Tafheem ul Quran

Surah 53 An-Najm, Ayat 33-62

اَفَرَءَيۡتَ الَّذِىۡ تَوَلّٰىۙ‏ ﴿53:33﴾ وَاَعۡطٰى قَلِيۡلًا وَّاَكۡدٰى‏ ﴿53:34﴾ اَعِنۡدَهٗ عِلۡمُ الۡغَيۡبِ فَهُوَ يَرٰى‏ ﴿53:35﴾ اَمۡ لَمۡ يُنَبَّاۡ بِمَا فِىۡ صُحُفِ مُوۡسٰىۙ‏ ﴿53:36﴾ وَاِبۡرٰهِيۡمَ الَّذِىۡ وَفّٰىٓ  ۙ‏ ﴿53:37﴾ اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰىۙ‏ ﴿53:38﴾ وَاَنۡ لَّيۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ‏ ﴿53:39﴾ وَاَنَّ سَعۡيَهٗ سَوۡفَ يُرٰى‏ ﴿53:40﴾ ثُمَّ يُجۡزٰٮهُ الۡجَزَآءَ الۡاَوۡفٰىۙ‏ ﴿53:41﴾ وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الۡمُنۡتَهٰىۙ‏ ﴿53:42﴾ وَاَنَّهٗ هُوَ اَضۡحَكَ وَاَبۡكٰىۙ‏ ﴿53:43﴾ وَاَنَّهٗ هُوَ اَمَاتَ وَ اَحۡيَا ۙ‏ ﴿53:44﴾ وَاَنَّهٗ خَلَقَ الزَّوۡجَيۡنِ الذَّكَرَ وَالۡاُنۡثٰىۙ‏ ﴿53:45﴾ مِنۡ نُّطۡفَةٍ اِذَا تُمۡنٰى‏ ﴿53:46﴾ وَاَنَّ عَلَيۡهِ النَّشۡاَةَ الۡاُخۡرٰىۙ‏ ﴿53:47﴾ وَاَنَّهٗ هُوَ اَغۡنٰى وَ اَقۡنٰىۙ‏ ﴿53:48﴾ وَاَنَّهٗ هُوَ رَبُّ الشِّعۡرٰىۙ‏ ﴿53:49﴾ وَاَنَّهٗۤ اَهۡلَكَ عَادَا۟ اۨلۡـٮُٔـوْلٰى ۙ‏ ﴿53:50﴾ وَثَمُوۡدَا۟ فَمَاۤ اَبۡقٰىۙ‏ ﴿53:51﴾ وَقَوۡمَ نُوۡحٍ مِّنۡ قَبۡلُ​ؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا هُمۡ اَظۡلَمَ وَاَطۡغٰىؕ‏  ﴿53:52﴾ وَالۡمُؤۡتَفِكَةَ اَهۡوٰىۙ‏ ﴿53:53﴾ فَغَشّٰٮهَا مَا غَشّٰى​ۚ‏ ﴿53:54﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكَ تَتَمَارٰى‏ ﴿53:55﴾ هٰذَا نَذِيۡرٌ مِّنَ النُّذُرِ الۡاُوۡلٰٓى‏ ﴿53:56﴾ اَزِفَتِ الۡاٰزِفَةُ​ۚ‏ ﴿53:57﴾ لَيۡسَ لَهَا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ كَاشِفَةٌ ؕ‏ ﴿53:58﴾ اَفَمِنۡ هٰذَا الۡحَدِيۡثِ تَعۡجَبُوۡنَۙ‏ ﴿53:59﴾ وَتَضۡحَكُوۡنَ وَلَا تَبۡكُوۡنَۙ‏ ﴿53:60﴾ وَاَنۡتُمۡ سٰمِدُوۡنَ‏ ﴿53:61﴾ فَاسۡجُدُوۡا لِلّٰهِ وَاعۡبُدُوۡا ۩‏ ﴿53:62﴾

33 - پھر اے نبیؐ ، تم نے اُس شخص کو بھی دیکھا جو راہِ خدا سے پھر گیا 34 - اور تھوڑا سا دے کر رُک گیا ۔ 34 35 - کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھ رہا ہے؟ 35 36 - کیا اُسے اُن باتوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جو موسٰیؑ کے صحیفوں 37 - اور اُس ابراہیمؑ کے صحیفوں میں بیان ہوئی ہیں جس نے وفا کا حق ادا کر دیا؟ 36 38 - ”یہ کہ کوئی بوجھ اٹھا نے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، 37 39 - اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے، 38 40 - اور یہ کہ اس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی 39 41 - اور اس کی پوری جزا اسے دی جائے گی، 42 - اور یہ کہ آخر کا پہنچنا تیرے رب ہی کے پاس ہے، 43 - اور یہ کہ اُسی نے ہنسایا اور اُسی نے رلایا،40 44 - اور یہ کہ اُسی نے مو ت دی اور اُسی نے زندگی بخشی، 45 - اور یہ کہ اُسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا 46 - ایک بُوند سے جب وہ ٹپکائی جاتی ہے،41 47 - اور یہ کہ دوسری زندگی بخشنا بھی اُسی کے ذمّہ ہے،42 48 - اور یہ کہ اُسی نے غنی کیا اور جائیداد بخشی،43 49 - اور یہ کہ وہی شِعریٰ کا ربّ ہے،44 50 - اور یہ کہ اُسی نے عادِ اولیٰ45 کو ہلاک کیا ، 51 - اور ثمود کو ایسا مٹایا کہ ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑا، 52 - اور اُن سے پہلے قومِ نوحؑ کو تباہ کیا کیونکہ وہ تھے ہی سخت ظالم و سرکش لوگ، 53 - اور اَوندھی گرنے والی بستیوں کو اُٹھا پھینکا، 54 - پھر چھا دیا اُن پر وہ کچھ جو (تم جانتے ہی ہو کہ ) کیا چھا دیا۔46 55 - 47 پس اے مخاطب ، اپنے رب کی کن کن نعمتوں میں تُو شک کرے گا“؟48 56 - یہ ایک تنبیہ ہے پہلے آئی ہوئی تنبیہات میں سے۔ 57 - آنے والی گھڑی قریب آلگی ہے،50 58 - اللہ کے سوا کوئی اُس کو ہٹانے والا نہیں۔ 51 59 - اب کیا یہی وہ باتیں ہیں جن پر تم اظہارِ تعجّب کرتے ہو؟52 60 - ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو؟ 61 - اور گا بجا کر انہیں ٹالتے ہو؟53 62 - جُھک جاؤ اللہ کے آگے اور بندگی بجا لاؤ۔54 ؏۳السجدة


