121. یہ مضمون سُورہ بقرہ آیت ۱۷۳ اور سُورہ مائدہ آیت ۳ میں گزر چکا ہے، اور آگے سُورہ نحل آیت ۱۱۵ میں آنے والا ہے۔
سُورہ بقرہ کی آیت اور اس آیت میں بظاہر اتنا اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہاں محض ”خون“ کہا گیا ہے اور یہاں خون کے ساتھ مَسْفُوْح کی قید لگائی گئی ہے ، یعنی ایسا خون جو کسی جانور کو زخمی کر کے یا ذبح کر کے نکالا گیا ہو۔ مگر دراصل یہ اختلاف نہیں بلکہ اُس حکم کی تشریح ہے۔ اِسی طرح سُورۂ مائدہ کی آیت میں ان چار چیزوں کے علاوہ چند اور چیزوں کی حُرمت کا بھی ذکر ملتا ہے، یعنی وہ جانور جو گلا گھُونٹ کر یا چوٹ کھا کر یا بلندی سے گِر کر یا ٹکر کھا کر مرا ہو یا جسے کسی درندے نے پھاڑ ا ہو۔ لیکن فی الحقیقت یہ بھی اختلاف نہیں ہے بلکہ ایک تشریح ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور اس طور پر ہلاک ہوئے ہوں وہ بھی مُردار کی تعریف میں آتے ہیں۔
فقہائے اسلام میں سے ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ حیوانی غذاؤں میں سے یہی چار چیزیں حرام ہیں اور ان کے سوا ہر چیز کا کھانا جائز ہے۔ یہی مسلک حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت عائشہ کا تھا۔ لیکن متعدّد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض چیزوں کے کھانے سے یا تو منع فرمایا ہے یا ان پر کراہت کا اظہار فرمایا ہے۔ مثلاً پالتو گدھے ، کچلیوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے ۔ اس وجہ سے اکثر فقہاء تحریم کو ان چار چیزوں تک محدُود نہیں مانتے بلکہ دُوسری چیزوں تک اسے وسیع قرار دیتے ہیں۔ مگر اس کے بعد پھر مختلف چیزوں کی حِلّت و حُرمت میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ مثلاً پالتو گدھے کو امام ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام شافعی حرام قرار دیتے ہیں۔ لیکن بعض دُوسرے فقہا کہتے ہیں کہ وہ حرام نہیں ہے بلکہ کسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اس کی ممانعت فرما دی تھی۔ درندہ جانوروں اور شکاری پرندوں اور مُردار خور حیوانات کو حنفیہ مطلقاً حرام قرار دیتے ہیں۔ مگر امام مالک اور اَوزاعی کے نزدیک شکاری پرندے حلال ہیں۔ لَیث کے نزدیک بِلّی حلال ہے۔ امام شافعی کے نزدیک صرف وہ درندے حرام ہیں جو انسان پر حملہ کرتے ہیں، جیسے شیر، بھیڑیا، چیتا وغیرہ۔ عِکْرِمہ کے نزدیک کوّا اور بجّو دونوں حلال ہیں۔ اسی طرح حنفیہ تما م حشرات الارض کو حرام قرار دیتے ہیں ، مگر ابن ابی لیلیٰ، امام مالک اور اوزاعی کے نزدیک سانپ حلال ہے۔
ان تمام مختلف اقوال اور ان کے دلائل پر غور کرنے سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ دراصل شریعت الہٰی میں قطعی حُرمت اُن چار ہی چیزوں کی ہے جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے ۔ ان کے سوا دُوسری حیوانی غذاؤں میں مختلف درجوں کی کراہت ہے۔ جن چیزوں کی کراہت صحیح روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے وہ حُرمت کے درجہ سے قریب تر ہیں اور جن چیزوں میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے ان کی کراہت مشکوک ہے۔ رہی طبعی کراہت جس کی بنا پر بعض اشخاص بعض چیزوں کو کھانا پسند نہیں کرتے، یا طبقاتی کراہت جس کی بنا پر انسانوں کے بعض طبقے بعض چیزوں کو ناپسند کرتے ہیں، یا قومی کراہت جس کی بنا پر بعض قومیں بعض چیزوں سے نفرت کرتی ہیں ، تو شریعتِ الہٰی کسی کو مجبُور نہیں کرتی کہ وہ خواہ مخواہ ہر اس چیز کو ضرور ہی کھا جائے جو حرام نہیں کی گئی ہے۔ اور اسی طرح شریعت کسی کو یہ حق بھی نہیں دیتی کہ وہ اپنی کراہت کو قانون قرار دے اور ان لوگوں پر الزام عائد کر ے جو ایسی غذائیں استعمال کرتے ہیں جنھیں وہ نا پسند کرتا ہے۔
122. یہ مضمون قرآن مجید میں تین مقامات پر بیان ہوا ہے ۔ سُورۂ آلِ عمران میں فرمایا”کھانے کی یہ ساری چیزیں (جو شریعت محمدی میں حلال ہیں)بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں ، البتہ بعض چیزیں ایسی تھیں جنھیں توراۃ کے نازل کیے جانے سے پہلے اسرائیل نے خود اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ ان سے کہو لاؤ توراۃ اور پیش کروا س کی کوئی عبارت اگر تم(اپنے اعتراض میں) سچے ہو“۔(آیت ۹۳)۔ پھر سُورہ ٔ نساء میں فرمایا کہ بنی اسرائیل کے جرائم کی بنا پر ”ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں“۔(آیت ۱۶۰)۔ اور یہاں ارشاد ہوا ہے کہ ان کی سرکشیوں کی پاداش میں ہم نے ان پر تمام ناخن والے جانور حرام کیے اور بکری اور گائے کی چربی بھی ان کے لیے حرام ٹھیرا دی۔ اِن تینون آیتوں کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت محمدی ؐ اور یہُودی فقہ کے درمیان حیوانی غذاؤں کی حِلّت و حُرمت کے معاملہ میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ دو وجوہ پر مَبنی ہے :
ایک یہ کہ نزولِ توراۃ سے صدیوں پہلے حضرت یعقوب ؑ (اسرائیل) علیہ السّلام نے بعض چیزوں کا استعمال چھوڑ دیا تھا اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی ان چیزوں کی تارک رہی، حتٰی کہ یہُودی فقہاء نے ان کو باقاعدہ حرام سمجھ لیا اور ان کی حُرمت توراۃ میں لکھ لی۔ اِن اشیاء میں اُونٹ اور خرگوش اور سافان شامل ہیں۔ آج بائیبل میں توراۃ کے جو اجزاء ہم کو ملتے ہیں اُن میں ان تینوں چیزوں کی حرمت کا ذکر ہے(احبار ۴:۱۱ – ۶ – استثناء ۷:۱۴ )۔ لیکن قرآن مجید میں یہودیوں کو جو چیلنج دیا گیا تھا کہ لاؤ توراۃ اور دکھاؤ یہ چیزیں کہاں حرام لکھی ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ توراۃ میں ان احکام کا اضافہ اس کے بعد کیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر اس وقت توراۃ میں یہ احکام موجود ہوتے تو بنی اسرائیل فوراً لا کر پیش کر دیتے۔
