Tafheem ul Quran

Surah 56 Al-Waqi'ah, Ayat 39-74

ثُلَّةٌ مِّنَ الۡاَوَّلِيۡنَۙ‏ ﴿56:39﴾ وَثُلَّةٌ مِّنَ الۡاٰخِرِيۡنَؕ‏ ﴿56:40﴾ وَاَصۡحٰبُ الشِّمَالِ ۙ مَاۤ اَصۡحٰبُ الشِّمَالِؕ‏ ﴿56:41﴾ فِىۡ سَمُوۡمٍ وَّحَمِيۡمٍۙ‏ ﴿56:42﴾ وَّظِلٍّ مِّنۡ يَّحۡمُوۡمٍۙ‏ ﴿56:43﴾ لَّا بَارِدٍ وَّلَا كَرِيۡمٍ‏ ﴿56:44﴾ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا قَبۡلَ ذٰ لِكَ مُتۡرَفِيۡنَۚ  ۖ‏ ﴿56:45﴾ وَكَانُوۡا يُصِرُّوۡنَ عَلَى الۡحِنۡثِ الۡعَظِيۡمِ​ۚ‏ ﴿56:46﴾ وَكَانُوۡا يَقُوۡلُوۡنَ ۙ اَـئِذَا مِتۡنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَۙ‏ ﴿56:47﴾ اَوَاٰبَآؤُنَا الۡاَوَّلُوۡنَ‏ ﴿56:48﴾ قُلۡ اِنَّ الۡاَوَّلِيۡنَ وَالۡاٰخِرِيۡنَۙ‏ ﴿56:49﴾ لَمَجۡمُوۡعُوۡنَ ۙ اِلٰى مِيۡقَاتِ يَوۡمٍ مَّعۡلُوۡمٍ‏ ﴿56:50﴾ ثُمَّ اِنَّكُمۡ اَيُّهَا الضَّآلُّوۡنَ الۡمُكَذِّبُوۡنَۙ‏ ﴿56:51﴾ لَاٰكِلُوۡنَ مِنۡ شَجَرٍ مِّنۡ زَقُّوۡمٍۙ‏ ﴿56:52﴾ فَمٰلِـُٔوۡنَ مِنۡهَا الۡبُطُوۡنَ​ۚ‏ ﴿56:53﴾ فَشٰرِبُوۡنَ عَلَيۡهِ مِنَ الۡحَمِيۡمِ​ۚ‏ ﴿56:54﴾ فَشٰرِبُوۡنَ شُرۡبَ الۡهِيۡمِؕ‏ ﴿56:55﴾ هٰذَا نُزُلُهُمۡ يَوۡمَ الدِّيۡنِؕ‏ ﴿56:56﴾ نَحۡنُ خَلَقۡنٰكُمۡ فَلَوۡلَا تُصَدِّقُوۡنَ‏ ﴿56:57﴾ اَفَرَءَيۡتُمۡ مَّا تُمۡنُوۡنَؕ‏ ﴿56:58﴾ ءَاَنۡتُمۡ تَخۡلُقُوۡنَهٗۤ اَمۡ نَحۡنُ الۡخٰلِقُوۡنَ‏ ﴿56:59﴾ نَحۡنُ قَدَّرۡنَا بَيۡنَكُمُ الۡمَوۡتَ وَمَا نَحۡنُ بِمَسۡبُوۡقِيۡنَۙ‏ ﴿56:60﴾ عَلٰٓى اَنۡ نُّبَدِّلَ اَمۡثَالَـكُمۡ وَنُـنۡشِئَكُمۡ فِىۡ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏  ﴿56:61﴾ وَلَـقَدۡ عَلِمۡتُمُ النَّشۡاَةَ الۡاُوۡلٰى فَلَوۡلَا تَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿56:62﴾ اَفَرَءَيۡتُمۡ مَّا تَحۡرُثُوۡنَؕ‏ ﴿56:63﴾ ءَاَنۡتُمۡ تَزۡرَعُوۡنَهٗۤ اَمۡ نَحۡنُ الزّٰرِعُوۡنَ‏ ﴿56:64﴾ لَوۡ نَشَآءُ لَجَـعَلۡنٰهُ حُطَامًا فَظَلۡتُمۡ تَفَكَّهُوۡنَ‏ ﴿56:65﴾ اِنَّا لَمُغۡرَمُوۡنَۙ‏ ﴿56:66﴾ بَلۡ نَحۡنُ مَحۡرُوۡمُوۡنَ‏ ﴿56:67﴾ اَفَرَءَيۡتُمُ الۡمَآءَ الَّذِىۡ تَشۡرَبُوۡنَؕ‏ ﴿56:68﴾ ءَاَنۡـتُمۡ اَنۡزَلۡـتُمُوۡهُ مِنَ الۡمُزۡنِ اَمۡ نَحۡنُ الۡمُنۡزِلُوۡنَ‏  ﴿56:69﴾ لَوۡ نَشَآءُ جَعَلۡنٰهُ اُجَاجًا فَلَوۡلَا تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿56:70﴾ اَفَرَءَيۡتُمُ النَّارَ الَّتِىۡ تُوۡرُوۡنَؕ‏ ﴿56:71﴾ ءَاَنۡتُمۡ اَنۡشَاۡتُمۡ شَجَرَتَهَاۤ اَمۡ نَحۡنُ الۡمُنۡشِـُٔـوۡنَ‏ ﴿56:72﴾ نَحۡنُ جَعَلۡنٰهَا تَذۡكِرَةً وَّمَتَاعًا لِّلۡمُقۡوِيۡنَ​ۚ‏ ﴿56:73﴾ فَسَبِّحۡ بِاسۡمِ رَبِّكَ الۡعَظِيۡمِ‏ ﴿56:74﴾