Notes

34. اشارہ ہے وَلید بن مغیرہ کی طرف جو قریش کے بڑے سرداروں میں سے ایک تھا۔ ابن جریر طبری کی روایت ہے کہ یہ شخص پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت قبول کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا۔ مگر جب اس کے ایک مشرک دوست کو معلوم ہوا کہ وہ مسلمان ہونے کا ارادہ کر رہا ہے تو اس نے کہا کہ تم دین آبائی کو نہ چھوڑو، اگر تمہیں عذاب آخرت کا خطرہ ہے تو مجھے اِتنی رقم دے دو، میں ذمہ لیتا ہوں کہ تمہارے بدلے وہاں کا عذاب میں بھگت لوں گا۔ ولید نے یہ بات مان لی اور خدا کی راہ پر آتے آتے اس سے پھر گیا، مگر جو رقم اس نے اپنے مشرک دوست کو دینی طے کی تھی وہ بھی بس تھوڑی سے دی اور باقی روک لی۔ اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود کفار مکہ کو یہ بتانا تھا کہ آخرت سے بے فکری اور دین کی حقیقت سے بے خبری نے ان کو کیسی جہالتوں اور حماقتوں میں مبتلا کر رکھا ہے ۔

35. یعنی کیا اسے معلوم ہے کہ یہ روش اس کے لیے نافع ہے ؟ کیا وہ جانتا ہے کہ آخرت کے عذاب سے کوئی اس طرح بھی بچ سکتا ہے ۔؟

36. آ گے ان تعلیمات کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیمؑ کے صحیفوں میں نازل ہوئی تھیں۔ حضرت موسیٰ کے صحیفوں سے مراد توراۃ ہے ۔ رہے حضرت ابراہیمؑ کے صحیفے تو وہ آج دنیا میں کہیں موجود نہیں ہیں، اور یہود و نصاریٰ کی کتب مقدسہ میں بھی ان کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا۔ صرف قرآن ہی وہ کتاب ہے جس میں دو مقامات پر صُحُفِ ابراہیمؑ کی تعلیمات کے بعض اجزاء نقل کیے گئے ہیں، ایک یہ مقام، دوسرے سورہ الاعلیٰ کی آخری آیات۔

37. اس آیت سے تین بڑے اصول مستنبط ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر شخص خود اپنے فعل کا ذمہ دار ہے ۔ دوسرے یہ کہ ایک شخص کے فعل کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ڈالی جا سکتی الا یہ کہ اس فعل کے صُدور میں اس کا اپنا کوئی حصہ ہو۔ تیسرے یہ کہ کوئی شخص اگر چاہے بھی تو کسی دوسرے شخص کے فعل کی ذمہ داری اپنے اوپر نہیں لے سکتا، نہ اصل مجرم کو اس بنا پر چھوڑا جا سکتا ہے کہ اس کی جگہ سزا بھگتنے کے لیے کوئی اور آدمی اپنے آپ کو پیش کر رہا ہے ۔

38. اس ارشاد سے بھی تین اہم اصول نکلتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی پائے گا اپنے عمل کا پھل پائے گا۔ دوسرے یہ کہ ایک شخص کے عمل کا پھل دوسرا نہیں پا سکتا الا یہ کہ اس عمل میں اس کا اپنا کوئی حصہ ہو۔ تیسرے یہ کہ کوئی شخص سعی و عمل کے بغیر کچھ نہیں پا سکتا۔

