Tafheem ul Quran

Surah 54 Al-Qamar, Ayat 1-22

اِقۡتَـرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الۡقَمَرُ‏ ﴿54:1﴾ وَاِنۡ يَّرَوۡا اٰيَةً يُّعۡرِضُوۡا وَيَقُوۡلُوۡا سِحۡرٌ مُّسۡتَمِرٌّ‏ ﴿54:2﴾ وَكَذَّبُوۡا وَاتَّبَعُوۡۤا اَهۡوَآءَهُمۡ​ وَكُلُّ اَمۡرٍ مُّسۡتَقِرٌّ‏ ﴿54:3﴾ وَلَقَدۡ جَآءَهُمۡ مِّنَ الۡاَنۡۢبَآءِ مَا فِيۡهِ مُزۡدَجَرٌۙ‏ ﴿54:4﴾ حِكۡمَةٌ ۢ بَالِغَةٌ​ فَمَا تُغۡنِ النُّذُرُۙ‏ ﴿54:5﴾ فَتَوَلَّ عَنۡهُمۡ​ۘ يَوۡمَ يَدۡعُ الدَّاعِ اِلٰى شَىۡءٍ نُّكُرٍۙ‏ ﴿54:6﴾ خُشَّعًا اَبۡصَارُهُمۡ يَخۡرُجُوۡنَ مِنَ الۡاَجۡدَاثِ كَاَنَّهُمۡ جَرَادٌ مُّنۡتَشِرٌۙ‏ ﴿54:7﴾ مُّهۡطِعِيۡنَ اِلَى الدَّاعِ​ؕ يَقُوۡلُ الۡكٰفِرُوۡنَ هٰذَا يَوۡمٌ عَسِرٌ‏  ﴿54:8﴾ كَذَّبَتۡ قَبۡلَهُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ فَكَذَّبُوۡا عَبۡدَنَا وَقَالُوۡا مَجۡنُوۡنٌ وَّازۡدُجِرَ‏ ﴿54:9﴾ فَدَعَا رَبَّهٗۤ اَنِّىۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانْـتَصِرۡ‏ ﴿54:10﴾ فَفَتَحۡنَاۤ اَبۡوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنۡهَمِرٍ ۖ‏ ﴿54:11﴾ وَّفَجَّرۡنَا الۡاَرۡضَ عُيُوۡنًا فَالۡتَقَى الۡمَآءُ عَلٰٓى اَمۡرٍ قَدۡ قُدِرَ​ۚ‏ ﴿54:12﴾ وَحَمَلۡنٰهُ عَلٰى ذَاتِ اَلۡوَاحٍ وَّدُسُرٍۙ‏ ﴿54:13﴾ تَجۡرِىۡ بِاَعۡيُنِنَا​ۚ جَزَآءً لِّمَنۡ كَانَ كُفِرَ‏ ﴿54:14﴾ وَلَقَدْ تَّرَكۡنٰهَاۤ اٰيَةً فَهَلۡ مِنۡ مُّدَّكِرٍ‏ ﴿54:15﴾ فَكَيۡفَ كَانَ عَذَابِىۡ وَنُذُرِ‏ ﴿54:16﴾ وَلَقَدۡ يَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّكۡرِ فَهَلۡ مِنۡ مُّدَّكِرٍ‏ ﴿54:17﴾ كَذَّبَتۡ عَادٌ فَكَيۡفَ كَانَ عَذَابِىۡ وَنُذُرِ‏ ﴿54:18﴾ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا عَلَيۡهِمۡ رِيۡحًا صَرۡصَرًا فِىۡ يَوۡمِ نَحۡسٍ مُّسۡتَمِرٍّۙ‏  ﴿54:19﴾ تَنۡزِعُ النَّاسَۙ كَاَنَّهُمۡ اَعۡجَازُ نَخۡلٍ مُّنۡقَعِرٍ‏ ﴿54:20﴾ فَكَيۡفَ كَانَ عَذَابِىۡ وَنُذُرِ‏ ﴿54:21﴾ وَلَقَدۡ يَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّكۡرِ فَهَلۡ مِنۡ مُّدَّكِرٍ‏ ﴿54:22﴾

