Tafheem ul Quran

Surah 55 Ar-Rahman, Ayat 46-78

وَلِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ​ۚ‏ ﴿55:46﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِۙ‏ ﴿55:47﴾ ذَوَاتَاۤ اَفۡنَانٍ​ۚ‏ ﴿55:48﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:49﴾ فِيۡهِمَا عَيۡنٰنِ تَجۡرِيٰنِ​ۚ‏ ﴿55:50﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:51﴾ فِيۡهِمَا مِنۡ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوۡجٰنِ​ۚ‏ ﴿55:52﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:53﴾ مُتَّكِـئِيۡنَ عَلٰى فُرُشٍۢ بَطَآئِنُهَا مِنۡ اِسۡتَبۡرَقٍ​ؕ وَجَنَی الۡجَـنَّتَيۡنِ دَانٍ​ۚ‏ ﴿55:54﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:55﴾ فِيۡهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِۙ لَمۡ يَطۡمِثۡهُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَهُمۡ وَلَا جَآنٌّ​ۚ‏  ﴿55:56﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ۚ‏ ﴿55:57﴾ كَاَنَّهُنَّ الۡيَاقُوۡتُ وَالۡمَرۡجَانُ​ۚ‏ ﴿55:58﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:59﴾ هَلۡ جَزَآءُ الْاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ​ۚ‏ ﴿55:60﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:61﴾ وَمِنۡ دُوۡنِهِمَا جَنَّتٰنِ​ۚ‏ ﴿55:62﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِۙ‏ ﴿55:63﴾ مُدۡهَآمَّتٰنِ​ۚ‏ ﴿55:64﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ​ۚ‏ ﴿55:65﴾ فِيۡهِمَا عَيۡنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ​ۚ‏ ﴿55:66﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:67﴾ فِيۡهِمَا فَاكِهَةٌ وَّنَخۡلٌ وَّرُمَّانٌ​ۚ‏ ﴿55:68﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ​ۚ‏ ﴿55:69﴾ فِيۡهِنَّ خَيۡرٰتٌ حِسَانٌ​ۚ‏ ﴿55:70﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ​ۚ‏ ﴿55:71﴾ حُوۡرٌ مَّقۡصُوۡرٰتٌ فِى الۡخِيَامِ​ۚ‏ ﴿55:72﴾ ​فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ​ۚ‏ ﴿55:73﴾ لَمۡ يَطۡمِثۡهُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَهُمۡ وَلَا جَآنٌّ​ۚ‏ ﴿55:74﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ​ۚ‏ ﴿55:75﴾ مُتَّكِـئِيۡنَ عَلٰى رَفۡرَفٍ خُضۡرٍ وَّعَبۡقَرِىٍّ حِسَانٍ​ۚ‏ ﴿55:76﴾ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‏ ﴿55:77﴾ تَبٰـرَكَ اسۡمُ رَبِّكَ ذِى الۡجَـلٰلِ وَالۡاِكۡرَامِ‏ ﴿55:78﴾

46 - اور ہر اُس شخص کے لیے جو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا خوف رکھتا ہو، 40 دو باغ ہیں۔ 41 47 - اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟42 48 - ہری بھری ڈالیوں سے بھر پور۔ 49 - اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟ 50 - دونوں باغوں میں دو چشمے رواں۔ 51 - اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟ 52 - دونوں باغوں میں ہر پھل کی دو قسمیں ۔ 43 53 - اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟ 54 - جنّتی لوگ ایسے فرشوں پر تکیے لگا کے بیٹھیں گے جن کے اَستر دبیز ریشم کے ہوں گے، 44 اور باغوں کی ڈالیاں پھلوں سے جھکی پڑرہی ہوں گی۔ 55 - اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟ 56 - اِن نعمتوں کے درمیان شرمیلی نگاہوں والیاں ہوں گی 45 جنہیں اِن جنتیوں سے پہلے کسی انسان یا جِن نے چُھوا نہ ہوگا۔46 57 - اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟ 58 - ایسی خوبصورت جیسے ہیرے اور موتی۔ 59 - اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟ 60 - نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ 47 61 - پھر اے جِنّ و اِنس۔ اپنے رب کے کن کن اوصاف ِحمیدہ کا تم انکار کرو گے؟ 48 62 - اور ان دو باغوں کے علاوہ دوباغ اور ہوں گے ۔ 49 63 - اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟ 64 - گھَنے سرسبز و شاداب باغ۔ 50 65 - اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟ 66 - دونوں باغوں میں دو چشمے فواروں کی طرح اُبلتے ہوئے۔ 67 - اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟ 68 - اُن میں بکثرت پھل اور کھجوریں اور انار۔ 69 - اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟ 70 - اِن نعمتوں کے درمیان خوب سیرت اور خوبصورت بیویاں ۔ 71 - اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟ 72 - خیموں میں ٹھیرائی ہوئی حُوریں۔ 51 73 - اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟ 74 - ان جنتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جِن نے اُن کو نہ چھؤا ہوگا۔ 75 - اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟ 76 - وہ جنّتی سبز قالینوں اور نفیس و نادر فرشوں52 پر تکیے لگا کے بیٹھیں گے۔ 77 - اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟ 78 - بڑی برکت والا ہے تیرے ربِّ جلیل و کریم کا نام۔ ؏۳


