16. یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ آدمی اگر اس کے بخشے ہوئے مال کو اسی کی راہ میں صرف کرے تو اسے وہ اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے ، بشرطیکہ وہ قرض حسن(اچھا قرض)ہو، یعنی خالص نیت کے ساتھ کسی ذاتی غرض کے بغیر دیا جائے، کسی قسم کی ریا کاری اور شہرت و ناموری کی طلب اس میں شامل نہ ہو، اسے دے کر کسی پر احسان نہ جتا یا جائے، اس کا دینے والا صرف اللہ کی رضا کے لیے دے اور اس کے سوا کسی کے اجر اور کسی کی خوشنودی پر نگاہ نہ رکھے ۔ اس قرض کے متعلق اللہ کے دو وعدے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اس کو کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس دے گا، دوسرے یہ کہ وہ اس پر اپنی طرف سے بہترین اجر بھی عطا فرمائے گا۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اور حضورؐ کی زبان مبارک سے لوگوں نے اس کو سنا تو حضرت ابو الد حداح انصاری نے عرض کیا یا رسول اللہ، کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض چاہتا ہے ؟ حضورؐ نے جواب دیا، ہاں ، اے ابو الدحداح۔ انہوں نے کہا، ذرا اپنا ہاتھ مجھے دکھایئے۔ آپ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا۔ انہوں نے آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا ’’ میں نے اپنے رب کو اپنا باغ قرض میں دے دیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اس باغ میں کھجور کے 600 درخت تھے ، اسی میں ان کا گھر تھا، وہیں ان کے بال بچے رہتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بات کر کے وہ سیدھے گھر پہنچے اور بیوی کو پکارا کر کہا ‘’دحداح کی ماں ، نکل آؤ، میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دے دیا ہے ‘‘ وہ بولیں ’’ تم نے نفع کا سودا کیا دحداح کے باپ’’، اور اسی وقت اپنا سامان اور اپنے بچے لے کر باغ سے نکل گئیں (اب ابی حاتم)۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مخلص اہل ایمان کا طرز عمل اس وقت کیا تھا، اور اسی سے یہ بات بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ وہ کیسا قرض حسن ہے جسے کئی گنا بڑھا کر واپس دینے اور پھر اوپر سے اجر کریم عطا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے ۔
17. اس آیت اور بعد والی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ میدان حشر میں نور صرف مومنین صالحین کے لیے مخصوص ہو گا،رہے کفار و منافقین اور فساق و فجار، تو وہ وہاں بھی اسی طرح تاریکی میں بھٹک رہے ہوں گے جس طرح دنیا میں بھٹکتے رہے تھے ۔ وہاں روشنی جو کچھ بھی ہو گی، صالح عقیدے اور صالح عمل کی ہو گی۔ ایمان کی صداقت اور سیرت و کردار کی پاکیزگی ہی نور میں تبدیل ہو جائے گی جس سے نیک بندوں کی شخصیت جگمگا اٹھے گی جس شخص کا عمل جتنا تابندہ ہو گا اس کے وجود کی روشنی اتنی ہی زیادہ تیز ہو گی اور جب وہ میدان حشر سے جنت کی طرف چلے گا تو اس کا نور اس کے آگے آگے دوڑ رہا ہو گا۔ اس کی بہترین تشریح قتادہ کی وہ مرسل روایت ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’کسی کا نور اتنا تیز ہو گا کہ مدینہ سے عدن تک کی مسافت کے برابر فاصلے تک پہنچ رہا ہو گا، اور کسی کا نور مدینہ سے صنعاء تک، اور کسی کا اس سے کم، یہاں تک کہ کوئی مومن ایسا بھی ہو گا جس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہ بڑھے گا’’(ابن جریر)۔ بالفاظ دیگر جس کی ذات سے دنیا میں جتنی بھلائی پھیلی ہو گی اس کا نور اتنا ہی تیز ہو گا، اور جہاں جہاں تک دنیا میں اس کی بھلائی پہنچی ہو گی میدان حشر میں اتنی ہی مسافت تک اس کے نور کی شعاعیں دوڑ رہی ہوں گی۔
