1. یاد رہے کہ مخاطب وہ مشرکین عرب ہیں جو اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے، وہی دن نکالتا اور رات لاتا ہے اور اسی نے آفتاب و ماہتاب کو وجود بخشا ہے۔ ان میں سے کسی کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا کہ یہ کام لات یا ہُبل یا عُزّیٰ یا کسی اَور دیوی یا دیوتا کے ہیں۔ اس لیے ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ نادانو! جب تم خود یہ مانتے ہو کہ زمین و آسمان کا خالق اور گردش لیل و نہار کا فاعل اللہ ہے تو یہ دُوسرے کون ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے سجدے کرتے ہو، نذریں اور نیاز یں چڑھاتے ہو، دُعائیں مانگتے ہو اور اپنی حاجتیں پیش کرتے ہو۔ (ملاحضہ ہو سُورۂ فاتحہ حاشیہ نمبر ۲ – سُورۂ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۶۳)
روشنی کے مقابلہ میں تاریکیوں کو بصیغۂ جمع بیان کیا گیا ، کیونکہ تاریکی نام ہے عدمِ نور کا اور عدم نور کے بیشمار مدارج ہیں۔ اس لیے نور واحد ہے اور تاریکیاں بہت ہیں۔
2. انسانی جسم کے تمام اجزاء زمین سے حاصل ہوتے ہیں، کوئی ایک ذرہ بھی اس میں غیر ارضی نہیں ہے، اس لیے فرمایا کہ تم کو مِٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔
3. یعنی قیامت کی گھڑی جب کہ تمام اگلے پچھلے انسان از سرِ نو زندہ کیے جائیں گے اور حساب دینے کے لیے اپنے ربّ کے سامنے حاضر ہوں گے۔
4. اشارہ ہے ہجرت اور اُن کامیابیوں کی طرف جو ہجرت کے بعد اسلام کو پے درپے حاصل ہونے والی تھیں۔ جس وقت یہ اشارہ فرمایا گیا تھا اس وقت نہ کفار یہ گمان کر سکتے تھے کہ کس قسم کی خبریں انھیں پہنچنے والی ہیں اور نہ مسلمانوں ہی کے ذہن میں اس کا کوئی تصوّر تھا۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی آئندہ کے امکانات سے بے خبر تھے۔
5. یعنی جب یہ شخص خدا کی طرف سے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے تو آسمان سے ایک فرشتہ اُترنا چاہیے تھا جو لوگوں سے کہتا کہ یہ خدا کا پیغمبر ہے، اس کی بات مانو ورنہ تمہیں سزا دی جائے گی۔ جاہل معترضین کو اس بات پر تعجب تھا کہ خالقِ ارض و سماء کسی کو پیغمبر مقرر کرے اور پھر اِس طرح اُسے بے یار و مددگار ، پتھر کھانے اور گالیاں سُننے کے لیے چھوڑ دے۔ اتنے بڑے بادشاہ کا سفیر اگر کسی بڑے اسٹاف کے ساتھ نہ آیا تھا تو کم از کم ایک فرشتہ تو اس کی اردلی میں رہنا چاہیے تھا تا کہ وہ اس کی حفاظت کرتا، اس کا رُعب بٹھاتا، اس کی ماموریّت کا یقین دلاتا اور فوق الفطری طریقے سے اس کے کام انجام دیتا۔
6. یہ ان کے اعتراض کا پہلا جواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لینے کے لیے جو مُہلت تمہیں ملی ہوئی ہے یہ اُسی وقت تک ہے جب تک حقیقت پردۂ غیب میں پوشیدہ ہے۔ ورنہ جہاں غیب کا پردہ چاک ہوا، پھر مُہلت کا کوئی موقع باقی نہ رہے گا۔ اُس کے بعد تو صرف حساب ہی لینا باقی رہ جائے گا۔ اس لیے کہ دنیا کی زندگی تمہارے لیے ایک امتحان کا زمانہ ہے، اور امتحان اس امر کا ہے کہ تم حقیقت کو دیکھے بغیر عقل و فکر کے صحیح استعمال سے اس کا ادراک کرتے ہو یا نہیں، اور ادراک کرنے کے بعد اپنے نفس اور اس کی خواہشات کو قابو میں لا کر اپنے عمل کو حقیقت کے مطابق درست رکھتے ہو یا نہیں۔ اس امتحان کے لیے غیب کا غیب رہنا شرط لازم ہے ، اور تمہاری دُنیوی زندگی ، جو دراصل مہلتِ امتحان ہے، اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک غیب، غیب ہے۔ جہاں غیب شہادت میں تبدیل ہوا، مہلت لازماً ختم ہو جائے گی اور امتحان کے بجائے نتیجہ ٔ امتحان نکلنے کا وقت آپہنچے گا۔ لہٰذا تمہارے مطالبہ کے جواب میں یہ ممکن نہیں ہے کہ تمہارے سامنے فرشتے کو اس کی اصلی صُورت میں نمایاں کر دیا جائے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ابھی تمہارے امتحان کی مدّت ختم نہیں کر نا چاہتا۔(ملاحظہ ہو سُورہ ٔ بقرہ حاشیہ نمبر ۲۲۸)
7. یہ ان کے اعتراض کا دُوسرا جواب ہے۔ فرشتے کے آنے کی پہلی صُورت یہ ہو سکتی تھی کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنی اصلی غیبی صُورت میں ظاہر ہوتا۔ لیکن اُوپر بتا دیا گیا کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ اب دُوسری صُورت یہ باقی رہ گئی کہ وہ انسانی صُورت میں آئے۔ اس کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ اگر وہ انسانی صُورت میں آئے تو اس کے مامور مِن اللہ ہونے میں بھی تم کو وہی اشتباہ پیش آئے گا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مامور مِن اللہ ہونے میں پیش آرہا ہے۔