39 - وہ اگلوں میں سے بہت ہوں گے 40 - اور پچھلوں میں سے بھی بہت۔ 41 - اور بائیں بازو والے، بائیں بازو والوں کی بد نصیبی کا کیا پُوچھنا۔ 42 - وہ لُو کی لَپَٹ اور کَھولتے ہوئے پانی 43 - اور کالے دُھوئیں کے سائے میں ہوں گے 44 - جو نہ ٹھنڈا ہوگا نہ آرام دہ۔ 45 - یہ وہ لوگ ہوں گے جو اِس انجام کو پہنچنے سے پہلے خوشحال تھے 46 - اور گناہِ عظیم پر اصرار کرتے تھے۔ 20 47 - کہتے تھے”کیا جب ہم مر کر خاک ہوجائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر رہ جائیں گے تو پھر اُٹھا کھڑے کیے جائیں گے؟ 48 - اور کیا ہمارے وہ باپ دادا بھی اُٹھائے جائیں گے جو پہلے گزر چکے ہیں“؟ 49 - اے نبیؐ ، اِن لوگوں سے کہو، یقیناً اگلے اور پچھلے 50 - سب ایک دن ضرور جمع کیے جانے والے ہیں جس کا وقت مقررکیا جا چکا ہے۔ 51 - پھر اے گمراہو اور جُھٹلانے والو، 52 - تم شجرِ زَقّوم 21 کی غذا کھانے والے ہو۔ 53 - اُسی سے تم پیٹ بھرو گے 54 - اور اُوپر سے پیو گے کھولتا ہوا پانی 55 - تَونس لگے ہوئے اُونٹ کی طرح۔ 56 - یہ ہے بائیں والوں کی ضیافت کا سامان روزِ جزا میں۔ 57 - 22 ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر کیوں تصدیق نہیں کرتے؟ 23 58 - کبھی تم نے غور کیا ، یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو، 59 - اس سے بچّہ تم بناتے ہو یا اس کے بنانے والے ہم ہیں؟ 24 60 - ہم نے تمہارے درمیان موت کو تقسیم کیا ہے،25 اور ہم اِس سے عاجز نہیں ہیں 61 - کہ تمہاری شکلیں بدل دیں اور کسی ایسی شکل میں تمہیں پیدا کر دیں جس کو تم نہیں جانتے۔ 26 62 - اپنی پہلی پیدائش کو تو تم جانتے ہو، پھر کیوں سبق نہیں لیتے؟ 27 63 - کبھی تم نے سوچا ، یہ بیج جو تم بوتے ہو، 64 - ان سے کھیتیاں تم اُگاتے ہو یا اُن کے اُگانے والے ہم ہیں؟ 28 65 - ہم چاہیں تو ان کھیتیوں کو بھُس بنا کر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جاؤ 66 - کہ ہم پر تو اُلٹی چَٹّی پڑ گی ، 67 - بلکہ ہمارے تو نصیب ہی پُھو ٹے ہوئے ہیں۔ 68 - کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا، یہ پانی جو تم پیتے ہو، 69 - اِسے تم نے بادل سے بر سایا ہے یا اِس کے برسانے والے ہم ہیں؟ 29 70 - ہم چاہیں تو اُسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں، 30 پھر کیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے؟31 71 - کبھی تم نے خیال کیا، یہ آگ جو تم سُلگا تے ہو، 72 - اِس کا درخت 32 تم نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟ 73 - ہم نے اُس کو یاد دہانی کا ذریعہ 33 اور حاجت مندوں 34 کے لیے سامانِ زیست بنایا ہے۔ 74 - پس اے نبیؐ ، اپنے رَبِّ عظیم کے نام کی تسبیح کرو۔ 35 ؏۲