ان تین اصولوں کو بعض لوگ دنیا کے معاشی معاملات پر غلط طریقے سے منطبق کر کے ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی محنت کی کمائی (Earned Income) کے سوا کسی چیز کا جائز مالک نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ بات قرآن مجید ہی کے دیے ہوئے متعدد قوانین اور احکام سے ٹکراتی ہے ۔ مثلاً قانون وراثت، جس کی رو سے ایک شخص کے ترکے میں سے بہت سے افراد حصہ پاتے ہیں اور اس کے جائز وارث قرار پاتے ہیں در آنحالیکہ یہ میراث ان کی اپنی محنت کی کمائی نہیں ہوتی، بلکہ ایک شیر خوار بچے کے متعلق تو کسی کھینچ تان سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں اس کی محنت کا بھی کوئی حصہ تھا۔ اسی طرح احکام زکوٰۃ و صدقات، جن کی رو سے ایک آدمی کا مال دوسروں کو محض ان کے شرعی و اخلاقی استحقاق کی بنا پر ملتا ہے اور وہ اس کے جائز مالک ہوتے ہیں، حالانکہ اس مال کے پیدا کرنے میں ان کی محنت کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اس لیے قرآن کی کسی ایک آیت کو لے کر اس سے ایسے نتائج نکالنا جو خود قرآن ہی کی دوسری تعلیمات سے متصادم ہوتے ہوں، قرآن کے منشا کے بالکل خلاف ہے ۔

بعض دوسرے لوگ ان اصولوں کو آخرت سے متعلق مان کر یہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ آیا ان اصولوں کی رو سے ایک شخص کا عمل دوسرے شخص کے لیے کسی صورت میں بھی نافع ہو سکتا ہے ؟ اور کیا ایک شخص اگر دوسرے شخص کے لیے یا اس کے بدلے کوئی عمل کرے تو وہ اس کی طرف سے قبول کیا جا سکتا ہے ؟ اور کیا یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص اپنے عمل کے اجر کو دوسرے کی طرف منتقل کر سکے ؟ ان سوالات کا جواب اگر نفی میں ہو تو ایصال ثواب اور حج بدل وغیرہ سب ناجائز ہو جاتے ہیں، بلکہ دوسرے کے حق میں دعائے استغفار بھی بے معنی ہو جاتی ہے ، کیونکہ یہ دعا بھی اس شخص کا اپنا عمل نہیں ہے جس کے حق میں دعا کی جائے۔ مگر یہ انتہائی نقطہ نظر معتزِلہ کے سوا اہل اسلام میں سے کسی نے اختیار نہیں کیا ہے ۔ صرف وہ اس آیت کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ ایک شخص کی سعی دوسرے کے لیے کسی حال میں بھی نافع نہیں ہو سکتی۔ بخلاف اس کے اہل سنت ایک شخص کے لیے دوسرے کی دعا کے نافع ہونے کو تو بالاتفاق مانتے ہیں کیونکہ وہ قرآن سے ثابت ہے ، البتہ ایصال ثواب اور نیابۃً دوسرے کی طرف سے کسی نیک کام کے نافع ہونے میں ان کے درمیان اصولاً نہیں بلکہ صرف تفصیلات میں اختلاف ہے ۔

(1)۔ ایصالِ ثواب یہ ہے کہ ایک شخص کوئی نیک عمل کر کے اللہ سے دعا کرے کہ اس کا اجر و ثواب کسی دوسرے شخص کو عطا فرما دیا جائے۔ اس مسئلے میں امام مالکؒ اور امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ خالص بدنی عبادات، مثلاً نماز، روزہ اور تلاوت قرآن وغیرہ کا ثواب دوسرے کو نہیں پہنچ سکتا، البتہ مالی عبادات، مثلاً صدقہ، یا مالی و بدنی مرکب عبادات، مثلاً حج کا ثواب دوسرے کو پہنچ سکتا ہے ، کیونکہ اصل یہ ہے کہ ایک شخص کا عمل دوسرے کے لیے نافع نہ ہو، مگر چونکہ احادیث صحیحہ کی رو سے صدقہ کا ثواب پہنچایا جا سکتا ہے اور حج بدل بھی کیا جا سکتا ہے ، اس لیے ہم اسی نوعیت کی عبادات تک ایصال ثواب کی صحت تسلیم کرتے ہیں۔ بخلاف اس کے حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ انسان اپنے ہر نیک عمل کا ثواب دوسرے کو ہبہ کر سکتا ہے خواہ وہ نماز ہو یا روزہ یا تلاوت قرآن یا ذکر یا صدقہ یا حج و عمرہ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آدمی جس طرح مزدوری کر کے مالک سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی اجرت میرے بجائے فلاں شخص کو دے دی جائے، اسی طرح وہ کوئی بھی عمل کر کے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کر سکتا ہے کہ اس کا اجر میری طرف سے فلاں شخص کو عطا کر دیا جائے۔ اس میں بعض اقسام کی نیکیوں کو مستثنیٰ کرنے اور بعض دوسری اقسام کی نیکیوں تک اسے محدود رکھنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے ۔ یہی بات بکثرت احادیث سے بھی ثابت ہے :

بخاری، مسلم، مسنداحمد،ابن ماجہ، طبرانی (فی الاوسط) مستدرک اور ابن ابی شیبہ میں حضرت، عائشہ، حضرت ابو ہریرہ حضرت جابر بن عبد اللہ، حضرت ابورافع، حضرت ابو طلحہ انصاری، اور حذیفہ بن اُسید الغفاری کی متفقہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو مینڈھے لے کر ایک اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربان کیا اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے ۔

مسلم، بخاری، مسند احمد، ابوداؤد اور نسائی میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرنے کے لیے کہتیں۔ اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کے لیے ہے ؟ فرمایا ہاں۔

مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی روایت ہے کہ ان کے داد ا عاص بن وائِل نے زمانہ جاہلیت میں سو اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی۔ ان کے چچا ہشام بن العاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کر دیے ۔ حضرت عمرو بن العاص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ میں کیا کروں۔ حضورؐ نے فرمایا اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کر لیا تھا تو تم ان کی طرف سے روزاہ رکھو یا صدقہ کرو، وہ ان کے لیے نافع ہو گا۔

