Tafheem ul Quran

Surah 58 Al-Mujadila, Ayat 14-22

اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ تَوَلَّوۡا قَوۡمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمؕۡ مَّا هُمۡ مِّنۡكُمۡ وَلَا مِنۡهُمۡۙ وَيَحۡلِفُوۡنَ عَلَى الۡكَذِبِ وَهُمۡ يَعۡلَمُوۡنَ‏  ﴿58:14﴾ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمۡ عَذَابًا شَدِيۡدًا​ ؕ اِنَّهُمۡ سَآءَ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿58:15﴾ اِتَّخَذُوۡۤا اَيۡمَانَهُمۡ جُنَّةً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَلَهُمۡ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ‏ ﴿58:16﴾ لَنۡ تُغۡنِىَ عَنۡهُمۡ اَمۡوَالُهُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ شَيۡـئًـا​ ؕ اُولٰٓـئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ​ ؕ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ﴿58:17﴾ يَوۡمَ يَبۡعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيۡعًا فَيَحۡلِفُوۡنَ لَهٗ كَمَا يَحۡلِفُوۡنَ لَـكُمۡ​ وَيَحۡسَبُوۡنَ اَنَّهُمۡ عَلٰى شَىۡءٍ​ ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمۡ هُمُ الۡكٰذِبُوۡنَ‏  ﴿58:18﴾ اِسۡتَحۡوَذَ عَلَيۡهِمُ الشَّيۡطٰنُ فَاَنۡسٰٮهُمۡ ذِكۡرَ اللّٰهِ​ؕ اُولٰٓـئِكَ حِزۡبُ الشَّيۡطٰنِ​ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ الشَّيۡطٰنِ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ‏ ﴿58:19﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ يُحَآدُّوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗۤ اُولٰٓـئِكَ فِى الۡاَذَلِّيۡنَ‏  ﴿58:20﴾ كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِىۡ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِىٌّ عَزِيۡزٌ‏  ﴿58:21﴾ لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡ​ؕ اُولٰٓـئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ​ ؕ وَيُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا​ ؕ رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ​ ؕ اُولٰٓـئِكَ حِزۡبُ اللّٰهِ​ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ﴿58:22﴾

14 - کیا تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جنہوں نے دوست بنایا ہے ایک ایسے گروہ کو جواللہ کا مغضوب ہے؟ 31 وہ نہ تمہارے ہیں نہ اُن کے، 32 اور وہ جان بُوجھ کر جُھوٹی بات پر قسمیں کھاتے ہیں۔ 33 15 - اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب مہیّا کر رکھا ہے، بڑے ہی بُرے کرتُوت ہیں جو وہ کر رہے ہیں۔ 16 - اُنہوں نے اپنی قسموں کر ڈھال بنا رکھا ہے جس کی آڑ میں وہ اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے ہیں، 34 اِس پر ان کے لیے ذلّت کا عذاب ہے۔ 17 - اللہ سے بچانے کے لیے نہ ان کے مال کچھ کام آئیں گے نہ ان کی اولاد۔ وہ دوزخ کے یار ہیں، اسی میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ 18 - جس روز اللہ ان سب کو اُٹھائے گا، وہ اس کے سامنے بھی اُسی طرح قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے کھاتے ہیں 35 اور اپنے نزدیک یہ سمجھیں گے کہ اس سے ان کا کچھ کام بن جائے گا۔ خوب جان لو، وہ پرلے درجے کے جُھوٹے ہیں۔ 19 - شیطان اُن پر مسلّط ہو چکا ہے اور اُس نے خدا کی یاد اُن کے دل سے بُھلا دی ہے۔ وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں۔ خبر دار ہو، شیطان کی پارٹی والے ہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔ 20 - یقیناً ذلیل ترین مخلوقات میں سے ہیں وہ لوگ جو اللہ اور اُس کے رسُول کا مقابلہ کرتے ہیں۔ 21 - اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسُول غالب ہو کر رہیں گے۔ 36 فی الواقع اللہ زبردست اور زورآور ہے۔ 22 - تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اُس کے رسُول کی مخالفت کی ہے، خواہ وہ اُن کے باپ ہوں ، یا اُن کے بیٹے، یا اُن کے بھائی یا اُن کے اہلِ خاندان۔ 37 یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک رُوح عطا کر کے ان کو قوّت بخشی ہے۔ وہ ان کو ایسی جنّتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں۔ خبردار رہو، اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔ ؏۳