Notes

20. یعنی خوشحالی نے ان پر الٹا اثر کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہونے کے بجائے وہ الٹے کافر نعمت ہو گئے تھے۔ اپنی لذات نفس میں منہمک ہو کر خدا کو بھول گئے تھے۔ اور گناہ عظیم پر مصر تھے۔’’گناہ عظیم‘‘ کا لفظ جامع ہے۔ اس سے مراد کفر و شرک اور دہریت بھی ہے اور اخلاق و اعمال کا ہر بڑا گناہ بھی۔

21. زقوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 34۔

22. یہاں سے آیت 74 تک جو دلائل پیش کیے گئے ہیں ان میں بیک وقت آخرت اور توحید، دونوں پر استدلال کیا گیا ہے، چونکہ مکہ کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم کے ان دونوں بنیادی اجزاء پر معترض تھے اس لیے یہاں دلائل اس اندازسے دیے گئے ہیں کہ آخرت کا ثبوت بھی ان سے ملتا ہے اور توحید کی صداقت کا بھی۔

23. یعنی اس بات کی تصدیق کہ ہم ہی تمہارے رب اور معبود ہیں، اور ہم تمہیں دوبارہ بھی پیدا کر سکتے ہیں۔

24. اس مختصر سے فقرے میں ایک بڑا اہم سوال انسان کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی تمام دوسری چیزوں کو چھوڑ کر انسان اگر صرف اسی ایک بات پر غور کرے کہ وہ خود کس طرح پیدا ہوا ہے تو اسے نہ قرآن کی تعلیم توحید میں کوئی شک رہ سکتا ہے، نہ اس کی تعلیم آخرت میں۔ انسان آخر اسی طرح تو پیدا ہوتا ہے کہ مرد اپنا نطفہ عورت کے رحم تک پہنچا دیتا ہے مگر کیا اس نطفہ میں بچہ پیدا کرنے کی، اور لازماً انسان ہی کا بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت آپ سے آپ پیدا ہو گئی ہے؟ یا انسان نے خود پیدا کی ہے؟ یا خدا کے سوا کسی اور نے پیدا کر دی ہے؟ اور کیا یہ مرد کے، یا عورت کے، یا دنیا کی کسی طاقت کے اختیار میں ہے کہ اس نطفے سے حمل کا استقرار کرا دے؟ پھر استقرار حمل سے وضع حمل تک ماں کے پیٹ میں بچے کی درجہ بدرجہ تخلیق و پرورش، اور ہر بچے کی الگ صورت گری، اور ہر بچے کے اندر مختلف ذہنی و جسمانی قوتوں کو ایک خاص تناسب کے ساتھ رکھنا جس سے وہ ایک خاص شخصیت کا انسان بن کر اٹھے، کیا یہ سب کچھ ایک خدا کے سوا کسی اور کا کام ہے؟ کیا اس میں کسی اور کا ذرہ برابر بھی کوئی دخل ہے؟ کیا یہ کام ماں باپ خود کرتے ہیں؟ یا کوئی ڈاکٹر کرتا ہے؟ یا وہ انبیاء اور اولیاء کرتے ہیں جو خود اسی طرح پیدا ہوئے ہیں؟ یا سورج اور چاند اور تارے کرتے ہیں جو خود ایک قانون کے غلام ہیں؟ یا وہ فطرت(Nature) کرتی ہے جو بجائے خود کوئی علم، حکمت۔ ارادہ اور اختیار نہیں رکھتی؟ پھر کیا یہ فیصلہ کرنا بھی خدا کے سوا کسی کے اختیار میں ہے کہ بچہ لڑکی ہو یا لڑکا؟ خوبصورت ہو یا بد صورت؟ طاقتور ہو یا کمزور؟ اندھا بہرہ لنگڑا لولا ہو یا صحیح الاعضاء؟ ذہین ہو یا کند ذہن؟ پھر کیا خدا کے سوا کوئی اور یہ طے کر تا ہے کہ قوموں کی تاریخ میں کس وقت کس قوم کے اندر کن اچھی یا بری صلاحیتوں کے آدمی پیدا کرے جو اسے عروج پر لے جائیں یا زوال کی طرف دھکیل دیں؟ اگر کوئی شخص ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا نہ ہو تو وہ خود محسوس کر ے گا کہ شرک یا دہریت کی بنیاد پر ان سوالات کا کوئی معقول جواب نہیں دیا جا سکتا۔ ان کا معقول جواب ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان پورا کا پورا خدا کا ساختہ و پرداختہ ہے۔ اور جب حقیقت یہ ہے تو خدا کے ساختہ و پرداختہ اس انسان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اپنے خالق کے مقابلے میں آزادی و خود مختاری کا دعویٰ کرے؟ یا اس کے سوا کسی دوسرے کی بندگی بجا لائے؟

