Tafheem ul Quran

Surah 6 Al-An'am, Ayat 111-121

وَلَوۡ اَنَّـنَا نَزَّلۡنَاۤ اِلَيۡهِمُ الۡمَلٰٓـئِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الۡمَوۡتٰى وَ حَشَرۡنَا عَلَيۡهِمۡ كُلَّ شَىۡءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوۡا لِيُؤۡمِنُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ يَّشَآءَ اللّٰهُ وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَهُمۡ يَجۡهَلُوۡنَ‏ ﴿6:111﴾ وَكَذٰلِكَ جَعَلۡنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا شَيٰطِيۡنَ الۡاِنۡسِ وَالۡجِنِّ يُوۡحِىۡ بَعۡضُهُمۡ اِلٰى بَعۡضٍ زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ غُرُوۡرًا​ ؕ وَلَوۡ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوۡهُ​ فَذَرۡهُمۡ وَمَا يَفۡتَرُوۡنَ‏ ﴿6:112﴾ وَلِتَصۡغٰٓى اِلَيۡهِ اَفۡـئِدَةُ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَةِ وَلِيَرۡضَوۡهُ وَلِيَقۡتَرِفُوۡا مَا هُمۡ مُّقۡتَرِفُوۡنَ‏ ﴿6:113﴾ اَفَغَيۡرَ اللّٰهِ اَبۡتَغِىۡ حَكَمًا وَّهُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ اِلَيۡكُمُ الۡـكِتٰبَ مُفَصَّلاً​ ؕ وَالَّذِيۡنَ اٰتَيۡنٰهُمُ الۡـكِتٰبَ يَعۡلَمُوۡنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنۡ رَّبِّكَ بِالۡحَـقِّ​ فَلَا تَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُمۡتَرِيۡنَ‏ ﴿6:114﴾ وَتَمَّتۡ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدۡقًا وَّعَدۡلاً  ؕ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ​ ۚ وَهُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ‏ ﴿6:115﴾ وَاِنۡ تُطِعۡ اَكۡثَرَ مَنۡ فِى الۡاَرۡضِ يُضِلُّوۡكَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ​ؕ اِنۡ يَّتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنۡ هُمۡ اِلَّا يَخۡرُصُوۡنَ‏ ﴿6:116﴾ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعۡلَمُ مَنۡ يَّضِلُّ عَنۡ سَبِيۡلِهٖ​ۚ وَهُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُهۡتَدِيۡنَ‏ ﴿6:117﴾ فَـكُلُوۡا مِمَّا ذُكِرَ اسۡمُ اللّٰهِ عَلَيۡهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ بِاٰيٰتِهٖ مُؤۡمِنِيۡنَ‏  ﴿6:118﴾ وَمَا لَـكُمۡ اَلَّا تَاۡكُلُوۡا مِمَّا ذُكِرَ اسۡمُ اللّٰهِ عَلَيۡهِ وَقَدۡ فَصَّلَ لَـكُمۡ مَّا حَرَّمَ عَلَيۡكُمۡ اِلَّا مَا اضۡطُرِرۡتُمۡ اِلَيۡهِؕ وَاِنَّ كَثِيۡرًا لَّيُضِلُّوۡنَ بِاَهۡوَآئِهِمۡ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ​ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُعۡتَدِيۡنَ‏ ﴿6:119﴾ وَذَرُوۡا ظَاهِرَ الۡاِثۡمِ وَبَاطِنَهٗ​ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ یَکْسِبُوۡنَ الۡاِثۡمَ سَيُجۡزَوۡنَ بِمَا كَانُوۡا يَقۡتَرِفُوۡنَ‏ ﴿6:120﴾ وَلَا تَاۡكُلُوۡا مِمَّا لَمۡ يُذۡكَرِ اسۡمُ اللّٰهِ عَلَيۡهِ وَاِنَّهٗ لَفِسۡقٌ ؕ وَاِنَّ الشَّيٰطِيۡنَ لَيُوۡحُوۡنَ اِلٰٓى اَوۡلِيٰٓـئِـهِمۡ لِيُجَادِلُوۡكُمۡ​ ۚ وَاِنۡ اَطَعۡتُمُوۡهُمۡ اِنَّكُمۡ لَمُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿6:121﴾

