Tafheem ul Quran

Surah 6 Al-An'am, Ayat 71-82

قُلۡ اَنَدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنۡفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلٰٓى اَعۡقَابِنَا بَعۡدَ اِذۡ هَدٰٮنَا اللّٰهُ كَالَّذِى اسۡتَهۡوَتۡهُ الشَّيٰطِيۡنُ فِى الۡاَرۡضِ حَيۡرَانَ لَـهٗۤ اَصۡحٰبٌ يَّدۡعُوۡنَهٗۤ اِلَى الۡهُدَى ائۡتِنَا ​ؕ قُلۡ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الۡهُدٰى​ؕ وَاُمِرۡنَا لِنُسۡلِمَ لِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ‏ ﴿6:71﴾ وَاَنۡ اَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّقُوۡهُ​ ؕ وَهُوَ الَّذِىۡۤ اِلَيۡهِ تُحۡشَرُوۡنَ‏  ﴿6:72﴾ وَهُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ بِالۡحَـقِّ​ؕ وَيَوۡمَ يَقُوۡلُ كُنۡ فَيَكُوۡنُؕ  قَوۡلُهُ الۡحَـقُّ​ ؕ وَلَهُ الۡمُلۡكُ يَوۡمَ يُنۡفَخُ فِى الصُّوۡرِ​ ؕ عٰلِمُ الۡغَيۡبِ وَ الشَّهَادَةِ​ ؕ وَهُوَ الۡحَكِيۡمُ الۡخَبِيۡرُ‏ ﴿6:73﴾ وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهِيۡمُ لِاَبِيۡهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِهَةً ​ ۚ اِنِّىۡۤ اَرٰٮكَ وَقَوۡمَكَ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿6:74﴾ وَكَذٰلِكَ نُرِىۡۤ اِبۡرٰهِيۡمَ مَلَـكُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَلِيَكُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِـنِيۡنَ‏ ﴿6:75﴾ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيۡهِ الَّيۡلُ رَاٰ كَوۡكَبًا ​ۚ قَالَ هٰذَا رَبِّىۡ​ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِيۡنَ‏ ﴿6:76﴾ فَلَمَّا رَاَالۡقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّىۡ ​ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَـئِنۡ لَّمۡ يَهۡدِنِىۡ رَبِّىۡ لَاَ كُوۡنَنَّ مِنَ الۡقَوۡمِ الضَّآ لِّيۡنَ‏  ﴿6:77﴾ فَلَمَّا رَاٰ الشَّمۡسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّىۡ هٰذَاۤ اَكۡبَرُ​ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتۡ قَالَ يٰقَوۡمِ اِنِّىۡ بَرِىۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿6:78﴾ اِنِّىۡ وَجَّهۡتُ وَجۡهِىَ لِلَّذِىۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ حَنِيۡفًا​ وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ​ۚ‏ ﴿6:79﴾ وَحَآجَّهٗ قَوۡمُهٗ ​ؕ قَالَ اَتُحَآجُّٓونِّىۡ فِى اللّٰهِ وَقَدۡ هَدٰٮنِ​ؕ وَلَاۤ اَخَافُ مَا تُشۡرِكُوۡنَ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ يَّشَآءَ رَبِّىۡ شَيۡـئًـا ​ؕ وَسِعَ رَبِّىۡ كُلَّ شَىۡءٍ عِلۡمًا​ؕ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿6:80﴾ وَكَيۡفَ اَخَافُ مَاۤ اَشۡرَكۡتُمۡ وَلَا تَخَافُوۡنَ اَنَّكُمۡ اَشۡرَكۡتُمۡ بِاللّٰهِ مَا لَمۡ يُنَزِّلۡ بِهٖ عَلَيۡكُمۡ سُلۡطٰنًا ​ؕ فَاَىُّ الۡفَرِيۡقَيۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ​ۚ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ​ۘ‏ ﴿6:81﴾ اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَمۡ يَلۡبِسُوۡۤا اِيۡمَانَهُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰۤـئِكَ لَهُمُ الۡاَمۡنُ وَهُمۡ مُّهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿6:82﴾