Notes

40. یعنی جس نے دنیا میں خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کی ہو، جسے ہمیشہ یہ احساس رہا ہو کہ میں دنیا میں شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہوں، بلکہ ایک روز مجھے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہو نا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ یہ عقیدہ جس شخص کا ہو وہ لامحالہ خواہشات نفس کی بندگی سے بچے گا اندھا دھند ہر راستے پر نہ چل کھڑا ہو گا۔ حق و باطل، ظلم و انصاف، پاک و ناپاک اور حلال و حرام میں تمیز کرے گا۔ اور جان بوجھ کر خدا کے احکام کی پیروی سے منہ نہ موڑے گا۔ یہی اس جزا کی اصل علّت ہے جو آگے بیان کی جا رہی ہے۔

41. جنت کے اصل معنی باغ کے ہیں۔ قرآن مجید میں کہیں تو اس پورے عالم کو جس میں نیک لوگ رکھے جائیں گے جنت کہا گیا ہے، گویا کہ وہ پورا کا پورا ایک باغ ہے۔ اور کہیں فرمایا گیا ہے کہ ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس بڑے باغ میں بے شمار باغات ہوں کے۔ اور یہاں تعین کے ساتھ ارشاد ہوا ہے کہ ہر نیک شخص کو اس بڑی جنت میں دو دو جنتیں دی جائیں گی جو اسی کے لیے مخصوص ہوں گی، جن میں اس کے اپنے قصر ہوں گے، جن میں وہ اپنے متعلقین اور خدام کے ساتھ شاہانہ ٹھاٹھ کے ساتھ رہے گا، جن میں اس کے لیے وہ کچھ سرو سامان فراہم ہوگا جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔

42. یہاں سے آخر تک آلاء کا لفظ نعمتوں کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے اور قدرتوں کے معنی میں بھی۔ اور ایک پہلو اس میں صفات حمیدہ کا بھی ہے۔ اگر پہلے معنی لیے جائیں تو اس سلسلہ بیان میں اس فقرے کا بار بار دہرانے کا مطلب یہ ہوگا کہ تم جھٹلانا چاہتے ہو تو جھٹلا تے رہو، خدا ترس لوگوں کو تو ان کے رب کی طرف سے یہ نعمتیں ضرور مل کر رہیں گی۔ دوسرے معنی لیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہارے نزدیک اللہ کا جنت بنانے پر قادر ہونا اور اس میں یہ نعمتیں اپنے نیک بندوں کو عطا کرنا غیر ممکن ہے تو ہوتا رہے، اللہ یقیناً اس کی قدرت رکھتا ہے اور وہ یہ کام کر کے رہے گا۔ تیسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تم نیکی اور بدی کی تمیز سے عاری سمجھتے ہو۔ تمہارے نزدیک وہ اتنی بڑی دنیا تو بنا بیٹھا ہے مگر اس میں خواہ کوئی ظلم کرے یا انصاف، حق کے لیے کام کرے یا باطل کے لیے، شر پھیلائے یا خیر، اسے اس کی کوئی پروا نہیں۔ وہ نہ ظالم کو سزا دینے والا ہے، نہ مظلوم کی داد رسی کرنے والا۔ نہ خیر کا قدر شناس ہے نہ شر سے نفور۔ پھر وہ تمہارے خیال میں عاجز بھی ہے۔ زمین و آسمان تو وہ بنا لیتا ہے، مگر ظالموں کی سزا کے لیے جہنم اور حق کی پیروی کرنے والوں کو اجر دینے کے لیے جنت بنا دینے پر وہ قادر نہیں ہے۔ اس کے اوصاف حمیدہ کی یہ تکذیب آج تم جتنی چاہو کر لو۔ کل جب وہ ظالموں کو جہنم میں جھونک دے گا اور حق پرستوں کو جنت میں یہ کچھ نعمتیں دے گا، کیا اس وقت بھی تم اس کے ان اوصاف کو جھٹلا سکو گے؟