مسند احمد، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت حسن بصری کی روایت ہے کہ حضرت سعدؓبن عبادہ نے رسول اللہ صلی الیہ و سلم سے پوچھا کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کروں؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اسی مضمون کی متعدد دوسری روایات بھی حضرت عائشہؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت بن عباسؓ سے بخاری، مسلم مسند احمد، نسائی ترمذی، ابوداؤد او ابن ماجہ وغیرہ میں موجود ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میت کی طرف سے صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے اور اسے میت کے لیے نافع بتایا ہے ۔

دار قطنی میں ہے کہ ایک شخص نے حضور سے عرض کیا میں اپنے والدین کی خدمت ان کی زندگی میں تو کرتا ہوں، ان کے مرنے کے بعد کیسے کروں؟ فرمایا’’ یہ بھی ان کی خدمت ہی ہے کہ ان کے مرنے کے بعد تو اپنی نماز کے ساتھ ان کے لیے بھی نماز پڑھے اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کے لیے بھی روزے رکھے‘‘۔ ایک دوسری روایت دارقطنی میں حضرت علیؓ سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا جس شخص کا قبرستان پر گزر ہو اور وہ گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھ کراس کا اجر مرنے والوں کو بخش دے تو جتنے مردے ہیں اتنا ہی اجر عطا کر دیا جائے گا۔

یہ کثیر روایات جو ایک دوسری کی تائید کر رہی ہیں، اس امر کی تصریح کرتی ہیں کہ ایصال ثواب نہ صرف ممکن ہے ، بلکہ ہر طرح کی عبادت اور نیکیوں کے ثواب کا ایصال ہو سکتا ہے اور اس میں کسی خاص نوعیت کے اعمال کی تخصیص نہیں ہے ۔مگر اس سلسلے میں چار باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں:

ایک یہ کہ ایصال اسی عمل کے ثواب کا ہو سکتا ہے جو خالصۃً اللہ کے لیے اور قواعد شریعت کے مطابق کیا گیا ہو، ورنہ ظاہر ہے کہ غیر اللہ کے لیے یا شریعت کے خلاف جو عمل کیا جائے اس پر خود عمل کرنے والے ہی کو کسی قسم کا ثواب نہیں مل سکتا، کجا کہ وہ کسی دوسرے کی طرف منتقل ہو سکے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں صالحین کی حیثیت سے مہمان ہیں ان کو تو ثواب کا ہدیہ یقیناً پہنچے گا مگر جو وہاں مجرم کی حیثیت سے حوالات میں بند ہیں انہیں کوئی ثواب پہنچنا متوقع نہیں ہے ۔ اللہ کے مہمانوں کو ہدیہ تو پہنچ سکتا ہے ، مگر امید نہیں کہ اللہ کے مجرم کو تحفہ پہنچ سکے ۔اس کے لیے اگر کوئی شخص کسی غلط فہمی کی بنا پر ایصال ثواب کرے گا تو اس کا ثواب ضائع نہ ہو گا بلکہ مجرم کو پہنچنے کے بجائے اصل عامل ہی کی طرف پلٹ آئے گا۔ جیسے منی آرڈر اگر مُرسل الیہ کو نہ پہنچے تو مرسل کو واپس مل جاتا ہے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ ایصال ثواب تو ممکن ہے مگر ایصال عذاب ممکن نہیں ہے ۔ یعنی یہ تو ہو سکتا ہے کہ آدمی نیکی کر کے کسی دوسرے کے لیے اجر بخش دے اور وہ اس کو پہنچ جائے، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ آدمی گناہ کر کے اس کا عذاب کسی کو بخشے اور وہ اسے پہنچ جائے۔

اور چوتھی بات یہ ہے کہ نیک عمل کے دو فائدے ہیں۔ ایک اس کے وہ نتائج جو عمل کرنے والے کی اپنی روح اور اس کے اخلاق پر مترتب ہوتے ہیں اور جن کی بنا پر وہ اللہ کے ہاں بھی جزا کا مستحق ہوتا ہے ۔ دوسرے اس کا وہ اجر جو اللہ تعالیٰ بطور انعام اسے دیتا ہے ۔ ایصال ثواب کا تعلق پہلی چیز سے نہیں ہے بلکہ صرف دوسری چیز سے ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہے جسے ایک شخص ورزش کر کے کشتی کے فن میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس سے جو طاقت اور مہارت اس میں پیدا ہوتی ہے وہ بہر حال اس کی ذات ہی کے لیے مخصوص ہے ۔ دوسرے کی طرف وہ منتقل نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اگر وہ کسی دربار کا ملازم ہے اور پہلوان کی حیثیت سے اس کے لیے ایک تنخواہ مقرر ہے تو وہ بھی اسی کو ملے گی، کسی اور کو نہ سے دی جائے گی۔ البتہ جو انعامات اس کی کار کردگی پر خوش ہو کر اس کا سرپرست اسے دے اس کے حق میں وہ درخواست کر سکتا ہے کہ وہ اس کے استاد، یا ماں باپ، یا دوسرے محسنوں کو اس کی طرف سے دے دیے جائیں۔ ایسا ہی معاملہ اعمال حسنہ کا ہے کہ ان کے روحانی فوائد قابل انتقال نہیں ہیں، اور ان کی جزا بھی کسی کو منتقل نہیں ہو سکتی، مگر ان کے اجر و ثواب کے متعلق وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر سکتا ہے کہ وہ اس کے کسی عزیز قریب یا اس کے کسی محسن کو عطا کر دیا جائے۔ اسی لیے اس کو ایصال جزا نہیں بلکہ ایصال ثواب کہا جاتا ہے ۔