71 - اے محمد ؐ! اِن سے پُوچھو کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پُکاریں جو نہ ہمیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان؟ اور جبکہ اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا چکا ہے تو کیا اب ہم اُلٹے پاوٴں پھر جائیں؟ کیا ہم اپنا حال اُس شخص کا سا کرلیں جسے شیطانوں نے صحرا میں بھٹکا دیا ہو اور وہ حیران و سر گردان پھر رہا ہو دراں حالیکہ اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ اِدھر آ یہ سیدھی راہ موجود ہے؟ کہو، حقیقت میں صحیح رہنمائی تو صرف اللہ ہی کی رہنمائی ہے اور اس کی طرف سے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ مالک کائنات کے آگے سرِ اطاعت خم کردو، 72 - نماز قائم کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو، اسی کی طرف تم سمیٹے جاوٴ گے۔ 73 - وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔46 اور جس دن وہ کہے گا کہ حشر ہوجائے اسی دن وہ ہوجائے گا۔ اس کا ارشاد عین حق ہے۔ اور جس روز صُور پھونکا جائیگا47 اس روز پادشاہی اُسی کی ہوگی،48 وہ غیب اور شہادت49 ہر چیز کا عالم ہے اور دانا اور باخبر ہے۔ 74 - ابراہیمؑ کاواقعہ یاد کرو جبکہ اُس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا ”کیا تُو بتوں کو خدا بناتا ہے؟50میں تو تجھے اور تیری قوم کو کُھلی گمراہی میں پاتا ہوں“۔ 75 - ابراہیمؑ کو ہم اِسی طرح زمین اور آسمانوں کا نظامِ سلطنت دکھاتے تھے51 اور اس لیے دکھاتے تھے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے۔52 76 - چنانچہ جب رات اس پر طاری ہوئی تو اُس نے ایک تارا دیکھا۔ کہا یہ میرا رب ہے۔ مگر جب وہ ڈوب گیا تو بولا ڈوب جانے والوں کا تو میں گرویدہ نہیں ہوں۔ 77 - پھر جب چاند چمکتا نظر آیا تو کہا یہ ہے میرا رب۔ مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ کی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں شامل ہوگیا ہوتا۔ 78 - پھر جب سورج کو روشن دیکھا تو کہا یہ ہے میرا رب، یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی ڈوبا تو ابراہیم ؑ پکار اُٹھا ”اے برادران ِقوم ! میں اُن سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھیراتے ہو ۔53 79 - میں نے تو یکسُو ہو کر اپنا رُخ اُس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانون کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔“ 80 - اس کی قوم اس سے جھگڑنے لگی تو اس نے قوم سے کہا ”کیا تم لوگ اللہ کے معاملے میں مجھ سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ اس نے مجھے راہِ راست دکھادی ہے۔ اور میں تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے نہیں ڈرتا، ہاں اگر میرا رب کچھ چاہے تو وہ ضرور ہوسکتا ہے۔ میرے رب کا عِلم ہر چیز پر چھایا ہوٴا ہے، پھر کیا تم ہوش میں نہ آوٴ گے؟54 81 - اور آخر میں تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں سے کیسے ڈروں جبکہ تم اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو خدائی میں شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے لیے اس نے تم پر کوئی سند نازل نہیں کی ہے؟ ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بے خوفی و اطمینان کا مستحق ہے؟ بتاوٴ اگر تم کچھ علم رکھتے ہو۔ 82 - حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا “۔55 ؏۹


Notes

46. قرآن میں یہ بات جگہ جگہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے یا حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ یہ ارشاد بہت وسیع معانی پر مشتمل ہے۔

اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تخلیق محض کھیل کے طور پر نہیں ہوئی ہے۔ یہ ایشورجی کی لِیلا نہیں ہے۔ یہ کسی بچے کا کھلونا نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے وہ اس سے کھیلتا رہے اور پھر یونہی اُسے توڑ پھوڑ کر پھینک دے ۔ دراصل یہ ایک نہایت سنجیدہ کام ہے جو حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے، ایک مقصدِ عظیم اس کے اندر کارفرما ہے ، اور اس کا ایک دَور گزر جانے کے بعد ناگزیر ہے کہ خالق اُس پُورے کام کا حساب لے جو اُس دَور میں انجام پایا ہو اور اسی دَور کے نتائج پر دُوسرے دَور کی بُنیاد رکھے۔ یہی بات ہے جو دُوسرے مقامات پر یوں بیان کی گئی ہے: رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَا طِلاً۔”اے ہمارے ربّ، تُو نے یہ سب کچھ فضول پیدا نہیں کیا ہے“۔ اور وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآ ءَ وَالْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ۔” ہم نے آسمان و زمین اور ان چیزوں کو جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں کھیل کے طور پیدا نہیں کیا ہے“۔ اور اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُر ْجَعُوْنَ۔” تو کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمھیں یونہی فضول پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف واپس نہ لائے جاؤ گے“ ؟

دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے یہ سارا نظام ِ کائنات حق کی ٹھوس بُنیادوں پر قائم کیا ہے ۔ عدل اور حکمت اور راستی کے قوانین پر اس کی ہر چیز مبنی ہے۔ باطل کے لیے فی الحقیقت اس نظام میں جڑ پکڑنے اور بار آور ہونے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہ اَور بات ہے کہ اللہ باطل پرستوں کو موقع دیدے کہ وہ اگر اپنے جھُوٹ اور ظلم اور ناراستی کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو اپنی کوشش کر دیکھیں۔ لیکن آخر کار زمین باطل کے ہر بیج کو اُگل کر پھینک دے گی اور آخری فرد حساب میں ہر باطل پرست دیکھ لے گا کہ جو کوششیں اس نے اس شجرِ خبیث کی کاشت اور آبیاری میں صرف کیں وہ سب ضائع ہو گئیں۔

تیسرا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اس ساری کائنات کو بربنائے حق پیدا کیا ہے اور اپنے ذاتی حق کی بنا پر ہی وہ اس پر فرماں روائی کر رہا ہے۔ اس کا حکم یہاں اس لیے چلتا ہے کہ وہی اپنی پیدا کی ہوئی کائنات میں حکمرانی کا حق رکھتا ہے۔ دُوسروں کا حکم اگر بظاہر چلتا نظر بھی آتا ہے تو اس سے دھوکا نہ کھاؤ، فی الحقیقت نہ ان کا حکم چلتا ہے، نہ چل سکتا ہے ، کیونکہ کائنات کی کسی چیز پر بھی ان کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اس پر اپنا حکم چلائیں۔

47. صُور پھوُنکنے کی صحیح کیفیت کیا ہوگی، اس کی تفصیل ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ قرآن سے جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ قیامت کے روز اللہ کے حکم سے ایک مرتبہ صُور پھُونکا جائے گا اور سب ہلاک ہو جائیں گے ۔ پھر نا معلوم کتنی مدّت بعد، جسے اللہ ہی جانتا ہے، دُوسرا صُور پھُونکا جائے گا اور تمام اوّلین و آخرین ازسرِ نو زندہ ہو کر اپنے آپ کو میدانِ حشر میں پائیں گے۔ پہلے صُور پر سارا نظامِ کائنات درہم برہم ہو گا اور دُوسرے صُور پر ایک دُوسرا نظام نئی صُورت اور نئے قوانین کے ساتھ قائم ہو جائے گا۔

48. یہ مطلب نہیں ہے کہ آج پادشاہی اس کی نہیں ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُس روز جب پردہ اُٹھایا جائے گا اور حقیقت بالکل سامنے آجائے گی تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ سب جو با اختیار نظر آتے تھے ، یا سمجھے جاتے تھے ، بالکل بے اختیار ہیں اور پادشاہی کے سارے اختیارات اسی ایک خدا کے لیے ہیں جس نے کائنات کو پیدا کیا ہے۔

49. غیب = وہ سب کچھ جو مخلوقات سے پوشیدہ ہے۔

شھادت = وہ سب کچھ جو مخلوقات کے لیے ظاہر و معلوم ہے۔

50. یہاں حضرت ابراہیم ؑ کے واقعہ کا ذکر اس امر کی تائید اور شہادت میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جس طرح اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت سے آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ ؐ کے ساتھیوں نے شرک کا انکار کیا ہے اور سب مصنوعی خداؤں سے منہ موڑ کر صرف ایک مالکِ کائنات کے آگے سرِ اطاعت خم کر دیا ہے اسی طرح کل یہی کچھ ابراہیم ؑ بھی کر چکے ہیں۔ اور جس طرح آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والوں سے ان کی جاہل قوم جھگڑ رہی ہے اسی طرح کل حضرت ابراہیم ؑ سے بھی ان کی قوم یہی جھگڑا کر چکی ہے۔ اور کل جو جواب حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی قوم کو دیا تھا آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیرووں کی طرف سے ان کی قوم کو بھی وہی جواب ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس راستہ پر ہیں جو نوح ؑ اور ابراہیم ؑ اور نسلِ ابراہیمی کے تمام انبیاء کا راستہ رہا ہے۔ اب جو لوگ ان کی پیروی سے انکار کر رہے ہیں انھیں معلوم ہو جانا چاہیے کہ وہ انبیاء کے طریقہ سے ہٹ کر ضلالت کی راہ پر جا رہے ہیں۔

یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ عرب کے لوگ بالعموم حضرت ابراہیم ؑ کو اپنا پیشوا اور مقتدا مانتے تھے ۔ خصُوصاً قریش کے تو فخر و ناز کی ساری بُنیاد ہی یہ تھی کہ وہ ابراہیم علیہ السّلام کی اولاد اور ان کے تعمیر کردہ خانۂ خدا کے خادم ہیں۔ اس لیے ان کے سامنے حضرت ابراہیم ؑ کے عقیدۂ توحید کا اور شرک سے اُن کا انکار اور مشرک قوم سے اُن کی نزاع کا ذکر کرنے کے معنی یہ تھے کہ قریش کا سارا سرمایۂ فخر و ناز اور کفارِ عرب کا اپنے مشرکانہ دین پر سارا اطمینان ان سے چھین لیا جائے اور اُن پر ثابت کر دیا جائے کہ آج مسلمان اُس مقام پر ہیں جس پر حضرت ابراہیم ؑ تھے اور تمہاری حیثیت وہ ہے جو حضرت ابراہیم ؑ سے لڑنے والی جاہل قوم کی تھی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے معتقدوں اور قادری النسب پیرزادوں کے سامنے حضرت شیخ کی اصل تعلیمات اور ان کی زندگی کے واقعات پیش کر کے یہ ثابت کر دے کہ جن بزرگ کے تم نام لیوا ہو، تمہارا اپنا طریقہ ان کے بالکل خلاف ہے اور تم نے آج انہی گمراہ لوگوں کی حیثیت اختیار کر لی ہے جن کے خلاف تمہارے مقتدا تمام عمر جہاد کرتے رہے۔

51. یعنی جس طرح تم لوگوں کے سامنے آثارِ کائنات نمایاں ہیں اور اللہ کی نشانیاں تمھیں دکھائی جا رہی ہیں، اُسی طرح ابراہیم ؑ کے سامنے بھی یہی آثار تھے اور یہی نشانیاں تھیں۔ مگر تم لوگ انھیں دیکھنے پر بھی اندھوں کی طرح کچھ نہیں دیکھتے اور ابراہیم ؑ نے انھیں آنکھیں کھول کر دیکھا۔ یہی سُورج اور چاند اور تارے جو تمہارے سامنے طلوع و غروب ہوتے ہیں اور روزانہ تم کو جیسا گمراہ طلوع ہوتے وقت پاتے ہیں ویسا ہی غروب ہوتے وقت چھوڑ جاتے ہیں، انہی کو اُس آنکھوں والے انسان نے بھی دیکھا تھا اور انہی نشانات سے وہ حقیقت تک پہنچ گیا۔

52. اس مقام کو اور قرآن کے اُن دُوسرے مقامات کو جہاں حضرت ابراہیم ؑ سے اُن کی قوم کی نزاع کا ذکر آیا ہے، اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی قوم کے مذہبی و تمدّنی حالات پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ جدید اثری تحقیقات کے سلسلہ میں نہ صرف وہ شہر دریافت ہو گیا ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ پیدا ہوئے تھے ، بلکہ دَور ِ ابراہیمی میں اُس علاقے کے لوگوں کی جو حالت تھی اس پر بھی بہت کچھ روشنی پڑی ہے۔ سر لیو نارڈو وُلی (Sir Leonard Woolley)نے اپنی کتاب ( London, 1935”Abraham,“) میں اس تحقیقات کے جو نتائج شائع کیے ہیں ان کا خلاصہ ہم یہاں درج کرتے ہیں۔

