Tafheem ul Quran

Surah 6 Al-An'am, Ayat 101-110

بَدِيۡعُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ اَنّٰى يَكُوۡنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمۡ تَكُنۡ لَّهٗ صَاحِبَةٌ​ ؕ وَخَلَقَ كُلَّ شَىۡءٍ​ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ‏ ﴿6:101﴾ ذٰ لِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمۡ​ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ​ۚ خَالِقُ كُلِّ شَىۡءٍ فَاعۡبُدُوۡهُ​ۚ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ وَّكِيۡلٌ‏ ﴿6:102﴾ لَا تُدۡرِكُهُ الۡاَبۡصَارُ وَهُوَ يُدۡرِكُ الۡاَبۡصَارَ​ۚ وَهُوَ اللَّطِيۡفُ الۡخَبِيۡرُ‏ ﴿6:103﴾ قَدۡ جَآءَكُمۡ بَصَآئِرُ مِنۡ رَّبِّكُمۡ​ۚ فَمَنۡ اَبۡصَرَ فَلِنَفۡسِهٖ​ ۚ وَمَنۡ عَمِىَ فَعَلَيۡهَا​ ؕ وَمَاۤ اَنَا عَلَيۡكُمۡ بِحَفِيۡظٍ‏ ﴿6:104﴾ وَكَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الۡاٰيٰتِ وَلِيَقُوۡلُوۡا دَرَسۡتَ وَلِنُبَيِّنَهٗ لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿6:105﴾ اِتَّبِعۡ مَاۤ اُوۡحِىَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ​​ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ​ۚ وَاَعۡرِضۡ عَنِ الۡمُشۡرِكِيۡنَ‏ ﴿6:106﴾ وَلَوۡ شَآءَ اللّٰهُ مَاۤ اَشۡرَكُوۡا ​ؕ وَمَا جَعَلۡنٰكَ عَلَيۡهِمۡ حَفِيۡظًا​ ۚ وَمَاۤ اَنۡتَ عَلَيۡهِمۡ بِوَكِيۡلٍ‏ ﴿6:107﴾ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدۡوًاۢ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ ​ؕ كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمۡ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمۡ مَّرۡجِعُهُمۡ فَيُنَبِّئُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿6:108﴾ وَاَقۡسَمُوۡا بِاللّٰهِ جَهۡدَ اَيۡمَانِهِمۡ لَـئِنۡ جَآءَتۡهُمۡ اٰيَةٌ لَّيُؤۡمِنُنَّ بِهَا​ ؕ قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰيٰتُ عِنۡدَ اللّٰهِ​ وَمَا يُشۡعِرُكُمۙۡ اَنَّهَاۤ اِذَا جَآءَتۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿6:109﴾ وَنُقَلِّبُ اَفۡـئِدَتَهُمۡ وَاَبۡصَارَهُمۡ كَمَا لَمۡ يُؤۡمِنُوۡا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمۡ فِىۡ طُغۡيَانِهِمۡ يَعۡمَهُوۡنَ‏ ﴿6:110﴾

101 - وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں ہے۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا عِلم رکھتا ہے۔ 102 - یہ ہے اللہ تمہارا رب، کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے، ہر چیز کا خالق، لہذا تم اسی کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز کا کفیل ہے۔ 103 - نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں اور وہ نگاہوں کو پالیتا ہے، وہ نہایت باریک بیں اور باخبر ہے۔ 104 - دیکھو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آگئی ہیں، اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اُٹھائے گا، میں تم پر کوئی پاسبان نہیں ہوں۔69 105 - اِس طرح ہم اپنی آیات کو بار بار مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ کہیں تم کسی سے پڑھ آئے ہو، اور جو لوگ علم رکھتے ہیں ان پر ہم حقیقت کو روشن کردیں۔ 70 106 - اے محمد ؐ! اُس وحی کی پیروی کیے جاوٴ جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے کیونکہ اُس ایک رب کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔ اور ان مشرکین کے پیچھے نہ پڑو۔ 107 - اگر اللہ کی مشیّت ہوتی تو (وہ خود ایسا بندوبست کرسکتا تھا کہ) یہ لوگ شرک نہ کرتے۔ تم کو ہم نے ان پر پاسبان مقرر نہیں کیا ہے اور نہ تم ان پر حوالہ دار ہو۔71 108 - اور (اے ایمان لانے والو !) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔ 72 ہم نے تو اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوشنما بنادیا ہے،73 پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت وہ اُنہیں بتادے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔ 109 - یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ اگر کوئی نشانی 74ہمارے سامنے آجائے تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے۔ اے محمد ؐ ! ان سے کہو کہ ”نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں“۔75 اور تمہیں کیسے سمجھایا جائے کہ اگر نشانیاں آبھی جائیں تو یہ ایمان لانے والے نہیں۔76 110 - ہم اُسی طرح ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر رہے ہیں جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس پر ایمان نہیں لائے تھے۔77ہم انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑے دیتے ہیں۔ ؏۱۳