43. اس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں باغوں کے پھلوں کی شان نرالی ہو گی۔ ایک باغ میں جائے گا تو ایک شان کے پھل اس کی ڈالیوں میں لدے ہوئے ہوں گے۔ دوسرے باغ میں جائے گا تو اس کے پھلوں کی شان کچھ اور ہی ہوگی۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان میں سے ہر باغ میں ایک قسم کے پھل معروف ہوں گے جن سے وہ دنیا میں بھی آشنا تھا، خواہ مزے میں وہ دنیا کے پھلوں سے کتنے ہی فائق ہوں، اور دوسری قسم کے پھل نادر ہونگے جو دنیا میں کبھی اس کے خواب و خیال میں بھی نہ آئے تھے۔

44. یعنی جب ان کے استر اس شان کے ہونگے تو اندازہ کر لو کہ ابرے کس شان کے ہو ں گے۔

45. یہ عورت کی اصل خوبی ہے کہ وہ بے شرم اور بیباک نہ ہو بلکہ نظر میں حیا رکھتی ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کے درمیان عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلے ان کے حسن و جمال کی نہیں بلکہ ان کی حیا داری اور عفت مآبی کی تعریف فرمائی ہے۔ حسین عورتیں تو مخلوط کلبوں اور فلمی نگار خانوں میں بھی جمع ہو جاتی ہیں، اور حسن کے مقابلوں میں تو چھانٹ چھانٹ کر ایک سے ایک حسین عورت لائی جاتی ہے، مگر صرف ایک بد ذوق اور بد قوِارہ آدمی ہی ان سے دلچسپی لے سکتا ہے۔ کسی شریف آدمی کو وہ حسن اپیل نہیں کر سکتا جو ہر بد نظر کو دعوت نظارہ دے اور ہر آغوش کی زینت بننے لیے تیار ہو۔

46. اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں خواہ کوئی عورت کنواری مر گئی ہو یا کسی کی بیوی رہ چکی ہو، جو ان مری ہو یا بوڑھی ہو کر دنیا سے رخصت ہوئی ہو، آخرت میں جب یہ سب نیک خواتین جنت میں داخل ہوں گی تو جوان اور کنواری بنا دی جائیں گی، اور وہاں ان میں سے جس خاتون کو بھی کسی نیک مرد کی رفیقہ حیات بنایا جائے گا وہ جنت میں اپنے اس شوہر سے پہلے کسی کے تصرف میں آئی ہوئی نہ ہوگی۔

اس آیت سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ جنت میں نیک انسانوں کی طرح نیک جن بھی داخل ہوں گے، اور وہاں جس طرح انسان مردوں کے لیے انسان عورتیں ہونگی اسی طرح جن مردوں کے لیے جن عورتیں ہونگی۔ دونوں کی رفاقت کے لیے انہی کے ہم جنس جوڑے ہونگے۔ ایسا نہ ہو گا کہ ان کا جوڑ کسی نا جنس مخلوق سے لگا دیا جائے جس سے وہ فطرتاً مانوس نہیں ہو سکتے۔ آیت کے یہ ا لفاظ کہ ’’ ان سے پہلے کسی انسان یا جن نے ان کو نہ چھوا ہوگا،‘‘ اس معنی میں نہیں ہیں کہ وہاں عورتیں صرف انسان ہوں گی اور ان کو ان کے شوہروں سے پہلے کسی انسان یا جن نے نہ چھوا ہوگا، بلکہ ان کا اصل مطلب یہ ہے کہ وہاں جن اور انسان، دونوں جنسوں کی عورتیں ہوں گی،سب حیا دار اور اچھوتی ہوں گی، نہ کسی جن عورت کو اس کے جنّتی شوہر پہلے کسی جن مرد نے ہاتھ لگایا ہوگا اور نہ کسی انسان عورت کو اس کے جنتی شوہر سے پہلے کسی انسان مرد نے ملوث کیا ہو گا