اندازہ کیا گیا ہے کہ سن ۲۱۰۰ قبل مسیح کے لگ بھگ زمانہ میں ، جسے اب عام طور پر محققین حضرت ابراہیم ؑ کے ظہُور کا زمانہ تسلیم کرتے ہیں ، شہر اُرکی آبادی ڈھائی لاکھ کے قریب تھی اور بعید نہیں کہ پانچ لاکھ ہو۔ بڑا صنعتی و تجارتی مرکز تھا۔ ایک طرف پامیر اور نیلگری تک سے وہاں مال آتا تھا اور دُوسری طرف اناطولیہ تک سے اس کے تجارتی تعلقات تھے ۔ جِس ریاست کا یہ صدر مقام تھا اس کے حدود موجودہ حکومت ِ عراق سے شمال میں کچھ کم اور مغرب میں کچھ زیادہ تھے ۔ ملک کی آبادی بیشتر صنعت و تجارت پیشہ تھی۔ اس عہد کی جو تحریرات آثارِ قدیمہ کے کھنڈروں میں دستیاب ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی میں ان لوگوں کا نقطۂ نظر خالص مادّہ پرستانہ تھا۔ دولت کمانا اور زیادہ سے زیادہ آسائش فراہم کرنا ان کا سب سے بڑا مقصدِ حیات تھا۔ سُود خواری کثرت سے پھیلی ہوئی تھی۔ سخت کاروباری قسم کے لوگ تھے۔ ہر ایک دُوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور آپس میں بہت مقدمہ بازیاں ہوتی تھیں۔ ا پنے خداؤں سے ان کی دُعائیں زیادہ تر درازیِ عمر ، خوش حالی اور کاروبار کی ترقی سے متعلق ہوا کرتی تھیں۔ آبادی تین طبقوں پر مشتمل تھی:

(۱) عَمیلو - یہ اُونچے طبقے کے لوگ تھے جن میں پُجاری ، حکومت کے عہدہ دار اور فوجی افسر وغیرہ شامل تھے۔

(۲) مِشکینو - یہ تجار، اہلِ صنعت اور زراعت پیشہ لوگ تھے۔

(۳) اَردو - یعنی غلام۔

ان میں سے پہلے طبقہ ، یعنی عَمیلو کو خاص امتیازات حاصل تھے۔ ان کے فوجداری اور دیوانی حقوق دُوسروں سے مختلف تھے، اور ان کی جان و مال کی قیمت دُوسروں سے بڑھ کر تھی۔

یہ شہر اور یہ معاشرہ تھا جس میں حضرت ابراہیم ؑ نے آنکھیں کھولیں۔ ان کا اور ان کے خاندان کا جو حال ہمیں تَلمود میں ملتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عَمیلو طبقہ کے ایک فرد تھے اور ان کا باپ ریاست کا سب سے بڑا عہدہ دار تھا۔(دیکھو سُورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۹۰)۔

اُر کے کتبات میں تقریباً ۵ ہزار خداؤں کے نام ملتے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں کے الگ الگ خدا تھے۔ ہر شہر کا ایک خاص محافظ خدا ہوتا تھا جو ربُّ البلد، مہادیو، یا رئیس الآ لہہ سمجھا جاتا تھا اور اس کا احترام دُوسرے معبُودوں سے زیادہ ہوتا تھا۔ اُرکا ربّ البلد”نَنّار“(چاند دیوتا) تھا اور اسی مناسبت سے بعد کے لوگوں نے اس شہر کا نام”قمرینہ“ بھی لکھا ہے۔ دُوسرا بڑا شہر لَرسہ تھا جو بعد میں اُر کے بجائے مر کزِ سلطنت ہوا۔ اُس کا ربّ البلد”شماش“ (سُورج دیوتا) تھا۔ ان بڑے خداؤں کے ماتحت بہت سے چھوٹے خدا بھی تھے جو زیادہ تر آسمانی تاروں اور سیاروں میں سے اور کم تر زمین سے منتخب کیے گئے تھے اور لوگ اپنی مختلف فروعی ضروریات ان سے متعلق سمجھتے تھے۔ ان آسمانی اور زمینی دیوتاؤں اور دیویوں کی شبیہیں بُتوں کی شکل میں بنالی گئی تھیں اور تمام مراسمِ عبادت انہی کے آگے بجا لائے جاتے تھے۔ ”ننار“ کا بُت اُر میں سب سے اُونچی پہاڑی پر ایک عالی شان عمارت میں نصب تھا۔ اسی کے قریب”ننار“ کی بیوی”نن گل“ کا مَعبد تھا۔ ننار کے مَعبد کی شان ایک شاہی محل سرا کی سی تھی۔ اس کی خواب گاہ میں روزانہ رات کو ایک پوجا رن جا کر اس کی دُلہن بنتی تھی۔ مندر میں بکثرت عورتیں دیوتا کے نام پر وقف تھیں اور ان کی حیثیت دیوداسیوں(Religious Prostitutes) کی سی تھی۔ وہ عورت بڑی معزّز خیال کی جاتی تھی جو ”خدا “ کے نام پر اپنی بکارت قربان کر دے۔ کم از کم ایک مرتبہ اپنے آپ کو ”راہِ خدا“ میں کسی اجنبی کے حوالہ کرنا عورت کے لیے ذریعہ ٔ نجات خیال کیا جاتا تھا۔ اب یہ بیان کرنا کچھ ضروری نہیں کہ اس مذہبی قحبہ گری سے مستفید ہونے والے زیادہ تر پوجاری حضرات ہی ہوتے تھے۔

