Tafheem ul Quran

Surah 6 Al-An'am, Ayat 1-10

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوۡرَ  ؕ ثُمَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِرَبِّهِمۡ يَعۡدِلُوۡنَ‏ ﴿6:1﴾ هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ طِيۡنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًا  ؕ وَاَجَلٌ مُّسَمًّى عِنۡدَهٗ​ ثُمَّ اَنۡـتُمۡ تَمۡتَرُوۡنَ‏ ﴿6:2﴾ وَهُوَ اللّٰهُ فِى السَّمٰوٰتِ وَفِى الۡاَرۡضِ​ؕ يَعۡلَمُ سِرَّكُمۡ وَ جَهۡرَكُمۡ وَيَعۡلَمُ مَا تَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿6:3﴾ وَمَا تَاۡتِيۡهِمۡ مِّنۡ اٰيَةٍ مِّنۡ اٰيٰتِ رَبِّهِمۡ اِلَّا كَانُوۡا عَنۡهَا مُعۡرِضِيۡنَ‏ ﴿6:4﴾ فَقَدۡ كَذَّبُوۡا بِالۡحَـقِّ لَـمَّا جَآءَهُمۡ​ؕ فَسَوۡفَ يَاۡتِيۡهِمۡ اَنۢۡـبٰٓـؤُا مَا كَانُوۡا بِهٖ يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ ﴿6:5﴾ اَلَمۡ يَرَوۡا كَمۡ اَهۡلَـكۡنَا مِنۡ قَبۡلِهِمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ مَّكَّنّٰهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ مَا لَمۡ نُمَكِّنۡ لَّـكُمۡ وَاَرۡسَلۡنَا السَّمَآءَ عَلَيۡهِمۡ مِّدۡرَارًا وَّجَعَلۡنَا الۡاَنۡهٰرَ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهِمۡ فَاَهۡلَكۡنٰهُمۡ بِذُنُوۡبِهِمۡ وَاَنۡشَاۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ قَرۡنًا اٰخَرِيۡنَ‏ ﴿6:6﴾ وَلَوۡ نَزَّلۡنَا عَلَيۡكَ كِتٰبًا فِىۡ قِرۡطَاسٍ فَلَمَسُوۡهُ بِاَيۡدِيۡهِمۡ لَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿6:7﴾ وَقَالُوۡا لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ عَلَيۡهِ مَلَكٌ​ ؕ وَلَوۡ اَنۡزَلۡـنَا مَلَـكًا لَّـقُضِىَ الۡاَمۡرُ ثُمَّ لَا يُنۡظَرُوۡنَ‏ ﴿6:8﴾ وَلَوۡ جَعَلۡنٰهُ مَلَـكًا لَّـجَـعَلۡنٰهُ رَجُلًا وَّلَـلَبَسۡنَا عَلَيۡهِمۡ مَّا يَلۡبِسُوۡنَ‏ ﴿6:9﴾ وَلَـقَدِ اسۡتُهۡزِئَ بِرُسُلٍ مِّنۡ قَبۡلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِيۡنَ سَخِرُوۡا مِنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا بِهٖ يَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ ﴿6:10﴾

1 - تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں۔ پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کردیا ہے دُوسروں کو اپنے ربّ کا ہمسر ٹھیرا رہے ہیں۔1 2 - وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا،2 پھر تمہارے لیے زندگی کی ایک مدّت مقرر کردی، اور ایک دُوسری مدّت اور بھی جو اس کے ہاں طے شدہ ہے۔3 مگر تم لوگ ہو کہ شک میں پڑے ہوئے ہو۔ 3 - وہی ایک خدا آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی، تمہارے کُھلے اور چُھپے سب حال جانتا ہے اور جو برائی یا بَھلائی تم کماتے ہو اس سے خوب واقف ہے۔ 4 - لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے ربّ کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں جو ان کے سامنے آئی ہو اور انہوں نے اس سے منہ نہ موڑ لیا ہو۔ 5 - چنانچہ اب جو حق ان کے پاس آیا تو اسے بھی انہوں نے جھٹلا دیا۔ اچھا، جس چیز کا وہ اب تک مذاق اُڑاتے رہے ہیں عنقریب اس کے متعلق کچھ خبریں انہیں پہنچیں گی۔4 6 - کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں جن کا اپنے اپنے زمانہ میں دَور دَورہ رہا ہے؟ اُن کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا ہے، ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں،(مگر جب انھوں نے کفرانِ نعمت کیا تو) آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کردیا اور ان کی جگہ دُوسرے دَور کی قوموں کو اُٹھایا۔ 7 - اے پیغمبر ؐ ، اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چُھوکر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنھوں نے حق کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادُو ہے۔ 8 - کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اُتارا گیا۔ 5اگر کہیں ہم نے فرشتہ اُتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا، پھر انہیں کوئی مُہلت نہ دی جاتی۔6 9 - اور اگر ہم فرشتے کو اُتارتے تب بھی اسے انسانی شکل ہی میں اُتارتے اور اس طرح انہیں اُسی شبہ میں مُبتلا کر دیتے جس میں اب یہ مبتلا ہیں۔7 10 - اے محمدؐ، تم سے پہلے بھی بہت سے رسُولوں کا مذاق اُڑایا جاچکا ہے، مگر ان مذاق اُڑانے والوں پر آخر کار وہی حقیقت مسلّط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اُڑاتے تھے۔ ؏۱