Notes

69. یہ فقرہ اگرچہ اللہ ہی کا کلام ہے مگر نبی ؐ کی طرف سے ادا ہو رہا ہے۔ قرآن مجید میں جس طرح مخاطب بار بار بدلتے ہیں کہ کبھی نبی ؐ سے خطاب ہوتا ہے، کبھی اہلِ ایمان سے ، کبھی اہلِ کتاب سے ، کبھی کفّار و مشرکین سے ، کبھی قریش کے لوگوں سے ، کبھی اہلِ عرب سے اور کبھی عام انسانوں سے ، حالانکہ اصل غرض پوری نوعِ انسانی کی ہدایت ہے، اسی طرح متکلّم بھی بار بار بدلتے ہیں کہ کہیں متکلّم خدا ہوتا ہے ، کہیں وحی لانے والا فرشتہ ، کہیں فرشتوں کا گروہ، کہیں نبی ؐ ، اور کہیں اہلِ ایمان ، حالانکہ ان سب صُورتوں میں کلام وہی ایک خدا کا کلام ہوتا ہے۔

اور مشرکین سے ، کبھی قریش کے لوگوں سے ، کبھی اہلِ عرب سے اور”میں تم پر پاسبا ن نہیں ہوں“ یعنی میرا کام بس اتنا ہی ہے کہ اس روشنی کو تمہارے سامنے پیش کر دوں۔ اس کے بعد آنکھیں کھول کر دیکھنا یا نہ دیکھنا تمہارا اپنا کام ہے۔ میرے سپرد یہ خدمت نہیں کی گئی ہے کہ جنھوں نے خود آنکھیں بند کر رکھی ہیں ان کی آنکھیں زبردستی کھولوں اور جو کچھ وہ نہیں دیکھتے وہ انھیں دکھا کر ہی چھوڑوں۔

70. یہ وہی بات ہے جو سُورۂ بقرہ رکوع ۳ میں فرما دی گئی ہے کہ مچھّر اور مکڑی وغیرہ چیزوں کی تمثیلیں سن کر حق کے طالب تو اس صداقت کو پالیتے ہیں جو ان تمثیلوں کے پیرایہ میں بیان ہوئی ہے، مگر جن پر انکار کا تعصّب مسلّط ہے وہ طنز سے کہتے ہیں کہ بھلا اللہ کے کلام میں ان حقیر چیزوں کے ذکر کا کیا کام ہو سکتا ہے۔ اُسی مضمون کا یہاں ایک دُوسرے پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے ۔ کہنے کا مدّعا یہ ہے کہ یہ کلام لوگوں کے لیے آزمائش بن گیا ہے جس سے کھوٹے اور کھرے انسان ممیّز ہو جاتے ہیں۔ ایک طرح کے انسان وہ ہیں جو اس کلام کو سُن کر یا پڑھ کر اس کے مقصد و مدّعا پر غور کرتے ہیں اور جو حکمت و نصیحت کی باتیں اس میں فرمائی گئی ہیں ان سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ بخلاف اس کے دُوسری طرح کے انسانوں کا حال یہ ہے کہ اسے سُننے اور پڑھنے کے بعد ان کا ذہن مغزِ کلام کی طرف متوجّہ ہونے کے بجائے اس ٹٹول میں لگ جاتا ہے کہ آخر یہ اُمّی انسان یہ مضامین لایا کہاں سے ہے، اور چونکہ مخالفانہ تعصّب پہلے سے ان کے دل پر قبضہ کیے ہوئے ہوتا ہے اس لیے ایک خدا کی طرف سے نازل شدہ ہونے کے امکان کو چھوڑ کر باقی تمام ممکن التّصور صُورتیں وہ اپنے ذہن سے تجویز کر تے ہیں اور انھیں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ گویا انھوں نے اس کتاب کے ماخذ کی تحقیق کر لی ہے۔