دُوسرا فرق اس وجہ پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی شریعت سے جب یہودیوں نے بغاوت کی اور آپ اپنے شارع بن بیٹھے تو انہوں نے بہت سے پاک چیزوں کو اپنی موشگافیوں سے خود حرام کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر انھیں اس غلط فہمی میں مبتلا رہنے دیا۔ ان اشیاء میں ایک تو ناخن والے جانور شامل ہیں ، یعنی شتر مُرغ ، قاز، بط وغیرہ۔ دُوسرے گائے اور بکری کی چربی۔ بائیبل میں ان دونوں قسم کی حرمتوں کو احکامِ توراۃ میں داخل کر دیا گیا ہے۔ (احبار ۱۶:۱۱ – ۱۸ – استثناء ۱۴:۱۴ – ۱۵ – ۱۶ – احبار ۱۷:۳ و ۲۲:۷ - ۲۳)۔ لیکن سُورہ ٔ نساء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں توراۃ میں حرام نہ تھیں بلکہ حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد حرام ہوئی ہیں ، اور تاریخ بھی شہادت دیتی ہے کہ موجودہ یہودی شریعت کی تدوین دُوسری صدی عیسوی کے آخر میں رَبّی یہوداہ کے ہاتھوں مکمل ہوئی ہے۔
رہا یہ سوال کہ پھر ان چیزوں کے متعلق یہاں اور سُورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ نے حَرَّمْنَا (ہم نے حرام کیا) کا لفظ کیوں استعمال کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدائی تحریم کی صرف یہی ایک صُورت نہیں ہے کہ وہ کسی پیغمبر اور کتاب کے ذریعہ سے کسی چیز کو حرام کرے۔ بلکہ اس کی صورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے باغی بندوں پر بناوٹی شارعوں اور جعلی قانون سازوں کو مسلّط کر دے اور وہ ان پر طیّبات کو حرام کر دیں۔ پہلی قسم کی تحریم خدا کی طرف سے رحمت کے طور پر ہوتی ہے اور یہ دُوسری قسم کی تحریم اس کی پھِٹکار اور سزا کی حیثیت سے ہوا کرتی ہے۔
123. یعنی اگر تم اب بھی اپنی نافرمانی کی روش سے باز آجاؤ اور بندگی کے صحیح رویّہ کی طرف پلٹ آؤ تو اپنے ربّ کے دامنِ رحمت کو اپنے لیے کشادہ پا ؤ گے لیکن اگر اپنی اِسی مجرمانہ و باغیانہ روش پر اَڑے رہو گے تو خوب جان لو کہ اس کے غضب سے بھی پھر کوئی بچانے والا نہیں ہے۔
124. یعنی وہ اپنے جرم اور اپنی غلط کاری کے لیے وہی پُرانا عذر پیش کریں گے جو ہمیشہ سے مجرم اور غلط کار لوگ پیش کرتے رہے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے حق میں اللہ کی مشیّت یہی ہے کہ ہم شرک کریں اور جن چیزوں کو ہم نے حرام ٹھیرا رکھا ہے انھیں حرام ٹھیرائیں۔ ورنہ اگر خدا نہ چاہتا کہ ہم ایسا کریں تو کیوں کر ممکن تھا کہ یہ افعال ہم سے صادر ہوتے ۔ پس چونکہ ہم اللہ کی مشیّت کے مطابق یہ سب کچھ کر رہے ہیں اس لیے درست کر رہے ہیں، اس کا الزام اگر ہے تو ہم پر نہیں ، اللہ پر ہے۔ اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں ایسا ہی کرنے پر مجبور ہیں کہ اس کے سوا کچھ اور کرنا ہماری قدرت سے باہر ہے۔
125. یہ ان کے عذر کا مکمل جواب ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے اس کا تجزیہ کر کے دیکھنا چاہیے:
پہلی بات یہ فرمائی کہ اپنی غلط کاری و گمراہی کے لیے مشیتِ الہٰی کو معذرت کے طور پر پیش کرنا اور اسے بہانہ بنا کر صحیح رہنمائی کو قبول کرنے سے انکار کرنا مجرموں کا قدیم شیوہ رہا ہے ، اور اس کا انجام یہ ہوا ہے کہ آخر کار وہ تباہ ہوئے اور حق کے خلاف چلنے کا بُرا نتیجہ انہوں نے دیکھ لیا۔
