Tafheem ul Quran

Surah 55 Ar-Rahman, Ayat 1-25

اَلرَّحۡمٰنُۙ‏ ﴿55:1﴾ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَؕ‏ ﴿55:2﴾ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَۙ‏ ﴿55:3﴾ عَلَّمَهُ الۡبَيَانَ‏ ﴿55:4﴾ اَلشَّمۡسُ وَالۡقَمَرُ بِحُسۡبَانٍ‏ ﴿55:5﴾ وَّالنَّجۡمُ وَالشَّجَرُ يَسۡجُدٰنِ‏ ﴿55:6﴾ وَالسَّمَآءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الۡمِيۡزَانَۙ‏ ﴿55:7﴾ اَلَّا تَطۡغَوۡا فِى الۡمِيۡزَانِ‏ ﴿55:8﴾ وَاَقِيۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُوا الۡمِيۡزَانَ‏ ﴿55:9﴾ وَالۡاَرۡضَ وَضَعَهَا لِلۡاَنَامِۙ‏ ﴿55:10﴾ فِيۡهَا فَاكِهَةٌ  ۙ وَّالنَّخۡلُ ذَاتُ الۡاَكۡمَامِ​ ۖ‏ ﴿55:11﴾ وَالۡحَبُّ ذُو الۡعَصۡفِ وَالرَّيۡحَانُ​ۚ‏ ﴿55:12﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:13﴾ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ كَالۡفَخَّارِۙ‏ ﴿55:14﴾ وَخَلَقَ الۡجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ مِّنۡ نَّارٍ​ۚ‏ ﴿55:15﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:16﴾ رَبُّ الۡمَشۡرِقَيۡنِ وَ رَبُّ الۡمَغۡرِبَيۡنِ​ۚ‏ ﴿55:17﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:18﴾ مَرَجَ الۡبَحۡرَيۡنِ يَلۡتَقِيٰنِۙ‏ ﴿55:19﴾ بَيۡنَهُمَا بَرۡزَخٌ لَّا يَبۡغِيٰنِ​ۚ‏ ﴿55:20﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:21﴾ يَخۡرُجُ مِنۡهُمَا اللُّـؤۡلُـؤُ وَالۡمَرۡجَانُ​ۚ‏ ﴿55:22﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:23﴾ وَلَهُ الۡجَوَارِ الۡمُنۡشَئٰتُ فِى الۡبَحۡرِ كَالۡاَعۡلَامِ​ۚ‏ ﴿55:24﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:25﴾

1 - رحمٰن نے 2 - اِس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ 1 3 - اُسی نے انسان کو پیدا کیا 2 4 - اور اسے بولنا سکھایا۔ 3 5 - سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں 4 6 - اور تارے 5 اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔ 6 7 - آسمان کو اُس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔ 7 8 - اِس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو، 9 - انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔ 8 10 - 9 زمین کو اس نے سب مخلوقات کے لیے بنایا۔ 10 11 - اس میں ہر طرح کے بکثرت لذیذ پھل ہیں۔ کھجور کے درخت ہیں جن کے پھل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ 12 - طرح طرح کے غلّے ہیں جن میں بُھوسا بھی ہوتا ہے اور دانہ بھی۔ 11 13 - پس اے جِنّ وانس، تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں 12 کو جھٹلاؤ گے؟ 13 14 - انسان کو اُس نے ٹھیکری جیسے سُوکھے سڑے ہوئے گارے سے بنایا 14 15 - اور جِن کو آگ کی لَپٹ سے پیدا کیا۔ 15 16 - پس اے جِنّ و اِنس ، تم اپنے رب کی کن کن عجائبِ قدرت 16 کو جھٹلاؤ گے؟ 17 - دونوں مشرق اور دونوں مغرب، سب کا مالک و پروردگار وہی ہے۔ 17 18 - پس اے جِنّ و اِنس تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں 18 کو جھٹلاؤ گے؟ 19 - دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں، 20 - پھر بھی ان کے درمیان ایک پر دہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔ 19 21 - پس اے جِنّ و اِنس، تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کرشموں کو جھٹلاؤ گے؟ 22 - اِن سمندروں سے موتی اور مونگے 20 نکلتے ہیں۔ 21 23 - پس اے جِنّ و اِنس، تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کمالات کو جھٹلاؤ گے؟ 22 24 - اور یہ جہاز اُسی کے ہیں 23 جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح اونچے اُٹھے ہوئے ہیں ۔ 25 - پس اے جِنّ و اِنس تم اپنے رب کے کن کن احسانات کو جھٹلاؤ گے؟ 24 ؏۱


Notes

1. یعنی اس قرآن کی تعلیم کسی انسان کی طبعزاد نہیں ہے بلکہ اس کا معلم خود خدائے رحمان ہے۔ اس مقام پر یہ بات بیان کرنے کی حاجت نہیں تھی کہ اللہ نے قرآن کی یہ تعلیم کس کو دی ہے، کیوں کہ لوگ اس کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے سن رہے تھے، اس لیے مقتضائے حال سے کلام کا یہ مدعا آپ سے آپ ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ تعلیم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو دی گئی ہے۔

آغاز اس فقرے سے کرنے کا پہلا مقصد تو یہی بتانا ہے کہ حضور خود اس کے مصنف نہیں ہیں بلکہ اس تعلیم کا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے مزید برآں دوسرا ایک مقصدا ور بھی ہے جس کی طرف لفظ رحمان اشارہ کر رہا ہے۔ اگر بات صرف اتنی ہی کہنی ہوتی کہ یہ تعلیم اللہ کی طرف سے ہے،نبی کی طبعزاد نہیں ہے تو اللہ کا اسم ذات چھوڑ کر کوئی اسم صفت استعمال کرنے کی حاجت نہ تھی، اور اسم صفت ہی استعمال کرنا ہوتا تو محض اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے اسمائے الٰہیہ میں سے کوئی اسم بھی اختیار کیا جا سکتا تھا۔ لیکن جب یہ کہنے کے بجائے کہ اللہ نے، یا خالق نے، یا رزاق نے یہ تعلیم دی ہے، فرمایا یہ گیا کہ اس قرآن کی تعلیم رحمٰن نے دی ہے، تو س سے خود بخود یہ مضمون نکل آیا کہ بندوں کی ہدایت کے لیے قرآن مجید کا نازل کیا جانا سراسر اللہ کی رحمت ہے۔ وہ چونکہ اپنی مخلوق پر بے انتہا مہربان ہے، اس لیے اس نے یہ گوارا نہ کیا کہ تمہیں تاریکی میں بھٹکتا چھوڑ دے، اور اس کی رحمت اس بات کی مقتضی ہوئی کہ یہ قرآن بھیج کر تمہیں وہ علم عطا فرمائے جس پر دنیا میں تمہاری راست روی اور آخرت میں تمہاری فلاح کا انحصار ہے۔