111 - [الجزء ۸]اگر ہم فرشتے بھی ان پر نازل کردیتے اور مُردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کردیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے، اِلّا یہ کہ مشیَّتِ الٰہی یہی ہو کہ وہ ایمان لائیں،78 مگر اکثر لوگ نادانی کی باتیں کرتے ہیں۔ 112 - اور ہم نے تو اسی طرح ہمیشہ شیطان انسانون اور شیطان جِنوں کو ہر نبی کا دُشمن بنایا ہے جو ایک دُوسرے پر خوش آیند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے رہے ہیں۔79 اگر تمہارے رب کی مشیَّت یہ ہوتی کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ کبھی نہ کرتے۔ 80پس تم اُنہیں ان کے حال پر چھوڑ دو کہ اپنی افتراپردازیاں کرتے رہیں۔ 113 - (یہ سب کچھ ہم انہیں اسی لیے کرنے دے رہے ہیں کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اُن کے دل اِس (خوشنما دھوکے) کی طرف مائل ہوں اور وہ اس سے راضی ہوجائیں اور اُن بُرائیوں کا اِکتساب کریں جن کا اِکتساب وہ کرنا چاہتے ہیں 114 - ۔۔۔۔ پھر جب حال یہ ہے تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں، حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کردی ہے؟81 اور جن لوگوں کو ہم نے (تم سے پہلے) کتاب دی تھی وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب تمہارے رب ہی کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے لہٰذا تم شک کرنے والوں میں شامل نہ ہو۔82 115 - تمہارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے، کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ 116 - اور اے محمد ؐ ! اگر تم اُن لوگوں کی اکثریّت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے۔ وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرا ئیاں کرتے ہیں۔83 117 - درحقیقت تمہارا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اُس کے راستے سے ہٹا ہوٴا ہے اور کون سیدھی راہ پر ہے۔ 118 - پھر اگر تم لوگ اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اُس کا گوشت کھاوٴ۔84 119 - آخر کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاوٴ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالتِ اضطرار کے سوا دُوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کردیا ہے اُن کی تفصیل وہ تمہیں بتا چکا ہے۔85بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کُن باتیں کرتے ہیں، ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب خوب جانتا ہے۔ 120 - تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چُھپے گناہوں سے بھی، جو لوگ گناہ کا اکتساب کرتے ہیں وہ اپنی اس کمائی کا بدلہ پاکر رہیں گے۔ 121 - اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھاوٴ، ایسا کرنا فسق ہے۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کے دِلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں۔ 86لیکن اگر تم نے اُن کی اطاعت قبول کرلی تو یقیناً تم مشرک ہو۔87 ؏۱۴


Notes

78. یعنی یہ لوگ اپنے اختیار و انتخاب سے تو حق کو باطل کے مقابلہ میں ترجیح دے کر قبول کرنے والے ہیں نہیں۔ اب اِن کے حق پرست بننے کی صرف ایک ہی صورت باقی ہے اور وہ یہ کہ عملِ تخلیق و تکوین سے جس طرح تمام بے اختیار مخلوقات کو حق پرست پیدا کیا گیا ہے اسی طرح انھیں بھی بے اختیار کر کے جِبلّی و پیدائشی حق پرست بنا ڈالا جائے۔ مگر یہ اُس حکمت کے خلاف ہے جس کے تحت اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ لہٰذا تمہارا یہ توقع کرنا فضول ہے کہ اللہ تعالیٰ براہِ راست اپنی تکوینی مداخلت سے ان کو مومن بنائے گا۔

79. یعنی آج اگر شیاطینِ جِن و انس متفق ہو کر تمہارے مقابلہ میں ایڑی چوڑی کا زور لگارہے ہیں تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو تمہارے ہی ساتھ پیش آرہی ہو۔ ہر زمانہ میں ایسا ہی ہوتاآیا ہے کہ جب کوئی پیغمبر دُنیا کو راہِ راست دکھانے کے لیے اُٹھا تو تمام شیطانی قوتیں اس کے مِشن کو ناکام کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئیں۔

