Tafheem ul Quran

Surah 56 Al-Waqi'ah, Ayat 1-38

اِذَا وَقَعَتِ الۡوَاقِعَةُ ۙ‏ ﴿56:1﴾ لَيۡسَ لِـوَقۡعَتِهَا كَاذِبَةٌ​ ۘ‏ ﴿56:2﴾ خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ ۙ‏ ﴿56:3﴾ اِذَا رُجَّتِ الۡاَرۡضُ رَجًّا ۙ‏ ﴿56:4﴾ وَّبُسَّتِ الۡجِبَالُ بَسًّا ۙ‏ ﴿56:5﴾ فَكَانَتۡ هَبَآءً مُّنۡۢبَـثًّا ۙ‏ ﴿56:6﴾ وَّكُنۡـتُمۡ اَزۡوَاجًا ثَلٰـثَـةً ؕ‏ ﴿56:7﴾ فَاَصۡحٰبُ الۡمَيۡمَنَةِ ۙ مَاۤ اَصۡحٰبُ الۡمَيۡمَنَةِ ؕ‏ ﴿56:8﴾ وَاَصۡحٰبُ الۡمَشۡـئَـمَةِ ۙ مَاۤ اَصۡحٰبُ الۡمَشۡـئَـمَةِؕ‏ ﴿56:9﴾ وَالسّٰبِقُوۡنَ السّٰبِقُوۡنَۚ  ۙ‏ ﴿56:10﴾ اُولٰٓـئِكَ الۡمُقَرَّبُوۡنَ​ۚ‏ ﴿56:11﴾ فِىۡ جَنّٰتِ النَّعِيۡمِ‏ ﴿56:12﴾ ثُلَّةٌ مِّنَ الۡاَوَّلِيۡنَۙ‏ ﴿56:13﴾ وَقَلِيۡلٌ مِّنَ الۡاٰخِرِيۡنَؕ‏ ﴿56:14﴾ عَلٰى سُرُرٍ مَّوۡضُوۡنَةٍۙ‏ ﴿56:15﴾ مُّتَّكِـئِيۡنَ عَلَيۡهَا مُتَقٰبِلِيۡنَ‏ ﴿56:16﴾ يَطُوۡفُ عَلَيۡهِمۡ وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَۙ‏ ﴿56:17﴾ بِاَكۡوَابٍ وَّاَبَارِيۡقَ ۙ وَكَاۡسٍ مِّنۡ مَّعِيۡنٍۙ‏ ﴿56:18﴾ لَّا يُصَدَّعُوۡنَ عَنۡهَا وَلَا يُنۡزِفُوۡنَۙ‏ ﴿56:19﴾ وَفَاكِهَةٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُوۡنَۙ‏ ﴿56:20﴾ وَلَحۡمِ طَيۡرٍ مِّمَّا يَشۡتَهُوۡنَؕ‏ ﴿56:21﴾ وَحُوۡرٌ عِيۡنٌۙ‏ ﴿56:22﴾ كَاَمۡثَالِ اللُّـؤۡلُـوٴِالۡمَكۡنُوۡنِ​ۚ‏ ﴿56:23﴾ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿56:24﴾ لَا يَسۡمَعُوۡنَ فِيۡهَا لَغۡوًا وَّلَا تَاۡثِيۡمًا ۙ‏ ﴿56:25﴾ اِلَّا قِيۡلًا سَلٰمًا سَلٰمًا‏ ﴿56:26﴾ وَاَصۡحٰبُ الۡيَمِيۡنِ ۙ مَاۤ اَصۡحٰبُ الۡيَمِيۡنِؕ‏ ﴿56:27﴾ فِىۡ سِدۡرٍ مَّخۡضُوۡدٍۙ‏ ﴿56:28﴾ وَّطَلۡحٍ مَّنۡضُوۡدٍۙ‏ ﴿56:29﴾ وَّظِلٍّ مَّمۡدُوۡدٍۙ‏ ﴿56:30﴾ وَّ مَآءٍ مَّسۡكُوۡبٍۙ‏ ﴿56:31﴾ وَّفَاكِهَةٍ كَثِيۡرَةٍۙ‏ ﴿56:32﴾ لَّا مَقۡطُوۡعَةٍ وَّلَا مَمۡنُوۡعَةٍۙ‏ ﴿56:33﴾ وَّ فُرُشٍ مَّرۡفُوۡعَةٍؕ‏ ﴿56:34﴾ اِنَّاۤ اَنۡشَاۡنٰهُنَّ اِنۡشَآءًۙ‏ ﴿56:35﴾ فَجَعَلۡنٰهُنَّ اَبۡكَارًاۙ‏ ﴿56:36﴾ عُرُبًا اَتۡرَابًاۙ‏ ﴿56:37﴾ لِّاَصۡحٰبِ الۡيَمِيۡنِؕ‏ ﴿56:38﴾