2. با لفاظ دیگر، چونکہ اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے، اور خالق ہی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی مخلوق کی رہنمائی کرے اور اسے وہ راستہ بتائے جس سے وہ اپنا مقصد وجود پورا کر سکے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کی اس تعلیم کا نازل ہونا محض اس کی رحمانیت ہی کا تقاضا نہیں ہے، بلکہ اس کے خالق ہونے کا بھی لازمی اور فطری تقاضا ہے۔ خالق اپنی مخلوق کی رہنمائی نہ کرے گا تو اور کون کرے گا؟ اور خالق ہی رہنمائی نہ کرے تو اور کون کر سکتا ہے؟ اور خالق کے لیے اس سے بڑا عیب اور کیا ہو سکتا ہے کہ جس چیز کو وہ وجود میں لائے اسے اپنے وجود کا مقصد پورا کرنے کا طریقہ نہ سکھائے؟ پس در حقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی تعلیم کا انتظام ہونا عجیب بات نہیں ہے، بلکہ یہ انتظام اگر اس کی طرف سے نہ ہوتا تو قابل تعجب ہوتا پوری کائنات میں جو چیز بھی اس نے بنائی ہے اس کو محض پیدا کر کے نہیں چھوڑ دیا ہے، بلکہ اس کو وہ موزوں ترین ساخت دی ہے جس سے وہ نظام فطرت میں اپنے حصے کا کام کرنے کے قابل ہو سکے، اور اس کام کو انجام دینے کا طریقہ اسے سکھایا ہے، خود انسان کے اپنے جسم کا ایک ایک رونگٹا اور ایک ایک خلیہ (Cell) وہ کام سیکھ کر پیدا ہوا ہے جو اسے انسانی جسم میں انجام دینا ہے۔ پھر آخر انسان بجائے خود اپنے خالق کی تعلیم و رہنمائی سے بے نیاز یا محروم کیسے ہو سکتا تھا؟ قرآن مجید میں اس مضمون کو مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا ہے۔ سورہ لَیل (آیت 12) میں فرمایا اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدیٰ۔ ’’رہنمائی کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ’’سورہ نحل (آیت 9)میں ارشاد ہوا اَعَلَی اللہِ قَصْدُ السَّبِیلِ وَمِنْھَا جَآ ئِرٌ۔ یہ اللہ کے ذمہ ہے کہ سیدھا راستہ بتائے اور ٹیڑھے راستے بہت سے ہیں ‘‘۔ سورہ طٰہٰ (آیات 47۔ 50 ) میں ذکر آتا ہے کہ جب فرعون نے حضرت موسیٰ کی زبان سے پیغام رسالت سن کر حیرت سے پوچھا کہ آخر وہ تمہارا رب کونسا ہے جو میرے پاس رسول بھیجتا ہے، تو حضرت موسیٰ نے جواب دیا کہ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدیٰ۔ ’’ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی مخصوص ساخت عطا کی اور پھر اس کی رہنمائی،‘‘ یعنی وہ طریقہ سکھایا جس سے وہ نظام وجود میں اپنے حصے کا کام کر سکے۔ یہی وہ دلیل ہے جس سے ایک غیر متعصب ذہن اس بات پر مطمئن ہو جاتا ہے کہ انسان کی تعلیم کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولوں اور کتابوں کا آنا عین تقاضائے فطرت ہے۔

3. اصل میں لفظ بیان استعمال ہو ا ہے۔ اس کے ایک معنی تو اظہار ما فی الضمیر کے ہیں، یعنی بولنا اور اپنا مطلب و مدعا بیان کرنا۔ اور دوسرے معنی ہیں فرق و امتیاز کی وضاحت، جس سے مراد اس مقام پر خیر و شر اور بھلائی اور برائی کا امتیاز ہے۔ ان دونوں معنوں کے لحاظ سے یہ چھوٹا سا فقرہ اوپر کے استدلال کو مکمل کر دیتا ہے۔ بولنا وہ امتیازی وصف ہے جو انسان کو حیوانات اور دوسرے ارضی مخلوقات سے ممیز کرتا ہے۔یہ محض قوت گویائی ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے عقل و شعور،فہم و ادراک،تمیز و ارادہ اور دوسری ذہنی قوتیں کافرما ہوتی ہیں جن کے بغیر انسان کی قوت ناطقہ کام نہیں کر سکتی۔ اس لیے بولنا در اصل انسان کے ذی شعور اور ذی اختیار مخلوق ہونے کی صریح علامت ہے۔اور یہ امتیازی وصف جب اللہ تعالی نے انسان کو عطا فرمایا ہے تو ظاہر ہےکہ اس کے لئے تعلیم نوعیت بھی وہ نہیں ہو سکتی جو بے شعور اور بے اختیار مخلوق کی رہنمائی کے لیے موزوں ہے۔ اسی طرح انسان کا دوسرا اہم ترین امتیازی وصف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ایک اخلاقی حِس (Moral Sense) رکھ دی ہے جس کی وجہ سے وہ فطری طور پر نیکی اور بدی، حق اور ناحق، ظلم اور انصاف، بجا اور بے جا کے درمیان فرق کرتا ہے، اور یہ وِجدان اور احساس انتہائی گمراہی و جہالت کی حالت میں بھی اس کی اندر سے نہیں نکلتا۔ ان دونوں امتیازی خصوصیات کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان کی شعوری و اختیاری زندگی کے لیے تعلیم کا طریقہ اس پیدائشی طریق تعلیم سے مختلف ہو جس کے تحت مچھلی کو تیرنا اور پرندے کو اُڑنا، اور خود انسانی جسم کے اندر پلک کو جھپکنا، آنکھ کو دیکھنا، کان کو سننا، اور معدے کو ہضم کرنا سکھایا گیا ہے۔ انسان خود اپنی زندگی کے اس شعبے میں استاد اور کتاب اور مدرسے اور تبلیغ و تلقین اور تحریر و تقریر اور بحث و استدلال جیسے ذرائع ہی کو وسیلہ تعلیم مانتا ہے اور پیدائشی علم و شعور کو کافی نہیں سمجھتا۔ پھر یہ بات آخر کیوں عجیب ہو کہ انسان کے خالق پر اسکی رہنمائی کی جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اسے ادا کرنے کے لیے اس نے رسول اور کتاب کو تعلیم کا ذریعہ بنایا ہے؟ جیسی مخلوق ویسی ہی اس کی تعلیم۔ یہ سراسر ایک معقول بات ہے ’’بیان‘‘ جس مخلوق کو سکھایا گیا ہو اس کے لیے قرآن ‘‘ ہی ذریعہ تعلیم ہو سکتا ہے نہ کہ کوئی ایسا ذریعہ جو ان مخلوقات کے لیے موزوں ہے جنہیں بیان نہیں سکھایا گیا ہے۔