”خوش آیند باتوں“ سے مراد وہ تمام چالیں اور تدبیریں اور شکوک و شبہات و اعتراضات ہیں جن سے یہ لوگ عوام کو داعیِ حق اور اس کی دعوت کے خلاف بھڑکانے اور اکسانے کا کام لیتے ہیں۔ پھر ان سب کو بحیثیت مجموعی دھوکے اور فریب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ حق سے لڑنے کے لیے جو ہتھیار بھی مخالفین حق استعمال کرتے ہیں وہ نہ صرف دُوسروں کے لیے بلکہ خود ان کے لیے بھی حقیقت کے اعتبار سے محض ایک دھوکا ہوتے ہیں اگرچہ بظاہر وہ ان کو نہایت مفید اور کامیاب ہتھیار نظر آتے ہیں۔

80. یہاں ہماری سابق تشریحات کے علاوہ یہ حقیقت بھی اچھی طرح ذہن نشین ہو جانی چاہیے کہ قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی مشِیَّت اور اس کی رضا میں بہت بڑا فرق ہے جس کو نظر انداز کر دینے سے بالعمُوم شدید غلط فہمیاں واقع ہوتی ہیں۔ کسی چیز کا اللہ کی مشیّت اور اس کے اذن کے تحت رُونما ہونا لازمی طور پر یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ اس سے راضی بھی ہے اور اسے پسند بھی کرتا ہے۔ دُنیا میں کوئی واقعہ کبھی صُدُور میں نہیں آتا جب تک اللہ اس کے صُدُور کا اذن نہ دے اور اپنی عظیم الشان اسکیم میں اس کے صُدُور کی گنجائش نہ نکالے اور اسباب کو اس حد تک مساعد نہ کر دے کہ وہ واقعہ صادر ہو سکے۔ کسی چور کی چوری، کسی قاتل کا قتل، کسی ظالم و مفسد کا ظلم و فساد اور کسی کافر و مشرک کا کفر و شرک اللہ کی مشیّت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور اسی طرح کسی مومن اور کسی متقی انسان کا ایمان و تقویٰ بھی مشیّت ِ الہٰی کے بغیر محال ہے۔ دونوں قسم کے واقعات یکساں طور پر مشِیَّت کے تحت رُونما ہوتے ہیں۔ مگر پہلی قسم کے واقعات سے اللہ راضی نہیں ہے اور اس کے برعکس دُوسری قسم کے واقعات کو اُس کی رضا اور اس کی پسند یدگی و محبُوبیّت کی سند حاصل ہے۔ اگر چہ آخر کار کسی خیرِ عظیم ہی لیے فرمانروائے کائنات کی مشیّت کام کر رہی ہے ، لیکن اُس خیرِ عظیم کے ظہُور کا راستہ نور و ظلمت ، خیر و شر اور صلاح و فساد کی مختلف قوتوں کے ایک دُوسرے کے مقابلہ میں نبرد آزما ہونے ہی سے صاف ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی بزرگ تر مصلحتوں کی بنا پر وہ طاعت اور معصیت ، ابراہیمیت اور نمرود یّت، موسویّت اور فرعونیّت ، آدمیّت اور شیطنت ، دونوں کو اپنا اپنا کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس نے اپنی ذی اختیار مخلوق(جِن و انسان) کو خیر اور شر میں سے کسی ایک کے انتخاب کر لینے کی آزادی عطا کر دی ہے۔ جو چاہے اس کا ر گاہِ عالم میں اپنے لیے خیر کا کام پسند کر لے اور جو چاہے شر کا کام۔ دونوں قسم کے کارکنوں کو، جس حد تک خدائی مصلحتیں اجازت دیتی ہیں، اسباب کی تائید نصیب ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کی رضا اور اس کی پسندیدگی صرف خیر ہی کے لیے کام کرنے والوں کو حاصل ہے اور اللہ کو محبُوب یہی بات ہے کہ اس کے بندے اپنی آزادی انتخاب سے فائدہ اُٹھا کر خیر کو اختیار کریں نہ کہ شر کو۔

