18. یہاں سے آیت 19 تک مسلسل منافقین کے اس طرز عمل پر گرفت کی گئی ہے جو انہوں نے اس وقت مسلم معاشرے میں اختیار کر رکھا تھا۔ وہ بظاہر مسلمانوں کی جماعت میں شامل تھے، مگر اندر ہی اندر انہوں نے اہل ایمان سے الگ اپنا ایک جتھا بنا رکھا تھا۔ مسلمان جب بھی انہیں دیکھتے، یہی دیکھتے کہ وہ آپس میں سر جوڑے کھسر پسر کر رہے ہیں۔ انہیں خفیہ سرگوشیوں میں وہ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور فتنے برپا کرنے اور ہر اس پھیلانے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بناتے اور نئی نئی افواہیں گھڑتے تھے۔
19. سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں دو اور تین کے بجائے تین اور پانچ کا ذکر کس مصلحت سے کیا گیا ہے؟ پہلے دو اور پھر چار کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟ مفسرین نے اس کے بہت سے جوابات دیے ہیں، مگر ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ یہ طرز بیان در اصل قرآن مجید کی عبارت کے ادبی حسن کو برقرار رکھنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو عبارت یوں ہوتی : مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوَی اثْنَیْنِ اِ لَّاھُوَثاَلِثُھُمْ وَلاَ ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ھُوَرَابِعُھُمْ۔ اس میں نَجْو یَ اثْنَیْن بھی کوئی خوبصورت ترکیب نہ ہوتی اور ثالث اور ثلٰثَۃٍ کا یکے بعد دیگرے آنا بھی حلاوت سے خالی ہوتا۔ یہی قباحت اِلاَّ ھُوَرَابِعُھُمْ کے بعد وَلاَ اَرٰبَعَۃٍ کہنے میں بھی تھی۔ اس لیے تین اور پانچ سرگوشی کرنے والوں کا ذکر کرنے کے بعد دوسرے فقرے میں اس خلا کو یہ کہہ کر بھر دیا گیا کہ وَلَٓا اَدْنیٰ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْثَرَ اِلَّا ھُوَ مَعَھُمْ۔ سرگوشی کرنے والے خواہ تین سے کم ہوں یا پانچ سے زیادہ، بہر حال اللہ ان کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔
20. یہ معیت در حقیقت اللہ جل شانہ کے علیم و خبیر، اور سمیع و بصیر اور قادر مطلق ہونے کے لحاظ سے ہے، نہ کہ معاذ اللہ اس معنی میں کہ اللہ کوئی شخص ہے جو پانچ اشخاص کے درمیان ایک چھٹے شخص کی حیثیت سے کسی جگہ چھپا بیٹھا ہوتا ہے۔ دراصل اس ارشاد سے لوگوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ خواہ وہ کیسے ہی محفوظ مقامات پر خفیہ مشورہ کر رہے ہوں ان کی بات دنیا بھر سے چھپ سکتی ہے مگر اللہ سے نہیں چھپ سکتی اور وہ دنیا کی ہر طاقت کی گرفت سے بچ سکتے ہیں مگر اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔
21. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان لوگوں کو اس روش سے منع فرما چکے تھے، اس پر بھی جب وہ باز نہ آئے تب براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمان عتاب نازل ہوا۔
22. یہ یہود اور منافقین کا مشترک رویہ تھا۔ متعدد روایتوں میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ یہودی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے السام علیک یا ابا القاسم کہا۔ یعنی السلام علیک کا تلفظ کچھ اس انداز سے کیا کہ سننے والا سمجھے سلام کہا ہے، مگر دراصل انہوں نے سام کہا تھا جس کے معنی موت کے ہیں۔ حضورؐ نے جواب میں فرمایا و علیکم۔ حضرت عائشہ سے نہ رہا گیا اور انہوں نے کہا موت تمہیں آئے اور اللہ کی لعنت اور پھٹکار پڑے۔ حضورؐ نے انہیں تنبیہ فرمائی کہ اے عائشہ، اللہ کو بد زبانی پسند نہیں ہے۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ، آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا؟ حضورؐ نے فرمایا اور تم نے نہیں سنا کہ میں نے انہیں کیا جواب دیا؟ میں ان سے کہہ دیا ’’اور تم پر بھی‘‘ )بخاری،مسلم،ابن جریر،ابن ابی حاتم)۔ حضرت عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ منافقین اور یہود، دونوں نے سلام کا یہی طریقہ اختیار کر رکھا تھا (ابن جریر)۔