ننار محض دیوتا ہی نہ تھا بلکہ ملک کا سب سے بڑا زمیندار ، سب سے بڑا تاجر، سب سے بڑا کارخانہ دار اور ملک کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا حاکم بھی تھا۔ بکثرت باغ، مکانات اور زمینیں اس مندر کے لیے وقف تھیں۔ اس جائداد کی آمدنی کے علاوہ وہ کسان، زمیندار ، تجّار سب ہر قسم کے غلّے ، دُودھ ، سونا ، کپڑا اور دُوسری چیزیں لا کر مندر میں نذر بھی کرتے تھے جنہیں وصُول کرنے کے لیے مندر میں ایک بہت بڑا اسٹاف موجود تھا۔ بہت سے کارخانے مندر کے ماتحت قائم تھے۔ تجارتی کاروبار بھی بہت بڑے پیمانے پر مندر کی طرف سے ہوتا تھا۔ یہ سب کام دیوتا کی نیابت میں پوجاری ہی انجام دیتے تھے۔ پھر ملک کی سب سے بڑی عدالت مندر ہی تھی۔ پوجاری اس کے جج تھے اور ان کے فیصلے”خدا“ کے فیصلے سمجھے جاتے تھے۔ خود شاہی خاندان کی حاکمیت بھی ننار ہی سے ماخوذ تھی۔ اصل بادشاہ ننار تھا اور فرماں روائے ملک اس کی طرف سے حکومت کرتا تھا۔ اس تعلق سے بادشاہ خود بھی معبُودوں میں شامل ہو جاتا تھا اور خداؤں کے مانند اس کی پرستش کی جاتی تھی۔

اُر کا شاہی خاندان جو حضرت ابراہیم ؑ کے زمانہ میں حکمران تھا، اس کے بانیٔ اوّل کا نام اُرنَمُوّ تھا جس نے ۲۳۰۰ برس قبل مسیح میں ایک وسیع سلطنت قائم کی تھی۔ اس کے حُدُودِ مملکت مشرق میں سوسہ سے لے کر مغرب میں لُبنان تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُسی سے اس خاندان کو ”نَمُوّ“ کا نام ملا جو عربی میں جا کر نمرود ہو گیا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی ہجرت کے بعد اس خاندان اور اس قوم پر مسلسل تباہی نازل ہونی شروع ہوئی۔ پہلے عیلامیوں نے اُر کو تباہ کیا اور نمرُود کو ننار کے بُت سمیت پکڑ لے گئے۔ پھر لرسہ میں ایک عیلامی حکومت قائم ہوئی جس کے ماتحت اُر کا علاقہ غلام کی حیثیت سے رہا۔ آخر کار ایک عربی النسل خاندان کے ماتحت بابِل نے زور پکڑا اور لرسہ اور اُر دونوں اس کے زیرِ حکم ہو گئے۔ ان تباہیوں نے ننار کے ساتھ اُر کے لوگوں کا عقیدہ متزلزل کر دیا کیونکہ وہ ان کی حفاظت نہ کر سکا۔