1 - جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا 2 - تو کوئی اس کے وقوع کو جُھٹلانے والا نہ ہوگا۔ 1 3 - وہ تہ و بالا کر دینے والی آفت ہوگی۔ 2 4 - زمین اس وقت یکبارگی ہلا ڈالی جائے گی 3 5 - اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے 6 - کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔ 7 - تم لوگ اُس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے 4 : 8 - دائیں بازو والے، 5 سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی)کا کیا کہنا۔ 9 - اور بائیں بازو والے، 6 تو بائیں بازو والوں(کی بد نصیبی)کا کیا ٹھکانا۔ 10 - اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں۔ 7 11 - وہی تو مُقَرَّب لوگ ہیں۔ 12 - نعمت بھری جنّتوں میں رہیں گے۔ 13 - اگلوں میں سے بہت ہوں گے 14 - اور پچھلوں میں سے کم۔ 8 15 - مرصّع تختوں پر 16 - تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ 17 - دوڑتے پھرتے ہونگے اُن کی مجلسوں میں اَبَدی لڑکے 9 18 - شرابِ چشمہٴ جاری سے لبریز پیالے اور کنٹر اور ساغر لیے 19 - جسے پی کر نہ ان کا سر چکرائے گا نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔ 10 20 - اور وہ اُن کے سامنے طرح طرح کے لذیذ پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چُن لیں، 21 - اور پرندوں کا گوشت پیش کریں گے کہ جس پرندے کا چاہیں استعمال کریں۔ 11 22 - اور ان کے لیے خوبصورت آنکھوں والی حُوریں ہونگی، 23 - ایسی حسین جیسے چُھپا کر رکھے ہوئے موتی۔ 12 24 - یہ سب کچھ اُن اعمال کی جزا کے طور پر انہیں ملے گا جو وہ دنیا میں کرتے رہے تھے۔ 25 - وہاں وہ کوئی بیہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے 13 ۔ 26 - جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی۔ 14 27 - اور دائیں بازو والے، دائیں بازو والوں کی خوش نصیبی کا کیا کہنا۔ 28 - وہ بے خار بیریوں، 15 29 - اور تہ بر تہ چڑھے ہوئے کیلوں، 30 - اور دُور تک پھیلی ہوئی چھاؤں، 31 - اور ہر دم رواں پانی، 32 - اور بکثرت پھلوں 33 - کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے، 16 34 - اور اونچی نشست گاہوں میں ہوں گے۔ 35 - ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے 36 - اور انہیں باکرہ بنا دیں گے، 17 37 - اپنے شوہروں کی عاشق 18 اور عمر میں ہم سِن۔ 19 38 - یہ کچھ دائیں بازوں والوں کے لیے ہے۔ ؏۱