1 - قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔ 1 2 - مگر اِن لوگوں کا حال یہ ہے خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔ 2 3 - اِنہوں نے (اس کو بھی) جھٹلادیا اور اپنی خواہشاتِ نفس ہی کی پیروی کی۔ 3 ہر معاملہ کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے۔ 4 4 - اِن لوگوں کے سامنے (پچھلی قوموں کے) وہ حالات آچکے ہیں جن میں سر کشی سے بازرکھنے کے لیے کافی سامانِ عبرت ہے 5 - اور ایسی حکمت جو نصیحت کے مقصد کو بدرجہٴ اَتَم پوُرا کرتی ہے۔ مگر تنبیہات اِن پر کار گر نہیں ہوتیں ۔ 6 - پس اے نبیؐ ، اِن سے رُخ پھیر لو۔ 5 جس روز پکارنے والا ایک سخت ناگوار 6 چیز کی طرف پکارے گا، 7 - لوگ سہمی ہوئی نگاہوں کے ساتھ 7 اپنی قبروں سے 8 اِس طرح نکلیں گے گویا وہ بکھری ہوئی ٹِڈیاں ہیں۔ 8 - پکارنے والے کی طرف دوڑے جا رہے ہوں گےاور وہی منکرین (جو دنیا میں اس کا انکار کرتے تھے) اُس وقت کہیں گے کہ یہ دن تو بڑا کَٹھن ہے۔ 9 - اِن سے پہلے نوحؑ کی قوم جھٹلا چکی ہے۔ 9 اُنہوں نے ہمارے بندے کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ یہ دیوانہ ہے، اور وہ بری طرح جِھڑکا گیا۔ 10 10 - آخر کار اُس نے اپنے رب کو پکارا کہ ”میں مغلوب ہوچکا ، اب تُو اِن سے انتقام لے۔“ 11 - تب ہم نے موسلادھار بارش سے آسمان کے دروازے کھول دیے 12 - اور زمین کو پھاڑ کر چشموں میں تبدیل کر دیا، 11 اور یہ سارا پانی اُس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گیا جو مقدّر ہو چکا تھا ، 13 - اور نوح ؑ کو ہم نے ایک تختوں اور کیلوں والی 12 پر سوار کر دیا 14 - جو ہماری نگرانی میں چل رہی تھی۔ یہ تھا بدلہ اُس شخص کی خاطر جس کی ناقدری کی گئی تھی۔ 13 15 - اُس کشتی کو ہم نے ایک نشانی بنا کر چھوڑ دیا 14 ، پھر کوئی ہے نصیحت قبول کرنے والا؟ 16 - دیکھ لو، کیسا تھا میرا عذاب اور کیسی تھیں میری تنبیہات۔ 17 - ہم نےاِس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، 15 پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟ 18 - عاد نے جھٹلایا، تو دیکھ لو کہ کیسا تھا میرا عذاب اور کیسی تھیں میری تنبیہات۔ 19 - ہم نے ایک پیہم نحوست کے دن 16 سخت طوفانی ہوا اُن پر بھیج دی 20 - جو لوگوں کو اُٹھا اُٹھا کر اِس طرح پھینک رہی تھی جیسے وہ جڑ سے اُکھڑے ہوئے کھجور کے تنے ہوں ۔ 21 - پس دیکھ لو کہ کیسا تھا میرا عذاب اور کیسی تھیں میری تنبیہات۔ 22 - ہم نے اِس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟ ؏۱