4. یعنی ایک زبردست قانون اور ایک اٹل ضابطہ ہے جس سے یہ عظیم الشان سیارے بندھے ہوئے ہیں۔ انسان وقت اور دن اور تاریخوں اور فصلوں اور موسموں کا حساب اسی وجہ سے کر رہا ہے کہ سورج کے طلوع و غروب اور مختلف منزلوں سے اس کے گزرنے کا جو قاعدہ مقرر کر دیا گیا ہے اس میں کوئی تغیر رونما نہیں ہوتا۔ زمین پر بے حد و حساب مخلوق زندہ ہی اس وجہ سے ہے کہ سورج اور چاند کو ٹھیک ٹھیک حساب کر کے زمین سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے اور اس فاصلے میں کمی و بیشی صحیح ناپ تول سے ایک خاص ترتیب کے ساتھ ہوتی ہے۔ ورنہ زمین سے ان کا فاصلہ کسی حساب کے بغیر بڑھ یا گھٹ جائے تو یہاں کسی کا جینا ہی ممکن نہ رہے۔ اسی طرح زمین کے گرد چاند اور سورج کے درمیان حرکات میں ایسا مکمل تناسب قائم کیا گیا ہے کہ چاند ایک عالمگیر جنتری بن کر رہ گیا ہے جو پوری باقاعدگی کے ساتھ ہر رات ساری دنیا کو قمری تاریخ بتا دیتی ہے۔

5. اصل میں لفظ النجم استعمال ہوا ہے جس کے معروف اور متبادر معنی تارے کے ہیں۔ لیکن لغت عرب میں یہ لفظ ایسے پودوں اور بیل بوٹوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے جن کا تنا نہیں ہوتا، مثلاً ترکاریاں، خربوزے، تربوز وغیرہ۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ یہاں یہ لفظ کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ابن عباس سعید بن جبیر، سدی اور سفیان ثوری اس کو بے تنے والی نباتات کے معنی میں لیتے ہیں، کیونکہ اس کے بعد لفظ الشجر (درخت) استعمال فرمایا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہی معنی زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔ بخلاف اس کے مجاہد، قتادہ اور حسن بصری کہتے ہیں کہ نجم سے مراد یہاں بھی زمین کے بوٹے نہیں بلکہ آسمان کے تارے ہی ہیں، کیوں کہ یہی اس کے معروف معنی ہیں، اس لفظ کو سن کر سب سے پہلے آدمی کا ذہن اسی معنی کی طرف جاتا ہے، اور شمس و قمر کے بعد تاروں کا ذکر بالکل فطری مناسبت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ مفسرین و مترجمین کی اکثریت نے اگر چہ پہلے معنی کو ترجیح دی ہے، اور اس کو بھی غلط نہیں کہا جا سکتا، لیکن ہمارے نزدیک حافظ ابن کثیر کی رائے صحیح ہے کہ زبان اور مضمون دونوں کے لحاظ سے دوسرا مفہوم زیادہ قابل ترجیح نظر آتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر بھی نجوم اور شجر کے سجدہ ریز ہونے کا ذکر آیا ہے۔ اور وہاں نجوم کو تاروں کے سوا اور کسی معنی میں نہیں لیا جا سکتا۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں اَلَمْ تَرَاَنَّ اللہَ یَسْجُدُلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ و الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَا بُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ …………… (الحج۔18)۔ یہاں نجوم کا ذکر شمس و قمر کے ساتھ ہے اور شجر کا ذکر پہاڑوں اور جانوروں کے ساتھ، اور فرمایا گیا ہے کہ یہ سب اللہ کے آگے سجدہ ریز ہیں۔

6. یعنی آسمان کے تارے اور زمین کے درخت، اس اللہ تعالیٰ کے مطیع فرمان اور اس کے قانون کے پابند ہیں، جو ضابطہ ان کے لیے بنا دیا گیا ہے اس سے یَک سَرِ مُو تجاوز نہیں کر سکتے۔

ان دونوں آیتوں میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ کائنات کا سارا نظام اللہ تعالیٰ کا آفریدہ ہے اور اسی کی اطاعت میں چل رہا ہے۔ زمین سے لے کر آسمانوں تک نہ کوئی خود مختار ہے، نہ کسی اور کی خدائی اس جہان میں چل رہی ہے، نہ خدا کی خدائی میں کسی کا کوئی دخل ہے، اور نہ کسی کا یہ مقام ہے کہ اسے معبود بنا یا جائے۔ سب بندے اور غلام ہیں، آقا تنہا ایک رب قدیر ہے۔ لہٰذا توحیدہی حق ہے جس کی تعلیم یہ قرآن دے رہا ہے۔ اس کو چھوڑ کر جو شخص بھی شرک یا کفر کر رہا ہے وہ در اصل کائنات کے پورے نظام سے بر سر پیکار ہے۔

