Tafheem ul Quran

Surah 6 Al-An'am, Ayat 11-20

قُلۡ سِيۡرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ ثُمَّ انْظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الۡمُكَذِّبِيۡنَ‏  ﴿6:11﴾ قُلْ لِّمَنۡ مَّا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ قُلْ لِّلّٰهِ​ؕ كَتَبَ عَلٰى نَفۡسِهِ الرَّحۡمَةَ ​ ؕ لَيَجۡمَعَنَّكُمۡ اِلٰى يَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ لَا رَيۡبَ فِيۡهِ​ ؕ اَلَّذِيۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ فَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿6:12﴾ وَلَهٗ مَا سَكَنَ فِى الَّيۡلِ وَالنَّهَارِ​ؕ وَهُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ‏  ﴿6:13﴾ قُلۡ اَغَيۡرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَهُوَ يُطۡعِمُ وَلَا يُطۡعَمُ​ؕ قُلۡ اِنِّىۡۤ اُمِرۡتُ اَنۡ اَكُوۡنَ اَوَّلَ مَنۡ اَسۡلَمَ​ وَلَا تَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ‏ ﴿6:14﴾ قُلۡ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَيۡتُ رَبِّىۡ عَذَابَ يَوۡمٍ عَظِيۡمٍ‏ ﴿6:15﴾ مَنۡ يُّصۡرَفۡ عَنۡهُ يَوۡمَـئِذٍ فَقَدۡ رَحِمَهٗ​ؕ وَ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿6:16﴾ وَاِنۡ يَّمۡسَسۡكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ​ؕ وَاِنۡ يَّمۡسَسۡكَ بِخَيۡرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿6:17﴾ وَهُوَ الۡقَاهِرُ فَوۡقَ عِبَادِهٖ​ ؕ وَهُوَ الۡحَكِيۡمُ الۡخَبِيۡرُ‏ ﴿6:18﴾ قُلۡ اَىُّ شَىۡءٍ اَكۡبَرُ شَهَادَةً  ؕ قُلِ اللّٰهُ ​ۙ شَهِيۡدٌ ۢ بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَكُمۡ​ وَاُوۡحِىَ اِلَىَّ هٰذَا الۡـقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَكُمۡ بِهٖ وَمَنۡۢ بَلَغَ​ ؕ اَـئِنَّكُمۡ لَـتَشۡهَدُوۡنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخۡرٰى​ؕ قُلْ لَّاۤ اَشۡهَدُ​ ۚ قُلۡ اِنَّمَا هُوَ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِىۡ بَرِىۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِكُوۡنَ​ۘ‏ ﴿6:19﴾ اَ لَّذِيۡنَ اٰتَيۡنٰهُمُ الۡـكِتٰبَ يَعۡرِفُوۡنَهٗ كَمَا يَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَهُمُ​ۘ اَ لَّذِيۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ فَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿6:20﴾

11 - اِن سے کہو، ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔8 12 - ان سے پوچھو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے؟ ۔۔۔۔ کہو سب کچھ اللہ ہی کا ہے،9 اس نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ہے (اسی لیے وہ نافرمانیوں اور سرکشیوں پر تمہیں جلدی سے نہیں پکڑ لیتا) قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا، یہ بالکل ایک غیر مشتبہ حقیقت ہے، مگر جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود تباہی کے خطرے میں مُبتلا کرلیا ہے وہ اسے نہیں مانتے۔ 13 - رات کے اندھیرے اور دن کے اُجالے میں جو کچھ ٹھیرا ہُوا ہے، سب اللہ کا ہے اور وہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے، 14 - کہو، اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سرپرست بنالوں؟ اُس خدا کو چھوڑ کر جو زمین و آسمان کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے؟10کہو مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اُس کے آگے سرِ تسلیم خم کروں (اور تاکید کی گئی ہے کہ کوئی شرک کرتا ہے تو کرے) تُو بہرحال مشرکوں میں شامل نہ ہو۔ 15 - کہو، اگر میں اپنے ربّ کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے (خوفناک) دن مجھے سزا بھگتنی پڑے گی۔ 16 - اُس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا ہی رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی ہے۔ 17 - اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچاسکے، اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ 18 - وہ اپنے بندوں پر کامل اختیارات رکھتا ہے اور دانا اور باخبر ہے۔ 19 - ان سے پوچھو، کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟ ۔۔۔۔ کہو، میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے،11 اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبّہ کردُوں۔ کیا واقعی تم لوگ یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دُوسرے خدا بھی ہیں؟12 کہو، میں تو اس کی شہادت ہرگز نہیں دے سکتا۔13 کہو، خدا تو وہی ایک ہے اور میں اُس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو ۔ 20 - جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو اس طرح غیر مشتبہ طور پر پہچانتے ہیں جیسے ان کو اپنے بیٹوں کے پہچاننے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا۔14 مگر جنہوں نے اپنے آپ کو خود خسارے میں ڈال دیا ہے وہ اِسے نہیں مانتے۔ ؏۲


