Tafheem ul Quran

Surah 6 Al-An'am, Ayat 61-70

وَهُوَ الۡقَاهِرُ فَوۡقَ عِبَادِهٖ​ وَيُرۡسِلُ عَلَيۡكُمۡ حَفَظَةً  ؕ حَتّٰٓى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الۡمَوۡتُ تَوَفَّتۡهُ رُسُلُـنَا وَهُمۡ لَا يُفَرِّطُوۡنَ‏  ﴿6:61﴾ ثُمَّ رُدُّوۡۤا اِلَى اللّٰهِ مَوۡلٰٮهُمُ الۡحَـقِّ​ؕ اَلَا لَهُ الۡحُكۡمُ وَهُوَ اَسۡرَعُ الۡحَاسِبِيۡنَ‏ ﴿6:62﴾ قُلۡ مَنۡ يُّنَجِّيۡكُمۡ مِّنۡ ظُلُمٰتِ الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ تَدۡعُوۡنَهٗ تَضَرُّعًا وَّخُفۡيَةً ۚ لَـئِنۡ اَنۡجٰٮنَا مِنۡ هٰذِهٖ لَـنَكُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيۡنَ‏  ﴿6:63﴾ قُلِ اللّٰهُ يُنَجِّيۡكُمۡ مِّنۡهَا وَمِنۡ كُلِّ كَرۡبٍ ثُمَّ اَنۡـتُمۡ تُشۡرِكُوۡنَ‏  ﴿6:64﴾ قُلۡ هُوَ الۡقَادِرُ عَلٰٓى اَنۡ يَّبۡعَثَ عَلَيۡكُمۡ عَذَابًا مِّنۡ فَوۡقِكُمۡ اَوۡ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِكُمۡ اَوۡ يَلۡبِسَكُمۡ شِيَـعًا وَّيُذِيۡقَ بَعۡضَكُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ​ؕ اُنْظُرۡ كَيۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّهُمۡ يَفۡقَهُوۡنَ‏ ﴿6:65﴾ وَكَذَّبَ بِهٖ قَوۡمُكَ وَهُوَ الۡحَـقُّ​ ؕ قُلْ لَّسۡتُ عَلَيۡكُمۡ بِوَكِيۡلٍؕ‏  ﴿6:66﴾ لِّـكُلِّ نَبَاٍ مُّسۡتَقَرٌّ​ وَّسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿6:67﴾ وَاِذَا رَاَيۡتَ الَّذِيۡنَ يَخُوۡضُوۡنَ فِىۡۤ اٰيٰتِنَا فَاَعۡرِضۡ عَنۡهُمۡ حَتّٰى يَخُوۡضُوۡا فِىۡ حَدِيۡثٍ غَيۡرِهٖ​ ؕ وَاِمَّا يُنۡسِيَنَّكَ الشَّيۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّكۡرٰى مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿6:68﴾ وَمَا عَلَى الَّذِيۡنَ يَتَّقُوۡنَ مِنۡ حِسَابِهِمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ وَّلٰـكِنۡ ذِكۡرٰى لَعَلَّهُمۡ يَتَّقُوۡنَ‏ ﴿6:69﴾ وَذَرِ الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا دِيۡنَهُمۡ لَعِبًا وَّلَهۡوًا وَّغَرَّتۡهُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا​ وَ ذَكِّرۡ بِهٖۤ اَنۡ تُبۡسَلَ نَفۡسٌ ۢ بِمَا كَسَبَتۡ​ۖ لَـيۡسَ لَهَا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَلِىٌّ وَّلَا شَفِيۡعٌ​ ۚ وَاِنۡ تَعۡدِلۡ كُلَّ عَدۡلٍ لَّا يُؤۡخَذۡ مِنۡهَا​ ؕ اُولٰٓـئِكَ الَّذِيۡنَ اُبۡسِلُوۡا بِمَا كَسَبُوۡا​ ۚ لَهُمۡ شَرَابٌ مِّنۡ حَمِيۡمٍ وَّعَذَابٌ اَ لِيۡمٌۢ بِمَا كَانُوۡا يَكۡفُرُوۡنَ‏  ﴿6:70﴾