تعیّن کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ بعد کے ادوار میں حضرت ابراہیم ؑ کی تعلیمات کا اثر اس ملک کے لوگوں نے کہا ں تک قبول کیا۔ لیکن سن ۱۹۱۰ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ حمورائی (بائیبل کے اَمُرافیل) نے جو قوانین مرتب کیے تھے وہ شہادت دیتے ہیں کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کی تدوین میں مشکوٰۃِ نبوّت سے حاصل کی ہوئی روشنی کسی حد تک ضرور کار فرما تھی۔ ان قوانین کا مفصل کتبہ سن ۱۹۰۲ بعد مسیح میں ایک فرانسیسی مفتش آثارِ قدیمہ کو ملا اور اس کا انگریزی ترجمہ C.H.W. John نے سن ۱۹۰۳ بعد مسیح میں( The Oldest Code of Law ) کے نام سے شائع کیا۔ اس ضابطۂ قوانین کے بہت سے اُصُول اور فروع موسوی شریعت سے مشابہت رکھتے ہیں۔

یہ اب تک کی اثری تحقیقات کے نتائج اگر صحیح ہیں تو ان سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی قوم میں شرک محض ایک مذہبی عقیدہ اور بُت پرستانہ عبادات کا مجمُوعہ ہی نہ تھا بلکہ درحقیقت اس قوم کی پُوری معاشی ، تمدّنی ، سیاسی اور معاشرتی زندگی کا نظام اسی عقیدے پر مبنی تھا۔ اس کے مقابلہ میں حضرت ابراہیم ؑ توحید کی جو دعوت لے کر اُٹھے تھے اس کا اثر صِرف بُتوں کی پرستش ہی پر نہ پڑتا تھا بلکہ شاہی خاندان کی معبُودیت اور حاکمیت، پوجاریوں اور اُونچے طبقوں کی معاشرتی، معاشی اور سیاسی حیثیت ، اور پورے ملک کی اجتماعی زندگی اس کی زد میں آئی جاتی تھی۔ اُن کی دعوت کو قبول کرنے کے معنی یہ تھے کہ نیچے سے اُوپر تک ساری سوسائیٹی کی عمارت ادھیڑ ڈالی جائے اور اسے ازسرِ نو توحیدِ الٰہ کی بُنیاد پر تعمیر کیا جائے۔ اِسی لیے ابراہیم علیہ السّلام کی آواز بلند ہوتے ہی عوام اور خواص، پوجاری اور نمرود سب کے سب بیک وقت اس کو دبانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔

53. ”یہاں حضرت ابراہیم ؑ کے اُس ابتدائی تفکّر کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو منصبِ نبوّت پر سرفراز ہونے سے پہلے اُن کے لیے حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ بنا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک صحیح الدّماغ اور سلیم النظر انسان، جس نے سراسر شرک کے ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں ، اور جسے توحید کی تعلیم کہیں سے حاصل نہ ہو سکی تھی ، کس طرح آثارِ کائنات کا مشاہدہ کر کے اور ان پر غور و فکر اور ان سے صحیح استدلال کر کے امرِ حق معلوم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اوپر قوم ِ ابراہیم ؑ کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جب ہوش سنبھالا تھا تو ان کے گرد و پیش ہر طرف چاند ، سُورج اور تاروں کی خدائی کے ڈنکے بج رہے تھے۔ اس لیے قدرتی طور پر حضرت ابراہیم ؑ کی جستجو ئے حقیقت کا آغاز اسی سوال سے ہونا چاہیے تھا کہ کیا فی الواقع ان میں سے کوئی ربّ ہو سکتا ہے؟ اسی مرکزی سوال پر انھوں نے غور و فکر کیا اور آخر کار اپنی قوم کے سارے خداؤں کو ایک اٹل قانون کے تحت غلاموں کی طرح گردش کرتے دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ جن جن کے رب ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے ان میں سے کسی کے اندر بھی ربُوبیّت کا شائبہ تک نہیں ہے، ربّ صرف وہی ایک ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور بندگی پر مجبُور کیا ہے۔