Notes

1.یعنی چاند کا پھٹ جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ قیامت کی گھڑی ، جس کے آنے کی تم لوگوں کو خبر دی جاتی رہی ہے ، قریب آ لگی ہے اور نظام عالم کےدرہم برہم ہونے کا آغاز ہو گیا ہے ۔ نیز یہ واقعہ کہ چاند جیسا ایک عظیم کُرہ شق ہو کر دو ٹکڑے ہو گیا ، اس امر کا کھلا ثبوت ہے کہ جس قیامت کا تم سے ذکر کیاجا رہا ہے وہ برپا ہو سکتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب چاند پھٹ سکتا ہے تو زمین بھی پھٹ سکتی ہے ، تاروں اور سیاروں کے مدار بھی بدل سکتے ہیں اور افلاک کا یہ سارا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے ۔ اس میں کوئی چیز ازلی و ابدی اور دائم و مستقل نہیں ہے کہ قیامت برپا نہ ہو سکے ۔ بعض لوگوں نے اس فقرے کا مطلب یہ لیا ہے کہ ’’ چاند پھٹ جائے گا‘‘۔ لیکن عربی زبان کے لحاظ سے چاہے یہ مطلب لینا ممکن ہو ، عبارت کا سیاق و سباق اس معنی کو قبول کرنے سے صاف انکار کرتا ہے ۔ اول تو یہ مطلب لینے سے پہلا فقرہ ہی بے معنی ہو جاتا ہے ۔ چاند اگر اس کلام کے نزول کے وقت پھٹا نہیں تھا، بلکہ وہ آئندہ کبھی پھٹنے والا ہے تو اس کی بنا پر یہ کہنا بالکل مہمل بات ہے کہ قیامت کی گھڑی قریب آ گئی ہے ۔ آخر مستقبل میں پیش آنے والا کوئی واقعہ اس کے قرب کی علامت کیسے قرار پا سکتا ہے کہ اسے شہادت کے طور پر پیش کرنا ایک معقول طرز استدلال ہو۔ دوسرے ، یہ مطلب لینے کے بعد جب ہم آگے کی عبارت پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتی ۔ آگے کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ لوگوں نے اس وقت کوئی نشانی دیکھی تھی جو امکان قیامت کی صریح علامت تھی مگر انہوں نے اسے جادو کا کرشمہ قرار دے کر جھٹلا دیا اور اپنے اس خیال پر جمے رہے کہ قیامت کا آنا ممکن نہیں ہے ۔اس سیاق و سباق میں اِنْشَقَّ الْقَمَرُ کے الفاظ اسی صورت میں ٹھیک بیٹھ سکتے ہیں جب کہ ان کا مطلب ’’ چاند پھٹ گیا ‘‘ ہو ۔’’ پھٹ جائے گا‘‘ کے معنی میں ان کو لے لیا جائے تو بعد کی ساری بات بے جوڑ ہو جاتی ہے ۔ سلسلہ کلام میں اس فقرے کو رکھ کر دیکھ لیجیے ، آپ کو خود محسوس ہو جائے گا کہ اس کی وجہ سے ساری عبارت بے معنی ہو گئی ہے : ’’قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ جائے گا۔ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں ، منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے ۔ انہوں نے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی‘‘۔ پس حقیقت یہ ہے کہ شق القمر کا واقعہ قرآن کے صریح الفاظ سے ثابت ہے اور حدیث کی روایات پر اس کا انحصار نہیں ہے ۔ البتہ روایات سے اس کی تفصیلات معلوم ہوتی ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ یہ کب اور کیسے پیش آیا تھا۔ یہ روایات بخاری، مسلم ، ترمذی، احمد، ابو عوانہ، ابو داؤد طیالسی، عبدالرزاق، ابن جریر ، بیہقی، طبرانی، ابن مردویہ اور ابو نعیم اصفہانی نے بکثرت سندوں کے ساتھ حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت حذیفہ ، حضرت انس بن مالک اور حضرت جبیر بن مطعم سے نقل کی ہیں ۔ ان میں سے تین بزرگ، یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت حذیفہ اور حضرت جبیر بن مطعم تصریح کرتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں ۔ اور دو بزرگ ایسے ہیں جو اس کے عینی شاہد نہیں ہو سکتے ، کیونکہ یہ ان میں سے ایک (یعنی عبداللہ بن عباس) کی پیدائش سے پہلے کا واقعہ ہے ، اور دوسرے (یعنی انس بن مالک) اس وقت بچے تھے ۔ لیکن چونکہ یہ دونوں حضرات صحابی ہیں اس لیے ظاہر ہے کہ انہوں نے ایسے سن رسیدہ صحابیوں سے سن کر ہی اسے روایت کیا ہو گا جو اس واقعہ کا براہ راست علم رکھتے تھے ۔ تمام روایات کو جمع کرنے سے اس کی جو تفصیلات معلوم ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ قمری مہینے کی چودھویں شب تھی۔ چاند ابھی ابھی طلوع ہوا تھا۔ یکایک وہ پھٹا اور اس کا ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا۔ یہ کیفیت بس ایک ہی لحظہ رہی اور پھر دونوں ٹکڑے باہم جڑ گئے۔ نبی صلی الہ علیہ و سلم اس وقت منیٰ میں تشریف فرما تھے ۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا دیکھو اور گواہ رہو۔ کفار نے کہا محمد صلی الہ علیہ و سلم نے ہم پر جادو کر دیا تھا اس لیے ہماری آنکھوں نے دھوکا کھایا۔ دوسرے لوگ بولے کہ محمدؐ ہم پر جادو کر سکتے تھے ، تمام لوگوں پر تو نہیں کر سکتے تھے ۔ باہر کے لوگوں کو آنے دو۔ ان سے پوچھیں گے کہ یہ واقعہ انہوں نے بھی دیکھا ہے یا نہیں ۔ باہر سے جب کچھ لوگ آئے تو انہوں نے شہادت دی کہ وہ بھی یہ منظر دیکھ چکے ہیں ۔ بعض روایات جو حضرت انس سے مروی ہیں ان کی بنا پر یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شق القمر کا واقعہ ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ پیش آیا تھا ۔ لیکن اول تو صحابہ میں سے کسی اور نے یہ بات بیان نہیں کی ہے ۔ دوسرے خود حضرت انس کی بھی بعض روایات میں مرتین(دو مرتبہ) کے الفاظ ہیں اور بعض میں فِرقیتن اور شقیتن (دو ٹکڑے ) کے الفاظ ۔ تیسرے یہ کہ قرآن مجید صرف ایک ہی انشقاق کا ذکر کرتا ہے ۔ اس بنا پر صحیح بات یہی ہے کہ یہ واقعہ صرف ایک مرتبہ پیش آیا تھا۔ رہے وہ قصے جو عوام میں مشہور ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کیا اور وہ دو ٹکڑے ہو گیا اور یہ کہ چاند کا ایک ٹکڑا حضورؐ کے گریبان میں داخل ہو کر آپ کی آستین سے نکل گیا، تو یہ بالکل ہی بے اصل ہیں ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی حقیقی نوعیت کیا تھی؟ کیا یہ ایک معجزہ تھا جو کفار مکہ کے مطالبہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی رسالت کے ثبوت میں دکھایا تھا ؟ یا یہ ایک حادثہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے چاند میں پیش آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو اس کی طرف توجہ صرف اس غرض کے لیے دلائی کہ یہ امکان قیامت اور قرب قیامت کی ایک نشانی ہے ؟علماء اسلام کا ایک بڑا گروہ اسے حضورؐ کے معجزات میں شمار کرتا ہے اور ان کا خیال یہ ہے کہ کفار کے مطالبہ پر یہ معجزہ دکھایا گیا تھا۔ لیکن اس رائے کا مدار صر ف بعض ان روایات پر ہے جو حضرت انس سے مروی ہیں ۔ ان کے سوا کسی صحابی نے بھی یہ بات بیان نہیں کی ہے ۔ فتح الباری میں ابن حجر کہتے ہیں کہ ’’ یہ قصہ جتنے طریقوں سے منقول ہوا ہے ان میں سے کسی میں بھی حضرت انس کی حدیث کے سوا یہ مضمون میری نگاہ سے نہیں گزرا کہ شق القمر کا واقعہ مشرکین کے مطالبہ پر ہوا تھا۔ ‘‘ (باب انشقاق القمر)۔ ایک روایت ابو نعیم اصفہانی نے دلائل النبوۃ میں حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اس مضمون کی نقل کی ہے ، مگر اس کی سند ضعیف ہے ، اور قوی سندوں سے جتنی روایات کتب حدیث میں ابن عباس سے منقول ہوئی ہیں ان میں سے کسی میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے ۔ علاوہ بریں حضرت انس اور حضرت عبداللہ بن عباس، دونوں اس واقعہ کے ہم عصر نہیں ہیں ۔ بخلاف اس کے جو صحابہ اس زمانے میں موجود تھے ، حضرت عبداللہ بنؓ مسعود ،حضرت حذیفہؓ ، حضرت جبیر بن مطعم، حضرت علیؓ ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ مشرکین مکہ نے حضور کی صداقت کے ثبوت میں کسی نشانی کا مطالبہ کیا تھا اور اس پر شق القمر کا یہ معجزہ ان کو دکھایا گیا ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن مجید خود بھی اس واقعہ کو رسالت محمدی کی نہیں بلکہ قرب قیامت کی نشانی کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔ البتہ یہ اس لحاظ سے حضور کی صداقت کا ایک نمایاں ثبوت ضرور تھا کہ آپ نے قیامت کے آنے کی جو خبریں لوگوں کو دی تھیں ، یہ واقعہ ان کی تصدیق کر رہا تھا۔

