116. اصل میں جَنّٰتٍ مَّعْرُوْ شٰتٍ وّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے مراد دو طرح کے باغ ہیں، ایک وہ جن کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں ، دُوسرے وہ جن کے درخت خود اپنے تنوں پرکھڑے رہتے ہیں۔ ہماری زبان میں باغ کا لفظ صرف دُوسری قسم کے باغوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے ہم نے جَنّٰتٍّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ کا ترجمہ”باغ“ کیا ہے اور جَنّٰتٍ مَّعْرُوْ شٰتٍ کے لیے ”تاکستان“(یعنی انگوری باغ) کا لفظ اختیار کیا ہے۔
117. اصل میں لفظ فَرْش استعمال ہوا ہے ۔ جانوروں کو فرش کہنا یا تو اس رعایت سے ہےکہ وہ چھوٹے قد کے ہیں اور زمین سے لگے ہوئے چلتے ہیں۔ یا اس رعایت سے کہ وہ ذبح کے لیے زمین پر لٹائے جاتے ہیں، یا اس رعایت سے کہ ان کی کھالوں اور ان کے بالوں سے فرش بنائے جاتے ہیں۔
118. سلسلۂ کلام پر نظر کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ تین باتیں ذہن نشین کرانا چاہتا ہے ۔ ایک یہ کہ یہ باغ اور کھیت اور یہ جانور جو تم کو حاصل ہیں ، یہ سب اللہ کے بخشے ہوئے ہیں، کسی دُوسرے کا اس بخشش میں کوئی حصّہ نہیں ہے، اس لیے بخشش کے شکریہ میں بھی کسی کا کوئی حصّہ نہیں ہو سکتا۔ دوسرے یہ کہ جب یہ چیزیں اللہ کی بخشش ہیں تو ان کے استعمال میں اللہ ہی کے قانون کی پیروی ہونی چاہیے۔ کسی دُوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ ان کے استعمال پر اپنی طرف سے حدود مقرر کر دے۔ اللہ کے سوا کسی اَور کی مقرر کردہ رسموں کی پابندی کرنا اور اللہ کے سوا کسی اَور کے آگے شُکرِ نعمت کی نذر پیش کرنا ہی حد سے گزرنا ہے اور یہی شیطان کی پیروی ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ سب چیزیں اللہ نے انسان کے کھانے پینے اور استعمال کرنے ہی کے لیے پیدا کی ہیں، اس لیے پیدا نہیں کیں کہ انھیں خواہ مخواہ حرام کر لیا جائے۔ اپنے اوہام اور قیاسات کی بنا پر جو پابندیاں لوگوں نے خدا کے رزق اور اس کی بخشی ہوئی چیزوں کے استعمال پر عائد کر لی ہیں وہ سب منشاءِ الہٰی کے خلاف ہیں۔
119. یعنی گمان و وہم یا آبائی روایات نہ پیش کرو بلکہ علم پیش کرو اگر وہ تمہارے پاس ہو۔
120. یہ سوال اس تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ اُن پر خود اپنے ان توہّمات کی غیر معقولیّت واضح ہو جائے۔ یہ بات کہ ایک ہی جانور کا نر حلال ہو اور مادہ حرام، یا مادہ حلال ہو اور نر حرام، یا جانور خود حلال ہو مگر اس کا بچہ حرام، یہ صریحاً ایسی نامعقول بات ہے کہ عقلِ سلیم اِسے ماننے سے انکار کرتی ہے اور کوئی ذی عقل انسان یہ تصوّر نہیں کر سکتا کہ خدا نے ایسی لغویّات کا حکم دیا ہو گا۔ پھر جس طریقہ سے قرآن نے اہلِ عرب کو اُن کے اِن توہّمات کی غیر معقولیّت سمجھانے کی کوشش کی ہے بعینہٖ اسی طریقہ پر دُنیا کی اُن دُوسری قوموں کو بھی اُن کے توہّمات کی لغویّات پر متنبہ کیا جا سکتا ہے جن کے اندر کھانے پینے کی چیزوں میں حُرمت و حِلّت کی غیر معقول پابندیاں اور چھُوت چھات کی قیُود پائی جاتی ہیں۔