یہاں ایک سوال آدمی کے ذہن میں کھٹک پیدا کر سکتا ہے ۔ وہ یہ کہ آگے آ گے نور کا دوڑنا تو سمجھ میں آتا ہے ، مگر نور کا صرف دائیں جانب دوڑنا کیا معنی؟ کیا ان کے بائیں جانب تاریکی ہو گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنے دائیں ہاتھ پر روشنی لیے ہوئے چل رہا ہو تو اس سے روشن تو بائیں جانب بھی ہو گی مگر امر واقعہ یہی ہو گا کہ روشنی اس کے دائیں ہاتھ پر ہے ۔ اس بات کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حدیث کرتی ہے جسے حضرت ابوذر اور ابوالدرداء نے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا اَعر فہم بنورھم الذی یسعیٰ بین ایدیھم و عن اَیمانہم و عن شمائلہم ’’ میں اپنی امت کے صالحین کو وہاں ان کے اس نور سے پہچانوں گا جو ان کے آگے اور ان کے دائیں اور بائیں دوڑ رہا ہو گا ‘‘ (حاکم،ابن ابی حاتم،ابن مردویہ)۔
18. مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان جب جنت کی طرف جا رہے ہونگے تو روشنی ان کے آگے ہو گی اور پیچھے منافقین اندھیرے میں ٹھوکریں کھا رہے ہونگے ۔ اس وقت وہ ان اہل ایمان کو جو دنیا میں ان کے ساتھ ایک ہی مسلم معاشرے میں رہتے تھے ، پکار پکار کر کہیں گے کہ ذرا ہماری طرف پلٹ کر دیکھو تاکہ ہمیں بھی کچھ روشنی مل جائے۔
19. اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل جنت اس دروازے سے جنت میں داخل ہو جائیں گے اور دروازہ بند کر دیا جائیگا۔ دروازے کے ایک طرف جنت کی نعمتیں ہونگی، اور دوسری طرف دوزخ کا عذاب۔ منافقین کے لیے اس حد فاصل کو پار کرنا ممکن نہ ہو گا جو ان کے اور جنت کے درمیان حائل ہو گی۔
20. یعنی کیا ہم تمہارے ساتھ ایک ہی مسلم معاشرے میں شامل نہ تھے ؟ کیا ہم کلمہ گو نہ تھے ؟ کیا تمہاری طرح ہم بھی نمازیں نہ پڑھتے تھے ؟ روزے نہ رکھتے تھے ؟ حج اور زکوٰۃ ادا نہ کرتے تھے ؟ کیا تمہاری مجلسوں میں ہم شریک نہ ہوتے تھے ؟ تمہارے ساتھ ہمارے شادی بیاہ اور رشتہ داری کے تعلقات نہ تھے ؟ پھر آج ہمارے اور تمہارے درمیان یہ جدائی کیسی پڑگئی؟
21. یعنی مسلمان ہو کر بھی تم مخلص مسلمان نہ بنے ، ایمان اور کفر کے درمیان لٹکتے رہے ، کفر اور کفار سے تمہاری دلچسپیاں کبھی ختم نہ ہوئیں ، اور اسلام سے تم نے کبھی اپنے آپ کو پوری طرح وابستہ نہ کیا۔
22. اصل الفاظ ہیں تَرَبَّصْتُمْ۔ تَرَبُّص عربی زبان میں انتظار کرنے اور موقع کی تلاش میں ٹھیرے رہنے کو کہتے ہیں ۔ جب کوئی شخص دو راستوں میں سے کسی ایک پر جانے کا قطعی فیصلہ نہ کرے ، بلکہ اس فکر میں کھڑا ہو کہ جدھر جانا مفید ہوتا نظر آئے اسی طرف چل پڑے ، تو کہا جائے گا کہ وہ تربص میں مبتلا ہے ۔ منافقین نے کفر و اسلام کی کشمکش کے اس نازک دور میں یہی رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ وہ نہ کھل کر کفر کا ساتھ دے رہے تھے ، نہ پورے اطمینان کے ساتھ اپنی طاقت اسلام کی نصرت و حمایت میں صرف کر رہے تھے ۔ بس اپنی جگہ بیٹھے یہ دیکھ رہے تھے کہ اس قوت آزمائی میں آخر کار پلڑا کدھر جھکتا ہے ، تاکہ اسلام کامیاب ہوتا نظر آئے تو اس کی طرف جھک جائیں اور اس وقت مسلمانوں کے ساتھ کلمہ گوئی کا تعلق ان کے کام آئے، اور کفر کو غلبہ حاصل ہو تو اس کے حامیوں سے جا ملیں اور اسلام کی طرف سے جنگ میں کسی قسم کا حصہ نہ لینا اس وقت ان کے حق میں مفید ثابت ہو۔