معترضین اس پر دو طرح کے اعتراضات کرتے ہیں ۔اول تو ان کے نزدیک ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے کہ چاند جیسے عظیم کرّے کے دو ٹکڑے پھٹ کر الگ ہو جائیں اور سینکڑوں میل کے فاصلے تک ایک دوسرے سے دور جانے کے بعد پھر باہم جڑ جائیں ۔ دوسرے ، وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ واقعہ دنیا بھر میں مشہور ہو جاتا، تاریخوں میں اس کا ذکر آتا ، اور علم نجوم کی کتابوں میں اسے بیان کیا جاتا۔ لیکن در حقیقت یہ دونوں اعتراضات بے وزن ہیں ۔ جہاں تک اس کے امکان کی بحث ہے ، قدیم زمانے میں تو شاید وہ چل بھی سکتی تھی، لیکن موجودہ دور میں سیاروں کی ساخت کے متعلق انسان کو جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کی بنا پر یہ بات بالکل ممکن ہے کہ ایک کرّہ اپنے اندر کی آتش فشانی کے باعث پھٹ جائے اور اس زبردست انفجار سے اس کے دو ٹکڑے دور تک چلے جائیں ، اور پھر اپنے مرکز کی مقناطیسی قوت کے سبب سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ آ ملیں ۔ رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے بے وزن ہے کہ یہ واقعہ اچانک بس ایک لحظہ کے لیے پیش آیا تھا۔ ضروری نہیں تھا کہ اس خاص لمحے میں دنیا بھر کی نگاہیں چاند کی طرف لگی ہوئی ہوں ۔ اس سے کوئی دھماکا نہیں ہوا تھا کہ لوگوں کی توجہ اس کی طرف منعطف ہوتی ۔ پہلے سے کوئی اطلاع اس کی نہ تھی کہ لوگ اس کے منتظر ہو کر آسمان کی طرف دیکھ رہے ہوتے ۔ پوری روئے زمین پر اسے دیکھا بھی نہیں جا سکتا تھا، بلکہ صرف عرب اور اس کے مشرقی جانب کے ممالک ہی میں اس وقت چاند نکلا ہوا تھا۔ تاریخ نگاری کا ذوق اور فن بھی اس وقت تک اتنا ترقی یافتہ نہ تھا کہ مشرقی ممالک میں جن لوگوں نے اسے دیکھا ہوتا وہ اسے ثبت کر لیتے اور کسی مؤرخ کے پاس یہ شہادتیں جمع ہوتیں اور وہ تاریخ کی کسی کتاب میں ان کو درج کر لیتا۔ تا ہم مالابار کی تاریخوں میں یہ ذکر آیا ہے کہ اس رات وہاں کے ایک راجہ نے یہ منظر دیکھا تھا۔ رہیں علم نجوم کی کتابیں اور جنتریاں ، تو ان میں اس کا ذکر آنا صرف اس حالت میں ضروری تھا جبکہ چاند کی رفتار، اور اس کی گردش کے راستے ، اور اس کے طلوع و غروب کے اوقات میں اس سے کوئی فرق واقع ہوا ہوتا۔ یہ صورت چونکہ پیش نہیں آئی اس لیے قدیم زمانے کے اہل تنجیم کی توجہ اس کی طرف منعطف نہیں ہوئی۔ اس زمانے میں رصد گاہیں اس حد تک ترقی یافتہ نہ تھیں کہ افلاک میں پیش آنے والے ہر واقعہ کا نوٹس لیتیں اور اس کو ریکارڈ پر محفوظ کر لیتیں ۔

