36. اس مضمون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے ۔ سورہ آل عمران، آیات 14۔15۔ یونس، 24۔25۔ ابراہیم، 18۔ الکہف، 45۔46۔ النور، 39۔ اِن سب مقامات پر جو بات انسان کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا کی زندگی دراصل ایک عارضی زندگی ہے ۔ یہاں کی بہار بھی عارضی ہے اور خزاں بھی عارضی۔ دل بہلانے کا سامان یہاں بہت کچھ ہے ، مگر در حقیقت وہ نہایت حقیر اور چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جنہیں اپنی کم ظرفی کی وجہ سے آدمی بڑی چیز سمجھتا ہے اور اس دھوکے میں پڑ جاتا ہے کہ انہی کو پا لینا گویا کامیابی کے منتہیٰ تک پہنچ جانا ہے ۔ حالانکہ جو بڑے سے بڑے فائدے اور لطف و لذت کے سامان بھی یہاں حاصل ہونے ممکن ہیں وہ بہت حقیر اور صرف چند سال کی حیات مستعار تک محدود ہیں ، اور ان کا حال بھی یہ ہے کہ تقدیر کی ایک ہی گردش خود اسی دنیا میں ان سب پر جھاڑو پھیر دینے کے لیے کافی ہے ۔ اس کے بر عکس آخرت کی زندگی ایک عظیم اور ابدی زندگی ہے ۔ وہاں کے فائدے بھی عظیم اور مستقل ہیں اور نقصان بھی عظیم اور مستقل۔ کسی نے اگر وہاں اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی پالی تو اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ نعمت نصیب ہو گئی جس کے سامنے دنیا بھر کی دولت و حکومت بھی ہیچ ہے ۔ اور جو وہاں خدا کے عذاب میں گرفتار ہو گیا اس نے اگر دنیا میں وہ سب کچھ بھی پا لیا ہو جسے وہ اپنے نزدیک بڑی چیز سمجھتا تھا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ بڑے خسارے کا سودا کر کے آیا ہے ۔
37. اصل میں لفظ سَا بِقُوْا استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم محض ’’دوڑو‘‘ کے لفظ سے ادا نہیں ہوتا۔ مسابقت کے معنی مقابلے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنے کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ تم دنیاکی دولت اور لذتیں اور فائدے سمیٹنے میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی جو کوشش کر رہے ہو اسے چھوڑ کر اس چیز کو ہدف مقصود بناؤ اور اس کی طرف دوڑنے میں بازی جیت لے جانے کی کوشش کرو۔
38. اصل الفاظ ہیں عَرْ ضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ۔ بعض مفسرین نے عرض کو چوڑائی کے معنی میں لیا ہے ۔ لیکن دراصل یہاں یہ لفظ وسعت و پہنائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ عربی زبان میں لفظ عرض صرف چوڑائی ہی کے لیے نہیں بولا جاتا جو طول کا مد مقابل ہے ، بلکہ اسے مجرد وسعت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ، جیسا کہ ایک دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے فَذُوْ دُعَآ ءٍ عَرِیْضٍ، ’’ انسان پھر لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے ‘‘ (حٰم السجدہ۔51)۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اس ارشاد سے مقصود جنت کا رقبہ بتانا نہیں ہے بلکہ اس کی وسعت کا تصور دلانا ہے ۔ یہاں اس کی وسعت آسمان و زمین جیسی بتائی گئی ہے ، اور سورہ آل عمران میں فرمایا گیا ہے سَارِعُوْآ اِلیٰ مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقَیْنَ (آیت۔ 133)۔’’دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت ساری کائنات ہے ، جو مہیا کی گئی ہے متقی لوگوں کے لیے ‘‘۔ ان دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے کچھ ایسا تصور ذہن میں آتا ہے کہ جنت میں ایک انسان کو جو باغ اور محلات ملیں گے وہ تو صرف اس کے قیام کے لیے ہوں گے ، مگر در حقیقت پوری کائنات اس کی سیر گاہ ہو گی۔ کہیں وہ بند نہ ہو گا۔ وہاں اس کا حال اس دنیا کی طرح نہ ہو گا کہ چاند جیسے قریب ترین سیارے تک پہنچنے کے لیے بھی وہ برسوں پاپڑ بیلتا رہا اور اس ذرا سے سفر کی مشکلات کو رفع کرنے میں اسے بے تحاشا وسائل صرف کرنے پڑے ۔ وہاں ساری کائنات اس کے لیے کھلی ہو گی، جو کچھ چاہے گا پنی جگہ سے بیٹھے بیٹھے دیکھ لے گا اور جہاں چاہے گا بے تکلف جا سکے گا۔
39. ’’اس کو‘‘ کا شارہ مصیبت کی طرف بھی ہو سکتا ہے ، زمین کی طرف بھی، نفس کی طرف بھی، اور فحوائے کلام کے لحاظ سے مخلوقات کی طرف بھی۔
40. کتاب سے مراد ہے نوشتہ تقدیر۔
41. یعنی اپنی مخلوقات میں سے ایک ایک کی تقدیر پہلے سے لکھ دینا اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔
42. اس سلسلہ بیان میں یہ بات جس غرض کے لیے فرمائی گئی ہے اسے سمجھنے کے لیے ان حالات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے جو اس سورت کے نزول کے وقت اہل ایمان کو پیش آ رہے تھے ۔ ہر وقت دشمنوں کے حملے کا خطرہ، پے در پے لڑائیاں دائماً محاصرہ کی سی کیفیت، کفار کے معاشی مقاطعہ کی وجہ سے سخت بد حالی، عرب کے گوشے گوشے میں ایمان لانے والوں پر کفار کا ظلم و ستم، یہ کیفیات تھیں جن سے مسلمان اس وقت گزر رہے تھے ۔ کفار ان کو مسلمانوں کے مخذول اور راندۂ درگاہ ہونے کی دلیل قرار دیتے تھے ۔ منافقین انہیں اپنے شکوک و شبہات کی تائید میں استعمال کرتے تھے ۔ اور مخلص اہل ایمان اگر چہ بڑی ثابت قدمی کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کر رہے تھے ، مگر بعض اوقات مصائب کا ہجوم ان کے لیے بھی انتہائی صبر آزما ہو جاتا تھا۔ اس پر مسلمانوں کو تسلی دینے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ تم پر کوئی مصیبت بھی معاذاللہ تمہارے رب کی بے خبری میں نازل نہیں ہو گئی ہے ۔ جو کچھ پیش آ رہا ہے ، یہ سب اللہ کی طے شدہ اسکیم کے مطابق ہے جو پہلے سے اس کے دفتر میں لکھی ہوئی موجود ہے ۔ اور ان حالات سے تمہیں اس لیے گزارا جا رہا ہے کہ تمہاری تربیت پیش نظر ہے ۔ جو کار عظیم اللہ تعالیٰ تم سے لینا چاہتا ہے اس کے لیے یہ تربیت ضروری ہے ۔ اس سے گزارے بغیر تمہیں کامیابی کی منزل پر پہنچا دیا جائے تو تمہاری سیرت میں وہ خامیاں باقی رہ جائیں گی جن کی بدولت نہ تم عظمت و اقتدار کی ثقیل خوراک ہضم کر سکو گے اور نہ باطل کی طوفان خیز موجوں کے تھپیڑے سہہ سکو گے ۔
43. یہ اشارہ ہے اس سیرت کی طرف جو خود مسلم معاشرے کے منافقین میں اس وقت سب کو نظر آ رہی تھی۔ ظاہری اقرار ایمان کے لحاظ سے ان میں اور مخلص مسلمانوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ لیکن اخلاص کے فقدان کی وجہ سے وہ اس تربیت میں شامل نہ ہوئے تھے جو مخلصین کو دی جا رہی تھی، اس لیے ان کا حال یہ تھا کہ جو ذرا سی خوشحالی اور مشیخت ان کو عرب کے ایک معمولی قصبے میں میسر آئی ہوئی تھی وہی ان کے چھوٹے سے ظرف کو پھلائے دے رہی تھی، اسی پر وہ پھٹے پڑتے تھے ، اور دل کی تنگی اس درجے کی تھی کہ جس خدا پر ایمان لانے اور جس رسول کے پیرو ہونے اور جس دین کو ماننے کا دعویٰ کرتے تھے اس کے لیے خود ایک پیسہ تو کیا دیتے ، دوسرے دینے والوں کو بھی یہ کہہ کہہ کر روکتے تھے کہ کیوں اپنا پیسہ اس بھاڑ میں جھونک رہے ہو۔ ظاہر بات ہے کہ اگر مصائب کی بھٹی گرم نہ کی جاتی تو اس کھوٹے مال کو، جو اللہ کے کسی کام کا نہ تھا، زر خالص سے الگ نہ کیا جا سکتا تھا، اور اس کو الگ کیے بغیر کچے پکے مسلمانوں کی ایک مخلوط بھیڑ کو دنیا کی امامت کا وہ منصب عظیم نہ سونپا جا سکتا تھا جس کی عظیم الشان برکات کا مشاہدہ آ خر کار دنیا نے خلافت راشدہ میں کیا۔