71. مطلب یہ ہے کہ تمھیں داعی اور مبلّغ بنایا گیا ہے، کوتوال نہیں بنایا گیا۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اِس روشنی کو پیش کردو اور اظہارِ حق کا حق ادا کرنے میں اپنی حد تک کوئی کسر اُٹھا نہ رکھو۔ اب اگر کوئی اس حق کو قبول نہیں کرتا تو نہ کرے۔ تم کو نہ اس کام پر مامور کیا گیا ہے کہ لوگوں کو حق پرست بنا کر ہی رہو، اور نہ تمہاری ذمّہ داری وہ جواب دہی میں یہ بات شامل ہے کہ تمہارے حلقۂ نبوّت میں کوئی شخص باطل پر ست نہ رہ جائے۔ لہٰذا اس فکر میں خواہ مخواہ اپنے ذہن کو پریشان نہ کرو کہ اندھوں کو کس طرح بینا بنایا جائے اور جو آنکھیں کھول کر نہیں دیکھنا چاہتے انہیں کیسے دکھایا جائے۔ اگر فی الواقع حکمت ِ الٰہی کا تقاضا یہی ہوتا کہ دنیا میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہنے دیا جائے تو اللہ کو یہ کام تم سے لینے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اس کا ایک ہی تکوینی اشارہ تمام انسانوں کو حق پرست نہ بنا سکتا تھا؟ مگر وہاں تو مقصُود سرے سے یہ ہے ہی نہیں۔ مقصُود تو یہ ہے کہ انسان کے لیے حق اور باطل کے انتخاب کی آزادی باقی رہے اور پھر حق کی روشنی اس کے سامنے پیش کر کے اُس کی آزمائش کی جائے کہ وہ دونوں چیزوں میں سے کس کو انتخاب کرتا ہے ۔ پس تمہارے لیے صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ جو روشنی تمھیں دکھا دی گئی ہے اُس کے اُجالے میں سیدھی راہ پر خود چلتے رہو اور دُوسروں کو اُس کی دعوت دیتے رہو۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کر لیں انھیں سینے سے لگاؤ اور ان کا ساتھ نہ چھوڑو خواہ وہ دنیا کی نگاہ میں کیسے ہی حقیر ہوں۔ اور جو اسے قبول نہ کریں ان کے پیچھے نہ پڑو۔ جس انجامِ بد کی طرف وہ خود جانا چاہتے ہیں اور جانے پر مُصِر ہیں اس کی طرف جانے کے لیے انھیں چھوڑ دو۔

72. یہ نصیحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں کو کی گئی ہے کہ اپنی تبلیغ کے جوش میں وہ بھی اتنے بے قابو نہ ہو جائیں کہ مناظرے سے اور بحث و تکرار سے معاملہ بڑھتے بڑھتے غیر مسلموں کے عقائد پر سخت حملے کرنے اور ان کے پیشواؤں اور معبُودوں کو گالیاں دینے تک نوبت پہنچ جائے، کیونکہ یہ چیز ان کو حق سے قریب لانے کے بجائے اور زیادہ دُور پھینک دے گی۔

73. یہا ں پھر اُس حقیقت کے ملحوظ رکھنا چاہیے جس کی طرف اس سے پہلے بھی ہم اپنے حواشی میں اشارہ کر چکے ہیں کہ جو اُمُور قوانین ِ فطرت کے تحت رُونما ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں اپنا فعل قرار دیتا ہے ، کیونکہ وہی ان قوانین کا مقرر کرنے والا ہے اور جو کچھ ان قوانین کے تحت رُونما ہوتا ہے وہ اسی کے امر سے رُونما ہوتا ہے۔ جس بات کو اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے کہ ہم نے ایسا کیا ہے اسی کو اگر ہم انسان بیان کریں تو اس طرح کہیں گے کہ فطرۃً ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔

74. نشانی سے مراد کوئی ایسا صریح محسُوس معجزہ ہے جسے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ ؐ کے مامور مِنَاللہ ہونے کو مان لینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔

75. یعنی نشانیوں کے پیش کرنے اور بنا لانے کی قدرت مجھے حاصل نہیں ہے ، ان کا اختیار تو اللہ کو ہے، چاہے دکھائے اور نہ چاہے نہ دکھائے۔

76. یہ خطاب مسلمانوں سے ہے جو بےتاب ہو ہو کر تمنا کرتے تھے اور کبھی کبھی زبان سے بھی اس خواہش کا اظہار کر دیتے تھے کہ کوئی ایسی نشانی ظاہر ہو جائے جس سے اُن کے گمراہ بھائی راہِ راست پر آجائیں۔ ان کی اس تمنا اور خواہش کے جواب میں ارشاد ہو رہا ہے کہ آخر تمھیں کس طرح سمجھایا جائے کہ ان لوگوں کا ایمان لانا کسی نشانی کے ظہُور پر موقوف نہیں ہے۔

77. یعنی ان کے اندر وہی ذہنیت کام کیے جا رہی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے پہلی مرتبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سُن کر اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے نقطۂ نظر میں ابھی تک کوئی تغیر واقع نہیں ہوا ہے ، وہی عقل کا پھیر اور نظر کا بھینگا پن جو انھیں اُس وقت صحیح سمجھنے اور صحیح دیکھنے سے روک رہا تھا آج بھی ان پر اسی طرح مُسلّط ہے۔