2.الفاظ ہیں سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ۔ اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ معاذاللہ ، شب و روز کی جادوگری کا جو سلسلہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے چلا رکھا ہے ، یہ جادو بھی اسی میں سے ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ پکا جادو ہے ، بڑی مہارت سے دکھا یا گیا ہے ۔ تیسرے یہ کہ جس طرح اور جادو گزر گئے ہیں ، یہ بھی گزر جائے گا، اس کا کوئی دیر پا اثر رہنے والا نہیں ہے ۔

3. یعنی جو فیصلہ انہوں نے قیامت کو نہ ماننے کا کر رکھا ہے ، اس نشانی کو دیکھ کر بھی یہ اسی پر جمے رہے ۔ قیامت کو مان لینا چونکہ ان کی خواہشات نفس کے خلاف تھا اس لیے صریح مشاہدے کے بعد بھی یہ اسے تسلیم کرنے پر راضی نہ ہوئے۔

4.مطلب یہ ہےکہ یہ سلسلہ بلا نہایت نہیں چل سکتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تمہیں حق کی طرف بلاتے رہیں ، اور تم ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے باطل پر جمے رہو، اور ان کا حق پر ہونا اور تمہارا باطل پر ہونا کبھی ثابت نہ ہو۔ تمام معاملات آخر کار ایک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں ، اسی طرح تمہاری اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اس کشمکش کا بھی لا محالہ ایک انجام ہے جس پر یہ پہنچ کر رہے گی۔ ایک وقت لازماً ایسا آنا ہے جب علی الاعلان یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ حق پر تھے اور تم سراسر باطل کی پیروی کر رہے تھے ۔ اسی طرح حق پرست اپنی حق پرستی کا، اور باطل پرست اپنی باطل پرستی کا نتیجہ بھی ایک دن ضرور دیکھ کر رہیں گے ۔

5.بالفاظ دیگر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ جب انہیں زیادہ سے زیادہ معقول طریقہ سے سمجھایا جا چکا ہے ، اور انسانی تاریخ سے مثالیں دے کر بھی بتا دیا گیا ہے کہ انکار آخرت کے نتائج کیا ہیں اور رسولوں کی بات نہ ماننے کا کیا عبرتناک انجام دوسری قومیں دیکھ چکی ہیں ، پھر بھی یہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے ، تو انہیں اسی حماقت میں پڑا رہنے دو۔ اب یہ اسی وقت مانیں گے جب مرنے کے بعد قبروں سے نکل کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ وہ قیامت واقعی برپا ہو گئی جس سے قبل از وقت خبردار کر کے راہ راست اختیار کر لینے کا مشورہ انہیں دیا جا رہا تھا۔

6.دوسرا مطلب انجانی چیز بھی ہو سکتا ہے ۔ یعنی ایسی چیز جو کبھی ان کے سان گمان میں بھی نہ تھی ، جس کا کوئی نقشہ اور کوئی تصور ان کے ذہن میں نہ تھا، جس کا کوئی اندازہ ہی وہ نہ کر سکتے تھے کہ یہ کچھ بھی کبھی پیش آ سکتا ہے ۔

7.اصل الفاظ ہیں خُشَّعاً اَبصَا رُھُمْ، یعنی ان کی نگاہیں خشوع کی حالت میں ہوں گی۔ اس کے کئیمطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ان پر خوف زدگی طاری ہو گی۔ دوسرے یہ کہ ذلت اور ندامت ان سے جھلک رہی ہو گی کیونکہ قبروں سے نکلتے ہیں انہیں محسوس ہو جائے گا کہ یہ وہی دوسری زندگی ہے جس کا ہم انکار کرتے تھے ، جس کے لیے کوئی تیاری کر کے ہم نہیں آئے ہیں ، جس میں اب مجرم کی حیثیت سے ہمیں اپنے خدا کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ تیسرے یہ کہ وہ گھبرائے ہوئے اس ہولناک منظر کو دیکھ رہے ہوں گے جو ان کے سامنے ہو گا،اس سے نظر ہٹانے کا انہیں ہوش نہ ہو گا۔

8.قبروں سے مراد وہی قبریں نہیں ہیں جن میں کسی شخص کو زمین کھود کر باقاعدہ دفن کیا گیا ہو۔ بلکہ جس جگہ بھی کوئی شخص مرا تھا، یا جہاں بھی اس کی خاک پڑی ہوئی تھی، وہیں سے وہ محشر کی طرف پکارنے والے کی ایک آواز پر اٹھ کھڑا ہو گا ۔