44. یعنی یہ کلمات نصیحت سننے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اللہ اور اس کے دین کے لیے خلوص، فرمانبرداری اور ایثار و قربانی کا طریقہ اختیار نہیں کرتا اور اپنی اسی کج روی پر اڑا رہنا چاہتا ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے ، تو اللہ کو اس کی کچھ پروا نہیں ۔ وہ غنی ہے ، اس کی کوئی حاجت ان لوگوں سے اٹکی ہوئی نہیں ہے ۔ اور وہ ستو وہ صفات ہے ، اس کے ہاں اچھی صفات رکھنے والے لوگ ہی مقبول ہو سکتے ہیں ، بد کردار لوگ اس کی نگاہ التفات کے مستحق نہیں ہو سکتے ۔
45. اس مختصر سے فقرے میں انبیاء علیہم السلام کے مشن کا پورا لب لباب بیان کر دیا گیا ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں خدا کے جتنے رسول بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے وہ سب تین چیزیں لے کر آئے تھے :
(1) بینات، یعنی کھلی کھلی نشانیاں جو واضح کر رہی تھیں کہ یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں ، بنے ہوئے لوگ نہیں ہیں ۔ روشن دلائل جو اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بالکل کافی تھے کہ جس چیز کو وہ حق کہہ رہے ہیں وہ واقعی حق ہے اور جس چیز کو وہ باطل قرار دے رہے ہیں وہ واقعی باطل ہے ۔ واضح ہدایات جن میں کسی اشتباہ کے بغیر صاف صاف بتا دیا گیا تھا کہ عقائد، اخلاق، عبادات اور معاملات میں لوگوں کے لیے راہ راست کیا ہے جسے وہ اختیار کریں اور غلط راستے کون سے ہیں جن سے وہ اجتناب کریں ۔
(2) کتاب، جس میں وہ ساری تعلیمات لکھ دی گئی تھیں جو انسان کی ہدایت کے لیے درکار تھیں تاکہ لوگ رہنمائی کے لیے اس کی طرف رجوع کر سکیں ۔
(3) میزان، یعنی وہ معیار حق و باطل جو ٹھیک ٹھیک ترازو کی تول تول کر یہ بتا دے کہ افکار، اخلاق اور معاملات میں افراط و تفریط کی مختلف انتہاؤں کے درمیان انصاف کی بات کیا ہے ۔
ان تین چیزوں کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کو جس مقصد کے لیے بھیجا گیا وہ یہ تھا کہ دنیا میں انسان کا رویہ اور انسانی زندگی کا نظام، فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی، عدل پر قائم ہو۔ ایک طرف ہر انسان اپنے خدا کے حقوق، اپنے نفس کے حقوق اور ان تمام بندگان خدا کے حقوق، جن سے اس کو کسی طور پر سابقہ پیش آتا ہے ، ٹھیک ٹھیک جان لے اور پورے انصاف کے ساتھ ان کو ادا کرے ۔ اور دوسری طرف اجتماعی زندگی کا نظام ایسے اصولوں پر تعمیر کیا جائے جن سے معاشرے میں کسی نوعیت کا ظلم باقی نہ رہے ، تمدن و تہذیب کا ہر پہلو افراط و تفریط سے محفوظ ہو، حیات اجتماعی کے تمام شعبوں میں صحیح صحیح توازن قائم ہو، اور معاشرے کے تمام عناصر انصاف کے ساتھ اپنے حقوق پائیں اور اپنے فرائض ادا کریں ۔ بالفاظ دیگر انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصود عدل انفرادی بھی تھا اور عدل اجتماعی بھی۔ وہ ایک ایک فرد کی شخصی زندگی میں بھی عدل قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ اس کے ذہن، اس کی سیرت، اس کے کردار اور اس کے برتاؤ میں توازن پیدا ہو۔ اور انسانی معاشرے کے پورے نظام کو بھی عدل پر قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ فرد اور جماعت دونوں ایک دوسرے کی روحانی، اخلاقی اور مادی فلاح میں مانع و مزاحم ہونے کے بجائے معاون و مدد گار ہوں ۔