23. اس سے مراد مختلف قسم کے شکوک ہیں جو ایک منافق کو لاحق ہوتے ہیں ، اور وہی اس کی منافقت کا اصل سبب ہوا کرتے ہیں ۔ اسے خدا کی ہستی میں شک ہوتا ہے ۔ قرآن کے کتاب اللہ ہونے میں شک ہوتا ہے ۔ آخرت اور وہاں کی باز پرس اور جزا و سزا میں شک ہوتا ہے اور اس امر میں شک ہوتا ہے کہ حق اور باطل کا یہ جھگڑا واقعی کوئی حقیقت بھی رکھتا ہے یا یہ سب محض ڈھکوسلے ہیں اور اصل چیز بس یہ ہے کہ خوش باش دمے کہ زندگانی این است۔ کوئی شخص جب تک ان شکوک میں مبتلا نہ ہو وہ کبھی منافق نہیں ہو سکتا۔
24. اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ تم کو موت آ گئی اور مرتے دم تک تم اس فریب سے نہ نکلے ۔ دوسرے یہ کہ اسلام کو غلبہ نصیب ہو گیا اور تم تماشا دیکھتے رہ گئے ۔
25. مراد ہے شیطان۔
26. یہاں اس امر کی تصریح ہے کہ آخرت میں منافق کا انجام وہی ہو گا جو کافر کا ہو گا۔
27. اصل الفاظ میں ھِیَ مَوْلَا کُمْ، ’’ دوزخ ہی تمہاری مولیٰ ہے ‘‘ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہی تمہارے لیے موزوں جگہ ہے ۔ دوسرا یہ کہ اللہ کو تو تم نے اپنا مولیٰ بنایا نہیں کہ وہ تمہاری خبر گیری کرے ، اب تو دوزخ ہی تمہاری مولیٰ ہے ، وہی تمہاری خوب خبر گیری کرے گی۔
28. یہاں پھر ’’ ایمان لانے والوں ‘‘ کے الفاظ تو عام ہیں مگر ان سے مراد تمام مسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کا وہ خاص گروہ ہے جو ایمان کا اقرار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا تھا اور اس کے باوجود اسلام کے درد سے اس کا دل خالی تھا۔ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ کفر کی تمام طاقتیں اسلام کو مٹا دینے پر تُلی ہوئی ہیں ، چاروں طرف سے انہوں نے اہل ایمان کی مٹھی بھر جماعت پر نرغہ کر رکھا ہے ، عرب کی سر زمین میں جگہ جگہ مسلمان تختہ مشق ستم بنائے جا رہے ہیں ، ملک کے گوشے گوشے سے مظلوم مسلمان سخت بے سر و سامانی کی حالت میں پناہ لینے کے لیے مدینے کی طرف بھاگے چلے آ رہے ہیں ، مخلص مسلمانوں کی کمر ان مظلوموں کو سہارا دیتے دیتے ٹوٹی جا رہی ہے ، اور دشمنوں کے مقابلے میں بھی یہی مخلص مومن سر بکف ہیں ، مگر یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ایمان کا دعویٰ کرنے والا یہ گروہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔ اس پر ان لوگوں کو شرم دلائی جا رہی ہے کہ تم کیسے ایمان لانے والے ہو؟ اسلام کے لیے حالات نزاکت کی اس حد کو پہنچ چکے ہیں ، کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ اللہ کا ذکر سن کر تمہارے دل پگھلیں اور اس کے دین کے لیے تمہارے دلوں میں ایثار و قربانی اور سر فروشی کا جذبہ پیدا ہو؟ کیا ایمان لانے والے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ اللہ کے دین پر برا وقت آئے اور وہ اس کی ذرا سی ٹیس بھی اپنے دل میں محسوس نہ کریں ؟ اللہ کے نام پر انہیں پکارا جائے اور وہ اپنی جگہ سے ہلیں تک نہیں ؟ اللہ اپنی نازل کردہ کتاب میں خود چندے کی اپیل کرے ، اور اسے اپنے ذمہ قرض قرار دے ، اور صاف صاف یہ بھی سنا دے کہ ان حالات میں جو اپنے مال کو میرے دین سے عزیز تر رکھے گا وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہو گا، اس پر بھی ان کے دل نہ خدا کے خوف سے کانپیں ، نہ اس کے حکم کے آگے جھکیں ؟
29. یعنی یہود و نصاریٰ تو اپنے انبیاء کے سینکڑوں برس بعد آج تمہیں اس بے حسی اور روح کی مردنی اور اخلاق کی پستی میں مبتلا نظر آ رہے ہیں ۔ کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ ابھی رسول تمہارے سامنے موجود ہے ، خدا کی کتاب نازل ہو رہی ہے ، تمہیں ایمان لائے کچھ زیادہ زمانہ بھی نہیں گزرا ہے ، اور ابھی سے تمہارا حال وہ ہو رہا ہے جو صدیوں تک خدا کے دین اور اس کی آیات سے کھیلتے رہنے کے بعد یہود و نصاریٰ کا ہوا ہے ؟
30. یہاں جس مناسبت سے یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نبوت اور کتاب کے نزول کو بارش کی برکات سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ انسانیت پر اس کے وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو زمین پر بارش کے ہوا کرتے ہیں ۔ جس طرح مردہ پڑی ہوئی زمین بار ان رحمت کا ایک چھینٹا پڑتے ہی لہلہا اٹھتی ہے ، اسی طرح جس ملک میں اللہ کی رحمت سے ایک نبی مبعوث ہوتا ہے اور وحی و کتا ب کا نزول شروع ہوتا ہے وہاں مری ہوئی انسانیت یکایک جی اٹھتی ہے ۔ اس کے وہ جوہر کھلنے لگتے ہیں جنہیں زمانہ ہائے دراز سے جاہلیت نے پیوند خاک کر رکھا تھا۔ اس کے اندر سے اخلاق فاضلہ کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں اور خیرات و حسنات کے گلزار لہلہانے لگتے ہیں ۔ اس حقیقت کی طرف جس غرض کے لیے یہاں اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ضعیف الایمان مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور وہ اپنی حالت پر غور کریں ۔ نبوت اور وحی کے بارانِ رحمت سے انسانیت جس شان سے از سر نو زندہ ہو رہی تھی اور جس طرح اس کا دامن برکات سے مالا مال ہو رہا تھا وہ ان کے لیے کوئی دور کی داستان نہ تھی۔ وہ خود اپنی آنکھوں سے صحابہ کرامؓ کے پاکیزہ معاشرے میں اس کا مشاہدہ کر رہے تھے ۔ رات دن اس کا تجربہ ان کو ہو رہا تھا۔ جاہلیت بھی اپنے تمام مقاصد کے ساتھ ان کے سامنے موجود تھی، اور اسلام سے پیدا ہونے والے محاسن بھی ان کے مقابلے میں اپنی پوری بہار دکھا رہے تھے ۔ اس لیے ان کو تفصیل کے ساتھ یہ باتیں بتانے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ بس یہ اشارہ کر دینا کافی تھا کہ مردہ زمین کو اللہ اپنے باران رحمت سے کس طرح زندگی بخشتا ہے ، اس کی نشانیاں تم کو صاف صاف دکھا دی گئی ہیں ، اب تم خود عقل سے کام لے کر اپنی حالت پر غور کر لو کہ اس نعمت سے تم کیا فائدہ اٹھا رہے ہو۔
