Tafheem ul Quran

Surah 6 Al-An'am, Ayat 21-30

وَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوۡ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖؕ اِنَّهٗ لَا يُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ‏ ﴿6:21﴾ وَيَوۡمَ نَحۡشُرُهُمۡ جَمِيۡعًا ثُمَّ نَقُوۡلُ لِلَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡۤا اَيۡنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِيۡنَ كُنۡتُمۡ تَزۡعُمُوۡنَ‏ ﴿6:22﴾ ثُمَّ لَمۡ تَكُنۡ فِتۡـنَـتُهُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡا وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشۡرِكِيۡنَ‏ ﴿6:23﴾ اُنْظُرۡ كَيۡفَ كَذَبُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ​ وَضَلَّ عَنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يَفۡتَرُوۡنَ‏ ﴿6:24﴾ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّسۡتَمِعُ اِلَيۡكَ​​ ۚ وَجَعَلۡنَا عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ اَكِنَّةً اَنۡ يَّفۡقَهُوۡهُ وَفِىۡۤ اٰذَانِهِمۡ وَقۡرًا ​ؕ وَاِنۡ يَّرَوۡا كُلَّ اٰيَةٍ لَّا يُؤۡمِنُوۡا بِهَا​ ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوۡكَ يُجَادِلُوۡنَكَ يَقُوۡلُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِيۡرُ الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿6:25﴾ وَهُمۡ يَنۡهَوۡنَ عَنۡهُ وَيَنۡـئَوۡنَ عَنۡهُ​ۚ وَاِنۡ يُّهۡلِكُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَهُمۡ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿6:26﴾ وَلَوۡ تَرٰٓى اِذۡ وُقِفُوۡا عَلَى النَّارِ فَقَالُوۡا يٰلَيۡتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿6:27﴾ بَلۡ بَدَا لَهُمۡ مَّا كَانُوۡا يُخۡفُوۡنَ مِنۡ قَبۡلُ​ؕ وَلَوۡ رُدُّوۡا لَعَادُوۡا لِمَا نُهُوۡا عَنۡهُ وَاِنَّهُمۡ لَـكٰذِبُوۡنَ‏ ﴿6:28﴾ وَقَالُوۡۤا اِنۡ هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنۡيَا وَمَا نَحۡنُ بِمَبۡعُوۡثِيۡنَ‏  ﴿6:29﴾ وَلَوۡ تَرٰٓى اِذۡ وُقِفُوۡا عَلٰى رَبِّهِمۡ​ ؕ قَالَ اَلَـيۡسَ هٰذَا بِالۡحَـقِّ​ ؕ قَالُوۡا بَلٰى وَرَبِّنَا​ ؕ قَالَ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَكۡفُرُوۡنَ‏  ﴿6:30﴾

21 - اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان لگائے،15 یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے؟16 یقیناً ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ 22 - جس روز ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے اور مشرکوں سے پوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم اپنا خدا سمجھتے تھے 23 - تو وہ اِس کے سوا کوئی فتنہ نہ اُٹھا سکیں گے کہ (یہ جھوٹا بیان دیں کہ) اے ہمارے آقا! تیری قسم ہم ہرگز مشرک نہ تھے۔ 24 - دیکھو، اُس وقت یہ کس طرح اپنے اوپر آپ جھوٹ گھڑیں گے، اور وہاں اُن کے سارے بناوٹی معبود گم ہوجائیں گے۔ 25 - ان میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سُنتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ ہم نے اُن کے دلوں پر پردے ڈال رکھے ہیں جن کی وجہ سے وہ اس کو کچھ نہیں سمجھتے اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دی ہے (کہ سب کچھ سننے پر بھی کچھ نہیں سنتے)17۔ وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں، اس پر ایمان لاکر نہ دیں گے۔ حد یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس آکر تم سے جھگڑتے ہیں تو ان میں سے جن لوگوں نے انکار کا فیصلہ کرلیا ہے وہ(ساری باتیں سننے کے بعد) یہی کہتے ہیں کہ یہ ایک داستانِ پارینہ کے سوا کچھ نہیں۔18 26 - وہ اس امر حق کو قبول کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دُور بھاگتے ہیں۔ (وہ سمجھتے ہیں کہ اس حرکت سے وہ تمہارا کچھ بگاڑ رہے ہیں) حالانکہ دراصل وہ خود اپنی ہی تباہی کا سامان کر رہے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ 27 - کاش تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے۔ اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش کوئی صُورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے ربّ کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں۔ 28 - درحقیقت یہ بات وہ محض اس وجہ سے کہیں گے کہ جس حقیقت پر انہوں نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ اس وقت بے نقاب ہو کر ان کے سامنے آچکی ہوگی،19 ورنہ اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں جس سے انہیں منع کیا گیا ہے،وہ تو ہیں ہی جھوٹے (اس لیے اپنی اس خواہش کے اظہار میں بھی جھوٹ ہی سے کام لیں گے)۔ 29 - آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے۔ 30 - کاش وہ منظر تم دیکھ سکو جب یہ اپنے ربّ کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے۔ اس وقت ان کا ربّ ان سے پوچھے گا ”کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟“ یہ کہیں گے ”ہاں اے ہمارے ربّ!یہ حقیقت ہی ہے“۔ وہ فرمائے گا ”اچھا! تو اب اپنے انکارِ حقیقت کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو “۔ ؏۳


