17.بالفاظ دیگر، حضرت صالح کی پیروی سے ان کا انکار تین وجوہ سے تھا۔ ایک یہ کہ وہ بشر ہیں ، انسانیت سے بالاتر نہیں ہیں کہ ہم انکی بڑائی مان لیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ ہماری اپنی ہی قوم کے ایک فرد ہیں ۔ ہم پر ان کی فضیلت کی کوئی وجہ نہیں ۔ تیسرے یہ کہ اکیلے ہیں ، ہمارے عام آدمیوں میں سے ایک آدمی ہیں ، کوئی بڑے سردار نہیں ہیں جس کے ساتھ کوئی بڑا جتھا ہو، لاؤ لشکر ہو، خَدَم و حشم ہوں ،اور اس بنا پر ہم ان کی بڑائی تسلیم کر لیں ۔ وہ چاہتے تھے کہ نبی یا تو کوئی فوق البشر ہستی ہو، یا اگر وہ انسان ہی ہو تو ہمارے اپنے ملک اور قوم میں پیدا نہ ہوا ہو، بلکہ کہیں اوپر سے اتر کر آئے یا باہر سے بھیجا جائے،اور اگر یہبھی نہیں تو کم از کم اسے کوئی رئیس ہونا چاہیے جس کی غیر معمولی شان و شوکت کی وجہ سے یہ مان لیا جائے کہ رہنمائی کے لیے خدا کی نظر انتخاب اس پر پڑی ہے ۔ یہی وہ جہالت تھی جس میں کفار مکہ مبتلا تھے ۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت ماننے سے ان کا انکار بھی اسی بنیاد پر تھا کہ آپ بشر ہیں عام آدمیوں کی طرح بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں ، کل ہمارے ہی درمیان پیدا ہوئے اور آج یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ مجھے خدا نے نبی بنایا ہے ۔
19.یہ تشریح ہے اس ارشاد کی کہ ’’ ہم اونٹنی کو ان کے لیے فتنہ بنا کر بھیج رہے ہیں ‘‘۔ وہ فتنہ یہ تھا کہ یکایک ایک اونٹنی لا کر ان کے سامنے کھڑی کر دی گئی اور ان سے کہہ دیا گیا کہ ایک دن یہ اکیلی پانی پیے گی اور دوسرے دن تم سب لوگ اپنے لیے اور اپنے جانوروں کے لیے پانی لے سکو گے ۔ اس کی باری کے دن تم میں سے کوئی شخص کسی چشمے اور کنوئیں پر نہ خود پانی لینے کے لیے آئے ، نہ اپنے جانوروں کو پلانے کے لیے لائے۔ یہ چیلنج اس شخص کی طرف سے دیا گیا تھا جس کے متعلق وہ خود کہتے تھے کہ یہ کوئی لاؤ لشکر نہیں رکھتا، نہ کوئی بڑا جتھا اس کی پشت پر ہے ۔
20.ان الفاظ سے خود بخود یہ صورت حال مترشح ہوتی ہے کہ وہاں اونٹنی ایک مدت تک ان کی بستیوں میں دندناتی پھری ۔ اس کی باری کے دن کسی کو پانی پر آنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ آخر کار اپنی قوم کے ایک من چلے سردار کو انہوں پکارا کہ تو بڑا جری اور بیباک آدمی ہے، بات بات پر آستینیں چڑھا کر مارنے اور مرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے، ذرا ہمت کر کے اس اونٹنی کا قصہ بھی پاک کر دکھا۔ ان کے بڑھاوے چڑھاوے دینے پر اس نے یہ مہم سر کرنے کا بیڑا اٹھا لیا اور اونٹنی کو مار ڈالا۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ اس اونٹنی سے سخت مرعوب تھے، ان کا یہ احساس تھا کہ اس کی پشت پر کوئی غیر معمولی طاقت ہے، اس پر ہاتھ ڈالتے ہوئے وہ ڈرتے تھے، اور اسی بنا پر محض ایک اونٹنی کا مار ڈالنا، ایسی حالت میں بھی جب کہ اس کے پیش کرنے والے پیغمبر کے پاس کوئی فوج نہ تھی جس کا انہیں ڈر ہوتا، ان کے لیے ایک بڑی مہم سر کرنے کا ہم معنی تھا۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف حاشیہ 58۔ جلد سوم، الشعراء، حاشیہ 104 ۔ 105)۔
21.جو لوگ مویشی پالتے ہیں وہ اپنے جانوروں کے باڑے کو محفوظ کرنے کے لیے لکڑیوں اور جھاڑیوں کی ایک باڑھ بنا دیتے ہیں ۔ اس باڑھ کی جھاڑیاں رفتہ رفتہ سوکھ کر جھڑ جاتی ہیں اور جانوروں کی آمد و رفت سے پامال ہو کر ان کا برادہ بن جاتا ہے ۔ قوم ثمود کی کچلی ہوئی بوسیدہ لاشوں کو اسی برادے سے تشبیہ دی گئی ہے ۔
22.اس قصے کی تفصیلات سورہ ہود (آیات 77 تا 83 ) اور سورہ حجر(آیات 61 تا 74) میں گزر چکی ہیں ۔ خلاصہ ان کا یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ فرمایا تو چند فرشتوں کو نہایت خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط کے ہاں مہمان کےطور پر بھیج دیا۔ ان کی قوم کے لوگوں نے جب دیکھا کہ ان کے ہاں ایسے خوبصورت مہمان آئے ہیں تو وہ ان کے گھر پر چڑھ دوڑے اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ان مہمانوں کو بد کاری کے لیے ان کے حوالہ کر دیں ۔ حضرت لوط نے ان کی بے انتہا منت سماجت کی کہ وہ اس ذلیل حرکت سے باز رہیں ۔ مگر وہ نہ مانے اور گھر میں گھس کر زبر درستی مہمانوں کو نکال لینے کی کوشش کی۔ اس آخری مرحلے پر یکایک ان کی آنکھیں اندھی ہو گئیں ۔ پھر فرشتوں نےحضرت لوط سے کہا کہ وہ اور ان کے گھر والے صبح ہونے سے پہلے اس بستی سے نکل جائیں ، اور ان کے نکلتے ہی اس قوم پر ایک ہولناک عذاب نازل ہو گیا۔ بائیبل میں بھی یہ واقعہ اسی طرح بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں : ’’ تب وہ اس مرد یعنی لوط پر پل پڑے اور نزدیک آئے تاکہ کواڑ توڑ ڈالیں ۔ لیکن ان مردوں (یعنی فرشتوں ) نے اپنے ہاتھ بڑھا کر لوط کو اپنے پاس گھر میں کھینچ لیا اور دروازہ بند کر دیا اور ان مردوں کو جو گھر کے دروازے پر تھے ، کیا چھوٹے کیا بڑے ، اندھا کردیا، سو وہ دروازہ ڈحونڈھتے ڈھونڈتے تھک گئے‘‘ (پیدائش ، 19:9۔11)۔