Notes

1. اس فقرے سے کلام کا آغاز خود یہ ظاہر کر رہا ہے، کہ یہ ان باتوں کا جواب ہے جو اس وقت کفار کی مجلسوں میں قیامت کے خلاف بنائی جا رہی تھیں۔ زمانہ وہ تھا جب مکہ کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے نئی نئی اسلام کی دعوت سن رہے تھے۔ اس میں جو چیز انہیں سب سے زیادہ عجیب اور بعید از عقل و امکان نظر آتی تھی وہ یہ تھی کہ ایک روز زمین و آسمان کا یہ سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور پھر ایک دوسرا عالم برپا ہوگا جس میں سب اگلے پچھلے مرے ہوئے لوگ دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ یہ بات سن کر حیرت سے ان کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ایسا ہونا بالکل نا ممکن ہے۔ آخر یہ زمین، یہ پہاڑ، یہ سمندر، یہ چاند، یہ سورج کہاں چلے جائیں گے؟ صدیوں کے گڑے مردے کیسے جی اٹھیں گے؟ مرنے کے بعد دوسری زندگی، اور پھر اس میں بہشت کے باغ اور جہنم کی آگ، آخر یہ خواب و خیال کی باتیں عقل و ہوش رکھتے ہوئے ہم کیسے مان لیں؟ یہی چہ میگوئیاں اس وقت مکہ میں ہر جگہ ہو رہی تھیں۔ اس پس منظر میں فرمایا گیا ہے کہ جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آ جائے گا اس وقت کوئی اسے جھٹلانے والا نہ ہو گا۔

اس ارشاد میں قیامت کے لیے ’’واقعہ ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی قریب قریب وہی ہیں جس کے لیے اردو زبان میں ہونی شدنی کے الفاظ بولے جاتے ہیں، یعنی وہ ایسی چیز ہے جسے لازماً پیش آ کر ہی رہنا ہے۔ پھر اس کے پیش آنے کو ’’وَقْعَۃ‘‘ کہا گیا ہے جو عربی زبان میں کسی بڑے حادثہ کے اچانک برپا ہو جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لَیْسَ لِوَ قْعَتِھَا کَاذِبَۃٌ کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ایک یہ کہ اس کے وقوع کا ٹل جانا اور اس کا آتے آتے رک جا نا اور اس کی آمد کا پھیر دیا جانا ممکن نہ ہو گا، یا بالفاظ دیگر کوئی طاقت پھر اس کو واقعہ سے غیر واقعہ بنا دینے والی نہ ہو گی۔ دوسرے یہ کہ کوئی متنفس اس وقت یہ جھوٹ بولنے والا نہ ہو گا کہ وہ واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔

2. اصل الفاظ ہیں خَافِضَۃٌ رَّ ا فِعَۃٌ، ’’ گرانے والی اور اٹھانے والی ‘‘۔ اس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ سب کچھ الٹ پلٹ کر کے رکھ دے گی۔ نیچے کی چیزیں اوپر اور اوپر کی چیزیں نیچے ہو جائیں گی۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ گِرے ہوئے لوگوں کو اٹھانے والی اور اٹھے ہوئے لوگوں کو گرانے والی ہو گی، یعنی اس کے آنے پر انسانوں کے درمیان عزت و ذلت کا فیصلہ ایک دوسری ہی بنیاد پر ہو گا۔ جو دنیا میں عزت والے بنے پھرتے تھے وہ ذلیل ہو جائیں گے اور جو ذلیل سمجھے جاتے تھے وہ عزت پائیں گے۔

3. یعنی وہ کوئی مقامی زلزلہ نہ ہو گا جو کسی محدود علاقے میں آئے، بلکہ پوری کی پوری زمین بیک وقت ہلا ماری جائے گی۔ اس کو اک لخت ایک زبردست جھٹکا لگے گا جس سے وہ لرز کر رہ جائے گی۔

4. خطاب اگر چہ بظاہر ان لوگوں سے ہے جنہیں یہ کلام سنایا جا رہا تھا، یا جو اب اسے پڑھیں یا سنیں، لیکن در اصل پوری نوع انسانی اس کی مخاطب ہے تمام انسان جو اول روز آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے ہیں وہ سب آخر کار تین گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔

5. اصل میں لفظ اَصْحَابُ لْمَیْمَنَہ استعمال ہوا ہے۔میمنہ عربی قاعدے کے مطابق یمین سے بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی سیدھے ہاتھ کے ہیں، اور یُمن سے بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی ہیں چال نیک۔ اگر اس کو یمین سے ماخوذ مانا جائے تو اصحاب المیمنہ کے معنی ہوں گے ’’سیدھے ہاتھ والے ‘‘ لیکن اس سے لغوی معنی مراد نہیں ہیں بلکہ اس کا مطلب ہے عالی مرتبہ لوگ، اہل عرب سیدھے ہاتھ کو قوت اور رفعت اور عزت کا نشان سمجھتے تھے۔ جس کا احترام مقصود ہوتا تھا اسے مجلس میں سیدھے ہاتھ پر بٹھاتے تھے۔ کسی کے متعلق یہ کہنا ہوتا کہ میرے دل میں اس کی بڑی عزت ہے تو کہتے فلانٌ مِنِّی بالیمین، ’’ وہ تو میرے سیدھے ہاتھ کی طرف ہے ’’ اردو میں بھی کسی شخص کو کسی بڑی ہستی کا دست راست اس معنی میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا خاص آدمی ہے۔ اور اگر اس کو یُمن سے ماخوذ مانا جائے تو اصحاب المیمنہ کے معنی ہوں گے خوش نصیب اور نیک بخت لوگ۔

6. اصل میں لفظ اصحاب المشئمہ استعمال ہوا ہے۔ مَشْئَمَہْ، شُؤْم سے ہے جس کے معنی بد بختی، نحوست اور بدفالی کے ہیں۔ اور عربی زبان میں بائیں ہاتھ کو بھی شُوْمیٰ کہا جاتا ہے۔ اردو میں شومئ قسمت اسی لفظ سے ماخوذ ہے۔ اہل عرب شمال (بائیں ہاتھ) اور شؤْم (فال بد) کو ہم معنی سمجھتے تھے۔ ان کے ہاں بایاں ہاتھ کمزوری اور ذلت کا نشان تھا۔ سفر کو جاتے ہوئے اگر پرندہ اڑ کر بائیں ہاتھ کی طرف جاتا تو وہ اس کو بری فال سمجھتے تھے۔ کسی کو اپنے بائیں ہاتھ بٹھاتے تو اس کے معنی یہ تھے کہ وہ اسے کمتر درجے کا آدمی سمجھتے ہیں کسی کے متعلق یہ کہنا ہو کہ میرے ہاں اس کی کوئی عزت نہیں تو کہا جاتا کہ فلان منی بالشمال، ’’ وہ میرے بائیں ہاتھ کی طرف ہے ‘‘ اردو میں بھی کسی کام کو بہت ہلکا اور آسان قرار دینا ہو تو کہا جاتا ہے یہ میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ پس اصحاب المشئمہ سے مراد ہیں بد بخت لوگ، یا وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ذلت سے دوچار ہوں گے اور دربار الہٰی میں بائیں طرف کھڑے کیے جائیں گے۔

7. سابقین (آگے والوں ) سے مراد وہ لوگ ہیں جو نیکی اور حق پرستی میں سب پر سبقت لے گئے ہوں، بھلائی کے ہر کام میں سب سے آگے ہوں، خدا اور رسول کی پکار پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے ہوں، جہاد کا معاملہ ہو یا انفاق فی سبیل اللہ کا یا خدمت خلق کا یا دعوت خیر اور تبلیغ حق کا، غرض دنیا میں بھلائی پھیلانے اور برائی مٹانے کے لیے ایثار و قربانی اور محنت و جانفشانی کا جو موقع بھی پیش آئے اس میں وہی آگے بڑھ کر کام کرنے والے ہوں۔ اس بنا پر آخرت میں بھی سب سے آگے وہی رکھے جائیں گے۔ گویا وہاں اللہ تعالیٰ کے دربار کا نقشہ یہ ہوگا کہ دائیں بازو میں صالحین، بائیں بازو میں فاسقین، اور سب سے آگے بارگاہ خداوندی کے قریب سابقین۔ حدیث میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے پوچھا’’ جانتے ہو قیامت کے روز کون لوگ سب سے پہلے پہنچ کر اللہ کے سایہ میں جگہ پائیں گے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اللہ کا رسول ہی زیادہ جانتا ہے۔ فرمایا الزین اذا اعطو االحق قبلوہ، واذا سُئِلوہ بذلوہ، وحکمو االناس کحکمہم لا نفسہم change font، ’’ وہ جن کا حال یہ تھا کہ جب ان کے آگے حق پیش کیا گیا انہوں نے قبول کر لیا، جب ان سے حق مانگا گیا انہوں نے ادا کر دیا، اور دوسروں کے معاملہ میں ان کا فیصلہ وہی کچھ تھا جو خود اپنی ذات کے معاملہ میں تھا۔ ‘‘ (مسند احمد)۔

8. مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ اولین اور آخرین یعنی اگلوں اور پچھلوں سے مراد کون ہیں۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ آدم علیہ السلام کے وقت سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت تک جتنی امتیں گزری ہیں وہ اولین ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد قیامت تک کے لوگ آخرین ہیں۔اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ بعثت محمدی سے پہلے ہزارہا برس کے دوران میں جتنے انسان گزرے ہیں ان کے سابقین کی تعداد زیادہ ہو گی، اور حضورؐ کی بعثت کے بعد سے قیامت تک آنے والے انسانوں میں سے جو لوگ سابقین کا مرتبہ پائیں گے ان کی تعداد کم ہو گی۔ دوسرا گروپ کہتا ہے کہ یہاں اولین و آخرین سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے اولین و آخرین ہیں جن میں سابقین کی تعداد کم ہوگی۔تیسرا گروہ کہتا ہے اس سے مراد ہر نبی کی امت کے اولین و آخرین ہیں، یعنی ہر نبی کے ابتدائی پیروؤں میں سابقین بہت ہونگے اور بعد کے آنے والوں میں وہ کم پائے جائیں گے۔ آیت کے الفاظ ان تینوں مفہوموں کے حامل ہیں اور بعید نہیں کہ یہ تینوں ہی صحیح ہوں کیونکہ در حقیقت ان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان کے علاوہ ایک اور مطلب بھی ان الفاظ سے نکلتا ہے اور وہ بھی صحیح ہے کہ ہر پہلے دور میں انسانی آبادی کے اندر سابقین کا تناسب زیادہ ہوگا اور بعد کے دور میں ان کا تناسب کم نکلے گا۔ اس لیے کہ انسانی آبادی جس رفتار سے بڑھتی ہے، سبقت فی الخیرات کرنے والوں کی تعداد اسی رفتار سے نہیں بڑھتی۔ گنتی کے اعتبار سے یہ لوگ چاہے پہلے دور کے سابقین سے تعداد میں زیادہ ہوں، لیکن بحیثیت مجموعی دنیا کی آبادی کے مقابلے میں ان کا تناسب گھٹتا ہی چلا جاتا ہے۔

9. اِس سے مراد ہیں ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، انکی عمر ہمیشہ ایک ہی حالت پر ٹھہری رہے گی۔ حضرت علیؓ اور حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ یہ اہل دنیا کے وہ بچے ہیں جو بالغ ہونے سے پہلے مر گئے، اس لیے نہ ان کی کچھ نیکیاں ہونگی کہ ان کی جزا پائیں اور نہ بدیاں ہونگی کہ ان کی سزا پائیں۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ اس سے مراد صرف وہی اہل دنیا ہو سکتے ہیں جن کو جنت نصیب نہ ہوئی ہو۔ رہے مومنین صالحین، تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں یہ ضمانت دی ہے کہ ان کی ذریت ان کے ساتھ جنت میں لا ملائی جائے گی (الطور،آیت 21)۔ اسی کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو ابو داؤد طیالسی، طبرانی اور بزار نے حضرت انسؓ اور حضرت سمرہ بنؓ جندب سے نقل کی ہے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ مشرکین کے بچے اہل جنت کے خادم ہونگے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 26۔ جلد پنجم، الطور، حاشیہ 19)

10. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 27۔ جلد پنجم،، سورہ محمد، حاشیہ 22۔ الطور، حاشیہ 18۔

11. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم تفسیر سورۃ طور، حاشیہ ۱۷

12. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم،تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 28۔29۔ الدخان، حاشیہ 42۔ جلد پنجم، الرحمٰن، حاشیہ 51۔