23. یعنی وہ اپنے نزدیک اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول نہ ہونے کی دلیل سمجھتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اگر یہ رسول ہوتے تو جس وقت ہم انہیں اس طریقہ سے سلام کرتے اسی وقت ہم پر عذاب آ جاتا۔ اب چونکہ کوئی عذاب نہیں آتا، حالانکہ ہم شب و روز یہ حرکت کرتے رہتے ہیں، لہٰذا یہ رسول نہیں ہیں۔
24. اس سے معلوم ہوا کہ نجویٰ(آپس میں راز کی بات کرنا) بجائے خود ممنوع نہیں ہے، بلکہ اس کے جائز یا نا جائز ہونے کا انحصار ان لوگوں کے کردار پر ہے جو ایسی بات کریں، اور ان حالات پر ہے جن میں ایسی بات کی جائے، اور ان باتوں کی نوعیت پر ہے جو اس طریقے سے کی جائیں۔ جن لوگوں کا اخلاص، جن کی راست بازی، جن کے کردار کی پاکیزگی معاشرے میں معلوم و معروف ہو، انہیں کسی جگہ سر جوڑے بیٹھے دیکھ کر کسی کو یہ شبہ نہیں ہو سکتا کہ وہ آپس میں کسی شرارت کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ بخلاف اس کے جو لوگ شر اور بد کرداری کے لیے معروف ہوں ان کی سرگوشیاں ہر شخص کے دل میں یہ کھٹک پیدا کر دیتی ہیں کہ ضرور کسی نئے فتنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اسی طرح اتفاقاً کبھی دو چار آدمی باہم کسی معاملہ پر سرگوشی کے انداز میں بات کر لیں تو یہ قابل اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر کچھ لوگوں نے اپنا ایک جتھا بنا رکھا ہو اور ان کا مستقل و تیرہ یہی ہو کہ ہمیشہ جماعت مسلمین سے الگ ان کے درمیان کھسر پسر ہوتی رہتی ہو تو یہ لازماً خرابی کا پیش خیمہ ہے۔ اور کچھ نہیں تو اس کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں میں پارٹی بازی کی بیماری پھیلتی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر جو چیز نجویٰ کے جائز و نا جائز ہونے کا فیصلہ کرتی ہے وہ ان باتوں کی نوعیت ہے جو نجویٰ میں کی جائیں۔ دو آدمی اگر اس لیے باہم سر گوشی کرتے ہیں کہ کسی جھگڑے کا تصفیہ کرانا ہے، یا کسی کا حق دلوانا ہے، یا کسی نیک کام میں حصہ لینا ہے، تو یہ کوئی برائی نہیں ہے، بلکہ کار ثواب ہے۔ اس کے برعکس اگر یہی نجویٰ دو آدمیوں کے درمیان اس غرض کے لیے ہو کہ کوئی فساد ڈلوانا ہے، یا کسی کا حق مارنا ہے، یا کسی گناہ کا ارتکاب کرنا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ غرض بجائے خود ایک بُرائی ہے اور اس کے لیے نجویٰ بُرائی پر بُرائی۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سلسلے میں آداب مجلس کی جو تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ اذا کنتم ثلاثۃ فلا یتناجیٰ اثنان دون صا حبھما فان ذالک یحزنہٗ۔ ’’ جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو دو آدمی آپس میں کھسر پسر نہ کریں، کیونکہ یہ تیسرے آدمی کے لیے باعث رنج ہو گا‘‘(بخاری۔ مسلم۔ مسند احمد۔ ترمذی۔ ابو داؤد)۔ دوسری حدیث میں حضور کے الفاظ یہ ہیں فلا یتنا جیٰ اثنان دون الثالث الا باذنہ فان ذٰالک یحزنہٗ۔ ’’ دو آدمی باہم سرگوشی نہ کریں مگر تیسرے سے اجازت لے کر، کیونکہ یہ اس کے لیے باعث رنج ہو گا‘‘ (مسلم )۔ اسی نا جائز سر گوشی کی تعریف میں یہ بات بھی آتی ہے کہ دو آدمی تیسرے شخص کی موجودگی میں کسی ایسی زبان میں بات کرنے لگیں جسے وہ نہ سمجھتا ہو۔ اور اس سے بھی زیادہ نا جائز بات یہ ہے کہ وہ اپنی سرگوشی کے دوران میں کسی کی طرف اس طرح دیکھیں یا اشارے کریں جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان کے درمیان موضوع بحث وہی ہے۔
