Tafheem ul Quran

Surah 55 Ar-Rahman, Ayat 26-45

كُلُّ مَنۡ عَلَيۡهَا فَانٍ​ ۚ​ ۖ‏ ﴿55:26﴾ وَّيَبۡقٰى وَجۡهُ رَبِّكَ ذُو الۡجَلٰلِ وَالۡاِكۡرَامِ​ۚ‏ ﴿55:27﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:28﴾ يَسۡـئَـلُهٗ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ كُلَّ يَوۡمٍ هُوَ فِىۡ شَاۡنٍ​ۚ‏  ﴿55:29﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:30﴾ سَنَفۡرُغُ لَـكُمۡ اَيُّهَ الثَّقَلٰنِ​ۚ‏ ﴿55:31﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:32﴾ يٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَالۡاِنۡسِ اِنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ اَنۡ تَنۡفُذُوۡا مِنۡ اَقۡطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ فَانْفُذُوۡا​ؕ لَا تَنۡفُذُوۡنَ اِلَّا بِسُلۡطٰنٍ​ۚ‏ ﴿55:33﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:34﴾ يُرۡسَلُ عَلَيۡكُمَا شُوَاظٌ مِّنۡ نَّارٍ ۙ وَّنُحَاسٌ فَلَا تَنۡتَصِرٰنِ​ۚ‏  ﴿55:35﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:36﴾ فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَكَانَتۡ وَرۡدَةً كَالدِّهَانِ​ۚ‏ ﴿55:37﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:38﴾ فَيَوۡمَـئِذٍ لَّا يُسۡـئَـلُ عَنۡ ذَنۡۢبِهٖۤ اِنۡسٌ وَّلَا جَآنٌّ​ۚ‏ ﴿55:39﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:40﴾ يُعۡرَفُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ بِسِيۡمٰهُمۡ فَيُؤۡخَذُ بِالنَّوَاصِىۡ وَ الۡاَقۡدَامِ​ۚ‏  ﴿55:41﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:42﴾ هٰذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِىۡ يُكَذِّبُ بِهَا الۡمُجۡرِمُوۡنَ​ۘ‏ ﴿55:43﴾ يَطُوۡفُوۡنَ بَيۡنَهَا وَبَيۡنَ حَمِيۡمٍ اٰنٍ​ۚ‏ ﴿55:44﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:45﴾

26 - 25 ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے 27 - اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔ 28 - پس اے جِنّ و اِنس، تم اپنے رب کے کن کن کمالات کو جھٹلاؤ گے؟ 26 29 - زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں سب اپنی حا جتیں اُسی سے مانگ رہے ہیں ۔ ہر آن وہ نئی شان میں ہے۔ 27 30 - پس اے جِنّ و اِنس، تم اپنے رب کی کن کن صفاتِ حمیدہ کو جھٹلاؤ گے؟ 28 31 - اے زمین کے بوجھو، 29 عنقریب ہم تم سے باز پُرس کرنے کے لیے فارغ ہوئے جاتے ہیں، 30 32 - پھر دیکھ لیں گے کہ ، تم اپنے رب کے کن کن احسانات کو جھٹلاتے ہو۔ 31 33 - اے گروہ جِنّ و اِنس، اگر تم زمین اور آسمانوں کی سرحدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ دیکھو۔ نہیں بھاگ سکتے۔ اس کے لیے بڑا زور چاہیے۔ 32 34 - اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو تم جھٹلاؤ گے؟ 35 - (بھاگنے کی کوشش کرو گے تو) تم پر آگ کا شعلہ اور دھواں 33 چھوڑ دیا جائیگا جس کا تم مقابلہ نہ کر سکو گے۔ 36 - اے جِنّ و اِنس ، تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کا انکار کرو گے؟ 37 - پھر (کیا بنے گی اُس وقت) جب آسمان پھٹے گا اور لال چمڑے کی طرح سُرخ ہو جائے گا؟ 34 38 - اے جِنّ و اِنس (اُس وقت) تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو جھٹلاؤ گے؟ 35 39 - اُس روز کسی انسان اور کسی جِن سے اُس کا گناہ پوچھنے کی ضرورت نہ ہوگی، 36 40 - پھر(دیکھ لیاجائے گا کہ) تم دونوں گروہ اپنے رب کے کن کن احسانات کا انکار کرتے ہو۔ 37 41 - مجرم وہاں اپنے چہروں سے پہچان لیے جائیں گے اور انہیں پیشانی کے بال اور پاؤں کے پکڑ پکڑ کر گھسیٹا جائے گا۔ 42 - اُس وقت تم اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو جھٹلاؤ گے؟ 43 - (اُس وقت کہا جائے گا) یہ وہی جہنم ہے جس کو مجرمین جھوٹ قرار دیا کرتے تھے۔ 44 - اسی جہنم اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان وہ گردش کرتے رہیں گے۔ 38 45 - پھر اپنے رب کی کن کن قدرتوں کو تم جھٹلاؤ گے؟ 39 ؏۲