7. قریب قریب تمام مفسرین نے یہاں میزان (ترازو) سے مراد عدل لیا ہے، اور میزان قائم کرنے کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے اس پورے نظام کو عدل پر قائم کیا ہے۔ یہ بے حد و حساب تارے اور سیارے جو فضا میں گھوم رہے ہیں، یہ عظیم الشان قوتیں جو اس عالم میں کام کر رہی ہیں، اور یہ لا تعداد مخلوقات اور اشیاء جو اس جہاں میں پائی جاتی ہیں، ان سب کے درمیان اگر کمال درجہ کا عدل و توازن نہ قائم کیا گیا ہوتا تو یہ کار گاہ ہستی ایک لمحہ کے لیے بھی نہ چل سکتی تھی۔ خود اس زمین پر کروڑوں برس سے ہوا اور پانی اور خشکی میں جو مخلوقات موجود ہیں ان ہی کو دیکھ لیجیے۔ ان کی زندگی اسی لیے تو بر قرار ہے کہ ان کے اسباب حیات میں پورا پورا عدل اور توازن پایا جاتا ہے، ورنہ ان اسباب میں ذرہ برابر بھی بے اعتدالی پیدا ہو جائے تو یہاں زندگی کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔

8. یعنی چونکہ تم ایک متوازن کائنات میں رہتے ہو جس کا سارا نظام عدل پر قائم کیا گیا ہے، اس لیے تمہیں بھی عدل پر قائم ہونا چاہیے۔ جس دائرے میں تمہیں اختیار دیا گیا ہے اس میں اگر تم بے انصافی کرو گے، اور جن حق داروں کے حقوق تمہارے ہاتھ میں دیے گئے ہیں اگر تم ان کے حق مارو گے تو یہ فطرت کائنات سے تمہاری بغاوت ہو گی۔ اس کائنات کی فطرت ظلم و بے انصافی اور حق ماری کو قبول نہیں کرتی۔ یہاں ایک بڑا ظلم تو درکنار،ترازو میں ڈنڈی مار کر اگر کوئی شخص خریدار کے حصہ کی ایک تولہ بھر چیز بھی مار لیتا ہے تو میزان ِ عالم میں خلل برپا کر دیتا ہے۔ یہ قرآن کی تعلیم کا دوسرا اہم حصہ ہے جو ان تین آیتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ پہلی تعلیم ہے توحید اور دوسری تعلیم ہے عدل۔ اس طرح چند مختصر فقروں میں لوگوں کو بتا دیا گیا ہے کہ انسان کی رہنمائی کے لیے خدائے رحمان نے جو قرآن بھیجا ہے وہ کیا تعلیم لے کر آیا ہے۔

9. اب یہاں سے آیت 25 تک اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں اور اس کے ان احسانات اور اس کی قدرت کے ان کرشموں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن سے انسان اور جن دونوں متمتع ہو رہے ہیں اور جن کا فطری اور اخلاقی تقاضا یہ ہے کہ وہ کفرو ایمان کا اختیار رکھنے کے باوجود خود اپنی مرضی سے بَطوعَ و رغبت اپنے رب کی بندگی اور اطاعت کا راستہ اختیار کریں۔

10. اصل الفاظ ہیں زمین کو"اَنام" کے لیے وضع کیا۔ وضع کرنے سے مراد ہے تالیف کرنا، بنانا، تیار کرنا، رکھنا، ثبت کرنا۔ اور اَنام عربی زبان میں خلق کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں انسان اور دوسری سب سے زندہ مخلوقات شامل ہیں۔ ابن عبا س کہتے ہیں کل شی ءفیہ الروح، اَنام میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کے اندر روح ہے۔ مجاہد اس کے معنی بیان کرتے ہیں خلائق۔ قتادہ ابن زید اور شعبی کہتے ہیں کہ سب جاندار انام ہیں۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ اِنس و جِن دونوں اِس کے مفہوم میں داخل ہیں۔ یہ معنی تمام اہل لغت نے بیان کیے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اس آیت سے زمین کو ریاست کی ملکیت بنانے کا حکم نکالتے ہیں وہ ایک فضول بات کہتے ہیں۔ یہ باہر کے نظریات لا کر قرآن میں زبردستی ٹھونسنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے جس کا ساتھ نہ آیت کے الفاظ دیتے ہیں نہ سیاق و سباق۔ اَنام صرف انسانی معاشرے کو نہیں کہتے بلکہ زمین کی دوسری مخلوقات بھی اس میں شامل ہیں۔ اور زمین کو اَنام کے لیے وضع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے وہ سب کی مشترک ملکیت ہو۔ اور سیاقِ عبارت بھی یہ نہیں بتا رہا ہے کہ کلام کا مدعا اس جگہ کوئی معاشی ضابطہ بیان کرنا ہے۔ یہاں تو مقصود در اصل یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو اس طرح بنایا اور تیار کر دیا کہ یہ قسم قسم کی زندہ مخلوقات کے لیے رہنے بسنے اور زندگی بسر کرنے کے قابل ہو گئی۔ یہ آپ سے آپ ایسی نہیں ہو گئی ہے۔ خالق کے بنانے سے ایسی بنی ہے۔ اس نے اپنی حکمت سے اس کو ایسی جگہ رکھا اور ایسے حالات اس میں پیدا کیے جن سے یہاں زندہ انواع کا رہنا ممکن ہوا۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جد سوم النمل حواشی 72۔74 جلد چہارم، یسین، حواشی 29۔32۔المومن حواشی 90۔91، حم السجدہ، حواشی 11 تا 13۔ الزخرف، حواشی 6 تا 10 الجاثیہ، حاشیہ 7)