13. یہ جنت کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے، جسے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے، کہ انسان کے کان وہاں بیہودگی، یا وہ گوئی، جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان، گالی، لاف و گزاف، طنز تمسخر اور طعن و تشنیع کی باتیں سننے سے محفوظ ہوں گے۔ وہ بد زبان اور بد تمیز لوگوں کی سوسائٹی نہ ہوگی جس میں لوگ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں۔ وہ شریف اور مہذب لوگوں کا معاشرہ ہوگا جس کے اندر یہ لغویات ناپید ہوں گی۔ اگر کسی شخص کو اللہ نے کچھ بھی شائستگی اور مذاق سلیم سے نواز ہو تو وہ اچھی طرح محسوس کر سکتا ہے کہ دنیوی زندگی کا یہ کتنا بڑا عذاب ہے جس سے انسان کو جنت میں نجات پانے کی امید دلائی گئی ہے۔

14. اصل الفاظ ہیں الا قیلاً سلٰماً سلٰماً۔ بعض مفسرین و مترجمین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہاں ہر طرف سلام ہی سلام ہی کی آوازیں سننے میں آئیں گی۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد ہے قول سلیم، یعنی ایسی گفتگو جو عیوب کلام سے پاک ہو جس میں وہ خرابیاں نہ ہوں جو پچھلے فقرے میں بیان کی گئی ہیں۔ یہاں سلام کا لفظ قریب قریب اسی مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے جس کے لیے انگریزی میں لفظ saneاستعمال ہوتا ہے۔

15. یعنی ایسی بیریاں جن کے درختو ں میں کانٹے نہ ہوں گے۔ ایک شخص تعجب کا اظہار کر سکتا ہے کہ بیر ایسا کونسا نفیس پھل ہے جس کے جنت میں ہونے کی خوشخبری سنائی جائے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ جنت کے بیروں کا تو کیاذکر، خود اس دنیا کے بھی بعض علاقوں میں یہ پھل اتنا لذیذ خوشبو دار اور میٹھا ہوتا ہے کہ ایک دفعہ منہ کو لگنے کے بعد اسے چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور بیر جتنے اعلیٰ درجے کے ہوتے ہیں، ان کے درختوں میں کانٹے اتنے ہی کم ہوتے ہیں۔ اسی لیے جنت کے بیروں کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ ان کے درخت بالکل ہی کانٹوں سے خالی ہوں گے، یعنی ایسی بہترین قسم کے ہوں گے جو دنیا میں نہیں پائی جاتی۔

16. اصل الفاظ ہیں لَا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْ عَۃٍ : لا مقطوعہ سے مراد یہ ہے کہ یہ پھل نہ موسمی ہوں گے کہ موسم گزر جانے کے بعد نہ مل سکیں، نہ ان کی پیداوار کا سلسلہ کبھی منقطع ہوگا کہ کسی باغ کے سارے پھل اگر توڑ لیے جائیں تو ایک مدت تک وہ بے ثمر رہ جائے، بلکہ ہر پھل وہاں ہر موسم میں ملے گا اور خواہ کتنا ہی کھایا جائے، لگا تار پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ اس لا ممنوعہ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے باغوں کی طرح وہاں کوئی روک ٹوک نہ ہو گی، نہ پھلوں کے توڑنے اور کھانے میں کوئی امر مانع ہو گا کہ درختوں پر کانٹے ہونے یا زیادہ بلندی پر ہونے کی وجہ سے توڑنے میں کوئی زحمت پیش آئے۔

