29. گزشتہ آیت میں ارشاد ہوا تھا کہ تم ایک نشانی کا مطالبہ کرتے ہو اور حال یہ ہے کہ تمہارے گرد و پیش ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں ۔ اس سلسلہ میں پہلے مثال کے طور پر حیوانات کی زندگی کے مشاہدہ کی طرف توجّہ دلائی گئی۔ اس کے بعد اب ایک دُوسری نشانی کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے جو خود منکرینِ حق کے اپنے نفس میں موجود ہے ۔ جب انسان پر کوئی آفت آجاتی ہے ، یا موت اپنی بھیانک صُورت کے ساتھ سامنے آکھڑی ہوتی ہے ، اُس وقت ایک خدا کے دامن کے سوا کوئی دُوسری پناہ گاہ اُسے نظر نہیں آتی۔ بڑے بڑے مشرک ایسے موقع پر اپنے معبُودوں کو بھُول کر خدائے واحد کو پکارنے لگتے ہیں۔ کٹّے سے کٹّا دہریہ تک خدا کے آگے دُعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیتا ہے۔ اسی نشانی کو یہاں حق نمائی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے، کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا پرستی اور توحید کی شہادت ہر انسان کے نفس میں موجود ہے جس پر غفلت و جہالت کے خواہ کتنے ہی پردے ڈال دیے گئے ہوں ، مگر پھر بھی کبھی نہ کبھی وہ اُبھر کر سامنے آجاتی ہے۔ ابُو جہل کے بیٹے عِکْرِمہ کو اسی نشانی کے مشاہدے سے ایمان کی توفیق نصیب ہوئی۔ جب مکۂ معظمہ نبی صلی علیہ وسلم کے ہاتھ پر فتح ہو گیا تو عِکْرِمہ جدّہ کی طرف بھاگے اور ایک کشتی پر سوار ہو کر حبش کی راہ لی۔ راستہ میں سخت طوفان آیا اور کشتی خطرہ میں پڑگئی۔ اوّل اوّل تو دیویوں اور دیوتاؤں کو پکارا جاتا رہا۔ مگر جب طوُفان کی شدّت بڑھی اور مسافروں کو یقین ہو گیا کہ اب کشتی ڈوب جائے گی تو سب کہنے لگے کہ یہ وقت اللہ کے سوا کسی کو پکارنے کا نہیں ہے، وہی چاہے تو ہم بچ سکتے ہیں۔ اُس وقت عِکْرِمہ کی آنکھیں کھُلیں اور ان کے دل نے آواز دی کہ اگر یہاں اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں تو کہیں اور کیوں ہو۔ یہی تو وہ بات ہے جو اللہ کا وہ نیک بندہ ہمیں بِیس برس سے سمجھا رہا ہے اور ہم خواہ مخواہ اس سے لڑ رہے ہیں۔ یہ عِکْرِمہ کی زندگی میں فیصلہ کُن لمحہ تھا۔ انہوں نے اسی وقت خدا سے عہد کیا کہ اگر میں اس طوفان سے بچ گیا تو سیدھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اس عہد کو پُورا کیا اور بعد میں آکر نہ صرف مسلمان ہوئے بلکہ اپنی بقیہ عمر اسلام کے لیے جہاد کرتے گزار دی۔
30. یہاں دلوں پر مُہر کرنے سے مراد سوچنے اور سمجھنے کی قوتیں سلب کر لینا چاہیے۔
31. نادان لوگوں کے ذہن میں ہمیشہ سے یہ احمقانہ تصوّر رہا ہے کہ جو شخص خدا رسیدہ ہواسے انسانیت سے ماوراء ہونا چاہیے، اُس سے عجائب و غرائب صادر ہونے چاہییں ، وہ ایک اشارہ کرے اور پہاڑ سونے کا بن جائے، وہ حکم دے اور زمین سے خزانے اُبلنے لگیں ، اس پر لوگوں کے اگلے پچھلے سب حالات روشن ہوں، وہ بتا دے کہ گم شدہ چیز کہاں رکھی ہے ، مریض بچ جائے گا، حاملہ کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ۔ پھر اس کو انسانی کمزوریوں اور محدودیتوں سے بھی بالاتر ہونا چاہیے۔ بھلا وہ بھی کوئی خدا رسیدہ ہوا جسے بھُوک اور پیاس لگے، جس کو نیند آئے ، جو بیوی بچّے رکھتا ہو، جو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے خرید و فروخت کرتا پھرے۔ جسے کبھی قرض لینے کی ضرورت پیش آئے اور کبھی وہ مفلسی و تنگ دستی میں مبتلا ہو کر پریشان حال رہے۔ اسی قسم کے تصوّرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصرین کی ذہنیّت پر مسلّط تھے۔ وہ جب آپ ؐ سے پیغمبری کا دعوٰی سُنتے تھے تو آپ ؐ کی صداقت جانچنے کے لیے آپ ؐ سے غیب کی خبریں پوچھتے تھے ، خوارق عادت کا مطالبہ کرتے تھے ، اور آپ کو بالکل عام انسانوں جیسا ایک انسان دیکھ کر اعتراض کرتے تھے کہ یہ اچھا پیغمبر ہے جو کھاتا پیتا ہے، بیوی بچّے رکھتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ انہی باتوں کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔
32. مطلب یہ ہے کہ میں جن حقیقتوں کو تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں ان کا میں نے مشاہدہ کیا ہے، وہ براہِ راست میرے تجربہ میں آئی ہیں، مجھے وحی کے ذریعہ سے ان کا ٹھیک ٹھیک علم دیا گیا ہے، ان کے بارے میں میری شہادت آنکھوں دیکھی شہادت ہے۔ بخلاف اس کے تم ان حقیقتوں کی طرف سے اندھے ہو، تم ان کے بارے میں جو خیالات رکھتے ہو وہ یا تو قیاس و گمان پر مبنی ہیں یا محض اندھی تقلید پر۔ لہٰذا میرے اور تمہارے درمیان بینا اور نابینا کا سا فرق ہے اور اسی اعتبار سے مجھے تم پر فوقیت حاصل ہے ، نہ اس اعتبار سے کہ میرے پاس کوئی خدائی کے خزانے ہیں، یا میں عالم ُالغیب ہوں، یا انسانی کمزوریوں سے مبرّا ہوں۔