11. یعنی آدمیوں کے لیے دانہ اور جانوروں کے لیے چارہ۔

12. اصل میں لفظ آلاء استعمال ہوا ہے جسے آگے کی آیتوں میں بار بار دہرایا گیا ہے اور ہم نے مختلف مقامات پر اس کا مفہوم مختلف الفاظ میں ادا کیا ہے۔ اس لیے آغاز ہی میں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس لفظ میں معنی کی کتنی وسعت ہے اور اس میں کیا کیا مفہومات شامل ہیں۔ آلاء کے معنی اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالعموم "نعمتوں " کے بیان کیے ہیں۔ تمام مترجمین نے بھی یہی اس لفظ کا ترجمہ کیا ہے۔ اور یہی معنی ابن عباس، قتادہ اور حسن بصری سے منقول ہیں۔ سب سے بڑی دلیل اس معنی کے صحیح ہونے کی یہ ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جنوں کے اس قول کو نقل فرمایا ہے کہ وہ اس آیت کو سن کر بار بار لابشی ء من نعمک ربنانکذب کہتے تھے۔ لہذا زمانۂ حال کے بعض محققین کی اس رائے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ آلاء نعمتوں کے معنی میں سرے سے استعمال ہی نہیں ہوتا۔ دوسرے معنی اس لفظ کے قدرت اور عجائب قدرت یا کمالاتِ قدرت ہیں۔ ابن جریر طبری نے ابن زید کا قول نقل کیا ہے کہ فبای الاء ربکما کے معنی ہیں بای قدرۃ اللہ۔ ابن جریر نے خود بھی آیات 37۔38 کی تفسیر میں آلاء کو قدرت کے معنی میں لیا ہے۔ امام رازی نے بھی آیات 14۔15۔16 کی تفسیر میں لکھا ہے۔"یہ آیات بیان نعمت کے لیے نہیں بلکہ بیان قدرت کے لیے ہیں۔ اور آیات 22۔23 کی تفسیر میں وہ فرماتے ہیں "یہ اللہ تعالیٰ کے عجائب قدرت کے بیان میں ہے نہ کہ نعمتوں کے بیان میں۔" اس کے تیسرے معنی ہیں خوبیاں،اوصافِ حمیدہ اور کمالات و فضائل۔ ا س معنی کو اہل لغت اور تفسیر نے بیان نہیں کیا ہے، مگر اشعار ِ عرب میں یہ لفظ کثرت سے اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ نابغہ کہتا ہے : ھم الملوک وابنء الملوک لھم فضل علی الناس فی الالاء والنعم وہ بادشاہ اور شاہزادے ہیں ان کو لوگوں پر اپنی خوبیوں اور نعمتوں میں فضیلت حاصل ہے مہلہل اپنے بھائی کلیب کے مرثیہ میں کہتا ہے : الحزم والعزم کانامن طبائعہ ماکل اٰلائہ یا قوم احصیھا حزم اور عزم اس کے اوصاف میں سے تھے۔ لوگو میں اس کی ساری خوبیاں شمار نہیں کر رہا ہوں فضالہ بن زید المعدو انی غریبی کی برائیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ غریب اچھا کام بھی کرے تو برا بنتا ہے اور وتحمداٰلاء البخیل المدرھم مالدار بخیل کے کمالات کی تعریف کی جاتی ہے اجدع ہمدانی اپنے گھوڑے کمیت کی تعریف میں کہتا ہے ورضیت اٰلاء الکمیت فمن یبع فرسا فلیس جوادنابمباع مجھے کُمیت کے عمدہ اوصاف پسند ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی گھوڑے بیچتا ہے بیچے، ہمارا گھوڑا بکنے والا نہیں ہے۔ حماسہ کا ایک شاعر جس کا نام ابو تمام نے نہیں لیا ہے، اپنے ممدوح ولید بن ادھم کے اقتدار کا مرثیہ کہتا ہے : اذا ما امرو اثنی بالاء میت فلایبعد اللہ الولید بن ادھما جب بھی کوئی شخص کسی مرنے والے کی خوبیاں بیان کرے تو خدا نہ کرے کہ ولید بن ادھم اس موقع پر فراموش ہو۔ فماکان مفراحا اذا الخیر مسہ ولاکان منانا اذاھوا نعما اس پر اچھے حالات آتے تو پھولتا نہ تھا اور کسی پر احسان کرتا تو جتاتا نہ تھا طرفہ ایک شخص کی تعریف میں کہتا ہے کامل یجمع اٰلاء الفتیٰ نبہ سید سادات خضم وہ کامل اور جوانمردی کے اوصاف کا جامع ہے۔ شریف ہے، سرداروں کا سردار، دریا دل

ان شواہد و نظائر کو نگاہ میں رکھ کر ہم نے لفظ آلاء کو اس کے وسیع معنی میں لیا ہے اور ہر جگہ موقع و محل کے لحاظ سے اسکے جو معنی مناسب تر نظر آئے ہیں وہی ترجمے میں درج کر دیے ہیں۔ لیکن بعض مقامات پر ایک ہی جگہ آلاء کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں، اور ترجمے کی مجبوریوں سے ہم کو اس کے ایک ہی معنی اختیار کرنے پڑے ہیں، کیونکہ اردو زبان میں کوئی لفظ اتنا جامع نہیں ہے کہ ان سارے مفہومات کو بیک وقت ادا کر سکے۔ مثلاً اس آیت میں زمین کی تخلیق اور اس میں مخلوقات کی رزق سانی کے بہترین انتظامات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے رب کے کن کن "آلاء" کو جھٹلاؤ گے۔ اس موقع پر آلاء صرف نعمتوں کے معنی ہی میں نہیں ہے، بلکہ اللہ جل شانہ کی قدرت کے کمالات اور اس کی صفات حمیدہ کے معنی میں بھی ہے۔ یہ اس کی قدرت کا کمال ہے کہ اس نے اس کرۂ خاکی کو اس عجیب طریقے سے بنایا کہ اس میں بے شمار اقسام کی زندہ مخلوقات رہتی ہیں اور طرح طرح کے پھل اور غلے اس کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ اس کی صفات حمیدہ ہی ہیں کہ اس نے ان مخلوقات کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں ان کی پرورش اور رزق رسانی کا بھی انتظام کیا، اور انتظام بھی اس شان کا کہ ان کی خوراک میں نری غذائیت ہی نہیں ہے بلکہ لذت ِ کام و دہن اور ذوق فطرت کی بھی ان گنت رعایتیں ہیں۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی کاریگری کے صرف ایک کمال کی طرف بطور نمونہ اشارہ کیا گیا ہے کہ کھجور کے درختوں میں پھل کس طرح غلافوں میں لپیٹ کر پیدا کیا جاتا ہے۔ اس ایک مال کو نگاہ میں رکھ کر ذرا دیکھیے کہ کیلے، انار، سنترے، ناریل اور دوسرے پھلوں کے پیکنگ میں آرٹ کے کیسے کیسے کمالات دکھائے گیے ہیں، اور یہ طرح طرح کے غلے اور دالیں اور حبوب، جو ہم بے فکری کے ساتھ پکا پکا کر کھاتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کو کیسی کیسی نفیس بالوں اور خوشوں کی شکل میں پیک کر کے اور نازک چھلکوں میں لپیٹ کر پیدا کیا جاتا ہے۔