توحید کی طرح یہ سوال آخرت کے معاملہ میں بھی فیصلہ کن ہے۔ انسان کی تخلیق ایک ایسے کیڑے سے ہوتی ہے جو طاقتور خورد بین کے بغیر نظر تک نہیں آ سکتا۔ یہ کیڑا عورت کے جسم کی تاریکیوں میں کسی وقت اس نسوانی انڈے سے جا ملتا ہے جو اسی کی طرح ایک حقیر سا خورد بینی وجود ہوتا ہے۔ پھر ان دونوں کے ملنے سے ایک چھوٹا سا زندہ خلیہ (Cell) بن جاتا ہے جو حیات انسانی کا نقطہ آغاز ہے، اور یہ خلیہ بھی اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ خورد بین کے بغیر اس کو نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس ذرا سے خلیے کو ترقی دے کر اللہ تعالیٰ 9 مہینے چند روز کے اندر رحم مادر میں ایک جیتا جاگتا انسان بنا دیتا ہے، اور جب اس کی تخلیق مکمل ہو جاتی ہے تو ماں کا جسم خود ہی اسے دھکیل کر دنیا میں اُودھم مچانے کے لیے باہر پھینک دیتا ہے۔تمام انسان اسی طرح دنیا میں آئے ہیں اور شب و روز اپنے ہی جیسے انسانوں کی پیدائش کا یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد صرف ایک عقل کا اندھا ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ جو خدا اس طرح انسانوں کو آج پیدا کر رہا ہے وہ کل کسی وقت اپنے ہی پیدا کیے ہوئے ان انسانوں کو دوبارہ کسی اور طرح پیدا نہ کر سکے گا۔

25. یعنی تمہاری پیدائش کی طرح تمہاری موت بھی ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم یہ طے کرتے ہیں کہ کس کو ماں کے پیٹ ہی میں مر جانا ہے، اور کسے پیدا ہوتے ہی مر جانا ہے، اور کسے کس عمر تک پہنچ کر مرنا ہے۔ جس کی موت کا جو وقت ہم نے مقدر کر دیا ہے اس سے پہلے دنیا کی کوئی طاقت اسے مار نہیں سکتی، اور اس کے بعد ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ نہیں رکھ سکتی۔ مرنے والے بڑے بڑے ہسپتالوں میں بڑے سے بڑے ڈاکٹروں کی آنکھوں کے سامنے مرتے ہیں، بلکہ ڈاکٹر خود بھی اپنے وقت پر مر جاتے ہیں۔ کبھی کوئی نہ موت کے وقت کو جان سکا ہے، نہ آتی ہوئی موت کو روک سکا ہے، نہ یہ معلوم کر سکا ہے کہ کس کی موت کس ذریعہ سے، کہاں، کس طرح واقع ہونے والی ہے۔