پھر فرمایا کہ یہ عذر جو تم پیش کررہے ہو یہ دراصل علمِ حقیقت پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض گمان اور تخمینہ ہے۔ تم نے محض مشیّت کا لفظ کہیں سے سُن لیا اور اس پر قیاسات کی ایک عمارت کھڑی کر لی ۔ تم نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ انسان کے حق میں فی الواقع اللہ کی مشیّت کیا ہے۔ تم مشیّت کے معنی یہ سمجھ رہے ہو کہ چور اگر مشیّتِ الہٰی کے تحت چوری کر رہا ہے تو وہ مجرم نہیں ہے ، کیونکہ اس نے یہ فعل خدا کی مشیّت کے تحت کیا ہے ۔ حالانکہ دراصل انسان کے حق میں خدا کی مشیّت یہ ہے کہ وہ شکر اور کفر، ہدایت اور ضلالت ، طاعت اور معصیت میں سے جو راہ بھی اپنے لیے منتخب کرے گا، خدا وہی راہ اس کے لیے کھول دے گا، اور پھر غلط یا صحیح، جو کام بھی انسان کرنا چاہے گا ، خدا اپنی عالمگیر مصلحتوں کا لحاظ کرتے ہوئے جس حد تک مناسب سمجھے گا اُسے اس کام کا اذن اور اس کی توفیق بخش دے گا۔ لہٰذا اگر تم نے اور تمہارے باپ دادا نے مشیّتِ الہٰی کے تحت شرک اور تحریم طیّبات کی توفیق پائی تو اس کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں کہ تم لوگ اپنے اِن اعمال کے ذمّہ دار اور جواب دہ نہیں ہو۔ اپنے غلط انتخابِ راہ اور اپنے غلط ارادے اور سعی کے ذمّہ دار تو تم خود ہی ہو۔
آخر میں ایک ہی فقرے کے اندر کانٹے کی بات بھی فرما دی کہ فِللّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ، فَلَوْ شَآ ءَ لَھَدٰ کُمْ اَجْمَعِیْنَ۔ یعنی تم اپنی معذرت میں یہ حجّت پیش کرتے ہو کہ ”اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے“، اس سے پوری بات ادا نہیں ہوتی۔ پوری بات کہنا چاہتے ہو تو یوں کہو کہ ” اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا“۔ بالفاظ دیگر تم خود اپنے انتخاب سے راہِ راست اختیار کر نے پر تیار نہیں، بلکہ یہ چاہتے ہو کہ خدا نے جس طرح فرشتوں کو پیدائشی راست رَو بنایا ہے اس طرح تمھیں بھی بنا دے۔ تو بے شک اگر اللہ کی مشیّت انسان کے حق میں یہ ہوتی تو وہ ضرور ایسا کر سکتا تھا ، لیکن یہ اس کی مشیّت نہیں ہے، لہٰذا جس گمراہی کو تم نے اپنے لیے خود پسند کیا ہے اللہ بھی تمھیں اسی میں پڑا رہنے دے گا۔
126. یعنی اگر وہ شہادت کی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ شہادت اُسی بات کی دینی چاہیے جس کا آدمی کو علم ہو ، تو وہ کبھی یہ شہادت دینے کی جرأت نہ کریں گے کہ کھانے پینے پر یہ قیُود ، جو ان کے ہاں رسم کے طور پر رائج ہیں ، اور یہ پابندیاں کہ فلاں چیز کو فلاں نہ کھائے اور فلاں چیز کو فلاں کا ہاتھ نہ لگے، یہ سب خدا کی مقرر کر دہ ہیں۔ لیکن اگر یہ لوگ شہادت کی ذمہ داری کو محسُوس کیے بغیر اتنی ڈھٹائی پر اُتر آئیں کہ خدا کا نام لے کر جھُوٹی شہادت دینے میں بھی تامّل نہ کریں، تو ان کے اس جھُوٹ میں تم ان کے ساتھی نہ بنو۔ کیونکہ اُن سے یہ شہادت اس لیے طلب نہیں کی جارہی ہے کہ اگر یہ شہادت دے دیں تو تم ان کی بات مان لوگے، بلکہ اس کی غرض صرف یہ ہے کہ ان میں سے جن لوگوں کے اندر کچھ بھی راست بازی موجود ہے ان سے جب کہا جائے گا کہ کیا واقعی تم سچائی کے ساتھ اس بات کی شہادت دے سکتے ہو کہ یہ ضوابط خدا ہی کے مقرر کیے ہوئے ہیں تو وہ اپنی رسموں کی حقیقت پر غور کریں گے، اور جب ان کے مِن جانب اللہ ہونے کا کوئی ثبوت نہ پائیں گے تو ان فضول رسموں کی پابندی سے باز آجائیں گے۔