1. اصل میں لفظ ’’النّجم‘‘ استعمال ہوا ہے ۔ ابن عباس، مجاہد اور سُفیان ثوری کہتے ہیں کہ اس سے مراد ثریا (Pleiades) ہے ۔ ابن جریر اور زمخشری نے اسی قول کو ترجیح دی ہے ، کیونکہ عربی زبان میں جب مطلقاً النجم کا لفظ بولا جاتا ہے تو عموماً اس سے ثریا ہی مراد لیا جاتا ہے ۔ سدی کہتے ہیں کہ اس سے مراد زہرہ (Venus) ہے ۔ اور ابو عبیدہ نحوی کا قول ہے کہ یہاں النجم بول کر جنس نجوم مراد لی گئی ہے ، یعنی مطلب یہ ہے جب صبح ہوئی اور سب ستارے غروب ہو گئے۔ موقع و محل کے لحاظ سے ہمارے نزدیک یہ آخری قول زیادہ قابل ترجیح ہے ۔
2. مراد ہیں رسول اللہ ﷺ اور مخاطب ہیں قریش کے لوگ۔ اصل الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ صَاحِبُکُمْ (تمہارا صاحب)۔ ’’صاحب ‘‘ عربی زبان میں دوست، رفیق، ساتھی، پاس رہنے والے اور ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے کو کہتے ہیں۔ اس مقام پر آپؐ کا نام لینے یا ’’ہمارا رسولؐ‘‘ کہنے کے بجائے ’’’’تمہارا صاحب ‘‘ کہہ کر آپؐ کا ذکر کرنے میں بڑی گہری معنویت ہے ۔ اس سے قریش کے لوگوں کو یہ حساس دلانا مقصود ہے کہ جس شخص کا تم سے ذکر کیا جا رہا ہے وہ تمہارے ہاں باہر سے آیا ہوا کوئی اجنبی آدمی نہیں ہےکہ اس سے تمہاری پہلے کی کوئی جان پہچان نہ ہو۔ تمہاری اپنی قوم کا آدمی ہے ۔ تمہارے ساتھ ہی رہتا بستا ہے ۔ تمہارا بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ کون ہے ، کیا ہے ، کس سیرت و کردار کا انسان ہے ، کیسے اس کے معاملات ہیں، کیسے اس کی عادات و خصائل ہیں، اور آج تک تمہارے درمیان اس کی زندگی کیسی رہی ہے ۔ اس کے بارے میں منہ پھاڑ کر کوئی کچھ کہہ دے تو تمہارے اندر ہزاروں آدمی اس کے جاننے والے موجود ہیں جو خود دیکھ سکتے ہیں کہ یہ بات اس شخص پر چسپاں ہوتی بھی ہے یا نہیں۔
3. یہ ہے وہ اصل بات جس پر غروب ہونے والے تارے یا تاروں کی قَسم کھائی گئی ہے ۔ بھٹکنے سے مراد ہے کسی شخص کا راستہ نہ جاننے کی وجہ سے کسی غلط راستے پر چل پڑنا اور بہکنے سے مراد ہے کسی شخص کا جان بوجھ کر غلط راستہ اختیار کر لینا۔ ارشاد الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جو تمہارے جانے پہچانے آدمی ہیں، ان پر تم لوگوں کا یہ الزام بالکل غلط ہے کہ وہ گمراہ یا بد راہ ہو گئے ہیں۔ در حقیقت وہ نہ بھٹکے ہیں نہ بہکے ہیں۔ اس بات پر تاروں کے غروب ہونے کی قَسم جس مناسبت سے کھائی گئی ہے وہ یہ ہےکہ رات کی تاریکی میں جب تارے نکلے ہوئے ہوں، ایک شخص اپنے گردو پیش کی اشیاء کو صاف نہیں دیکھ سکتا اور مختلف اشیاء کی دھندلی شکلیں دیکھ کر ان کے بارے میں غلط اندازے کر سکتا ہے ۔ مثلاً اندھیرے میں دور سے کسی درخت کو دیکھ اسے بھوت سمجھ سکتا ہے ۔ کوئی رسی پڑی دیکھ کر اسے سانپ سمجھ سکتا ہے ۔ ریت سے کوئی چٹان ابھری دیکھ کر یہ خیال کر سکتا ہے کہ کوئی درندہ بیٹھا ہے ۔ لیکن جب تارے ڈوب جائیں اور صبح روشن نمودار ہو جائے تو ہر چیز اپنی اصلی شکل میں آدمی کے سامنے آ جاتی ہے ۔ اس وقت کسی چیز کی اصلیت کے بارے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا۔ ایسا ہی معاملہ تمہارے ہاں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی ہے کہ ان کی زندگی اور شخصیت تاریکی میں چھپی ہوئی نہیں ہے بلکہ صبح روشن کی طرح عیاں ہے ۔ تم جانتے ہو کہ تمہارا یہ ’’صاحب‘‘ ایک نہایت سلیم الطبع اور دانا و فرزانہ آدمی ہے ۔ اس کے بارے میں قریش کے کسی شخص کو یہ غلط فہمی کیسے لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ گمراہ ہو گیا ہے ۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ وہ کمال درجہ کا نیک نیت اور راستباز انسان ہے ۔ اس کے متعلق تم میں سے کوئی شخص کیسے یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر نہ صرف خود ٹیڑھی راہ اختیار کر بیٹھا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اسی ٹیڑھے راستے کی طرف دعوت دینے کے لیے کھڑا ہو گیا ہے ۔
4. مطلب یہ ہے کہ جن باتوں کی وجہ سے تم اس پر یہ الزام لگاتے ہو کہ وہ گمراہ یا بد راہ ہو گیا ہے ، وہ اس نے اپنے دل سے نہیں گھڑ لی ہیں، نہ ان کی محرک اس کی اپنی خواہش نفس ہے ، بلکہ وہ خدا کی طرف سے اس پر وحی کے ذریعہ سے نازل کی گئی ہیں اور کی جا رہی ہیں۔ اس کا خود نبی بننے کو جی نہیں چاہا تھا کہ اپنی یہ خواہش پوری کرنے کے لیے اس نے دعوائے نبوت کر دیا ہو، بلکہ خدا نے جب وحی کے ذریعہ سے اس کو اس منصب پر مامور کیا تب وہ تمہارے درمیان تبلیغ رسالت کے لیے اٹھا اور اس نے تم سے کہا کہ میں تمہارے لیے خدا کا نبی ہوں۔ اسی طرح اسلام کی یہ دعوت، توحید کی یہ تعلیم، آخرت اور حشر و نشر اور جزائے اعمال کی یہ خبریں، کائنات و انسان کے متعلق یہ حقائق، اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کے یہ اصول، جو وہ پیش کر رہا ہے ، یہ سب کچھ بھی اس کا اپنا بنایا ہوا کوئی فلسفہ نہیں ہے بلکہ خدا نے وحی کے ذریعہ سے اس کو ان باتوں کا علم عطا کیا ہے ۔ اسی طرح یہ قرآن جو وہ تمہیں سناتا ہے ، یہ بھی اس کا اپنا تصنیف کردہ نہیں ہے ، بلکہ یہ خدا کا کلام ہے جو وحی کے ذریعہ سے اس پر نازل ہوتا ہے ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ’’ آپؐ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے بلکہ جو کچھ آپؐ کہتے ہیں وہ ایک وحی ہے جو آپؐ پر نازل کی جاتی ہے ‘‘، آپؐ کی زبان مبارک سے نکلے والی کن کن باتوں سے متعلق ہے ؟ آیا اس کا اطلاق ان سارے باتوں پر ہوتا ہے جو آپ بولتے تھے ، یا بعض باتوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور بعض باتوں پر نہیں ہوتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے اس پر تو اس ارشاد کا اطلاق بدرجہ اَولیٰ ہوتا ہے ۔ رہیں وہ دوسری باتیں جو قرآن کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے ادا ہوتی تھیں تو وہ لا محالہ تین ہی قسموں کی ہو سکتی تھیں۔
ایک قِسم کی باتیں وہ جو آپ تبلیغ دین اور دعوت الیٰ اللہ کے لیے کرتے تھے ، یا قرآن مجید کے مضامین اس کی تعلیمات اور اس کے احکام و ہدایات کی تشریح کے طور پر کرتے تھے ، یا قرآن ہی کے مقصد و مدعا کو پورا کرنے کے لیے وعظ و نصیحت فرماتے اور لوگوں کو تعلیم دیتے تھے ۔ ان کے متعلق ظاہر ہے کہ یہ شبہ کرنے کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ باتیں معاذاللہ، آپ اپنے دل سے گھڑتے تھے ۔ ان امور میں تو آپ کی حیثیت در حقیقت قرآن کے سرکاری ترجمان، اور اللہ تعالیٰ کے نمائندہ مجاز کی تھی۔ یہ باتیں اگرچہ اس طرح لفظاً لفظاً آپؐ پر نازل نہیں کی جاتی تھیں جس طرح قرآن آپ پر نازل کیا جاتا تھا، مگر یہ لازماً تھیں اسی علم پر مبنی جو وحی کے ذریعہ سے آپ کو دیا گیا تھا ان میں اور قرآن میں فرق صرف یہ تھا کہ قرآن کے الفاظ اور معانی سب کچھ اللہ کی طرف سے تھے ، اور ان دوسری باتوں میں معانی و مطالب وہ تھے جو اللہ نے آپ کو سکھائے تھے اور ان کو ادا آپؐ اپنے الفاظ میں کرتے تھے ۔ اسی فرق کی بنا پر قرآن کو وحی جَلی، اور آپؐ کے ان دوسرے ارشادات کو وحی خَفِی کہا جاتا ہے ۔