61 - اپنے بندوں پر وہ پُوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کرکے بھیجتا ہے،40 یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی مَوت کا وقت آجاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دینے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے۔ 62 - پھر سب کے سب اللہ، اپنے حقیقی آقا کی طرف واپس لائے جاتے ہیں۔ خبردار ہوجاوٴ، فیصلہ کے سارے اختیارات اسی کو حاصِل ہیں اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔ 63 - اے محمد ؐ ! اِن سے پوچھو، صَحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے؟ کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گِڑ گِڑا گِڑ گِڑا کر اور چُپکے چُپکے دُعائیں مانگتے ہو؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے تُو نے ہم کو بچالیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے؟ 64 - ۔۔۔۔ کہو، اللہ تمہیں اُس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے پھر تم دُوسروں کو اُس کا شریک ٹھیراتے ہو۔41 65 - کہو، وہ اِس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اُوپر سے نازل کردے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کردے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دُوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔ دیکھو، ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں۔42 66 - تمہاری قوم اُس کا انکار کر رہی ہے حالانکہ وہ حقیقت ہے۔ اِن سے کہہ دو کہ میں تم پر حوالہ دار نہیں بنایا گیا ہوں،43 67 - ہر خبر کے ظہور میں آنے کا ایک وقت مقرر ہے، عنقریب تم کو خود انجام معلوم ہوجائے گا۔ 68 - اور اے محمد ؐ ، جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیات پر نکتہ چینیاں کر رہے ہیں تو ان کے پاس سے ہٹ جاوٴ یہاں تک کہ وہ اس گفتگو کو چھوڑ کر دُوسری باتوں میں لگ جائیں۔ اور اگر کبھی شیطان تمہیں بھُلاوے میں ڈال دے44 تو جس وقت تمہیں اس غلطی کا احساس ہوجائے اس کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے پاس نہ بیٹھو۔ 69 - اُن کے حساب میں سے کسی چیز کی ذمّہ داری پرہیز گار لوگوں پر نہیں ہے، البتّہ نصیحت کرنا اُن کا فرض ہے شاید کہ وہ غلط روی سے بچ جائیں۔45 70 - چھوڑو اُن لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ ہاں مگر یہ قرآن سُناکر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کیے کرتُوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے، اور گرفتار بھی اِس حال میں ہو کہ اللہ سے بچانے والا کوئی حامی و مددگار اور کوئی سفارشی اس کے لیے نہ ہو، اور اگر وہ ہر ممکن چیز فدیہ میں دے کر چھُوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے، کیونکہ ایسے لوگ تو خود اپنی کمائی کے نتیجہ میں پکڑے جائیں گے، ان کو تو اپنے انکار حق کے معاوضہ میں کھولتا ہوا پانی پینے کو اور دردناک عذاب بھگتنے کو ملے گا۔ ؏۸


Notes

40. یعنی ایسے فرشتے جو تمہاری ایک ایک جنبش اور ایک ایک بات پر نگاہ رکھتے ہیں اور تمہاری ہر ہر حرکت کا ریکارڈ محفوظ کرتے رہتے ہیں۔

41. یعنی یہ حقیقت کہ تنہا اللہ ہی قادرِ مطلق ہے، اور وہی تمام اختیارات کا مالک اور تمہاری بھَلائی اور بُرائی کا مختارِ کُل ہے ، اور اسی کے ہاتھ میں تمہاری قسمتوں کی باگ دوڑ ہے ، اِس کی شہادت تو تمہارے اپنے نفس میں موجود ہے ۔ جب کوئی سخت وقت آتا ہے اور اسباب کے سر رشتے ٹوٹتے نظر آتے ہیں تو اس وقت تم بے اختیار اُسی کی طرف رجوع کرتے ہو۔ لیکن اس کھُلی علامت کے ہوتے ہوئے بھی تم نے خدائی میں بلا دلیل و حجّت اور بلا ثبُوت دُوسروں کو اس کا شریک بنا رکھا ہے۔ پلتے ہو اس کے رزق پر اور اَن داتا بناتے ہو دُوسروں کو ۔ مدد پاتے ہو اس کے فضل و کرم سے اور حامی و ناصر ٹھیراتے ہو دُوسروں کو۔ غلام ہو اس کے اور بندگی بجا لاتے ہو دُوسروں کی۔ مشکل کشائی کرتا ہے وہ ، بُرے وقت پر گِڑگِڑ اتے ہو اس کے سامنے، اور جب وہ وقت گزر جاتا ہے تو تمہارے مشکل کشا بن جاتے ہیں دُوسرے اور نذریں اور نیازیں چڑھنے لگتی ہیں دُوسروں کے نام کی۔