اس کے ساتھ یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ جو اللہ تعالیٰ دُشمنانِ حق کی مخالفانہ کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی مشیّت کا بار بار حوالہ دیتا ہے اِس سے مقصُود دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو، اور آپ کے ذریعہ سے اہلِ ایمان کو یہ سمجھانا ہے کہ تمہارے کام کی نوعیّت فرشتوں کے کام کی سی نہیں ہے جو کسی مزاحمت کے بغیر احکامِ الہٰی کی تعمیل کر رہے ہیں۔ بلکہ تمہارا اصل کام شریروں اور باغیوں کے مقابلہ میں اللہ کے پسند کر دہ طریقہ کو غالب کرنے کے لیے جدّوجہد کرنا ہے۔ اللہ اپنی مشیّت کے تحت اُن لوگوں کو بھی کام کرنے کا موقع دے رہا ہے جنہوں نے اپنی سعی و جہد کے لیے خود اللہ سے بغاوت کے راستے کو اختیار کیا ہے، اور اسی طرح وہ تم کو بھی ، جنھوں نے طاعت و بندگی کے راستے کو اختیار کیا ہے، کام کرنے کا پورا موقع دیتا ہے۔ اگرچہ اس کی رضا اور ہدایت و رہنمائی اور تائید و نصرت تمہارے ہی ساتھ ہے ، کیونکہ تم اُس پہلو میں کام کر رہے ہو جسے وہ پسند کرتا ہے ، لیکن تمھیں یہ توقع نہ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی فوق الفطری مداخلت سے اُن لوگوں کو ایمان لانے پر مجبُور کر دے گا جو ایمان نہیں لانا چاہتے، یا اُن شیاطین جِن و انس کو زبر دستی تمہارے راستہ سے ہٹا دے گا جنھوں نے اپنے دل و دماغ کو اور دست و پا کی قوتوں کو اور اپنے وسائل و ذرائع کو حق کی راہ روکنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نہیں، اگر تم نے واقعی حق اور نیکی اور صداقت کے لیے کام کرنے کا عزم کیا ہے تو تمھیں باطل پرستوں کے مقابلہ میں سخت کشمکش اور جدوجہد کر کے اپنی حق پرستی کا ثبوت دینا ہوگا۔ ورنہ معجزوں کے زور سے باطل کو مٹانا اور حق کو غالب کرنا ہوتا تو تمہاری ضرورت ہی کیا تھی، اللہ خود ایسا انتظام کر سکتا تھا کہ دنیا میں کوئی شیطان نہ ہوتا اور کسی شرک و کفر کے ظہُور کا امکان نہ ہوتا۔

81. اس فقرہ میں متکلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور خطاب مسلمانوں سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ نے اپنی کتاب میں صاف صاف یہ تمام حقیقتیں بیان کر دی ہیں اور یہ بھی فیصلہ کر دیا ہے کہ فوق الفطری مداخلت کے بغیر حق پرستوں کو فطری طریقوں ہی سے غلبہ ٔ حق کی جدّوجہد کرنی ہوگی، تو کیا اب میں اللہ کے سوا کوئی اَور ایسا صاحب ِ امر تلاش کروں جو اللہ کے اس فیصلہ پر نظر ثانی کرے اور ایسا کوئی معجزہ بھیجے جس سے یہ لوگ ایمان لانے پر مجبوُر ہو جائیں؟

82. یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو واقعات کی توجیہ میں آج گھڑی ہو گئی ہو۔ تمام وہ لوگ جو کتب ِ آسمانی کا علم رکھتے ہیں اور جنھیں انبیاء علیہم السّلام کے مِشن سے واقفیت حاصل ہے، اس بات کی شہادت دیں گے کہ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے ٹھیک ٹھیک امرِ حق ہے اور ازلی و ابدی حقیقت ہے جس میں کبھی فرق نہیں آیا ہے۔