13. جھٹلانے سے مراد وہ متعدد رویے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی قدرت کے کرشموں اور اس کی صفات ِ حمیدہ کے معاملہ میں لوگ اختیار کرتے ہیں، مثلاً : بعض لوگ سرے سے یہی نہیں مانتے کہ ان ساری چیزوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ محض مادے کے اتفاقی ہیجان کا نتیجہ ہے، یا ایک حادثہ ہے جس میں کسی حکمت اور صناعی کا کوئی دخل نہیں۔ یہ کھلی کھلی تکذیب ہے۔ بعض دوسرے لوگ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ ان چیزوں کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے مگر اس کے ساتھ دوسروں کو خدائی میں شریک ٹھہراتے یں، اس کی نعمتوں کا شکریہ دوسروں کو ادا کرتے ہیں، اور اس کا رزق کھا کر دوسروں کے گن گاتے ہیں۔ یہ تکذیب کی ایک اور شکل ہے۔ ایک آدمی جب تسلیم کرے کہ آپ نے اس پر فلاں احسان کیا ہے اور پھر اسی وقت آپ کے سامنے کسی ایسے شخص کا شکریہ ادا کرنے لگے جس نے در حقیقت اس پر وہ احسان نہیں کیا ہے تو آپ خود کہہ دیں گے کہ اس نے بدترین احسان فراموشی کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ اس کی یہ حرکت اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ وہ آپ کو نہیں بلکہ اس شخص کو اپنا محسن مان رہا ہے جس کا وہ شکریہ ادا کر رہا ہے۔ کچھ اور لوگ ہیں جو ساری چیزوں کا خالق اور تمام نعمتوں کا دینے والا اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں، مگر اس بات کو نہیں مانتے کہ انہیں اپنے خالق و پروردگار کے احکام کی اطاعت اور اس کی ہدایات کی پیروی کرنی چاہئے۔ یہ احسان فراموشی اور انکار نعمت کی ایک اور صورت ہے، کیونکہ جو شخص یہ حرکت کرتا ہے وہ نعمت کو ماننے کے باوجود نعمت دینے والے کے حق کو جھٹلاتا ہے،۔

کچھ اور لوگ زبان سے نہ نعمت کا انکار کرتے ہیں نہ نعمت دینے والے کے حق کو جھٹلاتے ہیں، مگر عملاً ان کی زندگی اور ایک منکر و مکذب کی زندگی میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں ہوتا۔ یہ تکذیب بالقول نہیں بلکہ تکذیب بالفعل ہے۔

14. تخلیق انسانی کے ابتدائی مراتب جو قرآن مجید میں بیان کیے گیے ہیں ان کی سلسلہ وار ترتیب مختلف مقامات کی تصریحات کو جمع کرنے سے یہ معلوم ہوتی ہے : (1) تراب، یعنی مٹی یا خاک (2) طین، یعنی گارا جو مٹی میں پانی ملا کر بنایا جاتا ہے (3) طینِ لازِب، لیس دار گارا، یعنی وہ گارا جس کے اندر کافی دیر تک پڑے رہنے کے باعث لیس پیدا ہو جائے۔(4) حَمَأٍ مَسْنون، وہ گارا جس کے اندر بو پیدا ہو جائے (5) صلصال من حمامسنون کالفخار، یعنی وہ سڑا ہوا گارا جو سوکھنے کے بعد پکی ہوئی مٹی کے ٹھیکرے جیسا ہو جائے (6) بشر جو مٹی کی اس آخری صورت سے بنایا گیا، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص روح پھونکی، جس کو فرشتوں سے سجدہ کرایا گیا، اور جس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا گیا۔ (7) ٹُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَآءٍ مَّھِیْنِ۔ پھر آگے اس کی نسل ایک حقیر پانی جیسے ست سے چلائی گئی جس کے لیے دوسرے مقامات پر نطفہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

ان مدارج کے لیے قرآن مجید کی حسب ذیل آیات کو ترتیب وار ملاحظہ کیجیے : کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلْقَہٗ مِنْ تُرَابٍ (آل عمران۔59)۔ بَدَأَ خَلْقَ الْاِنْسَان ِمِنْ طِیْنٍ۔ (السجدہ۔7)۔ اِنَّا خَلَقْنٰھُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّا زِبٍ (الصافّات۔ 11) چوتھا اور پانچواں مرتبہ آیت زیر تفسیر میں بیان ہو چکا ہے۔ اور اس کے بعد کے مراتب ان آیات میں بیان کیے گئے ہیں : اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَراً مِّنْ طِیْنٍ o فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سَا جِدِیْنَ (ص۔71۔72 ) خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالً کَثِیْراً وَّ نِسَآءً (النساء۔ 1) ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَہٗ مِنْ مَآءٍ مَّھِیْنٍ (السجدہ۔8)۔ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ (الحج۔5)۔

15. اصل الفاظ ہیں مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ۔ نار سے مراد ایک خاص نوعیت کی آگ ہے نہ کہ وہ آگ جو لکڑی یا کوئلہ جلانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس مارج کے معنی ہیں خالص شعلہ جس میں دھواں نہ ہو اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پہلا انسان مٹی سے بنایا گیا، پھر تخلیق کے مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے اس کا لبد خاکی نے گوشت پوست کے زندہ بشر کی شکل اختیار کی اور آگے اس کی نسل نطفہ سے چلی، اسی طرح پہلا جِن خالص آگ کے شعلے، یا آگ کی لَپَٹ سے پیدا کیا گیا، اور بعد میں اس کی ذریت سے جِنوں کی نسل پیدا ہوئی۔ اس پہلے جِن کی حیثیت جِنوں کے معاملہ میں وہی ہے جو آدم علیہ السلام کی حیثیت انسانوں کے معاملہ میں ہے۔ زندہ بشر بن جانے کے بعد حضرت آدم اور ان کی نسل سے پیدا ہونے والے انسانوں کے جسم کو اس مٹی سے کوئی مناسبت باقی نہ رہی جس سے ان کو پیدا کیا گیا تھا۔ اگر چہ اب بھی ہمارا جسم پورا کا پورا زمین ہی کے اجزاء سے مرکب ہے، لیکن ان اجزاء نے گوشت پوست اور خون کی شکل اختیار کر لی ہے اور جان پڑنے کے بعد وہ تو دۂ خاک کی بہ نسبت ایک بالکل ہی مختلف چیز بن گیا ہے۔ ایسا ہی معاملہ جنوں کا بھی ہے۔ ان کا وجود بھی اصلاً ایک آتشیں وجود ہی ہے، لیکن جس طرح ہم محض تودۂ خاک نہیں ہیں اسی طرح وہ بھی محض شعلہ آتش نہیں ہیں۔ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ جن مجّرد روح نہیں ہیں بلکہ ایک خاص نوعیت کے مادی اجسام ہی ہیں، مگر چونکہ وہ خالص آتشیں اجزاء سے مرکب ہیں اس لیے وہ خاکی اجزاء سے بنے ہوئے انسانوں کو نظر نہیں آتے۔ اسی چیز کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِنَّہٗ یَرٰ کُمْ ھُوَ وَقَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْ نَھُمْ۔ ’’شیطان اور اس کا قبیلہ تم کو ایسی جگہ سے دیکھ رہا ہے جہاں تم اس کو نہیں دیکھتے ‘‘۔ (الاعراف۔27)۔ اسی طرح جِنوں کا سریع الحرکت ہو نا، ان کا بہ آسانی مختلف شکلیں اختیار کر لینا، اور ان مقامات پر غیر محسوس طریقے سے نفوذ کر جانا جہاں خاکی اجزاء سے بنی ہوئی چیزیں نفوذ نہیں کر سکتیں، یا نفوذ کرتی ہیں تو ان کا نفوذ محسوس ہو جاتا ہے، یہ سب امور بھی اسی وجہ سے ممکن اور قابل فہم ہیں کہ وہ فی الاصل آتشیں مخلوق ہیں۔

دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ جن نہ صرف یہ کہ انسان سے بالکل الگ نوعیت کی مخلوق ہیں، بلکہ ان کا مادہ تخلیق ہی انسان، حیوان، نباتات اور جمادات سے قطعی مختلف ہے یہ صریح الفاظ میں ان لوگوں کے خیال کی غلطی ثابت کر رہی ہے جو جنوں کو انسانوں ہی کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔ وہ اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ مٹی سے انسان کو اور آگ سے جِن کو پیدا کرنے کا مطلب در اصل دو قسم کے لوگوں کی مزاجی کیفیت کا فرق بیان کرنا ہے، ایک قسم کے انسان منکسر المزاج ہوتے ہیں اوروہی سچےمعنوں میں انسان ہیں۔ اور دوسری قسم کے انسان آتش کے پرکالے اور شعلہ مزاج ہوتے ہیں جنہیں آدمی کے بجائے شیطان کہنا زیادہ صحیح ہوتا ہے۔ لیکن یہ قرآن کی تفسیر نہیں بلکہ تحریف ہے۔ اوپر حاشیہ نمبر 14 میں ہم نے تفصیل کے ساتھ یہ دکھایا ہے کہ قرآن مجید مٹی سے انسان کے پیدا کیے جانے کا مطلب کتنی وضاحت کے ساتھ خود بیان کرتا ہے۔ کیا ان ساری تفصیلات کو پڑھ کر کوئی معقول آدمی یہ معنی لے سکتا ہے کہ ان ساری باتوں کا مقصد محض اچھے انسانوں کے منکسر المزاج ہونے کی تعریف بیان کرنا ہے؟ پھر آخر یہ بات کسی صحیح العقل آدمی کے ذہن میں کیسے آسکتی ہے کہ انسان کی تخلیق سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے کرنے،اور جن کی تخلیق خالص آگ کے شعلے سے کرنے کا مطلب ایک ہی نوع انسان کے دو مختلف المزاج افرا دیاگروہوں کی جدا گانہ اخلاقی خصوصیات کا فرق ہے؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ ذاریات، حاشیہ 53 )۔

16. یہاں موقع کی مناسبت سے آلاء کے معنی ’’عجائب قدرت‘‘ زیادہ موزوں ہیں، لیکن اس میں نعمت کا پہلو بھی موجود ہے۔ مٹی سے انسان جیسی، اور آگ کے شعلہ سے جن جیسی حیرت انگیز مخلوقات کو وجود میں لے آنا جس طرح خدا کی قدرت کا ایک عجیب کرشمہ ہے، اسی طرح ان دونوں مخلوقوں کے لیے یہ بات ایک عظیم نعمت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہ صرف وجود بخشا بلکہ ہر ایک کی ساخت ایسی رکھی اور ہر ایک کے اندر ایسی قوتیں اور صلاحیتیں ودیعت فرما دیں جن سے یہ دنیا میں بڑے بڑے کام کرنے کے قابل ہو گئے۔ اگر چہ جنوں کے متعلق ہمارے پاس زیادہ معلومات نہیں ہیں، مگر انسان تو ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس کو انسانی دماغ دینے کے ساتھ مچھلی یا پرندے یا بندر کا جسم دے دیا جاتا تو کیا اس جسم کے ساتھ وہ اس دماغ کی صلاحیتوں سے کوئی کام لے سکتا تھا؟ پھر کیا یہ اللہ کی نعمت عظمیٰ نہیں ہے کہ جن قوتوں سے اس نے انسان کے دماغ کو سرفراز فرمایا تھا ان سے کام لینے کے لیے موزوں ترین جسم بھی عطا فرمایا؟ یہ ہاتھ، یہ پاؤں، یہ آنکھیں یہ کان، یہ زبان، اور یہ قامت راست ایک طرف، اور یہ عقل و شعور، یہ فکر و خیال، یہ قوت ایجاد و قوت استدلال، اور یہ صناعی و کاریگری کی صلاحیتیں دوسری طرف، ان دونوں کو ایک دوسرے کے بالمقابل رکھ کر دیکھیے تو محسوس ہو گا کہ بنانے والے نے ان کے درمیان غایت درجے کی مناسبت رکھی ہے جو اگر نہ ہوتی تو دنیا میں انسان کا وجود بے معنی ہو کر رہ جاتا۔ پھر یہی چیز اللہ تعالیٰ کی صفات حمیدہ پر بھی دلالت کرتی ہے۔ آخر علم، حکمت، رحمت اور کمال درجہ کی قوت تخلیق کے بغیر اس شان کے انسان اور جن کیسے پیدا ہو سکتے تھے؟ اتفاقی حوادث اور خود بخود کام کرنے والے اندھے بہرے قوانین فطرت تخلیق کے یہ معجزے کیسے دکھا سکتے ہیں؟