9.یعنی اس خبر کو جھٹلا چکی ہے کہ آخرت برپا ہونی ہے جس میں انسان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا، اس نبی کی نبوت کو جھٹلا چکی ہے جو اپنی قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کر رہا تھا، اور نبی کی اس تعلیم کو جھٹلا چکی ہے جو یہ بتاتی تھی کہ آخرت کی باز پرس میں کامیاب ہونے کے لیے لوگوں کو کیا عقیدہ اور کیا عمل اختیار کرنا چاہیے اور کس چیز سے بچنا چاہیے ۔

10.یعنی ان لوگوں نے محض نبی کی تکذیب ہی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ الٹا اسے دیوانہ قرار دیا ، اس کو دھمکیاں دیں ، اس پر لعنت ملامت کی بوچھاڑ کی، اسے ڈانٹ ڈپٹ کر صداقت کی تبلیغ سے باز رکھنے کی کوشش کی، اور اس کا جینا دوبھر کر دیا۔

11.یعنی اللہ کے حکم سے زمین اس طرح پھوٹ بہی کہ گویا وہ زمین نہ تھی بلکہ بس چشمے ہی چشمے تھے ۔

12.مراد ہے وہ کشتی جو طوفان کی آمد سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق حضرت نوح نے بنا لی تھی۔

13.۔ اصل الفاظ ہیں جَزَاءً لِّمَنْکَانَ کُفِرَ ، یعنی ’’ یہ سب کچھ اس شخص کی خاطر بدلہ لینے کے لیے کیا گیا جس کا کفر کیا گیا تھا۔ ‘‘ کفر اگر انکار کے معنی میں ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ ’’ جس کی بات ماننے سے انکار کیا گیا تھا‘‘ اور اگر اسے کفرانِ نعمت کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ ’’ جس کا وجود ایک نعمت تھا مگر اس کی ناقدری کی گئی تھی‘‘۔

14.یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ہم نے اس عقوبت کو ایک نشان عبرت بنا کر چھوڑ دیا ۔ لیکن ہمارے نزدیک زیادہ قابل ترجیح معنی یہ ہیں کہ اس کشتی کو نشان عبرت بنا دیا گیا ۔ ایک بلند و بالا پہاڑ پر اس کا موجود ہونا سینکڑوں ہزاروں برس تک لوگوں کو خدا کے غضب سے خبردار کرتا رہا اور انہیں یاد دلاتا رہا کہ اس سرزمین پر خدا کی نافرمانی کرنے والوں کی کیسی شامت آئی تھی اور ایمان لانے والوں کو کس طرح اس سے بچایا گیا تھا۔ امام بخاری ، ابن ابی حاتم، عبدالرزاق اور ابن جریر نے قتادہ سے یہ روایات نقل کی ہیں کہ مسلمانوں کی فتح عراق و الجزیرہ کے زمانے میں یہ کشتی جودی پر (اور ایک روایت کے مطابق باقِردیٰ نامی بستی کے قریب) موجود تھی اور ابتدائی دور کے اہل اسلام نے اس کو دیکھا تھا۔ موجودہ زمانے میں بھی ہوائی جہازوں سے پرواز کرتے ہوئے بعض لوگوں نے اس علاقے کی ایک چوٹی پر ایک کشتی نما چیز پڑی دیکھی ہے جس پر شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ سفینہ نوح ہے ، اور اسی بنا پر وقتاً فوقتاً اس کی تلاش کے لیے مہمات جاتی رہی ہیں ۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ 47، ہود، حاشیہ 46۔ جلد سوم، العنکبوت، حاشیہ 25)۔