47. یعنی آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی خاطر دنیا میں عمر بھر اپنے نفس پر پابندیاں لگائے رہے ہوں، حرام سے بچتے اور حلال پر اکتفا کرتے رہے ہوں، فرض بجا لا تے رہے ہوں، حق کو حق مان کر تمام حق داروں کے حقوق ادا کرتے رہے ہوں، اور شر کے مقابلے میں ہر طرح کی تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کر کے خیر کی حمایت کرتے رہے ہوں، اللہ ان کی یہ ساری قربانیاں ضائع کر دے اور انہیں کبھی ان کا اجر نہ دے؟

48. ظاہر بات ہے کہ جو شخص جنت اور اس کے اجر و ثواب کا منکر ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات حسنہ کا انکار کرتا ہے۔ وہ اگر خدا کو مانتا بھی ہے تو اس کے متعلق بہت بری رائے رکھتا ہے۔ اس کے نزدیک وہ ایک چوپٹ راجہ ہے جس کی اندھیر نگری میں نیکی کرنا گویا اسے دریا میں ڈال دینا ہے۔ وہ یا تو اسے اندھا اور بہرا سمجھتا ہے جسے کچھ خبر ہی نہیں کہ اس کی خدائی میں کون اس کی رضا کی خاطر جان، مال، نفس اور محنتوں کی قربانیاں دے رہا ہے۔ یا اس کے نزدیک وہ بے حس اور نا قدر شناس ہے جسے بھلے اور برے کی کچھ تمیز نہیں۔ یا پھر اس کے خیال ناقص میں وہ عاجز و در ماندہ ہے جس کی نگاہ میں نیکی کی قدر چاہے کتنی ہی ہو، مگر اس کا اجر دینا اس کے بس ہی میں نہیں ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ جب آخرت میں نیکی کا نیک بدلہ تمہاری آنکھوں کے سامنے دے دیا جائے گا، کیا اس وقت بھی تم اپنے رب کے اوصاف حمیدہ کا انکار کر سکو گے؟

49. اصل الفاظ ہیں مِنْ دُوْنِھِمَا جَنَّتٰن۔ دُوْن کا لفظ عربی زبان میں تین مختلف معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک، کسی اونچی چیز کے مقابلے میں نیچے ہونا۔ دوسرے، کسی افضل و اشرف چیز کے مقابلے میں کم تر ہونا۔ تیسرے، کسی چیز کے ماسوا یا اس کے علاوہ ہونا۔ اس اختلاف معنی کی بنا پر ان الفاظ میں ایک احتمال یہ ہے کہ ہر جنَّتی کو پہلے کے دو باغوں کے علاوہ یہ دو باغ اور دیے جائیں گے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ دو باغ اوپر کے دونوں باغوں کی بہ نسبت مقام یا مرتبے میں فر و تر ہونگے یعنی پہلے دو باغ یا تو بلندی پر ہونگے اور یہ ان سے نیچے واقع ہونگے، یا پہلے دو باغ بہت اعلیٰ درجہ کے ہونگے اور یہ ان کے مقابلے میں کم تر درجہ کے ہونگے۔ اگر پہلے احتمال کو اختیار کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ دو مزید باغ بھی ان ہی جنتیوں کے لیے ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ اور دوسرے احتمال کو اختیار کرنے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ پہلے دو باغ مقربین کے لیے ہیں۔ اور یہ دو باغ اصحاب الیمین کے لیے۔ اس دوسرے احتمال کو جو چیز تقویت پہنچاتی ہے وہ یہ ہے کہ سورہ واقعہ میں نیک انسانوں کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک سابقین، جن کو مقربین بھی کہا گیا ہے، دوسرے اصحاب الیمین، جن کو اصحاب المیمنہ کے نا م سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔ اور ان دونوں کے لیے دو جنتوں کے اوصاف الگ الگ ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ مزید براں اس احتمال کو وہ حدیث بھی تقویت پہنچاتی ہے جو حضرت ابو موسیٰ اشعری سے ان کے صاحبزادے ابوبکر نے روایت کی ہے۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، دو جنتیں سابقین، یا مقربین کے لیے ہونگی جن کے برتن اور آرائش کی ہر چیز سونے کی ہو گی، اور دو جنتیں تابعین، یا اصحاب الیمین کے لیے ہونگی جن کی ہر چیز چاندی کی ہو گی(فتح الباری، کتاب التفسیر، تفسیر سورہ رحمٰن)۔

50. ان باغوں کی تعریف میں لفظ مُدْ ھَامَّتَان استعمال فرمایا گیا ہے۔ مُدْ ھَا مَّۃ ایسی گھنی سر سبزی کو کہتے ہیں جو انتہائی شادابی کے باعث سیاہی مائل ہو گئی ہو۔

