Tafheem ul Quran

Surah 59 Al-Hashr, Ayat 11-17

اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ نَافَقُوۡا يَقُوۡلُوۡنَ لِاِخۡوَانِهِمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ لَـئِنۡ اُخۡرِجۡتُمۡ لَنَخۡرُجَنَّ مَعَكُمۡ وَلَا نُطِيۡعُ فِيۡكُمۡ اَحَدًا اَبَدًاۙ وَّاِنۡ قُوۡتِلۡتُمۡ لَـنَـنۡصُرَنَّكُمۡ ؕ وَاللّٰهُ يَشۡهَدُ اِنَّهُمۡ لَـكٰذِبُوۡنَ‏ ﴿59:11﴾ لَـئِنۡ اُخۡرِجُوۡا لَا يَخۡرُجُوۡنَ مَعَهُمۡ​ۚ وَلَـئِنۡ قُوۡتِلُوۡا لَا يَنۡصُرُوۡنَهُمۡ​ۚ وَلَـئِنۡ نَّصَرُوۡهُمۡ لَيُوَلُّنَّ الۡاَدۡبَارَ ثُمَّ لَا يُنۡصَرُوۡنَ‏ ﴿59:12﴾ لَاَنۡتُمۡ اَشَدُّ رَهۡبَةً فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ مِّنَ اللّٰهِ​ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمۡ قَوۡمٌ لَّا يَفۡقَهُوۡنَ‏ ﴿59:13﴾ لَا يُقَاتِلُوۡنَكُمۡ جَمِيۡعًا اِلَّا فِىۡ قُرًى مُّحَصَّنَةٍ اَوۡ مِنۡ وَّرَآءِ جُدُرٍؕ بَاۡسُهُمۡ بَيۡنَهُمۡ شَدِيۡدٌ ​ؕ تَحۡسَبُهُمۡ جَمِيۡعًا وَّقُلُوۡبُهُمۡ شَتّٰى​ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمۡ قَوۡمٌ لَّا يَعۡقِلُوۡنَ​ۚ‏ ﴿59:14﴾ كَمَثَلِ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ قَرِيۡبًا​ ذَاقُوۡا وَبَالَ اَمۡرِهِمۡ​ۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ​ۚ‏ ﴿59:15﴾ كَمَثَلِ الشَّيۡطٰنِ اِذۡ قَالَ لِلۡاِنۡسَانِ اكۡفُرۡ​ۚ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّىۡ بَرِىۡٓءٌ مِّنۡكَ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿59:16﴾ فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَاۤ اَنَّهُمَا فِى النَّارِ خَالِدَيۡنِ فِيۡهَا​ ؕ وَذٰ لِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِيۡن‏ ﴿59:17﴾

11 - 22 تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جنہوں نے منافقت کی روش اختیار کی ہے؟ یہ اپنے کافر اہلِ کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں”اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم تمہارےساتھ نکلیں گے، اور تمہارے معاملہ میں ہم کسی کی بات ہرگز نہ مانیں گے، اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔“ مگر اللہ گواہ ہے کہ یہ لوگ قطعی جُھوٹے ہیں۔ 12 - اگر وہ نکالے گئے تو یہ ان کے ساتھ ہر گز نہ نکلیں گے، اور اگر اُن سے جنگ کی گئی تو یہ اُن کی ہر گز مدد نہ کریں گے، اور اگر یہ ان کی مدد کریں بھی تو پیٹھ پھیر جائیں گے اور پھر کہیں سے کوئی مدد نہ پائیں گے۔ 13 - اِن کے دلوں میں اللہ سے بڑھ کر تمہارا خوف ہے، 23 اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بُوجھ نہیں رکھتے۔ 24 14 - یہ کبھی اکٹھے ہو کر (کُھلے میدان میں) تمہارا مقابلہ نہ کریں گے، لڑیں گے بھی تو قلعہ بند بستیوں میں بیٹھ کر یا دیواروں کےپیچھے چُھپ کر۔ یہ آپس کی مخالفت میں بڑے سخت ہیں۔ تم اِنہیں اکٹھا سمجھتے ہو مگر ان کے دل ایک دُوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں۔ 25 اِن کا یہ حال اِس لیے ہے کہ یہ بے عقل لوگ ہیں۔ 15 - یہ اُنہی لوگوں کے مانند ہیں جو اِن سے تھوڑی ہی مدّت پہلے اپنے کیے کا مزا چکھ چکے ہیں 26 اور اِن کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ 16 - اِن کی مثال شیطان کی سی ہے کہ پہلے وہ انسان سے کہتا ہے کہ کفر کر ، اور جب انسان کفر کر بیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے بَرِیُّ الذِّمّہ ہوں، مجھے توا للہ ربّ العالمین سے ڈر لگتا ہے۔ 27 17 - پھر دونوں کا انجام یہ ہوناہے کہ ہمیشہ کے لیےجہنم میں جائیں، اور ظالموں کی یہی جزاہے۔ ؏۲