(2)۔ ایک شخص کی سعی کے کسی اور شخص کے لیے نافع ہونے کی دوسری شکل یہ ہے کہ آدمی یا تو دوسرے کی خواہش اور ایماء کی بنا پر اس کے لیے کوئی نیک عمل کرے ، یا اس کی خواہش اور ایماء کے بغیر اس کی طرف سے کوئی ایسا عمل کرے جو در اصل واجب تو اس کے ذمہ تھا مگر وہ خود اسے ادا نہ کر سکا۔ اس کے بارے میں فقہاء حنفیہ کہتے ہیں کےعبادات کی تین قسمیں ہیں۔ ایک خالص بدنی، جیسے نماز۔دوسری خالص مالی، جیسے زکوٰۃ۔ اور تیسری مالی و بدنی مرکب، جیسے حج۔ ان میں سے پہلی قسم میں نیابت نہیں چل سکتی، مثلاً ایک شخص کی طرف سے دوسرا شخص نیابۃً نماز نہیں پڑھ سکتا۔ دوسری قسم میں نیابت ہو سکتی ہے ، مثلاً بیوی کے زیورات کی زکوٰۃ شوہر دے سکتا ہے ۔ تیسری قسم میں نیابت صرف اس حالت میں ہو سکتی ہے جب کہ اصل شخص جس کی طرف سے کوئی فعل کیا جا رہا ہے ، اپنا فریضہ خود ادا کرنے سے عارضی طور پر نہیں بلکہ مستقل طور پر عاجز ہو، مثلاً حج بدل ایسے شخص کی طرف سے ہو سکتا ہے جو خود حج کے لیے جانے پر قادر نہ ہو اور نہ یہ امید ہو کہ وہ کبھی اس کے قابل ہو سکے گا۔ مالکہ اور شافیہ بھی اس کے قائل ہیں۔ البتہ امام مالک حج بدل کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ اگر باپ نے وصیت کی ہو کہ اس کا بیٹا اس کے بعد اس کی طرف سے حج کرے تو وہ حج بدل کر سکتا ہے ورنہ نہیں۔ مگر احادیث اس معاملہ میں بالکل صاف ہیں کہ باپ کی ایما یا وصیت ہو یا نہ ہو، بیٹا اس کی طرف سے حج بدل کر سکتا ہے ۔

ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ قبیلہ خُثعم کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عرض کیا کہ میرے باپ کو فریضہ حج کا حکم ایسی حالت میں پہنچا ہے کہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا ہے ، اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ نہیں سکتا۔ آپ نے فرمایا فحُجّی change font عنہ، ’’تو اس کی طرف سے تو حج کر لے ‘‘ (بخاری، مسلم، احمد، ترمذی، نسائی،)۔ قریب قریب اسی مضمون کی روایت حضرت علیؓ نے بھی بیان کی ہے (احمد، ترمذی)۔

حضرت عبداللہؓ بن زبیر قبیلہ خثعم ہی کے ایک مرد کا ذکر کرتے ہیں کہ اس نے بھی اپنے بوڑھے باپ کے متعلق یہی سوال کیا تھا۔ حضورؐ نے پوچھا کیا تو اس کا سب سے بڑا لڑکا ہے ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا :ارایت لو کان علیٰ ابیک دین فقضیتہ عنہ اکان یھزی ذٰلک عنہ؟ ’’ تیرا کیا خیال ہے ، اگر تیرے باپ پر قرض ہو اور تو اس کو ادا کر دے تو وہ اس کی طرف سے ادا ہو جائے گا؟‘‘ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا: فَاحْجُجْ عنہ۔ ’’بس اسی طرح تو اس کی طرف سے حج بھی کر لے ‘‘۔ (احمد۔ نسائی)۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے آ کر عرض کیا کہ میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر وہ اس سے پہلے ہی مر گئی، اب کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا’’ تیری ماں پر اگر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا نہ کر سکتی تھی؟ اسی طرح تم لوگ اللہ کا حق بھی ادا کرو، اور اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کے ساتھ کیے ہوئے عہد پورے کیے جائیں‘‘ (بخاری۔ نسائی)۔ بخاری اور مسند احمد میں ایک دوسری روایت یہ ہے کہ ایک مرد نے آ کر اپنی بہن کے بارے میں وہی سوال کیا جو اوپر مذکور ہوا ہے اور حضورؐ نے اس کو بھی یہی جواب دیا۔