دوسری قِسم کی باتیں وہ تھیں جو آپ اعلائے کلمۃ اللہ کی جد جہد اور اقامت دین کی خدمات کے سلسلے میں کرتے تھے ۔ اس کام میں آپؐ کو مسلمانوں کی جماعت کے قائد و رہنما کی حیثیت سے مختلف نوعیت کے بے شمار فرائض انجام دینے ہوتے تھے جن میں بسا اوقات آپؐ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ بھی لیا ہے ، اپنی رائے چھوڑ کر ان کی رائے بھی مانی ہے ، ان کے دریافت کرنے پر کبھی کبھی یہ صراحت بھی فرمائی ہے کہ یہ بات میں خدا کے حکم سے نہیں بلکہ اپنی رائے کے طور پر کہہ رہا ہوں، اور متعدد بار ایسا بھی ہوا ہے کہ آپؐ نے اپنے اجتہاد سے کوئی بات کی ہے اور بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے خلاف ہدایت آ گئی ہے ۔ اس نوعیت کی جتنی باتیں بھی آپؐ نے کی ہیں، ان میں سے بھی کوئی ایسی نہ تھی اور قطعاً نہ ہو سکتی تھی جو خواہش نفس پر مبنی ہو۔ رہا یہ سوال کہ کیا وہ وحی پر مبنی تھیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بجز ان باتوں کے جن میں آپؐ نے خود تصریح فرمائی ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے نہیں ہیں، یا جن میں آپؐ نے صحابہؓ سے مشورہ طلب فرمایا ہے اور ان کی رائے قبول فرمائی ہے ، یا جن میں آپؐ سے کوئی قول و فعل صادر ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کے خلاف ہدایت نازل فرما دی ہے ، باقی تمام باتیں اسی طرح وحی خفی پر پر مبنی تھیں جس طرح پہلی نوعیت کی باتیں۔ اس لیے کہ دعوت اسلامی کے قائد و رہنما اور جماعت مومنین کے سردار اور حکومت اسلامی کے فرمانروا کا جو منصب آپؐ کو حاصل تھا وہ آپؐ کا خود ساختہ یا لوگوں کا عطا کردہ نہ تھا بلکہ اس پر آپؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوئے تھے ، اور اس منصب کے فرائض کی ادائیگی میں آپؐ جو کچھ کہتے اور کرتے تھے اسمیں آپؐ کی حیثیت مرضی الٰہی کے نمائندے کی تھی۔ اس معاملے میں آپ نے جو باتیں اپنے اجتہاد سے کی ہیں ان میں بھی آپؐ کا اجتہاد اللہ کو پسند تھا اور علم کی اس روشنی سے ماخوذ تھا جو اللہ نے آپؐ کو دی تھی۔ اسی لیے جہاں آپؐ کا اجتہاد ذرا بھی اللہ کی پسند سے ہٹا ہے وہاں فوراً وحی جلی سے اس کی اصلاح کر دی گئی ہے ۔ آپؐ کے بعض اجتہادات کی یہ اصلاح بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے باقی تمام اجتہادات عین مرضی الٰہی کے مطابق تھے ۔
تیسری قِسم کی باتیں وہ تھیں جو آپؐ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے زندگی کے عام معاملات میں کرتے تھے ، جن کا تعلق فرائض نبوت سے نہ تھا، جو آپؐ نبی ہونے سے پہلے بھی کرتے تھے اور نبی ہونے کے بعد بھی کرتے رہے ۔ اس نوعیت کی باتوں کے متعلق سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے بارے میں کفار سے کوئی جھگڑا نہ تھا۔ کفار نے ان کی بنا پر آپؐ کو گمراہ اور بد راہ نہیں کہا تھا بلکہ پہلی دو قِسم کی باتوں پر وہ یہ الزام لگاتے تھے ۔ اس لیے وہ سرے سے زیر بحث ہی نہ تھیں کہ اللہ تعالیٰ انکے بارے میں یہ آیت ارشاد فرماتا۔ لیکن اس مقام پر ان کے خارج از بحث ہونے کے باوجود یہ امر واقعہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے کوئی بات اپنی زندگی کے اس نجی پہلو میں بھی کبھی خلاف حق نہیں نکلتی تھی، بلکہ ہر وقت ہر حال میں آپ کے اقوال و افعال ان حدود کے اندر محدود رہتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ایک پیغمبرانہ اور متقیانہ زندگی کے لیے آپؐ کو بتا دی تھیں۔ اس لیے در حقیقت وحی کا نور ان میں بھی کار فرما تھا۔ یہی بات ہے جو بعض صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہوئی ہے ۔ مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک موقع پر حضورؐ نے فرمایا لا اقول اِلّا حقّاً، ’’ میں کبھی حق کے سوا کوئی بات نہیں کہتا‘‘۔ کسی صحابی نے عرض کیا فانّک تُداعبُنا یا رسول اللہ،’’ یا رسول اللہ، کبھی کبھی آپ ہم لوگوں سے ہنسی مذاق بھی تو کر لیتے ہیں‘‘۔ فرمایا انی لا اقول الا حقّا، ’’ فی الواقع میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا‘‘۔ مسند احمد اور ابوداؤد میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں جو کچھ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے سنتا تھا وہ لکھ لیا کرتا تھا تاکہ اسے محفوظ کر لوں۔ قریش کے لوگوں نے مجھے اس سے منع کیا اور کہنے لگے تم ہر بات لکھتے چلے جاتے ہو، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انسان ہیں، کبھی غصے میں بھی کوئی بات فرما دیتے ہیں۔ اس پر میں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ بعد میں اس بات کا ذکر میں نے حضورؐ سے کیا تو آپؐ نے فرمایا :اکتب فو الذی نفسی بیدہ ما خرج منّی الّا الحق، تم لکھے جاؤ، اس ذات کی قَسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میری زبان سے کبھی کوئی بات حق کے سوا نہیں نکلی ہے ‘‘۔ (اس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب تفہیمات، حصہ اوّل، مضمون ’’رسالت اور اس کے احکام‘‘)۔
5. یعنی کوئی انسان اس کو سکھانے والا نہیں ہے ، جیسا کہ تم گمان کرتے ہو، بلکہ یہ علم اس کو ایک فوق البشر ذریعہ سے حاصل ہو رہا ہے ۔’’زبردست قوت والے ‘‘ سے مراد بعض لوگوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ، لیکن مفسرین کی عظیم اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عائشہؓ حضرت ابو ہریرہؓ، قتادہ، مجاہد، اور ربیع بن انس جریر، ابن کثیر، رازی اور آلوسی وغیرہ حضرات نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے ۔ شاہ ولی اللہ صاحب اور مولانا اشرف علی صاحب نے بھی اپنے ترجموں میں اسی کی پیروی کی ہے ۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ خود قرآن مجید کی دوسری تصریحات سے بھی یہی ثابت ہے ۔ سورۃ تکویر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اِنَّہۂ لَقَولُ رَسُوْلٍ کَرِیمٍ، ذِیْقُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ،مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمیْنٍ، وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ،وَلَقَدْرَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِo (آیت 19۔23)۔ ’’در حقیقت یہ ایک بزرگ فرشتے کا بیان ہے جو زبردست قوت والا ہے ، مالک عرش کے ہاں بڑا درجہ رکھتا ہے ، اس کا حکم مانا جاتا ہے اور وہاں وہ معتبر ہے ۔ تمہارا رفیق کچھ دیوانہ نہیں ہے ، وہ اس فرشتے کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھ چکا ہے ‘‘۔ پھر سورہ بقرہ کی آیت 97 میں اس فرشتے کا نام بھی بیان کر دیا گیا ہے جس کے ذریعہ سے یہ تعلیم حضورؐ کے قلب پر نازل کی گئی تھی: قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّ الِّجِبْرِیْلَ فَاِنّہٗ نَزَّلَہٗ عَلیٰ قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللہِ۔ ان تمام آیات کو اگر سورہ نجم کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ یہاں زبردست قوت والے معلم سے مراد جبریل امین ہی ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ۔ اس مسئلے پر مفصل بحث آ گے آ رہی ہے ۔