26. یعنی جس طرح ہم اس سے عاجز نہ تھے کہ تمہیں تمہاری موجودہ شکل و ہیئت میں پیدا کریں، اسی طرح ہم اس سے بھی عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری تخلیق کا طریقہ بدل کر کسی اور شکل و ہیئت میں کچھ دوسرے صفات و خصوصیات کے ساتھ تم کو پیدا کر دیں۔ آج تم کو ہم اس طرح پیدا کرتے ہیں کہ تمہارا نطفہ قرار پاتا ہے اور تم ماں کے پیٹ میں درجہ بدرجہ بن کر ایک بچہ کی صورت میں برآمد ہوتے ہو۔ یہ طریق تخلیق بھی ہمارا ہی مقرر کیا ہوا ہے۔ مگر ہمارے پاس بس یہی ایک لگا بندھا طریقہ نہیں ہے جس کے سوا ہم کوئی اور طریقہ نہ جانتے ہوں، یا نہ عمل میں لا سکتے ہوں۔ قیامت کے روز ہم تمہیں اسی عمر کے انسان کی شکل میں پیدا کر سکتے ہیں جس عمر میں تم مرے تھے۔ آج تمہاری بینائی، سماعت اور دوسرے حواس کا پیمانہ ہم نے کچھ اور رکھا ہے۔ مگر ہمارے پاس انسان کے لیے بس یہی ایک پیمانہ نہیں ہے جسے ہم بدل نہ سکتے ہوں۔ قیامت کے روز ہم اسے بدل کر کچھ سے کچھ کر دیں گے یہاں تک کہ تم وہ کچھ دیکھ اور سن سکو گے جو یہاں نہیں دیکھ سکتے اور نہیں سن سکتے۔ آج تمہاری کھال اور تمہارے ہاتھ پاؤں اور تمہاری آنکھوں میں کوئی گویائی نہیں۔ مگر زبان کو بولنے کی طاقت ہم ہی نے تو دی ہے۔ ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ قیامت کے روز تمہارا ہر عضو اور تمہارے جسم کی کھال کا ہر ٹکڑا ہمارے حکم سے بولنے لگے۔ آج تم ایک خاص عمر تک ہی جیتے ہو اور اس کے بعد مر جاتے ہو۔ یہ تمہارا جینا اور مرنا بھی ہمارے ہی مقرر کردہ ایک قانون کے تحت ہوتا ہے۔ کل ہم ایک دوسرا قانون تمہاری زندگی کے لیے بنا سکتے ہیں جس کے تحت تمہیں کبھی موت نہ آئے۔ آج تم ایک خاص حد تک ہی عذاب برداشت کر سکتے ہو، جس سے زائد عذاب اگر تمہیں دیا جائے تو تم زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ ضابطہ بھی ہمارا ہی بنایا ہوا ہے۔ کل ہم تمہارے لیے ایک دوسرا ضابطہ بنا سکتے ہیں جس کے تحت تم ایسا عذاب ایسی طویل مدت تک بھگت سکو گے جس کا تم تصور تک نہیں کر سکتے، اور کسی سخت سے سخت عذاب سے بھی تمہیں موت نہ آئے گی۔ آج تم سوچ نہیں سکتے کہ کوئی بوڑھا جوان ہو جائے، کبھی بیمار نہ ہو، کبھی اس پر بڑھاپا نہ آئے اور ہمیشہ ہمیشہ وہ ایک ہی عمر کا جوان رہے۔مگر یہاں جوانی پر بڑھاپا ہمارے بنائے ہوئے قوانین حیات ہی کے مطابق تو آتا ہے۔ کل ہم تمہاری زندگی کے لیے کچھ دوسرے قوانین بنا سکتے ہیں جن کے مطابق جنت میں جاتے ہی بوڑھا جوان ہو جائے اور اس کی جوانی و تندرستی لا زوال ہو۔