42. جو لوگ عذابِ الہٰی کو اپنے سے دُور پا کر حق دشمنی میں جرأت پر جرأت دکھا رہے تھے انہیں متنبّہ کیا جا رہا ہے کہ اللہ کے عذاب کو آتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ ہوا کا ایک طوفان تمہیں اچانک برباد کر سکتا ہے۔ زلزلے کا ایک جھٹکا تمہاری بستیوں کو پیوندِ خاک کر دینے کے لیے کافی ہے ۔ قبیلوں اور قوموں اور ملکوں کی عداوتوں کے میگزین میں ایک چنگاری وہ تباہی پھیلا سکتی ہے کہ سالہا سال تک خونریزی و بدامنی سے نجات نہ ملے ۔ پس اگر عذاب نہیں آرہا ہے تو یہ تمہارے لیے غفلت و مدہوشی کی پیِنَک نہ بن جائے کہ مطمئن ہو کر صحیح و غلط کا امتیاز کیے بغیر اندھوں کی طرح زندگی کے راستے پر چلتے رہو۔ غنیمت سمجھو کہ اللہ تمہیں مُہلت دے رہا ہے اور وہ نشانیاں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے جن سے تم حق کو پہچان کر صحیح راستہ اختیار کر سکو۔

43. یعنی میرا یہ کام نہیں ہے کہ جو کچھ تم نہیں دیکھ رہے ہو وہ زبر دستی تمہیں دکھاؤں اور جو کچھ تم نہیں سمجھ رہے ہو وہ بزور تمہاری سمجھ میں اتار دوں۔ اور میرا یہ کام بھی نہیں ہے کہ اگر تم نہ دیکھو اور نہ سمجھو تو تم پر عذاب نازل کر دوں۔ میرا کام صرف حق اور باطل کو ممیز کر کے تمہارے سامنے پیش کردینا ہے۔ اب اگر تم نہیں مانتے تو جس بُرے انجام سے میں تمہیں ڈراتا ہوں وہ اپنے وقت پر خود تمہارے سامنے آجائے گا۔

44. یعنی اگر کسی وقت ہماری یہ ہدایت تمہیں یاد نہ رہے اور تم بھُولے سے ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھے رہ جاؤ۔

45. مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا کی نا فرمانی سے خود بچ کر کام کرتے ہیں ان پر نافرمانوں کے کسی عمل کی ذمہ داری نہیں ہے، پھر وہ کیوں خواہ مخواہ اس بات کو اپنے اوپر فرض کر لیں کہ ان نافرمانوں سے بحث و مناظرہ کر کے ضرور انہیں قائل کر کے ہی چھوڑیں گے، اور ان کے ہر لغو و مہمل اعتراض کا جواب ضرور ہی دیں گے ، اور اگر وہ نہ مانتےہوں تو کسی نہ کسی طرح منوا کر ہی رہیں گے۔ ان کا فرض بس اتنا ہے کہ جنہیں گمراہی میں بھٹکتے دیکھ رہے ہوں انہیں نصیحت کریں اور حق بات ان کے سامنے پیش کر دیں ۔ پھر اگر وہ نہ مانیں اور جھگڑے اور بحث اور حجت بازیوں پر اُتر آئیں تو اہلِ حق کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کے ساتھ دماغی کُشتیاں لڑنے میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں ضائع کرتے پھریں۔ ضلالت پسند لوگوں کے بجائے انہیں اپنے وقت اور اپنی قوتوں کو اُن لوگوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح و تلقین پر صرف کرنی چاہیے جو خود طالبِ حق ہوں۔