31. صَدَقَہ اردو زبان میں تو بہت ہی بُرے معنوں میں بولا جاتا ہے ، مگر اسلام کی اصطلاح میں یہ اس عطئے کو کہتے ہیں جو سچے دل اور خالص نیت کے ساتھ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جائے، جس میں کوئی ریا کاری نہ ہو، کسی پر احسان نہ جتایا جائے، دینے والا صرف اس لیے دے کہ وہ اپنے رب کے لیے عبودیت کا سچا جذبہ رکھتا ہے ۔ یہ لفظ صِدق سے ماخوذ ہے اس لیے صداقت عین اس کی حقیقت میں شامل ہے ۔ کوئی عطیہ اور کوئی صَرفِ مال اس وقت تک صدقہ نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تہہ میں انفاق فی سبیل اللہ کا خالص اور بے کھوٹ جذبہ موجود نہ ہو۔
32. یہاں ایمان لانے والوں سے مراد وہ صادق الامان لوگ ہیں جن کا طرز عمل جھوٹے مدعیان ایمان اور ضعیف الایمان لوگوں سے بالکل مختلف تھا۔ جو اس وقت ایک دوسرے سے بڑھ کر مالی قربانیاں دے رہے تھے اور اللہ کے دین کی خاطر جانیں لڑا رہے تھے ۔
33. یہ صدق کا مبالغہ ہے ۔ صادق سچا، اور صدیق نہایت سچا۔ مگر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ صدق محض سچے اور مطابق حقیقت قول کو نہیں کہتے بلکہ اس کا اطلاق صرف اس قول پر ہوتا ہے جو بجائے خود بھی سچا ہو اور جس کا قائل بھی سچے دل سے اس حقیقت کو مانتا ہو جسے وہ زبان سے کہہ رہا ہے ۔ مثلاً ایک شخص اگر کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں ، تو یہ بات بجائے خود عین حقیقت کے مطابق ہے ، کیونکہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ، لیکن وہ شخص اپنے اس قول میں صادق صرف اسی وقت کہا جائے گا جبکہ اس کا اپنا عقیدہ بھی یہی ہو کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ لہٰذا صدق کے لیے ضروری ہے کہ قول کی مطابقت حقیقت کے ساتھ بھی ہو اور قائل کے ضمیر کے ساتھ بھی۔ اسی طرح صدق کے مفہوم میں وفا اور خلوص اور عملی راستبازی بھی شامل ہے ۔ صادق الوعد (وعدے کا سچا) اس شخص کو کہیں گے جو عملاً اپنا وعدہ پورا کرتا ہو اور کبھی اس کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو۔ صدیق (سچا دوست) اسی کو کہا جائے گا جس نے آزمائش کے مواقع پر دوستی کا حق ادا کیا ہو اور کبھی آدمی کو اس سے بے وفائی کاتجربہ نہ ہوا ہو۔ جنگ میں صادق فی القتال (سچا سپاہی) صرف وہی شخص کہلائے گا جو جان توڑ کر لڑا ہو اور جس نے اپنے عمل سے اپنی بہادری ثابت کر دی ہو۔ پس صدق کی حقیقت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قائل کا عمل اس کے قول سے مطابقت رکھتا ہو۔ قول کے خلاف عمل کرنے والا صادق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی بنا پر تو آپ اس شخص کو جھوٹا واعظ کہتے ہیں جو کہے کچھ اور کرے کچھ۔ اب غور کرنا چاہیے کہ یہ تعریف جب صدق اور صادق کی ہے تو مبالغہ کے صیغہ میں کسی کو صدیق کہنے کا مطلب کیا ہو گا۔ اس کے معنی لازماً ایسے راستباز آدمی کے ہیں جس میں کوئی کھوٹ نہ ہو، جو کبھی حق اور راستی سے نہ ہٹا ہو، جس سے یہ توقع ہی نہ کی جا سکتی ہو کہ وہ کبھی اپنے ضمیر کے خلاف کوئی بات کہے گا۔ جس نے کسی بات کو مانا ہو تو پورے خلوص کے ساتھ مانا ہو، اس کی وفاداری کا حق ادا کیا ہو اور اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہو کہ وہ فی الواقع ویسا ہی ماننے والا ہے جیسا ایک ماننے والے کو ہونا چاہیے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، النساء، حاشیہ 99)۔
