40. یعنی ایسے فرشتے جو تمہاری ایک ایک جنبش اور ایک ایک بات پر نگاہ رکھتے ہیں اور تمہاری ہر ہر حرکت کا ریکارڈ محفوظ کرتے رہتے ہیں۔
41. یعنی یہ حقیقت کہ تنہا اللہ ہی قادرِ مطلق ہے، اور وہی تمام اختیارات کا مالک اور تمہاری بھَلائی اور بُرائی کا مختارِ کُل ہے ، اور اسی کے ہاتھ میں تمہاری قسمتوں کی باگ دوڑ ہے ، اِس کی شہادت تو تمہارے اپنے نفس میں موجود ہے ۔ جب کوئی سخت وقت آتا ہے اور اسباب کے سر رشتے ٹوٹتے نظر آتے ہیں تو اس وقت تم بے اختیار اُسی کی طرف رجوع کرتے ہو۔ لیکن اس کھُلی علامت کے ہوتے ہوئے بھی تم نے خدائی میں بلا دلیل و حجّت اور بلا ثبُوت دُوسروں کو اس کا شریک بنا رکھا ہے۔ پلتے ہو اس کے رزق پر اور اَن داتا بناتے ہو دُوسروں کو ۔ مدد پاتے ہو اس کے فضل و کرم سے اور حامی و ناصر ٹھیراتے ہو دُوسروں کو۔ غلام ہو اس کے اور بندگی بجا لاتے ہو دُوسروں کی۔ مشکل کشائی کرتا ہے وہ ، بُرے وقت پر گِڑگِڑ اتے ہو اس کے سامنے، اور جب وہ وقت گزر جاتا ہے تو تمہارے مشکل کشا بن جاتے ہیں دُوسرے اور نذریں اور نیازیں چڑھنے لگتی ہیں دُوسروں کے نام کی۔
42. جو لوگ عذابِ الہٰی کو اپنے سے دُور پا کر حق دشمنی میں جرأت پر جرأت دکھا رہے تھے انہیں متنبّہ کیا جا رہا ہے کہ اللہ کے عذاب کو آتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ ہوا کا ایک طوفان تمہیں اچانک برباد کر سکتا ہے۔ زلزلے کا ایک جھٹکا تمہاری بستیوں کو پیوندِ خاک کر دینے کے لیے کافی ہے ۔ قبیلوں اور قوموں اور ملکوں کی عداوتوں کے میگزین میں ایک چنگاری وہ تباہی پھیلا سکتی ہے کہ سالہا سال تک خونریزی و بدامنی سے نجات نہ ملے ۔ پس اگر عذاب نہیں آرہا ہے تو یہ تمہارے لیے غفلت و مدہوشی کی پیِنَک نہ بن جائے کہ مطمئن ہو کر صحیح و غلط کا امتیاز کیے بغیر اندھوں کی طرح زندگی کے راستے پر چلتے رہو۔ غنیمت سمجھو کہ اللہ تمہیں مُہلت دے رہا ہے اور وہ نشانیاں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے جن سے تم حق کو پہچان کر صحیح راستہ اختیار کر سکو۔
43. یعنی میرا یہ کام نہیں ہے کہ جو کچھ تم نہیں دیکھ رہے ہو وہ زبر دستی تمہیں دکھاؤں اور جو کچھ تم نہیں سمجھ رہے ہو وہ بزور تمہاری سمجھ میں اتار دوں۔ اور میرا یہ کام بھی نہیں ہے کہ اگر تم نہ دیکھو اور نہ سمجھو تو تم پر عذاب نازل کر دوں۔ میرا کام صرف حق اور باطل کو ممیز کر کے تمہارے سامنے پیش کردینا ہے۔ اب اگر تم نہیں مانتے تو جس بُرے انجام سے میں تمہیں ڈراتا ہوں وہ اپنے وقت پر خود تمہارے سامنے آجائے گا۔
44. یعنی اگر کسی وقت ہماری یہ ہدایت تمہیں یاد نہ رہے اور تم بھُولے سے ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھے رہ جاؤ۔
45. مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا کی نا فرمانی سے خود بچ کر کام کرتے ہیں ان پر نافرمانوں کے کسی عمل کی ذمہ داری نہیں ہے، پھر وہ کیوں خواہ مخواہ اس بات کو اپنے اوپر فرض کر لیں کہ ان نافرمانوں سے بحث و مناظرہ کر کے ضرور انہیں قائل کر کے ہی چھوڑیں گے، اور ان کے ہر لغو و مہمل اعتراض کا جواب ضرور ہی دیں گے ، اور اگر وہ نہ مانتےہوں تو کسی نہ کسی طرح منوا کر ہی رہیں گے۔ ان کا فرض بس اتنا ہے کہ جنہیں گمراہی میں بھٹکتے دیکھ رہے ہوں انہیں نصیحت کریں اور حق بات ان کے سامنے پیش کر دیں ۔ پھر اگر وہ نہ مانیں اور جھگڑے اور بحث اور حجت بازیوں پر اُتر آئیں تو اہلِ حق کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کے ساتھ دماغی کُشتیاں لڑنے میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں ضائع کرتے پھریں۔ ضلالت پسند لوگوں کے بجائے انہیں اپنے وقت اور اپنی قوتوں کو اُن لوگوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح و تلقین پر صرف کرنی چاہیے جو خود طالبِ حق ہوں۔