83. یعنی بیشتر لوگ جو دنیا میں بستے ہیں علم کے بجائے قیاس و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور ان کے عقائد، تخیلات ، فلسفے، اُصُولِ زندگی اور قوانینِ عمل سب کے سب قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔ بخلاف اس کے اللہ کا راستہ ، یعنی دنیا میں زندگی بسر کرنے کا وہ طریقہ جو اللہ کی رضا کے مطابق ہے، لازماً صرف وہی ایک ہے جس کا علم اللہ نے خود دیا ہے نہ کہ وہ جس کو لوگوں نے بطورِ خود اپنے قیاسات سے تجویز کر لیا ہے۔ لہٰذا کسی طالبِ حق کو یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دُنیا کے بیشتر انسان کِس راستہ پر جا رہے ہیں بلکہ اسے پُوری ثابت قدمی کے ساتھ اُس راہ پر چلنا چاہیے جو اللہ نے بتائی ہے ، چاہے اس راستہ پر چلنے کے لیے وہ دُنیا میں اکیلا ہی رہ جائے۔

84. مِن جملہ ان غلط طریقوں کے جو اکثر اہلِ زمین نے بطورِ خود قیاس و گمان سے تجویز کر لیے اور جنھیں مذہبی حُدُود و قیُود کی حیثیت حاصل ہو گئی ، ایک وہ پابندیاں بھی ہیں جو کھانے پینے کی چیزوں میں مختلف قوموں کے درمیان پائی جاتی ہیں۔ بعض چیزوں کو لوگوں نے آپ ہی آپ حلال قرار دے لیا ہے حالانکہ اللہ کی نظر میں وہ حرام ہیں۔ اور بعض چیزوں کو انھوں نے خود حرام ٹھیرا لیا ہے حالانکہ اللہ نے انھیں حلال کیا ہے۔ خصُوصیّت کے ساتھ سب سے زیادہ جاہلانہ بات جس پر پہلے بھی بعض گروہ مُصِر تھے اور آج بھی دُنیا کے بعض گروہ مُصِر ہیں، وہ یہ ہے کہ اللہ کا نام لے کر جو جانور ذبح کیا جائے وہ تو ان کے نزدیک ناجائز ہے اور اللہ کے نام کے بغیر جسے ذبح کیا جائے وہ بالکل جائز ہے۔ اسی کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ یہاں مسلمانوں سے فرما رہا ہے کہ اگر تم حقیقت میں اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس کے احکام کو مانتے ہو تو اُن تمام اوہام اور تعصّبات کو چھوڑ دو جو کفار و مشرکین میں پائے جاتے ہیں، اُن سب پابندیوں کو توڑ دو جو خدا کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر لوگوں نے خود عائد کر رکھی ہیں، حرام صرف اسی چیز کو سمجھو جسے خدا نے حرام کیا ہے اور حلال اسی کو ٹھیراؤ جس کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے۔

85. ملاحظہ ہو سُورۂ نحل آیت ۱۱۵ – اس اشارے سے ضمناً یہ بھی متحقق ہوا کہ سُورۂ نحل اس سُورہ سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔

86. حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ عُلمائے یہُود جُہلائے عرب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے کے جو سوالات سکھایا کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ”آخر کیا معاملہ ہے کہ جسے خدا مارے وہ تو حرام ہو اور جسے ہم ماریں وہ حلال ہو جائے“۔ یہ ایک ادنٰی سا نمونہ ہے اس ٹیڑھی ذہنیّت کا جو ان نام نہاد اہلِ کتاب میں پائی جاتی تھی۔ وہ اس قسم کے سوالات گھڑ گھڑ کر پیش کرتے تھے تاکہ عوام کے دلوں میں شُبہات ڈالیں اور انھیں حق سے لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کر کے دیں۔

87. یعنی ایک طرف اللہ کی خداوندی کا اقرار کرنا اور دُوسری طرف اللہ سے پھرے ہوئے لوگوں کے احکام پر چلنا اور ان کے مقرر کیے ہوئے طریقوں کی پابندی کرنا ، شرک ہے۔ توحید یہ ہے کہ زندگی سراسر اللہ کی اطاعت میں بسر ہو۔ اللہ کے ساتھ اگر دُوسروں کو اعتقادًا مستقل بالذّات مطاع مان لیا جائے تو یہ اعتقادی شرک ہے، اور اگر عملاً ایسے لوگوں کی اطاعت کی جائے جو اللہ کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر خود امر ونہی کے مختار بن گئے ہوں تو یہ عملی شرک ہے۔