137. یعنی یہود و نصاریٰ کو۔
138. اللہ کی آیات سے مراد اس کے وہ ارشادات بھی ہیں جو قرآن کی صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کیے جارہے تھے ، اور وہ نشانیاں بھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور آپ پر ایمان لانے والوں کی پاکیزہ زندگی میں نمایاں نظر آرہی تھیں ، اور وہ آثارِ کائنات بھی جنھیں قرآن اپنی دعوت کی تائید میں شہادت کے طور پر پیش کررہا تھا۔
139. یعنی آثارِ قیامت ، یا عذاب، یا کوئی اور ایسی نشانی جو حقیقت کی بالکل پردہ کشائی کر دینے والی ہو اور جس کے ظاہر ہو جانے کے بعد امتحان و آزمائش کا کوئی سوال باقی نہ رہے۔
140. یعنی ایسی نشانیوں کو دیکھ لینے کے بعد اگر کوئی کافر اپنے کفر سے توبہ کر کے ایمان لے آئے تو اس کا ایمان لانا بے معنی ہے، اور اگر کوئی نافرمان مومن اپنی نافرمانی کی روش چھوڑ کر اطاعت کیش بن جائے تو اس کی اطاعت بھی بے معنی، اس لیے کہ ایمان اور اطاعت کی قدر تو اسی وقت تک ہے جب تک حقیقت پر دے میں ہے، مُہلت کی رسّی دراز نظر آرہی ہے، اور دنیا اپنی ساری متاعِ غرور کے ساتھ یہ دھوکا دینے کے لیے موجود ہے کہ کیسا خدا اور کہاں کی آخرت، بس کھاؤ پیو اور مزے کرو۔
141. خطاب بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، اور آپ کے واسطہ سے دینِ حق کے تمام پیرو اس کے مخاطب ہیں ۔ ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ اصل دین ہمیشہ سے یہی رہا ہے اور اب بھی یہی ہے کہ ایک خداکو الٰہ اور ربّ مانا جائے۔ اللہ کی ذات، صفات ، اختیارات اور حقوق میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ اللہ کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے آخرت پر ایمان لایا جائے ، اور اُن وسیع اُصُول و کُلّیات کے مطابق زندگی بسر کی جائے جن کی تعلیم اللہ نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ سے دی ہے۔ یہی دین تمام انسانوں کو اوّل یومِ پیدائش سے دیا گیا تھا۔ بعد میں جتنے مختلف مذاہب بنے وہ سب کے سب اس طرح بنے کہ مختلف زمانوں کے لیے لوگوں نے اپنے ذہن کی غلط اُپَچ سے ، یا خواہشاتِ نفس کے غلبہ سے، یا عقیدت کے غلو سے اس دین کو بدلا اور اس میں نئی نئی باتیں ملائیں ۔ اس کے عقائد میں اپنے اوہام و قیاسات اور فلسفوں سے کمی و بیشی اور ترمیم و تحریف کی۔ اس کے احکام میں بدعات کے اضافے کیے۔ خود ساختہ قوانین بنائے۔ جُزئیات میں موشگافیاں کیں۔ فروعی اختلافات میں مبالغہ کیا۔ اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم بنایا۔ اس کے لانے والے انبیاء اور اس کے علمبردار بزرگوں میں سے کسی کی عقیدت میں غلو کیا اور کسی کو بغض و مخالفت کا نشانہ بنایا۔ اس طرح بے شمار مذاہب اور فرقے بنتے چلے گئے اور ہر مذہب و فرقہ کی پیدائش نوعِ انسانی کو متخاصم گروہوں میں تقسیم کرتی چلی گئی۔ اب جو شخص بھی اصل دین ِ حق کا پیرو ہو اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ان ساری گروہ بندیوں سے الگ ہو جائے اور ان سب سے اپنا راستہ جدا کر لے۔
142. ”ابراہیم ؑ کا طریقہ“ یہ اس راستے کی نشان دہی کے لیے مزید ایک تعریف ہے۔ اگرچہ اس کو موسیٰ ؑ کا طریقہ یا عیسیٰ ؑ کا طریقہ بھی کہا جا سکتا تھا، مگر حضرت موسیٰ ؑ کی طرف دُنیا نے یہودیّت کو اور حضرت عیسیٰ ؑ کی طرف مسیحیت کو منسُوب کر رکھا ہے، اس لیے ”ابراہیم ؑ کا طریقہ“ فرمایا۔ حضرت ابراہیم ؑ کو یہُودی اور عیسائی ، دونوں گروہ بر حق تسلیم کرتے ہیں، اور دونوں یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ یہودیّت اور عیسائیّت کی پیدائش سے بہت پہلے گزر چکے تھے۔ نیز مشرکینِ عرب بھی ان کو راست رَو مانتے تھے اور اپنی جہالت کے باوجود کم از کم اتنی بات انھیں بھی تسلیم تھی کہ کعبہ کی بنا رکھنے والا پاکیزہ انسان خالص خدا پرست تھا نہ کہ بُت پرست۔
143. اصل میں لفظ ”نُسُک“ استعمال ہوا ہے جس کے معنی قربانی کے بھی ہیں اور اس کا اطلاق عمومیّت کے ساتھ بندگی و پرستش کی دُوسری تمام صُورتوں پر بھی ہوتا ہے۔
144. یعنی کائنات کی ساری چیزوں کا ربّ تو اللہ ہے، میرا ربّ کوئی اور کیسے ہو سکتا ہے ؟ کس طرح یہ بات معقول ہو سکتی ہے کہ ساری کائنات تو اللہ کی اطاعت کے نظام پر چل رہی ہو ، اور کائنات کا ایک جزء ہونے کی حیثیت سے میرا اپنا وجود بھی اُسی نظام پر عامل ہو، مگر میں اپنی شعُوری و اختیاری زندگی کے لیے کوئی اور ربّ تلاش کروں؟ کیا پوری کائنات کے خلاف میں اکیلا ایک دُوسرے رُخ پر چل پڑوں؟
145. یعنی ہر شخص خود ہی اپنے عمل کا ذمّہ دار ہے ، اور ایک کے عمل کی ذمہ داری دُوسرے پر نہیں ہے۔
146. اس فقرہ میں تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں:
ایک یہ کہ تمام انسان زمین میں خدا کے خلیفہ ہیں ، اس معنی میں کہ خدا نے اپنی مملوکات میں سے بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دی ہیں اور ان پر تصرّف کے اختیارات بخشے ہیں۔
دوسرے یہ کہ ان خلیفوں میں مراتب کا فرق بھی خدا ہی نے رکھا ہے ، کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدُود ، کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرّف کے اختیارات دیے ہیں اور کسی کو کم چیزوں پر ، کسی کو زیادہ قوّتِ کارکردگی دی ہے اور کسی کو کم ، اور بعض انسان بھی بعض انسانوں کی امانت میں ہیں۔
تیسرے یہ کہ یہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے، پوری زندگی ایک امتحان گاہ ہے، اور جس کو جو کچھ بھی خدا نے دیا ہے اسی میں اس کا امتحان ہے کہ اس نے کس طرح خدا کی امانت میں تصرّف کیا، کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا، اور کس حد تک اپنی قابلیّت یا ناقابلیّت کا ثبوت دیا۔ اسی امتحان کے نتیجہ پر زندگی کے دُوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعین منحصر ہے۔