Notes

1. یاد رہے کہ مخاطب وہ مشرکین عرب ہیں جو اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے، وہی دن نکالتا اور رات لاتا ہے اور اسی نے آفتاب و ماہتاب کو وجود بخشا ہے۔ ان میں سے کسی کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا کہ یہ کام لات یا ہُبل یا عُزّیٰ یا کسی اَور دیوی یا دیوتا کے ہیں۔ اس لیے ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ نادانو! جب تم خود یہ مانتے ہو کہ زمین و آسمان کا خالق اور گردش لیل و نہار کا فاعل اللہ ہے تو یہ دُوسرے کون ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے سجدے کرتے ہو، نذریں اور نیاز یں چڑھاتے ہو، دُعائیں مانگتے ہو اور اپنی حاجتیں پیش کرتے ہو۔ (ملاحضہ ہو سُورۂ فاتحہ حاشیہ نمبر ۲ – سُورۂ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۶۳)

روشنی کے مقابلہ میں تاریکیوں کو بصیغۂ جمع بیان کیا گیا ، کیونکہ تاریکی نام ہے عدمِ نور کا اور عدم نور کے بیشمار مدارج ہیں۔ اس لیے نور واحد ہے اور تاریکیاں بہت ہیں۔

2. انسانی جسم کے تمام اجزاء زمین سے حاصل ہوتے ہیں، کوئی ایک ذرہ بھی اس میں غیر ارضی نہیں ہے، اس لیے فرمایا کہ تم کو مِٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔

3. یعنی قیامت کی گھڑی جب کہ تمام اگلے پچھلے انسان از سرِ نو زندہ کیے جائیں گے اور حساب دینے کے لیے اپنے ربّ کے سامنے حاضر ہوں گے۔

4. اشارہ ہے ہجرت اور اُن کامیابیوں کی طرف جو ہجرت کے بعد اسلام کو پے درپے حاصل ہونے والی تھیں۔ جس وقت یہ اشارہ فرمایا گیا تھا اس وقت نہ کفار یہ گمان کر سکتے تھے کہ کس قسم کی خبریں انھیں پہنچنے والی ہیں اور نہ مسلمانوں ہی کے ذہن میں اس کا کوئی تصوّر تھا۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی آئندہ کے امکانات سے بے خبر تھے۔

5. یعنی جب یہ شخص خدا کی طرف سے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے تو آسمان سے ایک فرشتہ اُترنا چاہیے تھا جو لوگوں سے کہتا کہ یہ خدا کا پیغمبر ہے، اس کی بات مانو ورنہ تمہیں سزا دی جائے گی۔ جاہل معترضین کو اس بات پر تعجب تھا کہ خالقِ ارض و سماء کسی کو پیغمبر مقرر کرے اور پھر اِس طرح اُسے بے یار و مددگار ، پتھر کھانے اور گالیاں سُننے کے لیے چھوڑ دے۔ اتنے بڑے بادشاہ کا سفیر اگر کسی بڑے اسٹاف کے ساتھ نہ آیا تھا تو کم از کم ایک فرشتہ تو اس کی اردلی میں رہنا چاہیے تھا تا کہ وہ اس کی حفاظت کرتا، اس کا رُعب بٹھاتا، اس کی ماموریّت کا یقین دلاتا اور فوق الفطری طریقے سے اس کے کام انجام دیتا۔

6. یہ ان کے اعتراض کا پہلا جواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لینے کے لیے جو مُہلت تمہیں ملی ہوئی ہے یہ اُسی وقت تک ہے جب تک حقیقت پردۂ غیب میں پوشیدہ ہے۔ ورنہ جہاں غیب کا پردہ چاک ہوا، پھر مُہلت کا کوئی موقع باقی نہ رہے گا۔ اُس کے بعد تو صرف حساب ہی لینا باقی رہ جائے گا۔ اس لیے کہ دنیا کی زندگی تمہارے لیے ایک امتحان کا زمانہ ہے، اور امتحان اس امر کا ہے کہ تم حقیقت کو دیکھے بغیر عقل و فکر کے صحیح استعمال سے اس کا ادراک کرتے ہو یا نہیں، اور ادراک کرنے کے بعد اپنے نفس اور اس کی خواہشات کو قابو میں لا کر اپنے عمل کو حقیقت کے مطابق درست رکھتے ہو یا نہیں۔ اس امتحان کے لیے غیب کا غیب رہنا شرط لازم ہے ، اور تمہاری دُنیوی زندگی ، جو دراصل مہلتِ امتحان ہے، اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک غیب، غیب ہے۔ جہاں غیب شہادت میں تبدیل ہوا، مہلت لازماً ختم ہو جائے گی اور امتحان کے بجائے نتیجہ ٔ امتحان نکلنے کا وقت آپہنچے گا۔ لہٰذا تمہارے مطالبہ کے جواب میں یہ ممکن نہیں ہے کہ تمہارے سامنے فرشتے کو اس کی اصلی صُورت میں نمایاں کر دیا جائے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ابھی تمہارے امتحان کی مدّت ختم نہیں کر نا چاہتا۔(ملاحظہ ہو سُورہ ٔ بقرہ حاشیہ نمبر ۲۲۸)

7. یہ ان کے اعتراض کا دُوسرا جواب ہے۔ فرشتے کے آنے کی پہلی صُورت یہ ہو سکتی تھی کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنی اصلی غیبی صُورت میں ظاہر ہوتا۔ لیکن اُوپر بتا دیا گیا کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ اب دُوسری صُورت یہ باقی رہ گئی کہ وہ انسانی صُورت میں آئے۔ اس کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ اگر وہ انسانی صُورت میں آئے تو اس کے مامور مِن اللہ ہونے میں بھی تم کو وہی اشتباہ پیش آئے گا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مامور مِن اللہ ہونے میں پیش آرہا ہے۔