17. اس سے مراد دنیا کی وہ نیک خواتین ہیں جو اپنے ایمان و عمل صالح کی بنا پر جنت میں جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو وہاں جوان بنا دے گا، خواہ وہ کتنی ہی بوڑھی ہو کر مری ہوں۔ نہایت خوبصورت بنا دے گا، خواہ دنیا میں وہ حسین رہی ہوں یا نہ رہی ہوں۔ باکرہ بنا دیگا، خواہ دنیا میں وہ کنواری مری ہوں یا بال بچوں والی ہو کر۔ان کے شوہر بھی اگر ان کے ساتھ جنت میں پہنچیں گے تو وہ ان سے ملا دی جائیں گی،ورنہ اللہ تعالیٰ کسی اور جنتی سے ان کو بیاہ دے گا۔ اس آیت کی یہی تشریح متعدد احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے۔ شمائیل ترمذی میں روایت ہے کہ ایک بڑھیا نے حضور سے عرض کیا میرے حق میں جنت کی دعا فرمائیں۔ آپ نے فرمایا جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہ ہوگی۔ وہ روتی ہوئی واپس چلی گئی تو آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ ’’ اسے بتاؤ، وہ بڑھاپے کی حالت میں داخل جنت نہیں ہوگی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم انہیں خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور باکرہ بنا دیں گے ‘‘۔ ابن ابی حاتم نے حضرت سلمہ بن یزید کی یہ روایت نقل کی ہے کہ میں نے اس آیت کی تشریح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا، ’’ اس سے مراد دنیا کی عورتیں ہیں، خواہ وہ باکرہ مری ہوں یا شادی شدہ ‘‘۔ طبرانی میں حضرت ام سلمہ کی ایک طویل روایت ہے جس میں وہ جنت کی عورتوں کے متعلق قرآن مجید کے مختلف مقامات کا مطلب حضورؐ سے دریافت فرماتی ہیں۔ اس سلسلہ میں حضورؐ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ھن اللواتی قبضن فی دارلدنیا عجائز رمصاً شمطاً خلقھن اللہ بعد الکبر فجعلھن عذاریٰ۔ ’’ یہ وہ عورتیں ہیں جو دنیا کی زندگی میں مری ہیں۔ بوڑھی پھونس،آنکھوں میں چیپڑ، سر کے بال سفید۔ اس بڑھاپے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو پھر سے باکرہ پیدا کر دے گا’’۔ حضرت ام سلمہ پوچھتی ہیں اگر کسی عورت کے دنیا میں کئی شوہر رہ چکے ہوں اور وہ سب جنت میں جائیں تو وہ ان میں سے کس کو ملے گی؟ حضورؐ فرماتے ہیں : انھا تُخیَّر فتختار احسنہم خلقا فتقول یا رب ان ھٰذا کان احسن خلقاً معی فزوجنیھا، یا ام سلمہ، ذھب حسن الخلق بخیر الدنیا والاٰخرۃ۔ ’’ اس کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ جسے چاہے چن لے،اور وہ اس شخص کے چنے گی جو ان میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گی کہ اے رب، اس کا برتاؤ میرے ساتھ سب سے اچھا تھا اس لیے مجھے اسی کی بیوی بنا دے۔ اے ام سلمہ، حسن اخلاق دنیا اور آخرت کی ساری بھلائی لوٹ لے گیا ہے۔ ‘‘ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ رحمٰن، حاشیہ 51 )۔

18. اصل میں لفظ عُرُباً استعمال ہوا ہے، یہ لفظ عربی زبان میں عورت کی بہترین نسوانی خوبیوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی عورت ہے جو طرح دار ہو، خوش اطوار ہو، خوش گفتار ہو، جسمانی جذبات سے لبریز ہو، اپنے شوہر کو دل و جان سے چاہتی ہو، اور اس کا شوہر بھی اس کا عاشق ہو۔

19. اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے شوہروں کی ہم سن ہوں گی۔ دوسرا یہ کہ وہ آپس میں ہم سن ہوں گی، یعنی تمام جنتی عورتیں ایک ہی عمر کی ہوں گی اور ہمیشہ اسی عمر کی رہیں گی۔ بعید نہیں کہ یہ دونوں ہی باتیں بیک وقت صحیح ہوں، یعنی یہ خواتین خود بھی ہم سن ہوں اور ان کے شوہر بھی ان کے ہم سن بنا دیے جائیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ یدخلاھلالجنۃالجنۃ جرد امرد ابیضا جعاد امکحلینابناء ثلاث و ثلاثین۔ ’’ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو ان کے جسم بالوں سے صاف ہوں گے۔ مسیں بھیگ رہی ہوں گی مگر ڈاڑھی نہ نکلی ہوگی۔ گورے چٹے ہوں گے۔ گٹھے ہوئے بدن ہوں گے۔آنکھیں سرمگیں ہوں گی۔ سب کی عمریں 33 سال کی ہوں گی‘‘۔ (مسند احمد، مرو یاّ ت ابی ہریرہؓ) قریب قریب یہی مضمون ترمذی میں حضرت معاذؓ بن جَبَل اور حضرت ابو سعید خدریؓ سے بھی مروی ہے۔