اس مقام پر بعض حضرات یہ شبہ ظاہر کرتے ہیں کہ جبریل امین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا معلم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ، اس کے معنی تو یہ ہوں گے کہ وہ استاد ہیں اور حضورؐ شاگرد، اور اس سے حضورؐ پر جبریل کی فضیلت لازم آئے گی لیکن یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ جبریل اپنے کسی ذاتی علم سے حضورؐ کو تعلیم نہیں دیتے تھے جس سے آپ پر ان کی فضیلت لازم آئے، بلکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے آپؐ تک علم پہنچانے کا ذریعہ بنایا تھا اور وہ محض واسطۂتعلیم ہونے کی حیثیت سے مجازاً آپ کے معلم تھے ۔ اس سے ان کی افضلیت کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے پانچ وقت نمازیں فرض ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز کے صحیح اوقات بتانے کے لیے جبریل علیہ السلام کو آپ کے پاس بھیجا اور انہوں نے دو روز تک پانچوں وقت کی نمازیں آپ کو پڑھائیں۔ یہ قصہ بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی اور مُؤطا وغیرہ کتب حدیث میں صحیح سندوں کے ساتھ بیان ہوا ہے اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ مقتدی تھے اور جبریل نے امام بن کر آپ کو نماز پڑھائی تھی۔ لیکن اس طرح محض تعلیم کی غرض سے ان کا امام بنایا جانا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ آپ سے افضل تھے ۔
6. اصل میں لفظ ذُوْمِرَّۃٍ استعمال فرمایا گیا ہے ۔ ابن عباس اور قتادہ اس کو خوبصورت اور شاندار کے معنی میں لیتے ہیں۔ مجاہد، حسن بصری، ابن زید اور سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اس کے معنی طاقت ور کے ہیں۔ سعید بن مُسَیَّب کے نزدیک اس سے مراد صاحب حکمت ہے ۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا رشاد ہے : لاتھل الصدقۃ لغنی ولا الذی مِرَّۃٍ سَوِیٍّ۔ اس ارشاد میں ذومرہ کو آپ نے تندرست اور صحیح القویٰ کے معنی میں استعمال فرمایا ہے ۔ عربی محاورے میں یہ لفظ نہایت صائب الرائے اور عاقل و دانا کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں جبریل علیہ السلام کے لیے یہ جامع لفظ اسی لیے منتخب فرمایا ہے کہ ان میں عقلی اور جسمانی، دونوں طرح کی قوتوں کا کمال پایا جاتا ہے ۔ اردو زبان میں کوئی لفظ ان تمام معنوں کا جامع نہیں ہے ۔ اس وجہ سے ہم نے ترجمے میں اس کے صرف ایک معنی کو اختیار کیا ہے ، کیونکہ جسمانی قوتوں کے کمال کا ذکر اس سے پہلے کے فقرے میں آ چکا ہے ۔
7. اُفق سے مراد ہے آسمان کا مشرقی کنارا جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے اور دن کی روشنی پھیلتی ہے ۔ اسی کو سورۃ تکویر کی آیت 23 میں اُفق مبین کہا گیا ہے ۔ دونوں آیتیں صراحت کرتی ہیں کہ پہلی مرتبہ جبریل علیہ السلام جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نظر آئے اس وقت وہ آسمان کے مشرقی کنارے سے نمودار ہوئے تھے ۔ اور متعدد و معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہاس وقت وہ اپنی اصلی صورت میں تھے جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ آ گئے چل کر ہم وہ تمام روایات نقل کریں گے جن میں یہ بات بیان کی گئی ہے ۔
8. یعنی آسمان کے بالائی مشرقی کنارے سے نمودار ہونے کے بعد جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ علیہ و سلم کی طرف آ گئے بڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے وہ آپؐ کے اوپر آ کر فضا میں معلق ہو گئے۔ پھر وہ آپؐ کی طرف جھکے اور اس قدر قریب ہو گئے کہ آپؐ کے اور ان کے درمیان صرف دو کمانوں کے برابر یا کچھ کم فاصلہ رہ گیا۔ عام طور پر مفسرین نے قَابَ قَوْسَیْن کے معنی ’’ بقدر دو قوس‘‘ ہی بیان کیے ہیں، لیکن حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قوس کو ذراع(ہاتھ)کے معنی میں لیا ہے اور کَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ کا مطلب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ دونوں کے درمیان صرف دو ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا تھا۔
اور یہ جو فرمایا کہ فاصلہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم تھا، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ فاصلے کی مقدار کے تعین میں اللہ تعالیٰ کو کوئی شک لاحق ہو گیا ہے ۔ در اصل یہ طرز بیان اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ تمام کمانیں لازماً ایک ہی ناپ کی نہیں ہوتیں اور ان کے حساب سے کسی فاصلے کو جب بیان کیا جائے گا تو مقدار فاصلہ میں ضرور کمی بیشی ہو گی۔
9. اصل الفاظ ہیں فَاَوْ حٰٓی اِلیٰ عَبْدِہٖ مَاً اَوْحیٰ۔ اس فقرے کے دو ترجمے ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ ’’ اس نے وحی کی اس کے بندے پر جو کچھ بھی وحی کی‘‘۔ اور دوسرا یہ کہ ’’ اس نے وحی کی اپنے بندے پر جو کچھ بھی وحی کی‘‘۔ پہلا ترجمہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جبریلؑ نے وحی کی اللہ کے بندے پر جو کچھ بھی اس کو وحی کرنی تھی۔دوسرا ترجمہ کیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ نے وحی کی جبریل کے واسطہ سے اپنے بندے پر جو کچھ بھی اس کو وحی کرنی تھی۔ مفسرین نے یہ دونوں معنی بیان کیے ہیں۔ مگر سیاق و سباق کے ساتھ زیادہ مناسبت پہلا مفہوم ہی رکھتا ہے اور وہی حضرت حسن بصری اور ابن زید سے منقول ہے ۔اس پر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ عبدہٖ کی ضمیر اوحیٰ کے فاعل کی طرف پھرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے پھر سکتی ہے جب کہ آغاز سورۃ سے یہاں تک اللہ کا نام سرے سے آیا ہی نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں ضمیر کا مرجع کسی خاص شخص کی طرف سیاق کلام سے صاف ظاہر ہو رہا ہو وہاں ضمیر آپ سے آپ اسی کی طرف پھرتی ہے خواہ اس کا ذکر پہلے نہ آیا ہو۔ اس کی متعدد نظیریں خود قرآن مجید میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اِنَّآ اَنْزَ لْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ۔ ’’ ہم نے اس کو شب قدر میں نازل کیا ہے ‘‘۔ یہاں قرآن کا سرے سے کہیں ذکر نہیں آیا ہے ۔ مگر سیاق کلام خود بتا رہا ہے کہ ضمیر کا مرجع قرآن ہے ۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ہے وَلَوْ یُؤَ اخِذُ اللہُ النَّاسَ بَمَا کَسَبُوْ ا مَا تَرَکَ عَلیٰ ظَھْرِ ھَا مِنْ دَآ بَّۃٍ۔ ’’ اگر اللہ لوگوں کو ان کے کرتوتوں پر پکڑنے لگے تو اس کی پیٹھ پر کسی جاندار کو نہ چھوڑے ‘‘۔ یہاں آ گے پیچھے زمین کا ذکر کہیں نہیں آیا ہے ۔ مگر سیاق کلام سے خود ظاہر ہوتا ہے کہ ’’ اس کی پیٹھ‘‘ سے مراد زمیں کی پیٹھ ہے ۔ سورہ یٰس میں فرمایا گیا ہے وَمَآ عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہٗ۔ ‘‘ہم نے اسے شعر کی تعلیم نہیں دی ہے اور نہ شاعری اس کو زیب دیتی ہے ۔‘‘۔ یہاں پہلے یا بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی ذکر نہیں آیا ہے مگر سیاق کلام بتا رہا ہے کہ ضمیروں کے مرجع آپؐ ہی ہیں۔ سورہ رحمٰن میں فرمایا کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ، ’’ وہ سب کچھ جو اس پر ہے فانی ہے ‘‘۔ آ گئے پیچھے کوئی ذکر زمین کا نہیں ہے ۔ مگر عبارت کا انداز ظاہر کر رہا ہے کہ علیہا کی ضمیر اسی کی طرف پھرتی ہے ۔ سورہ واقعہ میں ارشاد ہوا اِنَّآ اَنْشَأْ نَا ھُنَّ اِنْشَآ ءً، ’’ ہم نے ان کو خاص طور پر پیدا کیا ہو گا‘‘۔ آس پاس کوئی چیز نہیں جس کی طرف ھُنَّ کی ضمیر پھرتی نظر آتی ہو۔ یہ فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ مراد خواتین جنت ہیں۔ پس چونکہ اَوْحیٰ اِلیٰ عَبْدِہٖ کا یہ مطلب بہر حال نہیں ہو سکتا کہ جبریلؑ نے اپنے بندے پر وحی کی، اس لیے لازماً اس کے معنی یہی لیے جائیں گے کہ جبریلؑ نے اللہ کے بندے پر وحی کی، یا پھر یہ کہ اللہ نے جبریل کے واسطہ سے اپنے بندے پر وحی کی۔
10. یعنی یہ مشاہدہ جو دن کی روشنی میں اور پوری بیداری کی حالت میں کھلی آنکھوں سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ہوا۔ اس پر ان کے دل نے یہ نہیں کہا کہ یہ نظر کا دھوکا ہے ، یا یہ کوئی جن یا شیطان ہے جو مجھے نظر آ رہا ہے ، یا میرے سامنے کوئی خیالی صورت آ گئی ہے اور میں جاگتے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ بلکہ ان کے دل نے ٹھیک ٹھیک وہی کچھ سمجھا جو ان کی آنکھیں دیکھ رہی تھیں۔ انہیں اس امر میں کوئی شک لاحق نہیں ہوا کہ فی الواقع یہ جبریل ہیں اور جو پیغام یہ پہنچا رہے ہیں وہ واقعی خدا کی طرف سے وحی ہے ۔
اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا بات ہے جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسے عجیب اور غیر معمولی مشاہدے کے بارے میں قطعاً کوئی شک لاحق نہ ہوا اور آپ نے پورے یقین کے ساتھ جان لیا کہ آپ کی آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی ہیں وہ واقعہ حقیقت ہے ، کوئی خیالی ہیولیٰ نہیں ہے اور کوئی جن یا شیطان بھی نہیں ہے ؟ اس سوال پر جب ہم غور کرتے ہیں تو اس کے پانچ وجوہ ہماری سمجھ میں آتے ہیں:
ایک یہ کہ وہ خارجی حالات جن میں مشاہدہ ہوا تھا، اس کی صحت کا یقین دلانے والے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ مشاہدہ اندھیرے میں، یا مراقبے کی حالت میں، یا خواب میں، یا نیم بیداری کی حالت میں نہیں ہوا تھا، بلکہ صبح روشن طلوع ہو چکی تھی، آپ پوری طرح بیدار تھے ، کھلی فضا میں اور دن کی پوری روشنی میں اپنی آنکھوں سے یہ منظر ٹھیک اسی طرح دیکھ رہے تھے جس طرح کوئی شخص دنیا کے دوسرے مناظر دیکھتا ہے ۔ اس میں اگر شک کی گنجائش ہو تو ہم دن کے وقت دریا، پہاڑ، آدمی، مکان، غرض جو کچھ بھی دیکھتے ہیں وہ سب بھی پھر مشکوک اور محض نظر کا دھوکا ہی ہو سکتا ہے ۔
دوسرے یہ کہ آپ کی اپنی داخلی حالت بھی اس کی صحت کا یقین دلانے والی تھی۔ آپ پوری طرح اپنے ہوش و حواس میں تھے ۔پہلے سے آپؐ کے ذہن میں اس طرح کا سرے سے کوئی خیال نہ تھا کہ آپ کو ایسا کوئی مشاہدہ ہونا چاہیے یا ہونے والا ہے ۔ ذہن اس فکر سے اور اس کی تلاش سے بالکل خالی تھا۔ اور اس حالت میں اچانک آپ کو اس معاملہ سے سابقہ پیش آیا۔ اس پر یہ شک کرنے کی کوئی گنجائش نہ تھی کہ آنکھیں کسی حقیقی منظر کو نہیں دیکھ رہی ہیں بلکہ ایک خیالی ہیولیٰ سامنے آ گیا ہے ۔
تیسرے یہ کہ جو ہستی ان حالات میں آپ کے سامنے آئی تھی وہ ایسی عظیم، ایسی شاندار، ایسی حسین اور اس قدر منور تھی کہ نہ آپؐ کے وہم و خیال میں کبھی اس سے پہلے ایسی ہستی کا تصور آیا تھا جس کی وجہ سے آپ کو یہ گمان ہوتا کہ وہ آپؐ کے اپنے خیال کی آفریدہ ہے ، اور نہ کوئی جن یا شیطان اس شان کا ہو سکتا ہے کہ آپ اسے فرشتے کے سوا اور کچھ سمجھتے ۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میں نے جبریل کو اس صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے (مسند احمد)۔ ایک دوسری روایت میں ابن مسعودؓ مزید تشریح کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام کا ایک ایک بازو اتنا عظیم تھا کہ افق پر چھایا ہوا نظر آتا تھا (مسند احمد)۔ اللہ تعالیٰ خود ان کی شان کو شَدِیْدُالْقُویٰ اور ذُوْمِرَّۃٍ کے الفاظ میں بیان فرما رہا ہے ۔
چوتھے یہ کہ جو تعلیم وہ ہستی دے رہی تھی وہ بھی اس مشاہدے کی صحت کا اطمینان دلانے والی تھی۔ اس کے ذریعہ سے اچانک جو علم، اور تمام کائنات کے حقائق پر حاوی علم آپ کو ملا اس کا کوئی تصور پہلے سے آپؐ کے ذہن میں نہ تھا کہ آپؐ اس پر یہ شبہ کرتے کہ یہ میرے اپنے ہی خیالات ہیں جو مرتب ہو کر میرے سامنے آ گئے ہیں۔ اسی طرح اس علم پر یہ شک کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہ تھی کہ شیطان اس شکل میں آ کر آپ کو دھوکا دے رہا ہے ۔ کیونکہ شیطان کا یہ کام آخر کب ہو سکتا ہے اور کب اس نے یہ کام کیا ہے کہ انسان کو شرک و بُت پرستی کے خلاف توحید خالص کی تعلیم دے ؟ آخرت کی باز پرس سے خبردار کرے ؟ جاہلیت اور اس کے طور طریقوں سے بیزار کرے ؟ فضائل اخلاق کی طرف دعوت دے ؟ اور ایک شخص سے یہ کہے کہ نہ صرف تو خود اس تعلیم کو قبول کر بلکہ ساری دنیا سے شرک اور ظلم اور فسق و فجور کو مٹانے اور ان برائیوں کی جگہ توحید اور عدل اور تقویٰ کی بھلائیاں قائم کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہو؟
پانچویں اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی شخص کو اپنی نبوت کے لیے چن لیتا ہے تو اس کے دل کو شکوک و شبہات اور وساوس سے پاک کر کے یقین و اذعان سے بھر دیتا ہے ۔ اس حالت میں اس کی آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں اور اس کے کان جو کچھ سنتے ہیں، اس کی صحت کے متعلق کوئی ادنیٰ سا تردد بھی اس کے ذہن میں پیدا نہیں ہوتا۔ وہ پورے شرح صدر کے ساتھ ہر اس حقیقت کو قبول کر لیتا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر منکشف کی جاتی ہے ، خواہ وہ کسی مشاہدے کی شکل میں ہو جو اسے آنکھوں سے دکھایا جائے، یا الہامی علم کی شکل میں ہو جو اس کے دل میں ڈالا جائے، یا پیغام وحی کی شکل میں ہو جو اس کو لفظ بلفظ سنایا جائے۔ ان تمام صورتوں میں پیغمبر کو اس امر کا پورا شعور ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کی شیطانی مداخلت سے قطعی محفوظ و مامون ہے اور جو کچھ بھی اس تک کسی شکل میں پہنچ رہا ہے وہ ٹھیک ٹھیک اس کے رب کی طرف سے ہے ۔ تمام خدا داد احساسات کی طرح پیغمبر کا یہ شعور و احساس بھی ایک ایسی یقینی چیز ہے جس میں غلط فہمی کا کوئی امکان نہیں۔ جس طرح مچھلی کو اپنے تیراک ہونے کا، پرندے کو اپنے پرندہ ہونے کا اور انسان کو اپنے انسان ہونے کا احساس بالکل خدا داد ہوتا ہے اور اس میں غلط فہمی کا کوئی شائبہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح پیغمبر کو اپنے پیغمبر ہونے کا احساس بھی خدا داد ہوتا ہے ، اس کے دل میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی یہ وسوسہ نہیں آتا کہ شاید اسے پیغمبر ہونے کی غلط فہمی لاحق ہو گئی ہے ۔