25. یہ بات اس لیے فرمائی گئی ہے کہ اگر کسی مسلمان کو کچھ لوگوں کی سرگوشیاں دیکھ کر یہ شبہ بھی ہو جائے کہ وہ اسی کے خلاف کی جا رہی ہیں، تب بھی اسے اتنا رنجیدہ نہ ہونا چاہیے کہ محض شبہ ہی شبہ پر کوئی جوابی کار روائی کرنے کی فکر میں پڑ جائے، یا اپنے دل میں اس پر کوئی غم، یا کینہ، یا غیر معمولی پریشانی پرورش کرنے لگے۔ اس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ اعتماد اس کے قلب میں ایسی قوت پیدا کر دے گا کہ بہت سے فضول اندیشوں اور خیالی خطروں سے اس کو نجات مل جائے گی اور وہ اشرار کو ان کے حال پر چھوڑ کر پورے اطمینان و سکون کے ساتھ اپنے کام میں لگا رہے گا۔ اللہ پر توکل کرنے والا مومن نہ تھڑدلا ہوتا ہےکہ ہر اندیشہ و گمان اس کے سکون کو غارت کر دے، نہ کم ظرف ہوتا ہے کہ غلط کار لوگوں کے مقابلے میں آپے سے باہر ہو کر خود بھی خلاف انصاف حرکتیں کرنے لگے۔
26. اس کی تشریح سورہ کے دیباچے میں کی جاچکی ہے۔ بعض مفسرین نے اس حکم کو صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس تک محدود سمجھا ہے۔لیکن جیسا کہ امام مالکؒ نے فرمایا ہے، صحیح بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تمام مجلسوں کے لیے یہ ایک عام ہدایت ہے۔ اللہ اور اس کے رسول نے اہل اسلام کو جو آداب سکھائے ہیں ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ جب کسی مجلس میں پہلے سے کچھ لوگ بیٹھے ہوں اور بعد میں مزید کچھ لوگ آئیں، تو یہ تہذیب پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں میں ہونی چاہیے کہ وہ خود نئے آنے والوں کو جگہ دیں اور حتیٰ الامکان کچھ سکڑ اور سمٹ کر ان کے لیے کشادگی پیدا کریں، اور اتنی شائستگی بعد کے آنے والوں میں ہونی چاہیے کہ وہ زبردستی ان کے اندر نہ گھسیں اور کوئی شخص کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھنے کی کوشش نہ کرے۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : لایقیم الرجل الرجل من مجلسہ فی جلس فیہ و لکن تفسحوا وتو سعوا۔ ’’ کوئی شخص کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھے بلکہ تم لوگ خود دوسروں کے لیے جگہ کشادہ کرو‘‘۔ (مسند احمد،بخاری، مسلم)۔ اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا یحل لرجل ان یفرق بین اثنین الا باذنہما۔ ’’ کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر دھس جائے’’(مسند احمد، ابو داؤد، ترمذی)۔
27. عبدالرحمان بن زید بن اسلم کا بیان ہے کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں دیر تک بیٹھے رہتے تھے اور ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ آخر وقت تک بیٹھے رہیں۔ اس سے بسا اوقات حضورؐ کو تکلیف ہوتی تھی، آپ کے آرام میں بھی خلل پڑتا تھا اور آپ کے کاموں کا بھی حرج ہوتا تھا۔ اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ جب تم لوگوں سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جاؤ(ابن جریر و ابن کثیر)۔