27. یعنی تم یہ تو جانتے ہی ہو کہ پہلے تم کیسے پیدا کیے گئے تھے۔ کس طرح باپ کی صُلب سے وہ نطفہ منتقل ہوا جس سے تم وجود میں آئے کس طرح رحم مادر میں، جو قبر سے کچھ کم تاریک نہ تھا، تمہیں پرورش کر کے زندہ انسان بنایا گیا۔ کس طرح ایک ذرۂ بے مقدار کو نشو نما دے کر یہ دل و دماغ، یہ آنکھ کان اور یہ ہاتھ پاؤں اس میں پیدا کیے گئے اور عقل و شعور، علم و حکمت، صنعت و ایجاد اور تدبیر و تسخیر کی یہ حیرت انگیز صلاحیتیں اس کو عطا کی گئیں۔ کیا یہ معجزہ مردوں کو دوبارہ جِلا اٹھانے سے کچھ کم عجیب ہے۔؟ اس عجیب معجزے کو جب تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور خود اس کی زندہ شہادت کے طور پر دنیا میں موجود ہو تو کیوں اس سے یہ سبق نہیں سیکھتے کہ جس خدا کی قدرت سے یہ معجزہ شب و روز رونماہو رہا ہےاسی کی قدرت سے زندگی بعد موت اور حشر و نشر، جنت و دوزخ کا معجزہ بھی رونما ہو سکتا ہے۔؟

28. اوپر کا سوال لوگوں کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلا رہا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساختہ و پرداختہ ہو اور اسی کی تخلیق سے وجود میں آئے ہو۔ اب یہ دوسرا سوال انہیں اس دوسری اہم حقیقت کی طرف توجہ دلا رہا ہے کہ جس رزق پر تم پلتے ہو وہ بھی اللہ ہی تمہارے لیے پیدا کرتا ہے۔ جس طرح تمہاری پیدائش میں انسانی کوشش کا دخل اس سے زائد کچھ نہیں ہے کہ تمہارا باپ تمہاری ماں کے اندر نطفہ ڈال دے، اسی طرح تمہارے رزق کی پیداوار میں بھی انسان کی کوشش کا دخل اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے کہ کسان کھیتی میں بیج ڈال دے۔ زمین، جس میں یہ کاشت کی جاتی ہے، تمہاری بنائی ہوئی نہیں ہے۔ اس زمین کو روئیدگی کی صلاحیت تم نے نہیں بخشی ہے۔ اس میں وہ مادے جن سے تمہاری غذا کا سامان بہم پہنچتا ہے، تم نے فراہم نہیں کیے ہیں۔ اس کے اندر جو بیج تم ڈالتے ہو ان کو نشو و نما کے قابل تم نے نہیں بنایا ہے ان بیجوں میں یہ صلاحیت کہ ہر بیج سے اسی نوع کا درخت پھوٹے جس کا وہ بیج ہے، تم نے پیدا نہیں کی ہے۔ اس کاشت کو لہلہاتی کھیتیوں میں تبدیل کرنے کے لیے زمین کے اندر جس عمل اور زمین کے اوپر جس ہوا،پانی، حرارت، بُرودت اور موسمی کیفیت کی ضرورت ہے، ان میں سے کوئی چیز بھی تمہاری کسی تدبیر کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اللہ ہی کی قدرت اور اسی کی پروردگاری کا کرشمہ ہے۔ پھر جب تم وجود میں اسی کے لانے سے آئے ہو، اور اسی کے رزق سے پل رہے ہو، تو تم کو اس کے مقابلہ میں خود مختاری کا، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کا حق آخر کیسے پہنچتا ہے؟

اس آیت کا ظاہر استدلال تو توحید کے حق میں ہے، مگر اس میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس پر اگر آدمی تھوڑا سا مزید غور کرے تو اسی کے اندر آخرت کی دلیل بھی مل جاتی ہے۔ جو بیج زمین میں بویا جاتا ہے وہ بجائے خود مردہ ہوتا ہے، مگر زمین کی قبر میں جب کسان اس کو دفن کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے اندر وہ نباتی زندگی پیدا کر دیتا ہے جس سے کونپلیں پھوٹتی ہیں اور لہلہاتی ہوئی کھیتیاں شان بہار دکھاتی ہیں۔ یہ بے شمار مردے ہماری آنکھوں کے سامنے آئے دن قبروں سے جی جی کر اٹھ رہے ہیں۔ یہ معجزہ کیا کچھ کم عجیب ہے کہ کوئی شخص اس دوسرے عجیب معجزے کو ناممکن قرار دے جس کی خبر قرآن ہمیں دے رہا ہے، یعنی انسانوں کی زندگی بعد موت۔