15.بعض لوگوں نے یَسَّرْنَا الْقُراٰنَ کے الفاظ سے یہ غلط مطلب نکال لیا ہے کہ قرآن ایک آسان کتاب ہے ، اسے سمجھنے کے لیے کسی علم کی ضرورت نہیں ، حتیٰ کہ عربی زبان تک سے واقفیت کے بغیر جو شخص چاہے اس کی تفسیر کر سکتا ہے اور حدیث و فقہ سے بے نیاز ہو کر اس کی آیات سے جو احکام چاہے مستنبط کر سکتا ہے ۔ حالانکہ جس سیاق و سباق میں یہ الفاظ آئے ہیں اس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ارشاد کا مدعا لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ نصیحت کا ایک ذریعہ تو ہیں وہ عبرتناک عذاب جو سرکش قوموں پر نازل ہوئے، اور دوسرا ذریعہ ہے یہ قرآن جو دلائل اور وعظ و تلقین سے تم کو سیدھا راستہ بتا رہا ہے ۔ اس ذریعہ کے مقابلے میں نصیحت کا یہ ذریعہ زیادہ آسان ہے ۔ پھر کیوں تم اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور عذاب ہی دیکھنے پر اصرار کیے جاتے ہو؟ یہ تو سراسر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اپنے نبی کے ذریعہ سے یہ کتاب بھیج کر وہ تمہیں خبردار کر رہا ہے کہ جن راہوں پر تم لوگ جا رہے ہو وہ کس تباہی کی طرف جاتی ہیں اور تمہاری خیر کس راہ میں ہے ۔ نصیحت کا یہ طریقہ اسی لیے تو اختیار کیا گیا ہے کہ تباہی کے گڑھے میں گرنے سے پہلے تمہیں اس سے بچا لیا جائے۔اب اس سے زیادہ نادان اور کون ہو گا جو سیدھی طرح سمجھانے سے نہ مانے اور گڑھے میں گر کر ہی یہ تسلیم کرے کہ واقعی یہ گڑھا تھا۔

16.یعنی ایک ایسے دن جس کی نحوست کئی روز تک مسلسل جاری رہی ۔ سورہ حٰم لسجدہ، آیت 16 میں فِیْ اَیَّا مٍ نَّحِسَتٍ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، اور سورہ الحاقہ آیت 7 میں فرمایا گیا ہے کہ ہوا کا یہ طوفان مسلسل سات رات اور آٹھ دن جاری رہا ۔ مشہور یہ ہے کہ جس دن یہ عذاب شروع ہوا وہ بدھ کا دن تھا۔ اسی سے لوگوں میں یہ خیال پھیل گیا کہ بدھ کا دن منحوس ہے اور کوئی کام اس دن شروع نہ کرنا چاہیے ۔ بعض نہایت ضعیف احادیث بھی اس سلسلے میں نقل کی گئی ہیں جن سے اس دن کی نحوست کا عقیدہ عوام کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے ۔ مثلاً ابن مردویہ اور خطیب بغدادی کی یہ روایت کہ اخراربعاء فی الشھر یوم نحس مستمر (مہینے کا آخری بدھ منحوس ہے جس کی نحوست مسلسل جاری رہتی ہے )۔ ابن جوزی اسے موضوع کہتے ہیں ۔ ابن رجب نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ حافظ سخاوی کہتے ہیں کہ جتنے طریقوں سے یہ منقول ہوئی ہے وہ سب واہی ہیں ۔اسی طرح طبرانی کی اس روایت کو بھی محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے کہ یوم الاربعاء یوم نحس مسقر (بدھ کا دن پیہم نحوست کا دن ہے ۔) بعض اور روایات میں یہ باتیں بھی مروی ہیں کہ بدھ کو سفر نہ کیا جائے، لین دین نہ کیا جائے، ناخن نہ کٹوائے جائیں ، مریض کی عیادت نہ کی جائے، اور یہ کہ جذام اور برص اسی روز شروع ہوتے ہیں ۔مگر یہ تمام روایات ضعیف ہیں اور ان پر کسی عقیدے کی بنا نہیں رکھی جا سکتی۔ محقق مناوِی کہتے ہیں : تو قی الا ر بعاء علی جھۃ الطیرۃ و ظن اعتقاد المنجمین حرام شدید التحریم، اذا الایام کلھا لِلہ تعالیٰ ، لا تنفع ولا تضر بذاتھا، ’’ بد فالی کے خیال سے بدھ کے دن کو منحوس سمجھ کر چھوڑ نا اور نجومیوں کے سے اعتقادات اس باب میں رکھنا حرام، سخت حرام ہے ، کیونکہ سارے دن اللہ کے ہیں ، کوئی دن بذاتِ خود نہ نفع پہنچانے والا ہے نہ نقصان‘‘ علامہ آلوسی کہتے ہیں ’’ سارے دن یکساں ہیں ، بدھ کی کوئی تخصیص نہیں ۔ رات دن میں کوئی گھڑی ایسی نہیں ہے جو کسی کے لیے اچھی اور کسی دوسرے کے لیے بری نہ ہو۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کسی کے لیے موافق اور کسی کے لیے نا موافق حالات پیدا کرتا رہتا ہے ‘‘۔