Notes

31. اشارہ ہے مدینے کے یہودیوں کی طرف جنہیں منافقین نے دوست بنا رکھا تھا۔

32. یعنی مخلصانہ تعلق ان کا نہ اہل ایمان سے ہے نہ یہود سے۔ دونوں کے ساتھ انہوں نے محض اپنی اغراض کے لیے رشتہ جوڑ رکھا ہے۔

33. یعنی اس بات پر کہ وہ ایمان لائے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنا ہادی و پیشوا مانتے ہیں اور اسلام و اہل اسلام کے وفادار ہیں۔

34. مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنے ایمان اور اپنی وفاداری کی قَسمیں کھا کر مسلمانوں کی گرفت سے بچے رہتے ہیں، اور دوسری طرف اسلام اور اہل اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ہر طرح کے شبہات اور وسوسے لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں تاکہ لوگ یہ سمجھ کر اسلام قبول کرنے سے باز رہیں کہ جب گھر کے بھیدی یہ خبریں دے رہے ہیں تو ضرور اندر کچھ دال میں کالا ہو گا۔

35. ۔ یعنی یہ صرف دنیا ہی میں اور صرف انسانوں ہی کے سامنے جھوٹی قَسمیں کھانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ آخرت میں خود اللہ جل شانہ کے سامنے بھی یہ جھوٹی قَسمیں کھانے سے باز نہ رہیں گے۔ جھوٹ اور فریب ان کے اندر اتنا گہرا اُتر چکا ہے کہ مر کر بھی یہ ان سے نہ چھوٹے گا۔

36. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الصافات، حاشیہ 93۔

37. اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک بات اصولی ہے، اور دوسری امر واقعی کا بیان۔ اصولی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ دین حق پر ایمان اور اعدائے دین کی محبت، دو بالکل متضاد چیزیں ہیں جن کا ایک جگہ اجتماع کسی طرح قابل تصور نہیں ہے۔ یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ ایمان اور دشمنان خدا و رسول کی محبت ایک دل میں جمع ہو جائیں، بالکل اسی طرح جیسے ایک آدمی کے دل میں اپنی ذات کی محبت اور اپنے دشمن کی محبت بیک وقت جمع نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ ایمان کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اس نے ایسے لوگوں سے محبت کا رشتہ بھی جوڑ رکھا ہے جو اسلام کے مخالف ہیں تو یہ غلط فہمی تمہیں ہر گز لاحق نہ ہونی چاہیے کہ شاید وہ اپنی اس روش کے باوجود ایمان کے دعوے میں سچا ہو۔ اسی طرح جن لوگوں نے اسلام اور مخالفین اسلام سے بیک وقت رشتہ جوڑ رکھا ہے وہ خود بھی اپنی پوزیشن پر اچھی طرح غور کر لیں کہ وہ فی الواقع کیا ہیں، مومن ہیں یا منافق؟ اور فی الواقع کیا ہونا چاہتے ہیں، مومن بن کر رہنا چاہتے ہیں یا منافق؟ اگر ان کے اندر کچھ بھی راستبازی موجود ہے، اور وہ کچھ بھی یہ احساس اپنے اندر رکھتے ہیں کہ اخلاقی حیثیت سے منافقت انسان کے لیے ذلیل ترین رویہ ہے، تو انہیں بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش چھوڑ دینی چاہیے۔ ایمان تو ان سے دو ٹوک فیصلہ چاہتا ہے۔ مومن رہنا چاہتے ہیں تو ہر اس رشتے اور تعلق کو قربان کر دیں جو اسلام کے ساتھ ان کے تعلق سے متصادم ہوتا ہو۔ اسلام کے رشتے سے کسی اور رشتے کو عزیز تر رکھتے ہیں تو بہتر ہے کہ ایمان کا جھوٹا دعویٰ چھوڑ دیں۔