29. یعنی تمہاری بھوک مٹانے ہی کا نہیں، تمہاری پیاس بجھانے کا انتظام بھی ہمارا ہی کیا ہوا ہے۔ یہ پانی، جو تمہاری زندگی کے لیے روٹی سے بھی زیادہ ضروری ہے، تمہارا اپنا فراہم کیا ہوا نہیں ہے بلکہ اسے ہم فراہم کرتے ہیں۔ زمین میں یہ سمندر ہم نے پیدا کیے ہیں۔ ہمارے سورج کی گرمی سے ان کا پانی بھاپ بن کر اٹھتا ہے۔ ہم نے اس پانی میں یہ خاصیت پیدا کی ہے کہ یہ ایک خاص درجہ حرارت پر وہ بھاپ میں تبدیل ہو جائے۔ ہماری ہوائیں اسے لے کر اٹھتی ہیں۔ ہماری قدرت اور حکمت سے وہ بھاپ جمع ہو کر بادل کی شکل اختیار کرتی ہے۔ ہمارے حکم سے یہ بادل ایک خاص تناسب سے تقسیم ہو کر زمین کے مختلف خطوں پر پھیلتے ہیں تاکہ جس خطۂ زمین کے لیے پانی کا جو حصہ مقرر کیا گیا ہے وہ اس کو پہنچ جائے۔ اور ہم بالائی فضا میں وہ برودت پیدا کرتے ہیں جس سے یہ بھاپ پھر سے پانی میں تبدیل ہوتی ہے۔ ہم تمہیں صرف وجود میں لا کر ہی نہیں رہ گئے ہیں بلکہ تمہاری پرورش کے یہ سارے انتظامات بھی ہم کر رہے ہیں جن کے بغیر تم جی نہیں سکتے۔ پھر ہماری تخلیق سے وجود میں آ کر، ہمارا رزق کھا کر اور ہمارا پانی پی کر یہ حق تمہیں کہاں سے حاصل ہو گیا کہ ہمارے مقابلہ میں خود مختار بنو، یا ہمارے سوا کسی اور کی بندگی بجا لاؤ؟

30. اس فقرے میں اللہ کی قدرت و حکمت کے ایک اہم کرشمے کی نشان دہی کی گئی ہے۔ پانی کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو حیرت انگیز خواص رکھ ہیں، ان میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اس کے اندر خواہ کتنی ہی چیزیں تحلیل ہو جائیں، جب وہ حرارت کے اثر سے بھاپ میں تبدیل ہوتا ہے تو ساری آمیزشیں نیچے چھوڑ دیتا ہے، اور صرف اپنے اصل آبی اجزاء کو لے کر ہوا میں اڑتا ہے۔ یہ خاصیت اگر اس میں نہ ہوتی تو بھاپ میں تبدیل ہوتے وقت بھی وہ سب چیزیں اس میں شامل رہتیں جو پانی ہونے کی حالت میں اس کے اندر تحلیل شدہ تھیں۔ اس صورت میں سمندر سے جو بھاپیں اٹھتیں ان میں سمندر کا نمک بھی شامل ہوتا اور ان کی بارش تمام روئے زمین کو زمین شور بنا دیتی۔ نہ انسان اس پانی کو پی کر جی سکتا تھا نہ کسی قسم کی نباتات اس میں اگ سکتی تھی۔اب کیا کوئی شخص دماغ میں ذرا سی بھی عقل رکھتے ہوئے یہ دعوی کرسکتا ہے کہ اندھی بہری فطرت سے خود بخود پانی میں یہ حکیمانہ خاصیت پیدا ہو گئی ہے؟ یہ خاصیت، جس کی بدولت کھاری سمندروں سے صاف ستھرا میٹھا پانی کشید ہو کر بارش کی شکل میں برستا ہے اور پھر دریاؤں، نہروں، چشموں اور کنوؤں کی شکل میں آب رسانی و آب پاشی کی خدمت انجام دیتا ہے، اس بات کی صریح شہادت فراہم کرتی ہے کہ ودیعت کرنے والے نے پانی میں اس کو خوب سوچ سمجھ کر بِالا رادہ اس مقصد کے لیے ودیعت کیا ہے کہ وہ اس کی پیدا کردہ مخلوقات کی پرورش کا ذریعہ بن سکے۔ جو مخلوق کھاری پانی سے پرورش پا سکتی تھی وہ اس نے سمندر میں پیدا کی اور وہاں وہ خوب جی رہی ہے۔ مگر جس مخلوق کو اس نے خشکی اور ہوا میں پیدا کیا تھا اس کی پرورش کے لیے میٹھا پانی درکار تھا اور اس کی فراہمی کے لیے بارش کا انتظام کرنے سے پہلے اس نے پانی کے اندر یہ خاصیت رکھ دی کہ گرمی سے بھاپ بنتے وقت وہ کوئی ایسی چیز لے کر نہ اڑے جو اس کے اندر تحلیل ہو گئی ہو۔