Notes

25. یہاں سے آیت 30 تک جن و انس کو دو حقیقتوں سے آگاہ کیا گیا ہے : ایک یہ کہ نہ تم خود لا فانی ہو اور نہ وہ سر و سامان لازوال ہے جس سے تم اس دنیا میں متمتع ہو رہے ہو۔ لافانی اور لازوال تو صرف اس خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہے جس کی عظمت پر یہ کائنات گواہی دے رہی ہے اور جس کے کرم سے تم کو یہ کچھ نعمتیں نصیب ہوئی ہیں۔ اب اگر تم میں سے کوئی شخص ہم چو من دیگرے نیست کے گھمنڈ میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ محض اس کی کم ظرفی ہے۔اپنے ذرا سے دائرہ اختیار میں کوئی بے وقوف کبریائی کے ڈنکے بجا لے، یا چند بندے جو اس کے ہتھے چڑھیں، ان کا خدا بن بیٹھے، تو یہ دھوکے کی ٹٹی کتنی دیر کھڑی رہ سکتی ہے۔ کائنات کی وسعتوں میں جس زمین کی حیثیت ایک مٹر کے دانے برابر بھی نہیں ہے، اس کے ایک کونے میں دس بیس یا پچاس ساٹھ برس جو خدائی اور کبریائی ملے اور پھر قصہ ماضی بن کر رہ جائے، وہ آخر کیا خدائی اور کیا کبریائی ہے جس پر کوئی پھولے۔

دوسری اہم حقیقت جس پر ان دونوں مخلوقوں کو متنبہ کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے سوا دوسری جن ہستیوں کو بھی تم معبود و مشکل کشا اور حاجت روا بناتے ہو، خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء و اولیاء، یا چاند اور سورج، یا کسی اور قسم کی مخلوق، ان میں سے کوئی تمہاری کسی حاجت کو پورا نہیں کر سکتا۔ وہ بیچارے تو خود اپنی حاجات و ضروریات کے لیے اللہ کے محتاج ہیں۔ ان کے ہاتھ تو خود اس کے آگے پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ خود اپنی مشکل کشائی بھی اپنے بل بوتے پر نہیں کر سکتے تو تمہاری مشکل کشائی کیا کریں گے۔ زمین سے آسمانوں تک اس نا پیدا کنار کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے، تنہا ایک خدا کے حکم سے ہو رہا ہے۔ کار فرمائی میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے کہ وہ کسی معاملہ میں کسی بندے کی قسمت پر اثر انداز ہو سکے۔

26. یہاں موقع و محل خود بتا رہا ہے۔ کہ آلاء کا لفظ کمالات کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ فانی مخلوقات میں سے جو کوئی بھی کبریائی کے زعم میں مبتلا ہوتا ہے۔ اور اپنی جھوٹی خدائی کو لازوال سمجھ کر اَینٹھتا اور اکڑتا ہے وہ اگر زبان سے نہیں تو اپنے عمل سے ضرور رب العالمین کی عظمت و جلالت کو جھٹلاتا ہے۔ اس کا غرور بجائے خود اللہ کی کبریائی کی تکذیب ہے۔ جو دعویٰ بھی وہ کسی کمال کا اپنی زبان سے کرتا ہے یا جس کا ادعا اپنے نفس میں رکھتا ہے، وہ اصل صاحب کمال کے مقام و منصب کا انکار ہے۔