Notes

22. اس پورے رکوع کے انداز بیان سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی نضیر کو مدینے سے نکل جانے کے لیے دس دن کا نوٹس دیا تھا اور ان کا محاصرہ شروع ہونے میں کئی دن باقی تھے۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب بنی نضیر کو یہ نوٹس دیا تو عبداللہ بن ابی اور مدینہ کے دوسرے منافق لیڈروں نے انکو یہ کہلا بھیجا کہ ہم دو ہزار آدمیوں کے ساتھ تمہاری مدد کو آئیں گے، اور بنی قریظہ اور بنی غطفان بھی تمہاری حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے، لہٰذا تم مسلمانوں کے مقابلے میں ڈٹ جاؤ اور ہر گز ان کے آگے ہتھیار نہ ڈالو۔ یہ تم سے لڑیں گے تو ہم تمہارے ساتھ لڑیں گے،اور تم یہاں سے نکالے گئے تو ہم بھی نکل جائیں گے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ پس ترتیب نزول کے اعتبار سے یہ رکوع پہلے کا نازل شدہ ہے اور پہلا رکوع اس کے بعد نازل ہوا ہے جب بنی نضیر مدینہ سے نکالے جا چکے تھے۔لیکن قرآن مجید کی ترتیب میں پہلے رکوع کو مقدم اور دوسرے کو مؤخر اس لیے کیا گیا ہے کہ اہم تر مضمون پہلے رکوع ہی میں بیان ہوا ہے۔

23. یعنی ان کے کھل کر میدان میں نہ آنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ مسلمان ہیں، ان کے دل میں خدا کا خوف ہے اور اس بات کا کوئی اندیشہ انہیں لاحق ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود جب یہ اہل ایمان کے مقابلے میں کافروں کی حمایت کریں گے تو خدا کے ہاں اس کی باز پرس ہو گی۔ بلکہ انہیں جو چیز تمہارا سامنا کرنے سے روکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تمہاری محبت اور جانبازی اور فدا کاری کو دیکھ کر اور تمہاری صفوں میں زبردست اتحاد دیکھ کر ان کے دل بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تم اگرچہ مٹھی بھر لوگ ہو، مگر جس جذبہ شہادت نے تمہارے ایک ایک شخص کو سرفروش مجاہد بنا رکھا ہے اور جس تنظیم کی بدولت تم ایک فولادی جتھہ بن گئے ہو، اس سے ٹکرا کر یہودیوں کے ساتھ یہ بھی پاش پاش ہو جائیں گے۔ اس مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اگر کسی کے دل میں خدا سے بڑھ کر کسی اور کا خوف ہو تو یہ در اصل خوف خدا کی نفی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جو شخص دو خطروں میں سے ایک کو کم تر اور دوسرے کو شدید تر سمجھتا ہو، وہ پہلے خطرے کی پروا نہیں کرتا اور اسے تمام تر فکر صرف دوسرے خطرے سے بچنے ہی کی ہوتی ہے۔

24. اس چھوٹے سے فقرے میں ایک بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ جو شخص سمجھ بوجھ رکھتا ہو وہ تو یہ جانتا ہے کہ اصل میں ڈرنے کے قابل خدا کی طاقت ہے نہ کہ انسانوں کی طاقت۔ اس لیے وہ ہر ایسے کام سے بچے گا جس پر اسے خدا کے مواخذے کا خطرہ ہو، قطع نظر اس سے کہ کوئی انسانی طاقت مواخذہ کرنے والی ہو یا نہ ہو، اور ہر وہ فریضہ انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑا ہو گا جو خدا نے اس پر عائد کیا ہو، خواہ ساری دنیا کی طاقتیں اس میں مانع و مزاحم ہوں۔ لیکن ایک نا سمجھ آدمی کے لیے چونکہ خدا کی طاقت غیر محسوس اور انسانی طاقتیں محسوس ہوتی ہیں، اس لیے تمام معاملات میں وہ اپنے طرز عمل کا فیصلہ خدا کے بجائے انسانی طاقتوں کے لحاظ سے کرتا ہے۔ کسی چیز سے بچے گا تو اس لیے نہیں کہ خدا کے ہاں اس کی پکڑ ہونے والی ہے، بلکہ اس لیے کہ سامنے کوئی انسانی طاقت اس کی خبر لینے کے لیے موجود ہے۔ اور کسی کام کو کرے گا تو وہ بھی اس بنا پر نہیں کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہے، یا اس پر وہ خدا کے اجر کا امیدوار ہے، بلکہ صرف اس بنا پر کہ کوئی انسانی طاقت اس کا حکم دینے والی یا اس کو پسند کرنے والی ہے اور وہ اس کا اجر دے گی۔ یہی سمجھ اور نا سمجھی کا فرق دراصل مومن اور غیر مومن کے سیرت و کردار کو ایک دوسرے سے ممیز کرتا ہے۔