31. بالفاظ دیگر کیوں یہ کفران نعمت کرتے ہو کہ تم میں سے کوئی اس بارش کو دیوتاؤں کا کرشمہ سمجھتا ہے، اور کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ سمندر سے بادلوں کا اٹھنا اور پھر آسمان سے پانی بن کر برسنا ایک فطری چکر ہے جو آپ سے آپ چلے جا رہا ہے، اور کوئی اسے خدا کی رحمت سمجھتا بھی ہے تو اس خدا کا اپنے اوپر یہ حق نہیں مانتا کہ اسی کے آگے سر اِطاعت جھکائے؟ خدا کی اتنی بڑی نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہو اور پھر جواب میں کفر و شرک اور فسق و نافرمانی کرتے ہو

32. درخت سے مراد یا تو وہ درخت ہیں جن سے آگ جلانے کے لیے لکڑی فراہم ہوتی ہے، یا مرخ اور عفار نامی وہ دو درخت ہیں جن کی ہری بھری ٹہنیوں کو ایک دوسرے پر مار کر قدیم زمانے میں اہل عرب آگ جھاڑا کرتے تھے۔

33. اس آگ کو یاد دہانی کا ذریعہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو ہر وقت روشن ہو کر انسان کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے۔ اگر آگ نہ ہوتی تو انسان کی زندگی حیوان کی زندگی سے مختلف نہ ہو سکتی۔ آگ ہی سے انسان نے حیوانات کی طرح کچی غذائیں کھانے کے بجائے ان کو پکا کر کھانا شروع کیا اور پھر اس کے لیے صنعت و ایجاد کے نئے نئے دروازے کھلتے چلے گئے۔ ظاہر ہے کہ اگر خدا وہ ذرائع پیدا نہ کرتا جن سے آگ جلائی جا سکے، اور وہ آتش پذیر مادے پیدا نہ کرتا جو آگ سے جل سکیں، تو انسان کی ایجادی صلاحیتوں کا قفل ہی نہ کھلتا۔ مگر انسان یہ بات فراموش کر گیا ہے کہ اس کا خالق کوئی پروردگار حکیم ہے جس نے اسے ایک طرف انسانی قابلیتیں دے کر پیدا کیا تو دوسری طرف زمین میں وہ سرو سامان بھی پیدا کر دیا جس سے اس کی یہ قابلیتیں رو بعمل آ سکیں۔ وہ اگر غفلت میں مد ہوش نہ ہو تو تنہا ایک آگ ہی اسے یہ یاد دلانے کے لیے کافی ہے کہ یہ کس کے احسانات اور کس کی نعمتیں ہیں جن سے وہ دنیا میں متمتع ہو رہا ہے۔

34. اصل میں لفظ مُقْوِیْن استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے مختلف معنی اہل لغت نے بیان کیے ہیں۔ بعض اسے صحرا میں اترے ہوئے مسافروں کے معنی میں لیتے ہیں۔ بعض اس کے معنی بھوکے آدمی کے لیتے ہیں۔ اور بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ سب لوگ ہیں جو آگ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، خواہ وہ کھانا پکانے کا فائدہ ہو یا روشنی کا یا تپش کا۔

35. یعنی اس کا مبارک نام لے کر یہ اظہار و اعلان کرو کہ وہ ان تمام عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جو کفار و مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اور جو کفر و شرک کے ہر عقیدے اور منکرین آخرت کے ہر استدلال میں مضمر ہیں۔