ان روایات سے مالی و بدنی مرکب عبادات میں نیابت کا واضح ثبوت ملتا ہے ۔ رہیں خالص بدنی عبادات تو بعض احادیث ایسی ہیں جن سے اس نوعیت کی عبادات میں بھی نیابت کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔ مثلاً ابن عباسؓ کی یہ روایت کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے حضورؐ سے پوچھا ’’ میری ماں نے روزے کی نذر مانی تھی اور وہ پوری کیے بغیر مر گئی، کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھ سکتی ہوں؟‘‘ حضورؐ نے فرمایا ’’ اس کی طرف سے روزہ رکھ لے ‘‘ (بخاری، مسلم، احمد، نسائی۔ابوداؤد)۔ اور حضرت بریدہؓ کی یہ روایت کہ ایک عورت نے اپنی ماں کے متعلق پوچھا کہ اس کے ذمہ ایک مہینے (یا دوسری روایت کے مطابق دو مہینے ) کے روزے تھے ، کیا میں یہ روزے ادا کر دوں؟ آپ نے اس کو بھی اس کی اجازت دے دی (مسلم، احمد، ترمذی، ابوداؤد)۔ اور حضرت عائشہؓ کی روایت کہ حضورؐ نے فرمایا من مات و علیہ صیام صام عنہ ولیہ، ’’ جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ کچھ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اسکا ولی وہ روزے رکھ لے ‘‘(بخاری، مسلم،احمد۔ بذار کی روایت میں حضورؐ کے الفاظ یہ ہیں کہ فلیصم عنہ ولیہ ان شاء۔ یعنی اس کا ولی اگر چاہے تو اس کی طرف سے یہ روزے رکھ لے )۔ انہی احادیث کی بنا پر اصحاب الحدیث اور امام اَوزاعی اور ظاہریہ اس کے قائل ہیں کہ بدنی عبادات میں بھی نیابت جائز ہے ۔ مگر امام ابو حنیفہ، امام مالک، اور امام شافعی اور امام زید بن علی کا فتویٰ یہ ہے کہ میت کی طرف سے روزہ نہیں رکھا جا سکتا ہے جب کہ مرنے والے نے اس کی نذر مانی ہو اور وہ اسے پورا نہ کر سکا ہو۔ مانعین کا استدلال یہ ہے کہ جن احادیث سے اس کے جواز کا ثبوت ملتا ہے ان کے راویوں نے خود اس کے خلاف فتویٰ دیا ہے ۔ ابن عباس کا فتویٰ نسائی نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ لا یصل احدعن احدٍ، ولا یصم احد عن احدٍ’’ کوئی شخص کسی کی طرف سے نماز پڑھے اور نہ روزہ رکھے ‘‘۔ اور حضرت عائشہ کا فتویٰ عبدالرزاق کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ لا تصو موا عن موتٰکم و اطعمو ا عنہم،‘‘ اپنے مردوں کی طرف سے روزہ نہ رکھو بلکہ کھانا کھلاؤ‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے بھی عبدالرزاق نے یہی بات نقل کی ہے کہ میت کی طرف سے روزہ نہ رکھا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداءً بدنی عبادات میں نیابت کی اجازت تھی، مگر آخری حکم یہی قرار پایا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے ۔ ورنہ کس طرح ممکن تھا کہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ احادیث نقل کی ہیں وہ خود ان کے خلاف فتویٰ دیتے ۔

اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ نیابۃً کسی فریضہ کی ادائیگی صرف ان ہی لوگوں کے حق میں مفید ہو سکتی ہے جو خود ادائے فرض کے خواہش مند ہوں اور معذوری کی وجہ سے قصر رہ گئے ہوں۔ لیکن اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود قصداً حج سے مجتنب رہا اور اس کے دل میں اس فرض کا احساس تک نہ تھا، اس کے لیے خواہ کتنے ہی حج بدل کیے جائیں، وہ اس کے حق میں مفید نہیں ہو سکتے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص نے کسی کا قرض جان بوجھ کر مار کھایا اور مرتے دم تک اس کا کوئی ارادہ قرض ادا کرنے کا نہ تھا۔ اس کی طرف سے خواہ بعد میں پائی پائی ادا کر دی جائے، اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ قرض مارنے والا ہی شمار ہو گا۔ دوسرے کے ادا کرنے سے سبکدوش صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو اپنی زندگی میں ادائے قرض کا خواہش مند ہو اور کسی مجبوری کی وجہ سے ادا نہ کر سکا ہو۔

39. یعنی آخرت میں لوگوں کےا عمال کی جانچ پڑتا ل ہو گی اور یہ دیکھا جائے گا کہ کون کیا کر کے آیا ہے ۔ یہ فقرہ چونکہ پہلے فقرے کے معاً بعد ارشاد ہوا ہے اس لیے اس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ پہلے فقرے کا تعلق آخرت کی جزا و سزا ہی سے ہے اور ان لوگوں کی بات صحیح نہیں ہے جو اسے اس دنیا کے لیے ایک معاشی اصول بنا کر پیش کرتے ہیں۔ قرآن مجید کی کسی آیت کا ایسا مطلب لینا صحیح نہیں ہو سکتا جو سیاق و سباق کے بھی خلاف ہو، اور قرآن کی دوسری تصریحات سے بھی متصادم ہو۔

40. یعنی خوشی اور غم، دونوں کے اسباب اسی کی طرف سے ہیں۔ اچھی اور بری قسمت کا سر رشتہ اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ کسی کو اگر راحت و مسرت نصیب ہوئی ہے تو اسی کے دینے سے ہوئی ہے ۔اور کسی کو مصائب و آلام سے سابقہ پیش آیا ہے تو اسی کی مشیت سے پیش آیا ہے ۔ کوئی دوسری ہستی اس کائنات میں ایسی نہیں ہے جو قسمتوں کے بنانے اور بگاڑنے میں کسی قسم کا دخل رکھتی ہو۔

41. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الروم، حواشی 27تا 30۔ جلد چہارم،الشوریٰ، حاشیہ 77۔

42. اوپر کی دونوں آیتوں کے ساتھ ملا کر اس آیت کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ترتیب کلام سے خودبخود حیات بعد الموت کی دلیل بھی برآمد ہو رہی ہے ۔ جو خدا موت دینے اور زندگی بخشنے پر قدرت رکھتا ہے ۔اور جو خدا نطفے کی حقیر سی بوند سے انسان جیسی مخلوق پیدا کرتا ہے ، بلکہ ایک ہی مادہ تخلیق و طریق پیدائش عورت اور مرد کی دو الگ صنفیں پیدا کر دکھاتا ہے ، اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کچھ دشوار نہیں ہے ۔

43. اصل میں لفظ اَقْنیٰ استعمال ہوا ہے جس کے مختلف معنی اہل لغت اور مفسرین نے بیان کیے ہیں۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے اس کے معنی اَرْضیٰ (راضی کر دیا) بتائے ہیں۔ عکرمہ نے ابن عباس سے اس کے عنی قَنَّعَ (مطمئن کر دیا ) نقل کیے ہیں۔امام رازی کہتے ہیں کہ آدمی کی حاجت سے زیادہ جو کچھ بھی اس کو دیا جائے وہ اِقناء ہے ۔ ابو عبیدہ اور دوسرے متعدد اہل لغت کا قول ہے کہ اَقْنیٰ قُنْیَۃٌ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں باقی اور محفوظ رہنے والا مال، جیسے مکان، اراضی، باغات، مواشی وغیرہ۔ ان سب سے الگ مفہوم ابن زید بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اَقْنیٰ یہاں اَفْقَرَ (فقیر کر دیا) کے معنی میں ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس نے جس کو چاہا غنی کیا اور جسے چاہا فقیر کر دیا۔

44. شَعْریٰ آسمان کا روشن ترین تارا ہے جسے مِرْزم الجوزاء، الکلب الاکبر، الکلب الجبار، الشعری العبور وغیرہ ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ انگریزی میں اس کو Sirius اور Dog Star اورCanis Majoris کہتے ہیں۔ یہ سورج سے 23 گنا زیادہ روشن ہے ، مگر زمین سے اس کا فاصلہ آٹھ سال نوری سے بھی زیادہ ہے اس لیے یہ سورج سے چھوٹا اور کم روشن نظر آتا ہے ۔ اہل مصر اس کی پرستش کرتے تھے ،کیونکہ اس کے طلوع کے زمانے میں نیل کا فَیضان شروع ہوتا تھا، اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ یہ اسی کے طلوع کا فَیضان ہے ۔ جاہلیت میں اہل عرب کا بھی یہ عقیدہ تھا کہ یہ ستارہ لوگوں کی قسمتوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر یہ عرب کے معبودوں میں شامل تھا، اور خاص طور پر قریش کا ہمسایہ قبیلہ خُزَاعَہ اس کی پرستش کے لیے مشہور تھا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشا دکا مطلب یہ ہے کہ تمہاری قسمتیں شعریٰ نہیں بناتا بلکہ اس کا رب بناتا ہے ۔

45. عاد اُولیٰ سے مراد ہے قدیم قوم عاد جس کی طرف حضرت ہود علیہ السلام بھیجے گئے تھے ۔ یہ قوم جب حضرت ہودؑ کو جھٹلانے کی پاداش میں مبتلائے عذاب ہوئی تو صرف وہ لوگ باقی بچے جو ان پر ایمان لائے تھے ۔ ان کی نسل کو تاریخ میں عاد اُخریٰ یا عاد ثانیہ کہتے ہیں۔

46. اَوندھی گرنے والی بستیوں سے مراد قوم لوط کی بستیاں ہیں۔ اور ’’ چھا دیا ان پر جو کچھ چھا دیا‘‘ سے مراد غالباً بحر مردار کا پانی ہے جو ان کی بستیوں کے زمین میں دھنس جانے کے بعد ان پر پھیل گیا تھا اور آج تک وہ اس علاقے پر چھایا ہوا ہے ۔

47. بعض مفسرین کے نزدیک یہ فقرہ بھی صحف ابراہیم اور صحف موسیٰ کی عبارت کا ایک حصہ ہے ۔ اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ فَغَشّٰھَا مَا غَشّیٰ پر وہ عبارت ختم ہو گئی، یہاں سے دوسرا مضمون شروع ہوتا ہے ۔ سیاق کلام کو دیکھتے ہوئے پہلا قول ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ کیونکہ بعد کی یہ عبارت کہ ’’ یہ ایک تنبیہ ہے پہلے آئی ہوئی تنبیہات میں سے ‘‘، اس امر کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اس سے پہلے کی تمام عبارت پچھلی تنبیہات میں سے ہے جو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت موسیٰؑ کے صحیفوں میں ارشاد ہوئی تھیں۔