27. یعنی ہر وقت اس کار گاہ عالم میں اس کی کارفرمائی کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے، کسی کو مار رہا ہے اور کسی کو جلا رہا ہے۔ کسی کو اٹھا رہا ہے اور کسی کو گرا رہا ہے۔ کسی کو شفا دے رہا ہے اور کسی کو بیماری میں مبتلا کر رہا ہے۔ کسی ڈوبتے کو بچا رہا ہے اور کسی تیرتے کو ڈبو رہا ہے۔ بے شمار مخلوقات کو طرح طرح سے رزق دے رہا ہے۔ بے حد و حساب چیزیں نئی سے نئی وضع اور شکل اور اوصاف کے ساتھ پیدا کر رہا ہے۔ اس کی دنیا کبھی ایک حال پر نہیں رہتی۔ ہر لمحہ اس کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور اس کا خالق ہر بار اسے ایک نئی صورت سے ترتیب دیتا ہے جو پچھلی تمام صورتوں سے مختلف ہوتی ہے۔

28. یہاں آلاء کا مفہوم اوصاف ہی زیادہ موزوں نظر آتا ہے۔ ہر شخص جو کسی نوعیت کا شرک کرتا ہے، در اصل وہ الہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت کی تکذیب کرتا ہے۔ کسی کا یہ کہنا کہ فلاں حضرت نے میری بیماری دور کر دی، اصل میں یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ شافی نہیں ہے بلکہ وہ حضرت شافی ہیں۔ کسی کا کہنا کہ فلاں بزرگ کی عنایت سے مجھے روز گار مل گیا، حقیقت میں یہ کہنا ہے کہ رازق اللہ نہیں ہے بلکہ وہ بزرگ رازق ہیں۔ کسی کا یہ کہنا کہ فلاں آستانے سے میری مراد بر آئی، گویا در اصل یہ کہنا ہے کہ دنیا میں حکم اللہ کا نہیں بلکہ اس آستانے کا چل رہا ہے۔ غرض ہر مشرکانہ عقیدہ اور مشرکانہ قول آخری تجزیہ میں صفات الٰہی کی تکذیب ہی پر منتہی ہوتا ہے۔ شرک کے معنی ہی یہ ہیں کہ آدمی دوسروں کو سمیع و بصیر عالم الغیب، فاعل مختار، قادر و متصرف، اور الوہیت کے دوسرے اوصاف سے متصف قراردے رہا ہے اور اس بات کا انکار کر رہا ہے کہ اکیلا اللہ ہی ان صفات کا مالک ہے۔

29. اصل میں لفظ ثَقَلَان استعمال ہوا ہے جس کا مادہ ثقل ہے۔ ثقل کے معنی بوجھ کے ہیں، اور ثَقَل اس بار کو کہتے ہیں جو سواری پر لدا ہوا ہو۔ ثَقَلین کا لفظی ترجمہ ہو گا ’’ دو لدے ہوئے بوجھ‘‘۔ اس جگہ یہ لفظ جن و انس کے لیے استعمال کیا گیا ہے کیوں کہ یہ دونوں زمین پر لدے ہوئے ہیں، اور چونکہ اوپر سے خطاب ان انسانوں اور جنوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے جو اپنے رب کی طاعت و بندگی سے منحرف ہیں، اور آگے بھی آیت 45 تک وہی مخاطب ہیں، اس لیے ان کو اَیُّھَا الثَّقَلَانِ کہہ کر خطاب فرمایا گیا ہے، گویا خالق اپنی مخلوق کے ان دونوں نالائق گروہوں سے فرما رہا ہے کہ اے وہ لوگوں جو میری زمین پر بار بنے ہوئے ہو، عنقریب میں تمہاری خبر لینے کے لیے فارغ ہوا جاتا ہوں۔

30. اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ ایسا مشغول ہے کہ اسے ان نا فرمانوں سے باز پرس کرنے کی فرصت نہیں ملتی۔ بلکہ اس کا مطلب در اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص اوقات نامہ مقرر کر رکھا ہے جس کے مطابق پہلے وہ ایک معین مدت تک اس دنیا میں انسانوں اور جنوں کی نسلوں پر نسلیں پیدا کرتا رہے گا اور انہیں دنیا کی اس امتحان گاہ میں لا کر کام کرنے کا موقع دے گا۔ پھر ایک مخصوص ساعت میں امتحان کا یہ سلسلہ یک لخت بند کر دیا جائے گا اور تمام جن و انس جو اس وقت موجود ہوں گے بیک وقت ہلاک کر دیے جائیں گے پھر ایک اور ساعت نوع انسانی اور نوع جِن، دونوں سے باز پرس کرنے کے لیے اس کے ہاں طے شدہ ہے جب ان کے اولین و آخرین کو از سر نو زندہ کر کے بیک وقت جمع کیا جائے گا۔ اس اوقات نامہ کے لحاظ سے فرمایا گیا ہے کہ ابھی ہم پہلے دور کا کام کر رہے ہیں اور دوسرے دور کا وقت بھی نہیں آیا ہے، کجا کہ تیسرے دور کا کام اس وقت شروع کر دیا جائے مگر تم گھبراؤ نہیں، عنقریب وہ وقت آیا چاہتا ہے جب ہم تمہاری خبر لینے کے لیے فارغ ہو جائیں گے۔ یہ عدم فراغت اس معنی میں نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک کام نے ایسا مشغول کر رکھا ہے کہ دوسرے کام کی فرصت وہ نہیں پا رہا ہے۔ بلکہ اس کی نوعیت ایسی ہے جیسے ایک شخص نے مختلف کاموں کے لیے ایک ٹائم ٹیبل بنا رکھا ہو اور اس کی رو سے جس کام کا وقت ابھی نہیں آیا ہے اس کے بارے میں وہ کہے کہ میں سر دست اس کے لیے فارغ نہیں ہوں۔

31. یہاں آلاء کو قدرتوں کے معنی میں بھی لیا جا سکتا ہے۔ سلسلہ کلام کو نگاہ میں رکھ جائے تو یہ دونوں معنی ایک ایک لحاظ سے مناسب نظر آتے ہیں۔ ایک معنی لیے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ آج تم ہماری نعمتوں کی ناشکریاں کر رہے ہو اور کفر، شرک، دہریت، فسق اور نافرمانی کے مختلف رویے اختیار کر کے طرح طرح کی نمک حرامیاں کیے چلے جاتے ہو، مگر کل جب باز پرس کا وقت آئے گا اس وقت ہم دیکھیں گے کہ ہماری کس کس نعمت کو تم اتفاقی حادثہ، یا اپنی قابلیت کا ثمرہ، یا کسی دیوی دیوتا یا بزرگ ہستی کی مہر بانی کا کرشمہ ثابت کرتے ہو۔ دوسرے معنی لیے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ آج تم قیامت اور حشرو نشر اور حساب و کتا ب اور جنت و دوزخ کا مذاق اڑاتے ہو اور اپنے نزدیک اس خیال خام میں مبتلا ہو کہ ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ مگر جب ہم باز پرس کے لیے تم کو گھیر لائیں گے اور وہ سب کچھ تمہارے سامنے آ جائے گا جس کا آج تم انکار کر رہے ہو اس وقت ہم دیکھیں گے کہ ہماری کس کس قدرت کو تم جھٹلاتے ہو۔

