کر دے جو جانوروں کے گوشت سے بھی اپنی لذت میں بڑھ کر ہو (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 25۔ جلد پنجم، تفسیر سورہ محمد حواشی 21 تا 23۔

18. یعنی وہ شراب نشہ پیدا کرنے والی نہ ہوگی کہ اسے پی کر وہ بد مست ہوں اور بیہودہ بکواس کرنے لگیں ، یا گالم گلوچ اور دَھول دھپے پر اُتر آئیں ، یا اس طرح کی فحش حرکات کرنے لگیں جیسی دنیا کی شراب پینے والے کرتے ہیں ۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 27)۔

19. یہ نکتہ قابل غور ہے کہ غُلْمَا نُھُمْ نہیں فرمایا بلکہ غِلْمَا نٌ لَّہُمْ فرمایا ہے ۔ اگر غِلْمَا نُہُمْ فرمایا جاتا تو اس سے یہ گمان ہو سکتا تھا کہ دنیا میں ان کے جو خادم تھے وہی جنت میں بھی ان کے خادم بنا دیے جائیں گے ، حالانکہ دنیا کا جو شخص بھی جنت میں جائے گا اپنے استحقاق کی بنا پر جائے گا اور کوئی وجہ نہیں کہ جنت میں پہنچ کر وہ اپنے اسی آقا کا خادم بنا دیا جائے جس کی خدمت وہ دنیا میں کرتا رہا تھا۔ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی خادم اپنے عمل کی وجہ سے اپنے مخدوم کی بہ نسبت زیادہ بلند مرتبہ جنت میں پائے۔ اس لیے غِلْمَانٌ لَّھُمْ فرما کر اس گمان کی گنجائش باقی نہیں دہنے دی گئی۔ یہ لفظ اس بات کی وضاحت کر دیتا ہے کہ یہ وہ لڑکے ہوں گے جو جنت میں ان کی خدمت کے لیے مخصوص کر دیے جائیں گے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 26)۔

20. یعنی ہم وہاں عیش میں منہمک اور اپنی دنیا میں مگن ہو کر غفلت کی زندگی نہیں گزار رہے تھے ، بلکہ ہر وقت ہمیں یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں ہم سے کوئی ایسا کام نہ ہو جائے جس پر خدا کے ہاں ہماری پکڑ ہو۔ یہاں خاص طور پر اپنے گھر والوں کے درمیان ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ آدمی سب سے زیادہ جس وجہ سے گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے وہ اپنے بال بچوں کو عیش کرانے اور ان کی دنیا بنانے کی فکر ہے ۔ اسی کے لیے وہ حرام کماتا ہے ، دوسروں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتا ہے ، اور طرح طرح کی نا جائز تدبیریں کرتا ہے ۔ اسی بنا پر اہل جنت آپس میں کہیں گے کہ خاص طور پر جس چیز نے ہمیں عاقبت کی خرابی سے بچایا وہ یہ تھی کہ اپنے بال بچوں میں زندگی بسر کرتے ہوئے ہمیں ان کو عیش کرانے اور ان کا مستقبل شاندار بنانے کی اتنی فکر نہ تھی جتنی اس بات کی تھی کہ ہم ان کی خاطر وہ طریقے نہ اختیار کر بیٹھیں جن سے ہماری آخرت برباد ہو جائے، اور اپنی اولاد کو بھی ایسے راستے پر نہ ڈال جائیں جو ان کو عذاب الہیٰ کا مستحق بنا دے ۔

21. اصل میں لفظ سَمُوم استعمال ہوا ہے جس کے معنی سخت گرم ہوا کے ہیں ۔ اس سے مراد لُو کی وہ لپیٹیں ہیں جو دوزخ سے اٹھ رہی ہوں گی۔