Notes

8. یعنی گزری ہوئی قوموں کے آثار قدیمہ اور ان کے تاریخی افسانے شہادت دیں گے کہ صداقت و حقیقت سے مُنہ موڑنے اور باطل پرستی پر اصرار کرنے کی بدولت کس طرح یہ قومیں عبرتناک انجام سے دوچار ہوئیں۔

9. یہ ایک لطیف اندازِ بیان ہے ۔ پہلے حکم ہوا کہ ان سے پوچھو، زمین و آسمان کی موجودات کس کی ہیں۔ سائل نے سوال کیا اور جواب کے انتظار میں ٹھیر گیا۔ مخاطب اگرچہ خود قائل ہیں کہ سب کچھ اللہ کا ہے ، لیکن نہ تو وہ غلط جواب دینے کی جرأت رکھتے ہیں ، اور نہ صحیح جواب دینا چاہتے ہیں، کیونکہ اگر صحیح جواب دیتے ہیں تو انھیں خوف ہے کہ مخالف اس سے ان کے مشرکانہ عقیدہ کے خلاف استدلال کرے گا۔ اس لیے وہ کچھ جواب نہیں دیتے۔ تب حکم ہوتا ہے کہ تم خود ہی کہو کہ سب کچھ اللہ کا ہے۔

10. اس میں ایک لطیف تعریض ہے۔ مشرکوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا خدا بنا رکھا ہے وہ سب اپنے ان بندوں کو رزق دینے کے بجائے اُلٹا ان سے رزق پانے کے محتاج ہیں۔ کوئی فرعون خدائی کے ٹھاٹھ نہیں جما سکتا جب تک اس کے بندے اسے ٹیکس اور نذرانے نہ دیں۔ کسی صاحبِ قبر کی شانِ معبُودیّت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اس کے پرستار اس کا شاندار مقبرہ تعمیر نہ کریں۔ کسی دیوتا کا درباِ رِ خدا وندی سج نہیں سکتا جب تک اس کے پُجاری اس کا مجسّمہ بنا کر کسی عالی شان مندر میں نہ رکھیں اور اس کو تزئین و آرائش کے سامانوں سے آراستہ نہ کریں۔ سارے بناؤٹی خدا بیچا رے خود اپنے بندوں کے محتاج ہیں ۔ صرف ایک خداوندِ عالم ہی وہ حقیقی خدا ہے جس کی خدائی آپ اپنے بل بوتے پر قائم ہے اور جو کسی کی مدد کا محتاج نہیں بلکہ سب اسی کے محتاج ہیں۔

11. یعنی اس بات پر گواہ ہے کہ میں اس کی طرف سے مامور ہوں اور جو کچھ کہہ رہا ہوں اسی کے حکم سے کہہ رہا ہوں۔

12. کسی چیز کی شہادت دینے کے لیے محض قیاس و گمان کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے علم ہونا ضروری ہے جس کی بنا پر آدمی یقین کے ساتھ کہہ سکے کہ ایسا ہے ۔ پس سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا واقعی تمہیں یہ علم ہے کہ اس جہانِ ہست و بُود میں خدا کے سوا اَور بھی کوئی کار فرما حاکمِ ذی اختیار ہے جو بندگی و پرستش کا مستحق ہو؟

13. یعنی اگر تم علم کے بغیر محض جھُوٹی شہادت دینا چاہتے ہو تو دو، میں تو ایسی شہادت نہیں دے سکتا۔

14. یعنی کتبِ آسمانی کا علم رکھنے والے اس حقیقت کو غیر مشتبہ طور پر پہچانتے ہیں کہ خدا ایک ہی ہے اور خدائی میں کسی کا کچھ حصّہ نہیں ہے ۔ جس طرح کسی کا بچّہ بہت سے بچّوں میں مِلا جُلا کھڑا ہو تو وہ الگ پہچان لے گا کہ اس کا بچہ کونسا ہے ، اسی طرح جو شخص کتابِ الہٰی کا علم رکھتا ہو وہ اُلُوہیّت کے متعلق لوگوں کے بے شمار مختلف عقیدوں اور نظریوں کے درمیان بلا کسی شک و اشتباہ کے یہ پہچان لیتا ہے کہ ان میں سے امرِ حق کونسا ہے۔