32. زمین اور آسمانوں سے مراد ہے کائنات، یا بالفاظ دیگر خدا کی خدائی۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی گرفت سے بچ نکلنا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ جس باز پرس کی تمہیں خبر دی جا رہی ہے اس کا وقت آنے پر تم خواہ کسی جگہ بھی ہو، بہر حال پکڑ لائے جاؤ گے۔ اس سے بچنے کے لیے تمہیں خدا کی خدائی سے بھاگ نکلنا ہو گا اور اس کا بل بوتا تم میں نہیں ہے۔اگر ایسا گھمنڈ تم اپنے دل میں رکھتے ہو تو اپنا زور لگا کر دیکھ لو۔

33. اصل میں شُواظ اور نُحاس کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ شواظ اس خالص شعلے کو کہتے ہیں جس کے ساتھ دھواں نہ ہو۔ اور نُحاس اس خالص دھویئں کو کہتے ہیں جس میں شعلہ نہ ہو۔ یہ دونوں چیزیں یکے بعد دیگرے انسانوں اور جِنوں پر اس حالت میں چھوڑی جائیں گی جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کی باز پرس سے بچ کر بھاگنے کی کوشش کریں۔

34. یہ روز قیامت کا ذکر ہے۔ آسمان کے پھٹنے سے مراد ہے بندش افلاک کا کھل جانا، اجرامِ سماوی کا منتشر ہو جانا، عالم بالا کے نظم کا درہم برہم ہو جانا۔ اور یہ جو فرمایا کہ آسمان اس لال چمڑے کی طرح سرخ ہو جائے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ہنگامہ عظیم کے وقت جو شخص زمین سے آسمان کی طرف دیکھے گا اسے یوں محسوس ہو گا کہ جیسے سارے عالم بالا پر ایک آگ سی لگی ہوئی ہے۔

35. یعنی آج تم قیامت کو ناممکن قرار دیتے ہو جس کے معنی یہ ہیں کہ تمہارے نزدیک اللہ تعالیٰ اس کے برپا کرنے پر قادر نہیں ہے۔ مگر جب وہ برپا ہو جائے گی اور اپنی آنکھوں سے تم وہ سب کچھ دیکھ لو گے جس کی تمہیں خبر دی جا رہی ہے، اس وقت تم اللہ کی کس کس قدرت کا انکار کرو گے؟

36. اس کی تشریح آگے کا یہ فقرہ کر رہا ہے کہ مجرم وہاں اپنے چہروں سے پہچان لیے جائیں گے ‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اس عظیم الشان مجمع میں جہاں تمام اولین و آخرین اکٹھے ہوں گے، یہ پوچھتے پھرنے کی ضرورت نہ ہوگی کہ کون کون لوگ مجرم ہیں۔ نہ کسی انسان یا جن سے یہ دریافت کرنے کی ضرورت پیش آئے گی کہ وہ مجرم ہے یا نہیں۔ مجرموں کے اترے ہوئے چہرے اور ان کی خوف زدہ آنکھیں اور ان کی گھبرائی ہوئی صورتیں اور ان کے چھوٹتے ہوئے پسینے خود ہی یہ راز فاش کر دینے کے لیے کافی ہوں گے کہ وہ مجرم ہیں۔ پولس کے گھیرے میں اگر ایک ایسا مجمع آ جائے جس میں بے گناہ اور مجرم، دونوں قسم کے لوگ ہوں، تو بے گناہوں کے چہرے کا اطمینان اور مجرموں کے چہروں کا اضطراب بیک نظر بتا دیتا ہے کہ اس مجمع میں مجرم کو ن ہے اور بے گناہ کون۔ دنیا میں یہ کلیہ بسا اوقات اس لیے غلط ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی پولیس کے بے لاگ انصاف پسند ہونے پر لوگوں کو بھروسا نہیں ہوتا، بلکہ با رہا اس کے ہاتھوں مجرموں کی بہ نسبت شریف لوگ زیادہ پریشان ہوتے ہیں، اس لیے یہاں یہ ممکن ہے کہ اس پولیس کے گھیرے میں آ کر شریف لوگ مجرموں سے بھی زیادہ خوف زدہ ہو جائیں۔ مگر آخرت میں، جہاں ہر شریف آدمی کو اللہ تعالیٰ کے انصاف پر کامل اعتماد ہو گا، یہ گھبراہٹ صرف ایک ان ہی لوگوں پر طاری ہو گی جن کے ضمیر خود اپنے مجرم ہونے سے آگاہ ہونگے اور جنہیں میدان حشر میں پہنچتے ہی یقین ہو جائے گا کہ اب ان کی وہ شامت آ گئی ہے جسے ناممکن یا مشتبہ سمجھ کر وہ دنیا میں جرائم کرتے رہے تھے۔