34. اس آیت کی تفسیر میں اکابر مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ اب عباسؓ، مسروق، ضحاک مقاتل بن حیان وغیرہ کہتے ہیں کہ اُلیٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّ یْقُوْنَ پر ایک جملہ ختم ہو گیا۔ اس کے بعد وَ الشُّہَدَآءُ عِنْدِرَبِّھِمْ لَھُمْ اَجْرُھُمْ وَنُوْرُھُمْ ایک الگ مستقل جملہ ہے ۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی صدیق ہیں ۔ اور شہداء کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر اور ان کا نور ہے ‘‘ بخلاف اس کے مجاہد اور متعدد دوسرے مفسرین اس پوری عبارت کو ایک ہی جملہ مانتے ہیں اور ان کی تفسیر کے لحاظ سے ترجمہ وہ ہو گا جو اوپر ہم نے متن میں کیا ہے ۔ دونوں تفسیروں میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پہلے گروہ نے شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں لیا ہے ،اور یہ دیکھ کر کہ ہر مومن اس معنی میں شہید نہیں ہوتا انہوں نے وَالشُّھَدَآءُ عِنْدَ رَبِّھِمْ کو ایک الگ جملہ قرار دے دیا ہے ۔ مگر دوسرا گروہ شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں نہیں بلکہ حق کی گواہی دینے والے کے معنی میں لیتا ہے اور اس لحاظ سے ہر مومن شہید ہے ۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری تفسیر قابل ترجیح ہے اور قرآن و حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے :
وَکَذٰ لِکَ جَعَلْنٰکُمْاُ مَّۃً وَّ سَطاً لِّتَکُوْ نُوْا شُھَدَ آءَ عَلَیالنَّا سِ وَیَکُوْ نَ الرَّسُوْ لُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً۔ (البقرہ۔143)
اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک متوسط امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْداً عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شَھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ (لحج۔87 )
اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی (تمہارا یہی نام ہے ) تاکہ رسول تم پرگواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔
حدیث میں حضرت بَراء بن عازِب کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو انہوں نے یہ فرماتے سنا مؤمنوا امَّتی شھدآء، ’’ میری امت کے مومن شہید ہیں ،‘‘ پھر حضورؐ نے سورہ حدید کی یہی آیت تلاوت فرمائی (ابن جریر )۔ ابن مردویہ نے اسی معنی میں حضرت ابوالدرداء سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : من فریدینہ من ارضٍ مخافۃ الفتنۃ علیٰ نفسہٖ و دینہٖ کتب عنداللہ صدیقا فاذامات قبضہ اللہ شھیداً ثم تلا ھٰذاہ الایٰۃ۔ ’’ جو شخص اپنی جان اور اپنے دین کو فتنے سے بچانے کے لیے کسی سرزمین سے نکل جائے وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے اور جب وہ مرتا ہے تو اللہ شہید کی حیثیت سے اس کی روح قبض فرماتا ہے ،’’ پھر یہ بات ارشاد فرمانے کے بعد حضورؐ نے یہی آیت پڑھی (شھادت کے اس مفہوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ 144۔ النساء حاشیہ 99۔ جلد چہارم، الاحزاب، حاشیہ 82)۔
35. یعنی ان میں سے ہر ایک جس مرتبے کے اجر اور جس درجے کے نور کا مستحق ہو گا وہ اس کو ملے گا۔ وہ اپنا اپنا اجر اور اپنا اپنا نور پائیں گے ۔ ان کے لیے ان کا حصہ آج ہی سے محفوظ ہے ۔