11. یہ جبریل علیہ السلام سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دوسری ملاقات کا ذکر ہے جس میں وہ آپ کے سامنے اپنی اصلی صورت میں نمودار ہوئے۔ اس ملاقات کا مقام ’’سدرۃ المنتہیٰ ‘‘بتایا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا گیا ہے کہ اس کے قریب ’’جنت الماویٰ‘‘ واقع ہے ۔
سدرہ عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں، اور منتہیٰ کے معنی ہیں آخری سرا۔’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ کے لغوی معنی ہیں‘‘ وہ بیری کا درخت جو آخری یا انتہائی سرے پر واقع ہے ‘‘۔ علامہ آلوسیؒ نے روح المعانی میں اس کی تشریح یہ کی ہے کہ: الیھا ینتہی علم کل عالم وما وراء حا لا یعلمہٗ الا اللہ۔ ’’ اس پر ہر عالم کا علم ختم ہو جاتا ہے ، آ گے جو کچھ ہے اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘۔ قریب قریب یہی تشریح ابن جریر نے اپنی تفسیر میں، اور ابن اَثیر نے النِّہا یہ فی غریب الحدیث والاثر میں کی ہے ۔ ہمارے لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ اس عالم مأویٰ کی آخری سرحد پر وہ بیری کا درخت کیسا ہے اور اس کی حقیقی نوعیت و کیفیت کیا ہے ۔ یہ کائنات خداوندی کے وہ اسرار ہیں جن تک ہمارے فہم کی رسائی نہیں ہے ۔ بہر حال وہ کوئی ایسی ہی چیز ہے جس کے لیے انسانی زبان کے الفاظ میں ’’سدرہ‘‘ سے زیادہ موزوں لفظ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور کوئی نہ تھا۔
’’جنتُ الماویٰ‘‘ کے لغوی معنی ہیں ’’ وہ جنت جو قیام گاہ بنے ‘‘۔ حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ یہ وہی جنت ہے جو آخرت میں اہل ایمان و تقویٰ کو ملنے والی ہے ، اور اسی آیت ے انہوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ جنت آسمان میں ہے ۔ قَتادہؒ کہتے ہیں کہ یہ وہ جنت ہے جس میں شہداء کی ارواح رکھی جاتی ہیں، اس سے مراد وہ جنت نہیں ہے جو آخرت میں ملنے والی ہے ۔ ابن عباسؓ بھی یہی کہتے ہیں اور اس پر وہ یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ آخرت میں جو جنت اہل ایمان کو دی جائے گی وہ آسمان میں نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ یہی زمین ہے ۔
12. یعنی اس کی شان اور اس کی کیفیت بیان سے باہر ہے ۔ وہ ایسی تجلیات تھیں کہ نہ انسان ان کا تصور کر سکتا ہے اور نہ کوئی انسانی زبان اس کے وصف کی متحمل ہے ۔
13. یعنی ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کمال تحمل کا حال یہ تھا کہ ایسی زبردست تجلیات کے سامنے بھی آپ کی نگاہ میں کوئی چکا چوند پیدا نہ ہوئی اور آپ پورے سکون کے ساتھ ان کو دیکھتے رہے ۔ دوسری طرف آپ کے ضبط اور یکسوئی کا کمال یہ تھا کہ جس مقصد کے لیے آپ کو بلایا گیا تھا اسی پر آپ نے ن اپنے ذہن و نگاہ کو مرکوز کئے رہے اور جو حیرت انگیز مناظر وہاں تھے انکو دیکھنے کے لئے آپ نے ایک تماشائی کی طرح ہر طرف نگاہیں دوڑانی نہ شروع کر دیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو ایک عظیم و جلیل بادشاہ کے دربار میں حاضری کا موقع ملتا ہے اور وہاں وہ کچھ شان و شوکت اس کے سامنے آتی ہے جو اس کی چشم تصور نے بھی نہ دیکھی تھی۔ اب اگر وہ شخص کم ظرف ہو تو وہاں پہنچ کر بھونچکا رہ جائے گا، اور اگر آداب حضوری سے ناآشنا ہو تو مقام شاہی سے غافل ہو کر دربار کی سجاوٹ کا نظارہ کرنے کے لیے ہر طرف مڑ مڑ کر دیکھنے لگے گا۔ لیکن ایک عالی ظرف، ادب آشنا اور فرض شناس آدمی نہ تو وہاں پہنچ کر مبہوت ہو گا اور نہ دربار کا تماشا دیکھنے میں مشغول ہو جائے گا، بلکہ وہ پورے وقار کے ساتھ حاضر ہو گا اور اپنی ساری توجہ اس مقصد پر مرتکز رکھے گا جس کے لیے دربار شاہی میں اس کو طلب کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہی خوبی ہے جس کی تعریف اس آیت میں کی گئی ہے ۔
14. یہ آیت اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ اس کی عظیم الشان آیات کو دیکھا تھا۔ اور چونکہ سیاق و سباق کی رو سے یہ دوسری ملاقات بھی اسی ہستی سے ہوئی تھی جس سے پہلی ملاقات ہوئی، اس لیے لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ افق اعلیٰ پر جس کو آپ نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا وہ بھی اللہ نہ تھا، اور دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جس کو دیکھا وہ بھی اللہ نہ تھا۔ اگر آپ نے ان مواقع میں سے کسی موقع پر بھی اللہ جل شانہ کو دیکھا ہوتا تو یہ اتنی بڑی بات تھی کہ یہاں ضرور اس کی تصریح کر دی جاتی حضرت موسیٰ کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی درخواست کی تھی اور انہیں جواب دیا گیا تھا لَنْ تَرَانِیْ، ’’تم مجھے نہیں دیکھ سکتے ‘‘ (المائدہ:143)۔ اب یہ ظاہر ہے کہ اگر یہ شرف، جو حضرت موسیٰ کو عطا نہیں کیا گیا تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو عطا کر دیا جاتا تو اس کی اہمیت خود ایسی تھی کہ اسے صاف الفاظ میں بیان کر دیا جاتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ حضورؐ نے اپنے رب کو دیکھا تھا، بلکہ واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے سورہ بنی اسرائیل میں بھی یہ ارشاد ہوا ہے کہ ہم اپنے بندے کو اس لیے لے گئے تھے کہ ’’ اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں‘‘۔ (لِنُرِیَہٗ مِنْ ایَٰاتِنَا)، اور یہاں سدرۃ المنتہیٰ پر حاضری کے سلسلے میں بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’ اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں’’(لَقَدْرَایٰ مِنْ ایٰتِ رَبِّہِ الْکُبْریٰ)۔
ان وجوہ سے بظاہر اس بحث کی کوئی گنجائش نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں مواقع پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا یا جبریل علیہ السلام کو؟ لیکن جس وجہ سے یہ بحث پیدا ہوئی وہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر احادیث کی روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ذیل میں ہم ترتیب وار ان احادیث کو درج کرتے ہیں جو اس سلسلے میں مختلف صحابہ کرام سے منقول ہوئی ہیں۔
(1)۔ حضرت عائشہؓ کی روایات:
بخاری، کتاب التفسیر میں حضرت مَسْروق کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے عرض کیا، ’’ اماں جان، کیا محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟’’ انہوں نے جواب دیا ’’ تمہاری اس بات سے میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ تم یہ کیسے بھول گئے کہ تین باتیں ایسی ہیں جن کا اگر کوئی شخص دعویٰ کرے تو جھوٹا دعویٰ کرے گا۔ ‘‘ (ان میں سے پہلی بات حضرت عائشہؓ نے یہ فرمائی کہ ) ’’ جو شخص تم سے یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹ کہتا ہے ‘‘۔ پھر حضرت عائشہؓ نے یہ آیتیں پڑھیں: لا تُدْرِکُہ الْاَبْصَا رُ (نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں)، اور مَا کَانَ لَبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہُ اِلَّاوَحْیاً اَوْمِنْ وَّرَائٍ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلاً فَیُوْحِیْ بَاِذْنِہٖ مَا یَشآءُ (کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو وحی کے طور پر، یا پردے کے پیچھے سے ، یا یہ کہ ایک فرشتہ بھیجے اور وہ اس پر اللہ کے اذن سے وحی کرے جو کچھ وہ چاہے )۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا’’ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا‘‘
اس حدیث کا ایک حصہ بخاری، کتاب التوحید، باب 4 میں بھی ہے ۔ اور کتاب بدءالخلق میں مسروق کی جو روایت امام بخاری نے نقل کی ہے اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ کی یہ بات سن کر عرض کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہو گا ثُمَّ دَنیٰ فَتَدَلّیٰ، فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنیٰ؟ اس پر انہوں نے فرمایا’’ اس سے مراد جبریلؑ ہیں۔ وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے انسانی شکل میں آیا کرتے تھے ، مگر اس موقع پر وہ اپنی اصلی شکل میں آپ کے پاس آئے اور سارا افق ان سے بھر گیا۔‘‘
مُسلم، کتاب الایمان، باب فی ذکر سدرۃ المنتہیٰ میں حضرت عائشہؓ سے مسروق کی یہ گفتگو زیادہ تفصیل کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور اس کا سب سے اہم حصہ یہ ہے : حضرت عائشہؓ نے فرمایا ’’جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا افترا کرتا ہے ‘‘۔ مسروق کہتے ہیں کہ میں ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ یہ بات سن کر میں اٹھ بیٹھا اور میں نے عرض کیا، ام المومنین جلدی نہ فرمایئے۔ کیاا للہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ وَلَقَدْ رَاٰہُ با لْاُ فُقِ الْمْبِیْنِ؟ اور لَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃًاُخْریٰ؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا اس امت میں سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس معاملے کو دریافت کیا تھا۔ حضور نے فرمایا انماھو جبریل علیہ السلام،لم ارہٗ علیٰ سورتہ التی خلق علیھا غیر ھا تین المرتین، رایتہٗ منھبطامن السمآء سادّا عظم خلقہ مابین السماء والا رض۔‘‘وہ تو جبریل علیہ السلام تھے ۔ میں نے ان کو ان کی اس اصلی صورت میں جس پر اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے ، ان دو مواقع کے سوا کبھی نہیں دیکھا۔ ان دو مواقع پر میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا، اور ان کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے درمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی‘‘۔
ابن مَرْدُوْیہ نے مسروق کی اس روایت کو جن الفاظ میں نقل کیا ہے وہ یہ ہیں : ’’ حضرت عائشہؓ نے فرمایا : ’’ سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ پوچھا تھا کہ کیا آپؐ نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟ حضور نے جواب دیا نہیں، میں نے تو جبریلؑ کو آسمان سے اترتے دیکھا تھا‘‘۔
(2) حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایات:
بخاری، کتاب التفیسر، مسلم کتاب الایمان اور ترمذی ابواب التفسیر میں زِرّ بن حُبَیش کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ کی تفسیر یہ بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو اس صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے ۔
مسلم کی دوسری روایات میں مَا کَذَبَ الْفُؤَ ا دُ مَا رَایٰ اور لَقَدْرَایٰ مِنْ ایَٰاتِ رَبِّہَ الْکُبْریٰ کی بھی یہی تفسیر زربن حُبیش نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کی ہے ۔
مسند احمد میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ تفسیر زرّ بن حبیش کے علاوہ عبد الرحمٰن بن یزید اور ابووائل کے واسطہ سے بھی منقول ہوئی ہے اور مزید برآں مسند احمد میں زِرّ بن حبیش کی دو روایتیں اور نقل ہوئی ہیں جن میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ وَلَقَدْرَاٰہُ نَزْلَۃً اُخریٰ، عِنْدَ سِدْ رَۃِ الْمُنْتَہیٰ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رأیت جبریل عند سدرۃالمنتہیٰ علیہ ستمائۃ جناح۔ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے جبریلؑ کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا، ان کے چھ سو بازو تھے ’’۔ اسی مضمون کی روایت امام احمدؒ نے شقیق بن سلَمہ سے بھی نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی زبان سے یہ سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود یہ فرمایا تھا کہ میں نے جبریل علیہ السلام کو اس صورت میں سدرۃ المنتہیٰ پر دیکھا تھا۔
(3)۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے عطاء بن ابی رباح نے آیت لَقَدْ رَاٰہُ نَزْ لَۃً اُخریٰ کا مطلب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ رایٰ جبریل علیہ السلام۔’’ حضورؐ نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا تھا‘‘۔ (مسل، کتاب الایمان)۔
(4) حضرت ابو ذر غفاری سے عبداللہ بن شقیق کی دو روایتیں امام مسلم نے کتاب الایمان میں نقل کی ہیں۔ ایک روایت میں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟ حضورؐ نے جواب دیا : نورٌ اَنّیٰ اراہ۔ اور دوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ میرے اس سوال کا جواب آپؐ نے یہ دیا کہ رأیتُ نوراً۔ حضورؐ کے پہلے ارشاد کا مطلب ابن القیم نے زادالمعاد میں یہ بیان کیا ہے کہ ’’ میرے اور رؤیت رب کے درمیان نور حائل تھا ‘‘۔ اور دوسرے ارشاد کا مطلب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ میں نے اپنے رب کو نہیں بلکہ بس ایک نور دیکھا‘‘۔
نسائی اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابوذرؓ کا قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دل سے دیکھا تھا، آنکھوں سے نہیں دیکھا ‘‘۔
(5) حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے امام مسلم کتاب الایمان میں یہ روایت لائے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا ما انتھیٰ الیہ بصر من خلقہ۔’’اللہ تعالیٰ تک اس کی مخلوق میں سے کسی کی نگاہ نہیں پہنچی‘‘۔
(6) حضرت عبداللہ بن عباس کی روایات:
مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مَا کَذَبَ الْفُؤادُمَا رأی، وَلَقَدْرَاٰہُ نَزْ لَۃً اُخْریٰ کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ اپنے دل سے دیکھا۔ یہ روایت مسند احمد میں بھی ہے ۔
ابن مردُویہ نے عطاء بن ابی رَباح کے حوالہ سے ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے نہیں بلکہ دل سے دیکھا تھا۔
نسائی میں عکرمہ کی روایت ہے کہ ابن عباس نے فرمایا اتعجبون ان تکون الخلۃ لابراہیم والکلام لموسیٰ والرؤیۃُ المحمد؟۔’’ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے خلیل بنایا، موسیٰ علیہ السلام کو کلام سے سر فراز کیا اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو رؤیت کا شرف بخشا‘‘۔ حاکم نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
ترمذی میں شعبی کی روایت ہے کہ ابن عباس نے ایک مجلس میں فرمایا’’ اللہ نے اپنی رؤیت اور اپنے کلام کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور موسی علیہ السلام کے درمیان تقسیم کردیا تھا۔ موسی علیہ السلام سے اس نے دو مرتبہ کلام کیا تھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اس کو دیکھا‘‘۔ ابن عباس کی اسی گفتگو کو سن کر مسروق حضرت عائشہؓ کے پاس گئے تھے اور ان سے پوچھا تھا ’’ کیا محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟‘‘ انہوں نے فرمایا ’’تم نے وہ بات کہی ہے جسے سن کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے‘‘۔ اس کے بعد حضرت عائشہؓ اور مسروق کے درمیان وہ گفتگو ہوئی جسے ہم اوپر حضرت عائشہؓ کی روایات میں نقل کر آئے ہیں۔
ترمذی ہی میں دوسری روایات جو ابن عباسؓ سے منقول ہوئی ہیں ان میں سے ایک میں وہ فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا۔ دوسری میں فرماتے ہیں دو مرتبہ دیکھا تھا۔ اور تیسری میں ان کا ارشاد یہ ہے کہ آپ نے اللہ کو دل سے دیکھا تھا۔
مسند احمد میں ابن عباس کی ایک روایت یہ ہے کہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رائت ربی تبارک و تعالیٰ۔ ’’میں نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو دیکھا‘‘۔ دوسری روایت میں وہ کہتے ہیں ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال اتانی ربی اللیلۃ فی احسن صورۃ، احسبہ یعنی فی النوم۔‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آج رات میرا رب بہترین صورت میں میرے پاس آیا۔میں سمجھتا ہوں کہ حضورؐ کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ خواب میں آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا’’۔
طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن عباس سے ایک روایت یہ بھی نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا، ایک مرتبہ آنکھوں سے اور دوسری مرتبہ دل سے ۔
(7)۔ محمد بن کعب القرظی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بعض صحابہ نے پوچھا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ حضور نے جواب دیا’’ میں نے اس کو دو مرتبہ اپنے دل سے دیکھا‘‘ (ابن ابی حاتم)۔ اس روایت کو ابن جریر نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ میں نے اس کو آنکھ سے نہیں بلکہ دل سے دو مرتبہ دیکھا ہے ‘‘۔
(8)۔ حضرت انسؓ بن مالک کی ایک روایت جو قصہ معراج کے سلسلے میں شریک بن عبداللہ کے حوالہ سے امام بخاریؒ نے کتاب التوحید میں نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ آتے ہیں: حتّیٰ جَاءَسِدْرَۃَ الْمُنْتَھیٰ و دَنَا لجبار رب العزۃ فتدلّیٰ حتّیٰ کَان منہ قاب قوسین او ادنیٰ فاوحی اللہ فیما اوحیٰ الیہ خمسین صلوٰۃ۔ یعنی ’’ جب آپ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے تو اللہ رب العزۃ آپ کے قریب آیا اور آپ کے اوپر معلّق ہو گیا یہاں تک کہ آپ کے اور اس کے درمیان بقدر دو کمان یا اس سے بھی کچھ کم فاصلہ رہ گیا، پھر اللہ نے آپؐ پر جو امور وحی فرمائے ان میں سے ایک 50 نمازوں کا حکم تھا‘‘۔ لیکن علاوہ اُن اعتراضات کے جو اس روایت کی سند اور مضمون پر امام خطابی، حافظ ابن حَجر، ابن حَزم اور حافظ عبدالحق صاحبُ الجمع بین الصحیحین نے کیے ہیں، سب سے بڑا اعتراض اس پر یہ وارد ہوتا ہے کہ یہ صریح قرآن کے خلاف پڑتی ہے ۔ کیونکہ قرآن مجید دو الگ الگ رؤیتوں کا ذکر کرتا ہے جن میں سے ایک ابتداءًاُفُقِ اعلیٰ پر ہوئی تھی اور پھر اس میں دَنَا فَتَدَ لّیٰ فَکَا نَ قَاب َ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنیٰ کا معاملہ پیش آیا تھا، اور دوسری سدرۃالمنتہیٰ کے پاس واقع ہوئی تھی۔ لیکن یہ روایت ان دونوں رؤیتوں کو خلط ملط کر کے ایک رؤیت بنا دیتی ہے ۔اس لیے قرآن مجید سے متعارض ہونے کی بنا پر اس کو تو کسی طرح قبول ہی نہیں کیا جا سکتا۔
اب رہیں وہ دوسری روایات جو ہم نے اوپر نقل کی ہیں، تو ان میں سب سے زیادہ وزنی روایتیں وہ ہیں جو حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عائشہؓ سے منقول ہوئی ہیں، کیونکہ ان دونوں نے بالاتفاق خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بیان کیا ہے کہ ان دونوں مواقع پر آپ نے اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ جبریل علیہ السلام کو دیکھا تھا، اور یہ روایات قرآن مجید کی تصریحات اور اشارات سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہیں۔ مزید براں ان کی تائید حضورؐ کے ان ارشادات سے بھی ہوتی ہے جو حضرت ابوذرؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے آپ سے نقل کیے ہیں، اس کے برعکس حضرت عبداللہ بن عباس سے جو روایات کتب حدیث میں منقول ہوئی ہیں ان میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے ۔ کسی میں وہ دونوں رؤیتوں کو عینی کہتے ہیں، کسی میں دونوں کو قلبی قرار دیتے ہیں، کسی میں ایک کو عینی اور دوسری کو قلبی بتاتے ہیں، اور کسی میں عینی رؤیت کی صاف صاف نفی کر دیتے ہیں۔ ان میں سے کوئی روایت بھی ایسی نہیں ہے جس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا کوئی ارشاد نقل کر رہے ہوں۔ اور جہاں انہوں نے خود حضورؐ کا ارشاد نقل کیا ہے ، وہاں اول تو قرآن مجید کی بیان کردہ ان دونوں رؤیتوں میں سے کسی کا بھی ذکر نہیں ہے ، اور مزید برآں ان کی ایک روایت کی تشریح دوسری روایت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضورؐ نے کسی وقت بحالت بیداری نہیں بلکہ خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا۔ اس لیےدر حقیقت ان آیات کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس سے منسوب روایات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح محمد بن کعب القرظی کی روایات بھی، اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک ارشاد نقل کرتی ہیں، لیکن ان میں ان صحابہ کرام کے ناموں کی کوئی تصریح نہیں ہے جنہوں نے حضورؐ سے یہ بات سنی۔ نیز ان میں سے ایک میں بتایا گیا ہے کہ حضورؐ نے عینی رویت کی صاف صاف نفی فرما دی تھی۔