46. لوہا اتارنے کا مطلب زمین میں لوہا پیدا کرنا ہے ، جیسا کہ ایک دوسری جگہ قرآن میں فرمایا واَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمَانِیَۃَاَزْوَاجٍ (الزمر، 6)۔ ’’ اس نے تمہارے لیے مویشیوں کی قسم کے آٹھ نر و مادہ اتارے ۔ ‘‘چونکہ زمیں میں جو کچھ پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہاں آیا ہے ، خود بخود نہیں بن گیا ہے ، اس لیے ان کے پیدا کیے جانے کو قرآن مجید میں نازل کیے جانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
انبیاء علیہم السلام کے مشن کو بیان کرنے کے معاً بعد یہ فرمانا کہ ’’ ہم نے لوہا نازل کیا جس میں بڑا زور اور لوگوں کے لیے منافع ہیں ‘‘، خود بخود اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں لوہے سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے ، اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیام عدل کی محض ایک اسکیم پیش کر دینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی کہ اس کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ قوت فراہم کی جائے جس سے فی الواقع عدل قائم ہو سکے ، اسے درہم برہم کرنے والوں کو سزا دی جا سکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جا سکے ۔
47. یعنی اللہ کو اس مدد کی ضرورت کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ کمزور ہے ، اپنی طاقت سے یہ کام نہیں کر سکتا۔ بلکہ یہ طریق کار اس نے انسانوں کی آزمائش کے لیے اختیار فرمایا ہے اور اسی آزمائش سے گزر کر انسان اپنی ترقی اور فلاح کی راہ پر آگے بڑھ سکتا ہے ۔ اللہ تو ہر وقت یہ قدرت رکھتا ہے کہ جب چاہے اپنے ایک اشارے سے تمام کافروں کو مغلوب کر دے اور اپنے رسولوں کو ان پر غلبہ و تسلط عطا فرما دے ۔ مگر اس میں پھر رسولوں پر ایمان لانے والوں کا کیا کمال ہو گا جس کی بنا پروہ کسی انعام کے مستحق ہوں ؟ اسی لیے اللہ نے اس کام کو اپنی غالب قدرت سے انجام دینے کے بجائے طریق کار یہ اختیار فرمایا کہ اپنے رسولوں کو بینات اور کتاب اور میزان دے کر انسانوں کے درمیان مبعوث کر دیا۔ ان کو اس بات پر مامور فرمایا کہ لوگوں کے سامنے عدل کا راستہ پیش کریں اور ظلم و جور اور بے انصافی سے باز آ جانے کی ان کو دعوت دیں ۔ انسانوں کو اس امر کا پورا اختیار دے دیا کہ ان میں سے جو چاہے رسولوں کی دعوت قبول کرے اور جو چاہے اسے رد کر دے ۔ قبول کرنے والوں کو پکارا کہ آؤ، اس عدل کے نظام کو قائم کرنے میں میرا اور میرے رسولوں کا ساتھ دو اور ان لوگوں کے مقابلہ میں جان توڑ جدو جہد کرو جو ظلم و جور کے نظام کو باقی رکھنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسانوں میں سے کون ہیں جو انصاف کی بات کو رد کرتے ہیں ، اور کون ہیں جو انصاف کے مقابلے میں بے انصافی قائم رکھنے کے لیے اپنی جان لڑاتے ہیں ، اور کون ہیں جو انصاف کی بات قبول کر لینے کے بعد اس کی حمایت اور اس کی خاطر جد و جہد کرنے سے جی چراتے ہیں ، اور کون ہیں جو ان دیکھے خدا کی خاطر دنیا میں اس حق کو غالب کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دیتے ہیں ۔ اس امتحان سے جو لوگ کامیاب ہو کر نکلیں گے انہی کے لیے آئندہ ترقیوں کے دروازے کھلیں گے ۔