48. اصل میں لفظ تَتَمَاریٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی شک کرنے کے بھی ہیں اور جھگڑنے کے بھی خطاب ہر سامع سے ہے ۔ جو شخص بھی اس کلام کو سن رہا ہو اس کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جھٹلانے اور ان کے بارے میں پیغمبروں سے جھگڑا کرنے کا جو انجام انسانی تاریخ میں ہو چکا ہے ، کیا اس کے بعد بھی تو اسی حماقت کا ارتکاب کرے گا؟ پچھلی قوموں نے یہی تو شک کیا تھا کہ جن نعمتوں سے ہم اس دنیا میں مستفید ہو رہے ہیں یہ خدائے واحد کی نعمتیں ہیں، یا کوئی اور بھی ان کے مہیا کرنے میں شریک ہے ، یا یہ کسی کی فراہم کی ہوئی نہیں ہیں بلکہ آپ سے آپ فراہم ہو گئی ہیں۔ اسی شک کی بنا پر انہوں نے انبیاء علیہم السلام سے جھگڑا کیا تھا۔ انبیاء ان سے کہتے تھے کہ یہ ساری نعمتیں تمہیں خدا نے ، اور اکیلے ایک ہی خدا نے عطا کی ہیں، اس لیے اسی کا تمہیں شکر گزار ہونا چاہیے اور اسی کی تم کو بندگی بجا لانی چاہیے ۔ مگر وہ لوگ اس کو نہیں مانتے تھے اور اسی بات پر انبیاء سے جھگڑتے تھے ۔ اب کیا تجھے تاریخ میں یہ نظر نہیں آتا کہ یہ قومیں اپنے اس شک اور اس جھگڑے کا کیا انجام دیکھ چکی ہیں؟ کیا تو بھی وہی شک اور وہی جھگڑا کرے گا جو دوسروں کے لیے تباہ کن ثابت ہو چکا ہے ؟

اس سلسلے میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ عاد اور ثمود اور قوم نوح کے لوگ حضرت ابراہیمؑ سے پہلے گزر چکے تھے اور قوم لوط خود حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں مبتلائے عذاب ہوئی تھی۔ اس لیے اس عبارت کے صحف ابراہیم کا ایک حصہ ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔

50. یعنی یہ خیال نہ کرو کہ سوچنے کے لیے ابھی بہت وقت پڑا ہے ، کیا جلدی ہے کہ ان باتوں پر ہم فوراً ہی سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور انہیں ماننے کا بلا تاخیر فیصلہ کر ڈالیں۔ نہیں، تم میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کے لیے زندگی کی کتنی مہلت باقی ہے ۔ ہر وقت تم میں سے ہر شخص کی موت بھی آسکتی ہے ، اور قیامت بھی اچانک پیش آسکتی ہے ۔ اس لیے فیصلے کی گھڑی کو دور نہ سمجھو۔ جس کو بھی اپنی عاقبت کی فکر کرنی ہے وہ ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر سنبھل جائے۔ کیونکہ ہر سانس کے بعد یہ ممکن ہے کہ دوسرا سانس لینے کی نوبت نہ آئے۔

51. یعنی فیصلے کی گھڑی جب آ جائے گی تو نہ تم اسے روک سکو گے اور نہ تمہارے معبود ان غیر اللہ میں سے کسی کا یہ بل بوتا ہے کہ وہ اس کو ٹال سکے ۔ ٹال سکتا ہے تو اللہ ہی ٹال سکتا ہے ، اور وہ اسے ٹالنے والا نہیں ہے ۔

52. اصل میں لفظ ھٰذَا الْحَدِیْث استعمال ہوا ہے جس سے مراد وہ ساری تعلیم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ سے قرآن مجید میں پیش کی جا رہی تھی۔ اور تعجب سے مراد وہ تعجب ہے جس کا اظہار آدمی کسی انوکھی اور ناقابل یقین بات کو سن کر کیا کرتا ہے ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جس چیز کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہ یہی کچھ تو ہے جو تم نے سن لی۔ اب کیا یہی وہ باتیں ہیں جن پر تم کان کھڑے کرتے ہو اور حیرت سے اس طرح منہ تکتے ہو کہ گویا کوئی بڑی عجیب اور نرالی باتیں تمہیں سنائی جا رہی ہیں؟

53. یعنی بجائے اس کے کہ تمہیں اپنی جہالت و گمراہی پر رونا آتا، تم لوگ الٹا اس صداقت کا مذاق اڑاتے ہو جو تمہارے سامنے پیش کی جا رہی ہے ۔

54. اصل میں لفظ سَا مِدُوْنَ استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی اہل لغت نے بیان کیے ہیں۔ ابن عباس عکرمہ اور ابو عبیدہ نحوی کا قول ہے کہ یمنی زبان میں سُمُود کے معنی گانے بجانے کے ہیں اور آیت کا اشارہ اس طرف ہے کہ کفار مکہ قرآن کی آواز کو دبانے اور لوگوں کی توجہ دوسری طرف ہٹانے کے لیے زور زور سے گانا شروع کر دیتے تھے ۔ دوسرے معنی ابن عباس اور مجاہد نے یہ بیان کیے ہیں کہ السّمود البرْ طَمَۃ وھی رفع الراس تکبرا، کانو ایمرون علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم غضابا مبرطمین۔ یعنی سُمود تکبر کے طور پر سر نیوڑھانے کو کہتے ہیں، کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے جب گزر تے تو غصے کے ساتھ منہ اوپر اٹھائے ہوئے نکل جاتے تھے ۔ راغب اصفہانی نے مفردات میں بھی یہی معنی اختیار کیے ہیں، اور اسی معنی کے لحاظ سے سامدُون کا مفہوم قتادہ نے غافِلون اور سعید بن جبیر نے معرضون بیان کیا ہے ۔