17. دو مشرقوں اور دو مغربوں سے مراد جاڑے کے چھوٹے سے چھوٹے دن اور گرمی کے بڑے سے بڑے دن کے مشرق و مغرب بھی ہو سکتے ہیں، اور زمین کے دونوں نصف کروں کے مشرق و مغرب بھی۔ جاڑے کے سب سے چھوٹے دن میں سورج ایک نہایت تنگ زاویہ بنا کر طلوع و غروب ہوتا ہے، اور اس کے برعکس گرمی کے سب سے بڑے دن میں وہ انتہائی وسیع زاویہ بناتے ہوئے نکلتا اور ڈوبتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان ہر روز اس کا مطلع اور مغرب مختلف ہوتا رہتا ہے جس کے لیے ایک دوسرے مقام پر قرآن میں رَبُّ الْمشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ (المعارج۔ 40) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اسی طرح زمین کے ایک نصف کرے میں جس وقت سورج طلوع ہوتا ہے اسی وقت دوسرے نصف کرے میں وہ غروب ہوتا ہے۔ یوں بھی زمین کے دو مشرق اور دو مغرب بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ان دونوں مشرقوں اور مغربوں کا رب کہنے کے کئی معنی ہیں۔ ایک یہ کہ اسی کے حکم سے سورج کے طلوع و غروب اور سال کے دوران میں ان کے مسلسل بدلتے رہنے کا یہ نظام قائم ہے۔ دوسرے یہ کہ زمین اور سورج کا مالک و فرمانروا وہی ہے، ورنہ ان دونوں کے رب الگ الگ ہوتے تو زمین پر سورج کے طلوع و غروب کا یہ باقاعدہ نظام کیسے قائم ہو سکتا تھا ور دائماً کیسے قائم رہ سکتا تھا۔ تیسرے یہ کہ ان دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک و پروردگار وہی ہے، ان کے درمیان رہنے والی مخلوقات اسی کی ملک ہیں، وہی ان کو پال رہا ہے،اور اسی پرورش کے لیے اس نے زمین پر سورج کے ڈوبنے اور نکلنے کا یہ حکیمانہ نظام قائم کیا ہے۔

18. یہاں بھی اگر چہ موقع و محل کے لحاظ سے آلاء کا مفہوم ’’ قدرت ‘‘ زیادہ نمایا ں محسوس ہوتا ہے، مگر ساتھ ہی ’’نعمت ‘‘ اور صفاتِ حمیدہ‘‘ کا پہلو بھی اس میں موجود ہے۔ یہ بڑی نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورج کے طلوع و غروب کا یہ قاعدہ مقرر کیا، کیونکہ اس کی بدولت فصلوں اور موسموں کے وہ تغیرات باقاعدگی سے رونما ہوتے ہیں جن سے انسان و حیوان اور نباتات سب کے بے شمار مصالح وابستہ ہیں۔ اسی طرح یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و ربوبیت اور حکمت ہی تو ہے کہ اس نے جن مخلوقات کو زمین پر پیدا کیا تھا ان کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھ کر اپنی قدرت سے یہ انتظامات کر دیے۔

19. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، سورہ فرقان حاشیہ 68۔

20. اصل میں لفظ مرجان استعمال ہوا ہے۔ ابن عباس، ابن زید اور ضحاک رحمہم اللہ کا قول ہے کہ اس سے مراد چھوٹے موتی ہیں۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعوؓد فرماتے ہیں کہ یہ لفظ عربی میں مونگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

21. اصل الفاظ ہیں یَخْرُجُ مِنْھُمَا، ’’ ان دونوں سمندروں سے نکلتے ہیں ‘‘۔ معترضین اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ موتی اور مونگے تو صرف کھاری پانی سے نکلتے ہیں، پھر یہ کیسے کہا گیا کہ میٹھے اور کھاری دونوں پانیوں سے یہ چیزیں نکلتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سمندروں میں میٹھا اور کھاری دونوں طرح کا پانی جمع ہو جاتا ہے، اس لیے خواہ یہ کہا جائے کہ دونوں کے مجموعہ سے یہ چیزیں نکلتی ہیں، یا یہ کہا جائے کہ وہ دونوں پانیوں سے نکلتی ہیں، بات ایک ہی رہتی ہے اور کچھ عجب نہیں کہ مزید تحقیقات سے یہ ثابت ہو کہ ان چیزوں کی پیدائش سمندر میں اس جگہ ہوتی ہے جہاں اس کی تہ سے میٹھے پانی کے چشمے پھوٹتے ہیں، اور ان کی پیدائش و پرورش میں دونوں طرح پانیوں کے اجتماع کا کچھ دخل ہے۔ بحرین میں جہاں قدیم ترین زمانے سے موتی نکالے جا رہے ہیں، وہاں تو یہ بات ثابت ہے کہ خلیج کی تہہ میں میٹھے پانی کے چشمے موجود ہیں۔

22. یہاں بھی اگر چہ ’’آلاء‘‘ میں قدرت کا پہلو نمایاں ہے، لیکن نعمت اور اوصاف حمیدہ کا پہلو بھی مخفی نہیں ہے۔ یہ خدا کی نعمت ہے کہ سمندر سے یہ قیمتی چیزیں برآمد ہوتی ہیں، اور یہ اس کی شان ربوبیت ہے کہ جس مخلوق کو اس نے ذوق جمال اور شوق زینت بخشا تھا اس کے ذوق و شوق کی تسکین کے لیے طرح طرح کی حسین چیزیں اس نے اپنی دنیا میں پیدا کر دیں۔

23. یعنی اس کی قدرت سے بنے ہیں۔ اسی نے انسان کو یہ صلاحیت بخشی کہ سمندروں کو پار کرنے کے لیے جہاز بنائے۔ اسی نے زمین پر وہ سامان پیدا کیا جس سے جہاز بن سکتے ہیں۔اور اسی نے پانی کو ان قواعد کا پابند کیا جن کی بدولت غضبناک سمندروں کے سینے پر پہاڑ جیسے جہازوں کا چلنا ممکن ہوا۔

24. یہاں ’’ آلاء‘‘ میں نعمت و احسان کا پہلو نمایاں ہے، مگر اوپر کی تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قدرت اور صفات حسنہ کا پہلو بھی اس میں موجود ہے۔