25. یہ منافقین کی دوسری کمزوری کا بیان ہے۔ پہلی کمزوری یہ تھی کہ وہ بزدل تھے، خدا سے ڈرنے کے بجائے انسانوں سے ڈرتے تھے اور اہل ایمان کی طرح کوئی بلند تر نصب العین ان کے سامنے نہ تھا جس کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے کا جذبہ ان کے اندر پیدا ہوتا۔ اور دوسری کمزوری یہ تھی کہ منافقت کے سوا کوئی قدر مشترک ان کے درمیان نہ تھی جو ان کو ملا کر ایک مضبوط جتھا بنا دیتی۔ ان کو جس چیز نے جمع کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ اپنے شہر میں باہر کے آئے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشوائی و فرمانروائی چلتے دیکھ کر ان سب کے دل جل رہے تھے، اور اپنے ہی ہم وطن انصاریوں کو مہاجرین کی پذیرائی کرتے دیکھ کر ان کے سینوں پر سانپ لوٹتے تھے۔ اس حسد کی بنا پر وہ چاہتے تھے کہ سب مل جل کر اور آس پاس کے دشمنان اسلام سے ساز باز کر کے اس بیرونی اثر و اقتدار کو کسی طرح ختم کر دیں۔ لیکن اس منفی مقصد کے سوا کوئی مثبت چیز ان کو ملانے والی نہ تھی۔ ان میں سے ہر ایک سردار کا جتھا الگ تھا۔ ہر ایک اپنی چودھراہٹ چاہتا تھا۔ کوئی کسی کا مخلص دوست نہ تھا۔ بلکہ ہر ایک کے دل میں دوسرے کے لیے اتنا بغض و حسد تھا کہ جسے وہ اپنا مشترک دشمن سمجھتے تھے اس کے مقابلے میں بھی وہ نہ آپس کی دشمنیاں بھول سکتے تھے، نہ ایک دوسرے کی جڑ کاٹنے سے باز رہ سکتے تھے۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے غزوہ بنی نضیر سے پہلے ہی منافقین کی اندرونی حالت کا تجزیہ کر کے مسلمانوں کو بتا دیا کہ ان کی طرف سے فی الحقیقت کوئی خطرہ نہیں ہے، لہٰذا تمہیں یہ خبریں سن سن کر گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ جب تم بنی نضیر کا محاصرہ کرنے کے لیے نکلو گے تو یہ منافق سردار دو ہزار کا لشکر لے کر پیچھے سے تم پر حملہ کر دیں گے اور ساتھ ساتھ بنی قریظہ اور بنی غطفان کو بھی تم پر چڑھا لائیں گے۔ یہ سب محض لاف زنیاں ہیں جن کی ہوا آزمائش کی پہلی ساعت آتے ہی نکل جائے گی۔

26. اشارہ ہے کفار قریش اور یہود بنی قینقاع کی طرف جو اپنی کثرت تعداد اور اپنے سر و سامان کے باوجود انہی کمزوریوں کے باعث مسلمانوں کی مٹھی بھر بے سرو سامان جماعت سے شکست کھا چکے تھے۔

27. یعنی یہ منافقین بنی نضیر کے ساتھ وہی معاملہ کر رہے ہیں جو شیطان انسان کے ساتھ کرتا ہے۔ آج یہ ان سے کہہ رہے ہیں کہ تم مسلمانوں سے لڑ جاؤ اور ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔ مگر جب وہ واقعی لڑ جائیں گے تو یہ دامن جھاڑ کر اپنے سارے وعدوں سے بری الذمہ ہو جائیں گے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھیں گے کہ ان پر کیا گزری ہے۔ ایسا ہی معاملہ شیطان ہر کافر سے کرتا ہے، اور ایسا ہی معاملہ اس نے کفار قریش کے ساتھ جنگ بدر میں کیا تھا، جس کا ذکر سورہ انفال، آیت 48 میں آیا ہے۔پہلے تو وہ ان کو بڑھاوے چڑھاوے دے کر بدر میں مسلمانوں کے مقابلہ پر لے آیا اور اس نے ان سے کہا کہ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّا سِ وَ اِنِّیْ جَارٌ لَّکُمْ۔ (آج کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں ہے اور میں تمہاری پشت پر ہوں )، مگر جب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ الٹا پھر گیا اور کہنے لگا کہ اِنِّیْ بَرِئٓءٌ مِّنْکُمْ، اِنِّیْ اَریٰ مَا لَا تَرَوْنَ، اِنِّیْ اَخَافُ اللہ (میں تم سے بری الذمہ ہوں، مجھے وہ کچھ نظر آ رہا ہے جو تمہیں نظر نہیں آتا، مجھے تو اللہ سے ڈر لگتا ہے۔)۔