51. حور کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 28۔29۔ اور تفسیر سورہ دخان حاشیہ 42۔ خیموں سے مراد غالباً اس طرح کے خیمے ہیں جیسے امراء و رؤساء کے لیے سیر گاہوں میں لگائے جاتے ہیں۔ اغلب یہ ہے کہ اہل جنت کی بیویاں ان کے ساتھ ان کے قصروں میں رہیں گی اور انکی سیر گاہوں میں جگہ جگہ خیمے لگے ہو گے جن میں حوریں ان کے لیے لطف و لذت کا سامان فراہم کریں گی۔ ہمارے اس قیاس کی بنا یہ ہے کہ پہلے خوب سیرت اور خوب صورت بیویوں کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ اس کے بعد اب حوروں کا ذکر الگ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ یہ ان بیویوں سے مختلف قسم کی خواتین ہوں گی۔ اس قیاس کو مزید تقویت اس حدیث سے حاصل ہوتی ہے جو حضرت ام سلمہ سے مروی ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ ’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا، یا رسول اللہ، دنیا کی عورتیں بہتر ہیں یا حوریں؟ حضورؐ نے جواب دیا، دنیا کی عورتوں کو حوروں پر وہی فضیلت حاصل ہے جو ابر ے کو استر پر ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا کس بنا پر؟ فرمایا اس لیے کہ ان عورتوں نے نماز یں پڑھی ہیں، روزے رکھے ہیں اور عبادتیں کی ہیں۔‘‘ (طبرانی)۔ اس سے معلوم ہو ا کہ اہل جنت کی بیویاں تو وہ خواتین ہوں گی جو دنیا میں ایمان لائیں، اور اعمال صالحہ کرتی ہوئی دنیا سے رخصت ہوئیں۔ یہ اپنے ایمان و حسن عمل کے نتیجے میں داخل جنت ہوں گی اور بذات خود جنت کی نعمتوں کی مستحق ہوں گی۔ یہ اپنی مرضی اور پسند کے مطابق یا تو اپنے سابق شوہروں کی بیویاں بنیں گی اگر وہ بھی جنتی ہوں۔یا پھر اللہ تعالی کسی دوسرے جنتی سے ان کو بیاہ دیگا جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کی رفاقت کو پسند کریں۔ رہیں حوریں تو وہ اپنے کسی حسن عمل کے نتیجے میں خود اپنے استحقاق کی بناء پر جنتی نہیں بنیں گی بلکہ اللہ تعالیٰ جنت کی دوسری نعمتوں کی طرح انہیں بھی اہل جنت کے لیے ایک نعمت کے طور پر جوان اور حسین و جمیل عورتوں کی شکل دے کر جنتیوں کو عطا کر دے گا تا کہ وہ ان کی صحبت سےلطف اندوز ہوں۔ لیکن یہ جن و پری کی قسم کی مخلوق نہ ہوں گی، کیوں کہ انسان کبھی صحبت نا جنس سے مانوس نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اغلب یہ ہے کہ یہ وہ معصوم لڑکیاں ہوں گی جو نابالغی کی حالت میں فوت ہو گئیں اور ان کے والدین جنت کے مستحق نہ ہوئے کہ وہ ان کی ذریت کی حیثیت سے جنت میں ان کے ساتھ رکھی جائیں۔

52. اصل میں لفظ عَبْقَرِی استعمال ہوا ہے۔ عرب جاہلیت کے افسانوں میں جنوں کے دارالسلطنت کا نام عَبْقَر تھا جسے ہم اردو میں پرستان کہتے ہیں۔ اسی کی نسبت سے عرب کے لوگ ہر نفیس و نادر چیز کی عَبْقَری کہتے تھے، گویا وہ پرستان کی چیز ہے جس کا مقابلہ اس دنیا کی عام چیزیں نہیں کر سکتیں۔ حتیٰ کہ ان کے محاورے میں ایسے آدمی کو بھی عبقری کہا جاتا تھا جو غیر معمولی قابلیتوں کا مالک ہو، جس سے عجیب و غریب کارنامے صادر ہوں۔ انگریزی میں لفظ (Genius) بھی اسی معنی میں بولا جاتا ہے،اور وہ بھی Genii سے ماخوذ ہے جو جن کا ہم معنی ہے۔ اسی لیے یہاں اہل عرب کو جنت کے سروسامان کی غیر معمولی نفاست و خوبی کا تصور دلانے کے لیے عبقری کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