Tafheem ul Quran

Surah 6 Al-An'am, Ayat 122-129

اَوَمَنۡ كَانَ مَيۡتًا فَاَحۡيَيۡنٰهُ وَجَعَلۡنَا لَهٗ نُوۡرًا يَّمۡشِىۡ بِهٖ فِى النَّاسِ كَمَنۡ مَّثَلُهٗ فِى الظُّلُمٰتِ لَـيۡسَ بِخَارِجٍ مِّنۡهَا​ ؕ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلۡكٰفِرِيۡنَ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿6:122﴾ وَكَذٰلِكَ جَعَلۡنَا فِىۡ كُلِّ قَرۡيَةٍ اَكٰبِرَ مُجۡرِمِيۡهَا لِيَمۡكُرُوۡا فِيۡهَا​ ؕ وَمَا يَمۡكُرُوۡنَ اِلَّا بِاَنۡفُسِهِمۡ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿6:123﴾ وَاِذَا جَآءَتۡهُمۡ اٰيَةٌ قَالُوۡا لَنۡ نُّـؤۡمِنَ حَتّٰى نُؤۡتٰى مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِىَ رُسُلُ اللّٰهِؔ​ۘؕ اَللّٰهُ اَعۡلَمُ حَيۡثُ يَجۡعَلُ رِسٰلَـتَهٗ​ ؕ سَيُصِيۡبُ الَّذِيۡنَ اَجۡرَمُوۡا صَغَارٌ عِنۡدَ اللّٰهِ وَعَذَابٌ شَدِيۡدٌۢ بِمَا كَانُوۡا يَمۡكُرُوۡنَ‏ ﴿6:124﴾ فَمَنۡ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنۡ يَّهۡدِيَهٗ يَشۡرَحۡ صَدۡرَهٗ لِلۡاِسۡلَامِ​ۚ وَمَنۡ يُّرِدۡ اَنۡ يُّضِلَّهٗ يَجۡعَلۡ صَدۡرَهٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِى السَّمَآءِ​ؕ كَذٰلِكَ يَجۡعَلُ اللّٰهُ الرِّجۡسَ عَلَى الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏  ﴿6:125﴾ وَهٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسۡتَقِيۡمًا​ ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّذَّكَّرُوۡنَ‏ ﴿6:126﴾ لَهُمۡ دَارُ السَّلٰمِ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ​ وَهُوَ وَلِيُّهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿6:127﴾ وَيَوۡمَ يَحۡشُرُهُمۡ جَمِيۡعًا​ ۚ يٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ قَدِ اسۡتَكۡثَرۡتُمۡ مِّنَ الۡاِنۡسِ​ۚ وَقَالَ اَوۡلِيٰٓـئُهُمۡ مِّنَ الۡاِنۡسِ رَبَّنَا اسۡتَمۡتَعَ بَعۡضُنَا بِبَعۡضٍ وَّبَلَغۡنَاۤ اَجَلَـنَا الَّذِىۡۤ اَجَّلۡتَ لَـنَا​​ ؕ قَالَ النَّارُ مَثۡوٰٮكُمۡ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ اِنَّ رَبَّكَ حَكِيۡمٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿6:128﴾ وَكَذٰلِكَ نُوَلِّىۡ بَعۡضَ الظّٰلِمِيۡنَ بَعۡضًاۢ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏  ﴿6:129﴾

122 - کیا وہ شخص جو پہلے مُردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی 88اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اُجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اُس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو؟89 کافروں کے لیے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنادیے گئے ہیں،90 123 - اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہاں اپنے مکر و فریب کا جال پھیلائیں۔ دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں، مگر اُنہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ 124 - جب ان کے سامنے کوئی آیت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ”ہم نہ مانیں گے جب تک کہ وہ چیز خود ہم کو نہ دی جائے جو اللہ کے رسُولوں کو دی گئی ہے“۔91 اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی پیغامبری کا کام کس سے لے اور کس طرح لے۔ قریب ہے وہ وقت جب یہ مجرم اپنی مکّاریوں کی پاداش میں اللہ کے ہاں ذلّت اور سخت عذاب سے دوچار ہوں گے۔ 125 - پس (یہ حقیقت ہے کہ) جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اُس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے92اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اُس کے سینے کو تنگ کردیتا ہے اور ایسا بھینچتا ہے کہ (اسلام کا تصوّر کرتے ہی) اُسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا اس کی رُوح آسمان کی طرف پرواز کررہی ہے۔ اس طرح اللہ (حق سے فرار اور نفرت کی) ناپاکی اُن لوگوں پر مسلّط کردیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے، 126 - حالانکہ یہ راستہ تمہارے رب کا سیدھا راستہ ہے اور اس کے نشانات اُن لوگوں کے لیے واضح کردیے گئے ہیں جو نصیحت قبول کرتے ہیں۔ 127 - اُن کے لیے اُن کے رب کے پاس سلامتی کا گھر ہے93اور وہ ان کا سرپرست ہے اُس صحیح طرزِ عمل کی وجہ سے جو انہوں نے اختیار کیا۔ 128 - جس روز اللہ ان سب لوگوں کو گھیر کر جمع کرے گا، اس روز وہ جِنوں 94سے خطاب کرکے فرمائے گا کہ ”اے گروہِ جِن! تم نے تو نوعِ انسانی پر خوب ہاتھ صاف کیا“۔ انسانوں میں سے جو اُن کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے ”پروردگار ! ہم میں سے ہر ایک نے دُوسرے کو خوب استعمال کیا ہے،95 اور اب ہم اُس وقت پر آپہنچے ہیں جو تُو نے ہمارے لیے مقرر کردیا تھا“۔ اللہ فرمائے گا ”اچھا اب آگ تمہارا ٹھکانا ہے، اس میں تم ہمیشہ رہو گے“۔ اُس سے بچیں گے صرف وہی جنہیں اللہ بچانا چاہے گا، بیشک تمہارا رب دانا اور علیم ہے۔96 129 - دیکھو، اس طرح ہم (آخرت میں) ظالموں کو ایک دُوسرے کا ساتھی بنائیں گے اُس کمائی کی وجہ سے جو وہ (دُنیا میں ایک دُوسرے کے ساتھ مِل کر) کرتے تھے۔ 97؏ ۱۵