یہ تو ہے اصولی بات۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں صرف اصول بیان کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ اس امر واقعی کو بھی مدعیان ایمان کے سامنے نمونے کے طور پر پیش فرما دیا ہے کہ جو لوگ سچے مومن تھے انہوں نے فی الواقع سب کی آنکھوں کے سامنے تمام ان رشتوں کو کاٹ پھینکا جو اللہ کے دین کے ساتھ ان کے تعلق میں حائل ہوئے۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو بدر و احد کے معرکوں میں سارا عرب دیکھ چکا تھا۔ مکہ سے جو صحابہ کرام ہجرت کر کے آئے تھے وہ صرف خدا اور اس کے دین کی خاطر خود اپنے قبیلے اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے لڑ گئے تھے۔ حضرت ابو عبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن جراح کو قتل کیا۔ حضرت مصعب بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا۔ حضرت ابو بکر اپنے بیٹے عبدالرحمان سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن الحارث نے عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے۔ حضرت عمرؓ نے اسیران جنگ بدر کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے اور ہم میں سے ہر ایک اپنے رشتہ دار کو قتل کرے۔ اسی جنگ بدر میں حضرت مصعب بن عمیر کے سگے بھائی ابو عزیز بن عمیر کو ایک انصاری پکڑ کر باندھ رہا تھا۔ حضرت مصعب نے دیکھا تو پکار کر کہا ’’ ذرا مضبوط باندھنا، اس کی ماں بڑی مالدار ہے، اس کی رہائی کے لیے وہ تمہیں بہت سا فدیہ دے گی’‘۔ ابوعزیز نے کہا ’’ تم بھائی ہو کر یہ بات کہہ رہے ہو؟ ’’ حضرت مصعب نے جواب دیا ’’ اس وقت تم میرے بھائی نہیں ہو بلکہ یہ انصاری میرا بھائی ہے جو تمہیں گرفتار کر رہا ہے ‘‘۔ اسی جنگ بدر میں خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے داماد ابو العاص گرفتار ہو کر آئے اور ان کے ساتھ رسول کی دامادی کی بنا پر قطعاً کوئی امتیازی سلوک نہ کیا گیا جو دوسرے قیدیوں سے کچھ بھی مختلف ہوتا۔ اس طرح عالم واقعہ میں دنیا کو یہ دکھا یا جا چکا تھا کہ مخلص مسلمان کیسے ہوتے ہیں اور اللہ اور اس کے دین کے ساتھ ان کا تعلق کیسا ہوا کرتا ہے۔

دیلَمی نے حضرت معاذ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ دعا نقل کی ہے کہ : اللحم لا تجعل لفا جر (وفی روایۃٍ لفاسق)عَلَیَّ یداً ولا نعمۃ فیودہٗ قلبی فانی وجدت فیما اوحیت اِلیّ لا تَجِدُ قَوْماً یُّؤْ مِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّ وْ نَ مَنْ حَآ دَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۔ ’’ خدایا،کسی فاجر(اور ایک روایت میں فاسق) کا میرے اوپر کوئی احسان نہ ہونے دے کہ میرے دل میں اس کے لیے کوئی محبت پیدا ہو۔ کیونکہ تیری نازل کردہ وحی میں یہ بات بھی میں نے پائی ہے کہ اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھنے والوں کو تم اللہ اور رسول کے مخالفوں سے محبت کرتے نہ پاؤ گے۔‘‘