28. یعنی یہ نہ سمجھو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں دوسروں کو جگہ دینے کی خاطر اگر تم آپ سے کچھ دور جا بیٹھے تو تمہارا درجہ گر گیا، یا اگر مجلس برخاست کر کے تمہیں اٹھ جانے کے لیے کہا گیا تو تمہاری کچھ ذلت ہو گئی۔ رفع درجات کا اصل ذریعہ ایمان اور علم ہے نہ یہ کہ کس کو مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب بیٹھنے کا موقع ملا، اور کون زیادہ دیر تک آپ کے پاس بیٹھا۔ کوئی شخص اگر آپ کے قریب بیٹھ گیا ہو تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسے بڑا مرتبہ مل گیا۔ بڑا مرتبہ تو اسی کا رہے گا جس نے ایمان اور علم کی دولت زیادہ پائی ہے۔ اسی طرح کسی شخص نے اگر زیادہ دیر تک بیٹھ کر اللہ کے رسول کو تکلیف دی تو اس نے الٹا جہالت کا کام کیا۔ اس کے درجے میں محض یہ بات کوئی اضافہ نہ کر دے گی کہ اسے دیر تک آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا۔ اس سے بدر جہا زیادہ بلند مرتبہ اللہ کے ہاں اس کا ہے جس نے آپ کی صحبت سے ایمان اور علم کا سرمایہ حاصل کیا اور وہ اخلاق سیکھے جو ایک مومن میں ہونے چاہییں۔
29. حضرت عبداللہ بن عباس اس حکم کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت زیادہ باتیں (یعنی تخلیہ کی درخواست کر کے ) پوچھنے لگے تھے حتیٰ کہ انہوں نے حضورؐ کو تنگ کر دیا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اپنے نبی پر سے یہ بوجھ ہلکا کر دے (ابن جریر)۔ زید بن اسلم کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جو شخص بھی علیٰحدگی میں بات کرنے کی درخواست کرتا، آپ اسے رد نہ فرماتے تھے۔ جس کا جی چاہتا آ کر عرض کرتا کہ میں ذرا الگ بات کرنا چاہتا ہوں، اور آپ اسے موقع دے دیتے، یہاں تک کہ بہت سے لوگ ایسے معاملات میں بھی آپ کو تکلیف دینے لگے جن میں الگ بات کرنے کی کوئی حاجت نہ ہوتی۔ زمانہ وہ تھا جس میں سارا عرب مدینہ کے خلاف بر سر جنگ تھا۔ بعض اوقات کسی شخص کی اس طرح کی سرگوشی کے بعد شیطان لوگوں کے کان میں یہ پھونک دیتا تھا کہ یہ فلاں قبیلے کے حملہ آور ہونے کی خبر لایا تھا اور اس سے مدینہ میں افواہوں کا بازار گرم ہو جاتا تھا۔ دوسری طرف لوگوں کی اس حرکت کی وجہ سے منافقین کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تو کانوں کے کچے ہیں، ہر ایک کی سن لیتے ہیں۔ ان وجوہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی لگا دی کہ جو آپ سے خلوت میں بات کرنا چاہے وہ پہلے صدقہ دے (احکام القرآن الابن العربی)۔ قتادہ کہتے ہیں کہ دوسروں پر اپنی بڑائی جتانے کے لیے بھی بعض لوگ حضور سے خلوت میں بات کرتے تھے۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ حکم آیا تو حضورؐ نے مجھ سے پوچھا کتنا صدقہ مقرر کیا جائے؟ کیا ایک دینار؟ میں نے عرض کیا یہ لوگوں کی مقدرت سے زیادہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا نصف دینار؟ میں نے عرض کیا لوگ اس کی مقدرت بھی نہیں رکھتے۔ فرمایا پھر کتنا؟ میں نے عرض کیا بس ایک جَو برابر سونا۔ فرمایا : انک لذھید، یعنی تم نے تو بڑی کم مقدار کا مشورہ دیا (ابن جریر، ترمذی، مسند ابو یعلیٰ )۔ ایک دوسری روایت میں حضرت علیؓ فرماتے ہیں قرآن کی یہ ایک ایسی آیت ہے جس پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا۔ اس حکم کے آتے ہی میں نے صدقہ پیش کیا اور ایک مسئلہ آپ سے پوچھ لیا۔ (ابن جریر، حاکم، ابنالمنذر، عبد بن حمید)۔
30. یہ دوسرا حکم اوپر کے حکم کے تھوڑی مدت بعد ہی نازل ہو گیا اور اس نے صدقہ کے وجوب کو منسوخ کر دیا۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ صدقہ کا یہ حکم کتنی دیر رہا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ایک دن سے بھی کم مدت تک باقی رہا پھر منسوخ کر دیا گیا۔ مقاتل بن حیّان کہتے ہیں دس دن تک رہا۔ یہ زیادہ سے زیادہ اس حکم کے بقا کی مدت ہے جو کسی روایت میں بیان ہوئی ہے۔