Notes

88. یہاں موت سے مُراد جہالت و بے شعوری کی حالت ہے ، اور زندگی سے مراد علم و ادراک اور حقیقت شناسی کی حالت ۔ جس شخص کو صحیح اور غلط کی تمیز نہیں اور جسے معلوم نہیں کہ راہِ راست کیا ہے وہ طبیعیات کے نقطۂ نظر سے چاہے ذی حیات ہو مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کو انسانیت کی زندگی میسّر نہیں ہے۔ وہ زندہ حیوان تو ضرور ہے مگر زندہ انسان نہیں۔ زندہ انسان درحقیقت صرف وہ شخص ہے جسے حق اور باطل، نیکی اور بدی ، راستی اور ناراستی کا شعور حاصل ہے۔

89. یعنی تم کس طرح یہ توقع کر سکتے ہو کہ جس انسان کو انسانیت کا شعور نصیب ہو چکا ہے اور جو علم کی روشنی میں ٹیڑھے راستوں کے درمیان حق کی سیدھی راہ کو صاف دیکھ رہا ہے وہ اُن بے شعور لوگوں کی طرح دنیا میں زندگی بسر کرے گا جو نادانی و جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔

90. یعنی جن لوگوں کے سامنے روشنی پیش کی جائے اور وہ اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیں ، جنھیں راہِ راست کی طرف دعوت دی جائے اور وہ اپنے ٹیڑھے راستوں ہی پر چلتے رہنے کو ترجیح دیں، ان کے لیے اللہ کا قانون یہی ہے کہ پھر انھیں تاریکی ہی اچھی معلوم ہونے لگتی ہے۔ وہ اندھوں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر چلنا اور ٹھوکریں کھا کھا کر گِرنا ہی پسند کرتے ہیں۔ ان کو جھاڑیاں ہی باغ اور کانٹے ہی پھُول نظر آتے ہیں۔ انھیں ہر بدکاری میں مزا آتا ہے ، ہر حماقت کو وہ تحقیق سمجھتے ہیں ، اور ہر فساد انگیز تجربہ کے بعد اُس سے بڑھ کر دُوسرے فساد انگیز تجربے کے لیے وہ اِس اُمّید پر تیار ہو جاتے ہیں کہ پہلے اتفاق سے دَہکتے ہوئے انگارے پر ہاتھ پڑ گیا تھا تو اب کے لعل بدخشاں ہاتھ آجائے گا۔

91. یعنی ہم رسُولوں کے اِس بیان پر ایمان نہیں لائیں گے کہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور خدا کا پیغام لایا، بلکہ ہم صرف اسی وقت ایمان لا سکتے ہیں جب کہ فرشتہ خود ہمارے پاس آئے اور براہِ راست ہم سے کہے کہ یہ اللہ کا پیغام ہے۔

92. سینہ کھول دینے سے مراد اسلام کی صداقت پر پُوری طرح مطمئن کردینا اور شکوک و شبہات اور تذَبذب و تردّد کو دُور کر دینا ہے۔

93. ”سلامتی کا گھر“یعنی جنّت جہاں انسان ہر آفت سے محفوظ اور ہر خرابی سے مامون ہو گا۔

94. یہاں جِنوں سے مراد شیاطین جِن ہیں۔

95. یعنی ہم میں سے ہر ایک نے دُوسرے سے ناجائز فائدے اُٹھائے ہیں، ہر ایک دُوسرے کو فریب میں مبتلا کر کے اپنی خواہشات پوری کرتا رہا ہے۔

96. یعنی اگرچہ اللہ کو اختیار ہے کہ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے ، مگر یہ سزا اور معافی بلاوجہِ معقول ، مجرّد خواہش کی بنا پر نہیں ہو گی، بلکہ علم اور حکمت پر مبنی ہو گی۔ خدا معاف اسی مجرم کو کرے گا جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ وہ خود اپنے جُرم کا ذمّہ دار نہیں ہے اور جس کے متعلق اس کی حکمت یہ فیصلہ کر ے گی کہ اسے سزا نہ دی جانی چاہیے۔

97. یعنی جس طرح وہ دنیا میں گناہ سمیٹنے اور بُرائیوں کا اکتساب کرنے میں ایک دُوسرے کے شریک تھے اسی طرح آخرت کی سزا پانے میں بھی وہ ایک دُوسرے کے شریک حال ہوں گے۔