15. ۔ مطلب یہ ہے کہ جو تعلیم محمد صلی اللہ علیہ و سلم تم کو دے رہے ہیں اس کو تو تم لوگ گمرہی اور بد راہی قرار دیتے ہو، حالانکہ یہ علم ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا جا رہا ہے اور اللہ ان کو آنکھوں سے وہ حقائق دکھا چکا ہے جن کی شہادت وہ تمہارے سامنے دے رہے ہیں۔ اب ذرا تم خود دیکھو کہ جن عقائد کی پیروی پر تم اصرار کیے چلے جا رہے ہو وہ کس قدر غیر معقول ہیں، اور ان کے مقابلے میں جو شخص تمہیں سیدھا راستہ بتا رہا ہے اس کی مخالفت کر کے آخر تم کس کا نقصان کر رہے ہو۔ اس سلسلے میں خاص طور پر ان تین دیویوں کو بطور مثال لیا گیا ہے جن کو مکہ، طائف، مدینہ، اور نواحی حجاز کے لوگ سب سے زیادہ پوجتے تھے ۔ ان کے بارے میں سوال کیا گیا ہے کہ کبھی تم نے عقل سے کام لے کر سوچا بھی کہ زمین و آسمان کی خدائی کے معاملات میں ان کا کوئی ادنیٰ سا دخل بھی ہو سکتا ہے ؟ یا خداوند عالم سے واقعی ان کا کوئی رشتہ ہو سکتا ہے ؟
لات کا استھان طائف میں تھا اور بنی ثقیبف اس کے اس حد تک معتقد تھے کہ جب ابرہہ ہاتھیوں کی فوج لے کر خانہ کعبہ کو توڑنے کے لیے مکہ پر چڑھائی کرنے جا رہا تھا اس وقت ان لوگوں نے محض اپنے اِس معبود کے آستانے کو بچانے کی خاطر اس ظالم کو مکے کا راستہ بتانے کے لیے بَدْرَقے فراہم کیے تا کہ وہ لات کو ہاتھ نہ لگائے۔ حالانکہ تمام اہل عرب کی طرح ثقیف کے لوگ بھی یہ مانتے تھے کہ کعبہ اللہ کا گھر ہے ۔ لات کے معنی میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے ۔ ابن جریر طبری کی تحقیق یہ ہے کہ یہ اللہ کی تانیث ہے ، یعنی اصل میں یہ لفظ اللّٰلہۃٌ تھا جسے اللّٰات کر دیا گیا۔ زَمخشری کے نزدیک یہ لَویٰ یَلْوی سے مشتق ہے ، جس کے معنی مڑنے اور کسی کی طرف جھکنے کے ہیں۔ چونکہ مشرکین عبادت کے لیے اس کی طرف رجوع کرتے اور اس کے آ گئے جھکتے اور اس کا طواف کرتے تھے اس لیے اس کو لات کہا جانے لگا۔ ابن عباسؓ اس کو لات بتشدید تاء پڑھتے ہیں اور اسے لَت یلتُّ سے مشتق قرار دیتے ہیں جس کے معنی متھنے اور لتھیڑنے کے ہیں۔ ان کا اور مجاہد کا بیان ہے کہ یہ دراصل ایک شخص تھا جو طائف کے قریب ایک چٹان پر رہتا تھا اور حج کے لیے جانے والوں کو سَتُّو پلاتا اور کھانے کھلاتا تھا۔ جب وہ مر گیا تو لوگوں نے اسی چٹان پر اس کا استھان بنا لیا اور اس کی عبادت کرنے لگے ۔ مگر لات کی یہ تشریح ابن عباس اور مجاہد جیسے بزرگوں سے مروی ہونے کے باوجود دو وجوہ سے قابل قبول نہیں ہے ۔ ایک یہ کہ قرآن میں اسے لات کہا گیا ہے نہ کہ لاتّ۔ دوسرے یہ کہ قرآن مجید ان تینوں کو دیویاں بتا رہا ہے ، اور اس روایت کی رو سے لات مرد تھا نہ کہ عورت۔
عزیٰ عزت سے ہے اور اس کے معنی عزت والی کے ہیں۔ یہ قریش کی خاص دیوی تھی اور اس کا استھان مکہ اور طائف کے درمیان وادیِ نخلہ میں حُراض کے مقام پر واقع تھا (نخلہ کی جائے وقوع کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الاحقاف، حاشیہ 23)۔ بنی ہاشم کے حلیف قبیلہ بنی شیبان کے لوگ اس کے مجاور تھے ۔ قریش اور دوسرے قبائل کے لوگ اس کی زیارت کرتے اور اس پر نذریں چڑھاتے اور اس کے لیے قربانیاں کرتے تھے ۔ کعبہ کی طرح اس کی طرف بھی ہدی کے جانور لے جائے جاتے اور تمام بتوں سے بڑھ کر اس کی عزت کی جاتی تھی۔ ابن ہشام کی روایت ہے کہ ابو اُحیحہ جب مرنے لگا تو ابولہب اس کی عیادت کے لیے گیا۔ دیکھا کہ وہ رو رہا ہے ۔ ابولہب نے کہا کیوں روتے ہو ابو اُحیحہ؟ کیا موت سے ڈرتے ہو؟ حالانکہ وہ سب ہی کو آنی ہے ۔ اس نے کہا خدا کی قسم میں موت سے ڈر کر نہیں روتا، بلکہ مجھے یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ میرے بعد عزیٰ کی پوجا کیسے ہو گی۔ابو لہب بولا۔ اس کی پوجا نہ تمہاری زندگی میں تمہاری خاطر ہوتی تھی اور نہ تمہارے بعد اسے چھوڑا جائے گا۔ ابو احیحہ نے کہا اب مجھے اطمینان ہو گیا کہ میرے بعد کوئی میری جگہ سنبھالنے والا ہے ۔
مَناۃ کا استھان مکہ اور مدینہ کے درمیان بحر احمر کے کنارے قدید کے مقام پر تھا اور خاص طور پر خزاعہ اور اوس اور خزرج کے لوگ اس کے بہت معتقد تھے ۔ اس کا حج اور طواف کیا جاتا اور اس پر نذر کی قربانیاں چڑھائی جاتی تھیں۔ زمانہ حج میں جب حجاج طواف بیت اللہ اور عرفات اور منیٰ سے فارغ ہو جاتے تو وہیں سے مناۃ کی زیارت کے لیے لبیک لبیک کی صدائیں بلند کر دی جاتیں اور جو لوگ اس دوسرے ’’حج‘‘ کی نیت کر لیتے وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرتے تھے ۔
16. یعنی ان دیویوں کو تم نے اللہ رب العالمین کی بیٹیاں قرار دے لیا اور یہ بیہودہ عقیدہ ایجاد کرتے وقت تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ اپنے لیے تو تم بیٹی کی پیدائش کو ذلت سمجھتے ہو اور چاہتے ہو کہ تمہیں اولاد نرینہ ملے ۔ مگر اللہ کے لیے تم اولاد بھی تجویز کرتے ہو تو بیٹیاں !
17. یعنی تم جن کو دیوی اور دیوتا کہتے ہو وہ نہ دیویاں ہیں اور نہ دیوتا، نہ ان کے اندر اُلوہیت کی کوئی صفت پائی جاتی ہے ، نہ خدائی کے اختیارات کا کوئی ادنیٰ سا حصہ انہیں حاصل ہے ۔تم نے بطور خود ان کو خدا کی اولاد اور معبود اور خدائی میں شریک ٹھیرا لیا ہے ۔ خدا کی طرف سے کوئی سند ایسی نہیں آئی ہے جسے تم اپنے ان مفروضات کے ثبوت میں پیش کر سکو۔
18. بالفاظ دیگر ان کی گمراہی کے بنیادی وجوہ دو ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کسی چیز کو اپنا عقیدہ اور دین بنانے کے لیے علم حقیقت کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ محض قیاس و گمان سے ایک بات فرض کر لیتے ہیں اور پھر اس پر اس طرح ایمان لے آتے ہیں کہ گویا وہی حقیقت ہے ۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے یہ رویہ دراصل اپنی خواہشات نفس کی پیروی میں اختیار کیا ہے ۔ ان کا دل یہ چاہتا ہے کہ کوئی ایسا معبود ہو جو دنیا میں ان کے کام تو بناتا رہے اور آخرت اگر پیش آنے والی ہی ہو تو وہاں انہیں بخشوانے کا ذمہ بھی لے لے ، مگر حرام و حلال کی کوئی پابندی ان پر نہ لگائے اور اخلاق کے کسی ضابطے میں ان کو نہ کسے ۔اسی لیے وہ انبیاء کے لائے ہوئے طریقے پر خدائے واحد کی بندگی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور ان خود ساختہ معبودوں اور معبودنیوں کی عبادت ہی ان کو پسند آتی ہے ۔
19. یعنی ہر زمانے میں ابنیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان گمراہ لوگوں کو حقیقت بتاتے رہے ہیں اور اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے آ کر ان کو بتا دیا ہے کہ کائنات میں در اصل خدائی کس کی ہے ۔
20. اس آیت کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا انسان کو یہ حق ہے کہ جس کو چاہے معبود بنا لے ؟ اور ایک تیسرا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ کیا انسان ان معبودوں سے اپنی مرادیں پا لینے کی جو تمنا رکھتا ہے وہ کبھی پوری ہو سکتی ہے ؟