Notes

15. یعنی یہ دعویٰ کرے کہ خد اکے ساتھ دُوسری بہت سی ہستیاں بھی خدائی میں شریک ہیں، خدائی صفات سے متصف ہیں، خداوندانہ اختیارات رکھتی ہیں، اور اس کی مستحق ہیں کہ انسان ان کے آگے عبدیّت کا رویّہ اختیار کرے۔ نیز یہ بھی اللہ پر بہتان ہے کہ کوئی یہ کہے کہ خدا نے فلاں فلاں ہستیوں کو اپنا مقَرَّبِ خاص قرار دیا ہے اور اُسی نے یہ حکم دیا ہے ، یا کم از کم یہ کہ وہ اِس پر راضی ہے کہ ان کی طرف خدائی صفات منسُوب کی جائیں اور ان سے وہ معاملہ کیا جائے جو بندے کو اپنے خدا کے ساتھ کرنا چاہیے۔

16. اللہ کی نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں بھی ہیں جو انسان کے اپنے نفس اور ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں، اور وہ بھی جو پیغمبروں کی سیرت اور ان کے کارناموں میں ظاہر ہوئیں ، اور وہ بھی جو کتبِ آسمانی میں پیش کی گئیں۔ یہ ساری نشانیاں ایک ہی حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہیں، یعنی یہ کہ موجوداتِ عالم میں خدا صرف ایک ہے باقی سب بندے ہیں۔ اب جو شخص ان تمام نشانیوں کے مقابلہ میں کسی حقیقی شہادت کے بغیر، کسی علم، کسی مشاہدے اور کسی تجربے کے بغیر، مجرّد قیاس و گمان یا تقلید ِ آبائی کی بنا پر ، دُوسروں کو اُلُوہیّت کی صفات سے متصف اور خداوندی حقوق کا مستحق ٹھیراتا ہے ، ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ حقیقت و صداقت پر ظلم کر رہا ہے، اپنے نفس پر ظلم کررہا ہے اور کائنات کی ہر اس چیز پر ظلم کر رہا ہے جس کے ساتھ وہ اس غلط نظریہ کی بنا پر کوئی معاملہ کرتا ہے۔

17. یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ قانونِ فطرت کے تحت جو کچھ دنیا میں واقع ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسُوب فرماتا ہے ، کیونکہ دراصل اس قانون کا بنانے والا اللہ ہی ہے اور جو نتائج اس قانون کے تحت رونما ہوتے ہیں وہ سب حقیقت میں اللہ کے اذن و ارادہ کے تحت ہی رونما ہوا کرتے ہیں ۔ ہٹ دھرم منکرینِ حق کا سب کچھ سُننے پر بھی کچھ نہ سُننا اور داعی حق کی کسی بات کا اُن کےدل میں نہ اترنا اُن کی ہٹ دھرمی اور تعصب اور جمود کا فطری نتیجہ ہے۔ قانونِ فطرت یہی ہے کہ جو شخص ضد پر اُتر آتا ہے اور بے تعصّبی کے ساتھ صداقت پسند انسان کا سا رویہ اختیار کرنے پر تیّار نہیں ہوتا، اس کے دل کےدروازے ہر اس صداقت کے لیے بند ہوجاتے ہیں جو اس کی خواہشات کے خلاف ہو۔ اس بات کو جب ہم بیان کریں گے تو یوں کہیں گے کہ فلاں شخص کے دل کے دروازے بند ہیں۔ اور اسی بات کو جب اللہ بیان فرمائے گا تو یوں فرمائے گا کہ اس کے دل کے دروازے ہم نے بند کر دیے ہیں۔ کیونکہ ہم صرف واقعہ بیان کرتے ہیں اور اللہ حقیقت ِ واقعہ کا اظہار فرماتا ہے۔

18. نادان لوگوں کا عموماً یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص انہیں حق کی طرف دعوت دیتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ تم نے نئی بات کیا کہی، یہ تو سب وہی پرانی باتیں ہیں جو ہم پہلے سے سُنتے چلے آرہے ہیں۔ گویا ان احمقوں کا نظریہ یہ ہے کہ کسی بات کے حق ہونے کے لیے اس کا نیا ہونا بھی ضروری ہے اور جو بات پرانی ہے وہ حق نہیں ہے ۔ حالانکہ حق ہر زمانے میں ایک ہی رہا ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہے گا۔ خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر جو لوگ انسانوں کی رہنمائی کے لیے آگے بڑھے ہیں وہ سب قدیم ترین زمانہ سے ایک ہی امرِ حق کر پیش کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی جو اس منبعِ علم سے فائدہ اُٹھا کر کچھ پیش کرے گا وہ اسی پرانی بات کو دُہرائے گا۔ البتہ نئی بات صرف وہی لوگ نکال سکتے ہیں جو خدا کی روشنی سے محروم ہو کر ازلی و ابدی حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے اور اپنے ذہن کی اُپچ سے کچھ نظریات گھڑ کر انہیں حق کے نام سے پیش کرتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ بلاشبہ ایسے نادرہ کار ہو سکتے ہیں کہ وہ بات کہیں جو ان سے پہلے کبھی دنیا میں کسی نے نہ کہی ہو۔

19. یعنی ان کا یہ قول درحقیقت عقل و فکر کے کسی صحیح فیصلے اور کسی حقیقی تبدیلی رائے کا نتیجہ نہ ہوگا بلکہ محض مشاہدۂ حق کا نتیجہ ہوگا جس کے بعد ظاہر ہے کہ کوئی کٹّے سے کٹّا کافر بھی انکار کی جرأت نہیں کر سکتا۔