37. جرم کی حقیقی بنیاد قرآن کی نگاہ میں یہ ہے کہ بندہ جو اپنے رب کی نعمتوں سے متمتع ہو رہا ہے،اپنے نزدیک یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ نعمتیں کسی کی دی ہوئی نہیں ہیں بلکہ آپ سے آپ اسے مل گئی ہیں، یا یہ کہ یہ نعمتیں خدا کا عطیہ نہیں بلکہ اس کی اپنی قابلیت یا خوش نصیبی کا ثمرہ ہیں، یا یہ کہ یہ ہیں تو خدا کا عطیہ مگر اس خدا کا اپنے بندے پر کوئی حق نہیں ہے۔ یا یہ کہ خدا نے خود یہ مہربانیاں اس پر نہیں کی ہیں بلکہ یہ کسی دوسری ہستی نے اس سے کروا دی ہیں۔ یہی وہ غلط تصورات ہیں جن کی بنا پر آدمی خدا سے بے نیاز اور اس کی اطاعت و بندگی سے آزاد ہو کر دنیا میں وہ افعال کرتا ہے جن سے خدا نے منع کیا ہے اور وہ افعال نہیں کرتا جن کا اس نے حکم دیا ہے۔ اس لحاظ سے ہر جرم اور ہر گناہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے احسانات کی تکذیب ہے قطع نظر اس سے کہ کوئی شخص زبان سے ان کا انکار کرتا ہو یا اقرار۔ مگر جو شخص فی الواقع تکذیب کا ارادہ نہیں رکھتا، بلکہ اس کے ذہن کی گہرائیوں میں تصدیق موجود ہوتی ہے، وہ احیاناً کسی بشری کمزوری سے کوئی قصور کر بیٹھے تو اس پر استغفار کرتا ہے اور اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ چیز اسے مکذبین میں شامل ہونے سے بچا لیتی ہے۔ اس کے سوا باقی تمام مجرم در حقیقت اللہ کی نعمتوں کے مکذب اور اس کے احسانات کے منکر ہیں۔ اسی لیے فرمایا کہ جب تم لوگ مجرم کی حیثیت سے گرفتار ہو جاؤ گے اس وقت ہم دیکھیں گے کہ تم ہمارے کس کس احسان کا انکار کرتے ہو۔ سورہ تکاثر میں یہی بات اس طرح فرمائی گئی ہے کہ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ، اس روز ضرور تم سے ان نعمتوں کے بارے میں باز پرس کی جائے گی جو تمہیں دی گئی تھیں۔ یعنی پوچھا جائے گا کہ یہ نعمتیں ہم نے تمہیں دی تھیں یا نہیں؟ اور انہیں پاکر تم نے اپنے محسن کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا؟ اور اس کی نعمتوں کو کس طرح استعمال کیا؟

38. یعنی جہنم میں بار بار پیاس کے مارے ان کا برا حال ہوگا، بھاگ بھاگ کر پانی کے چشموں کی طرف جائیں گے، مگر وہاں کھولتا ہوا پانی ملے گا جس کے پینے سے کوئی پیاس نہ بجھے گی۔ اس طرح جہنم اور ان چشموں کے درمیان گردش کرنے ہی میں ان کی عمریں بیت جائیں گی۔

39. یعنی یا اس وقت بھی تم اس کا انکار کر سکو گے کہ خدا قیامت لا سکتا ہے، تمہیں موت کے بعد دوسری زندگی دے سکتا ہے،تم سے باز پرس بھی کر سکتا ہے، اور یہ جہنم بھی بنا سکتا ہے جس میں آج تم سزا پا رہے ہو؟