اس قصّہ کے الفاظ سے عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ جو ارشاد ہوا ہے کہ جب رات طاری ہوئی تو اس نے ایک تارا دیکھا ، اور جب وہ ڈوب گیا تو یہ کہا، پھر چاند دیکھا اور جب وہ ڈوب گیا تو یہ کہا، پھر سُورج دیکھا اور جب وہ بھی ڈوب گیا تو یہ کہا، اس پر ایک عام ناظر کے ذہن میں فوراً یہ سوال کھٹکتا ہے کہ کیا بچپن سے آنکھ کھولتے ہی روزانہ حضرت ابراہیم ؑ پر رات طاری نہ ہوتی رہی تھی اور کیا وہ ہر روز چاند ، تاروں اور سُورج کو طلوع و غروب ہوتے نہ دیکھتے تھے؟ ظاہر ہے کہ یہ غوروفکر تو انہوں نے سنِ رُشد کو پہنچنے کے بعد ہی کیا ہو گا۔ پھر یہ قصّہ اس طرح کیوں بیان کیا گیا ہے کہ جب رات ہوئی تو یہ دیکھا اور دن نکلا تو یہ دیکھا؟ گویا اس خاص واقعہ سے پہلے انھیں یہ چیزیں دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا، حالانکہ ایسا ہونا صریحاً مستبعد ہے ۔ یہ شبہ بعض لوگوں کے لیے اس قدر ناقابلِ حل بن گیا کہ اسے دفع کرنے کی کوئی صُورت انھیں اس کے سوا نظر نہ آئی کہ حضرت ابراہیم ؑ کی پیدائش اور پرورش کے متعلق ایک غیر معمُولی قصّہ تصنیف کریں۔ چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی پیدائش اور پرورش ایک غار میں ہوئی تھی جہاں سنِ رشد کو پہنچنے تک وہ چاند، تاروں اور سُورج کے مشاہدے سے محروم رکھے گئے تھے۔ حالانکہ بات بالکل صاف ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے اس نوعیت کی کسی داستان کی ضرورت نہیں ہے۔ نیوٹن کے متعلق مشہُور ہے کہ اس نے باغ میں ایک سیب کو درخت سے گرتے دیکھا اور اس سے اس کا ذہن اچانک اس سوال کی طرف متوجّہ ہوگیا کہ اشیاء آخر زمین پر ہی کیوں گِرا کرتی ہیں ، یہاں تک غور کرتے کرتے وہ قانونِ جذب و کشش کے استنباط تک پہنچ گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس واقعہ سے پہلے نیوٹن نے کبھی کوئی چیز زمین پر گرتے نہیں دیکھی تھی؟ ظاہر ہے کہ ضرور دیکھی ہو گی اور بارہا دیکھی ہوگی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اُسی خاص تاریخ کو سیب گِرنے کے مشاہدے سے نیوٹن کے ذہن میں وہ حرکت پیدا ہوئی جو اس سے پہلے روزمرّہ کے ایسے سینکڑوں مشاہدات سے نہ ہوئی تھی؟ اس کا جواب اگر کچھ ہو سکتا ہے تو یہی کہ غور وفکر کرنے والا ذہن ہمیشہ ایک طرح کے مشاہدات سے ایک ہی طرح متأثر نہیں ہوا کرتا۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک چیز کو ہمیشہ دیکھتا رہتا ہے اور اس کے ذہن میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی، مگر ایک وقت اُسی چیز کو دیکھ کر یکایک ذہن میں ایک کھٹک پیدا ہو جاتی ہے جس سے فکر کی قوتیں ایک خاص مضمون کی طرف کام کرنے لگتی ہیں ۔ یا پہلے سے کسی سوال کی تحقیق میں ذہن اُلجھ رہا ہوتا ہے اور یکایک روزمرّہ ہی کی مشاہدات میں سے کسی ایک چیز پر نظر پڑتے ہی گتھی کا وہ سرا ہاتھ لگ جاتا ہے جس سے ساری اُلجھنیں سلجھتی چلی جاتی ہیں۔ ایسا ہی معاملہ حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ بھی پیش آیا۔ راتیں روز آتی تھیں اور گزر جاتی تھیں۔ سُورج اور چاند اور تارے سب ہی آنکھوں کے سامنے ڈوبتے اور اُبھرتے رہتے تھے۔ لیکن وہ ایک خاص دن تھا جب ایک تارے کے مشاہدے نے ان کے ذہن کو اُس راہ پر ڈال دیا جس سے بالآخر وہ توحیدِ الٰہ کی مرکزی حقیقت تک پہنچ کر رہے۔ ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا ذہن پہلے سے اس سوال پر غور کر رہا ہو کہ جن عقائد پر ساری قوم کا نظامِ زندگی چل رہا ہے ان میں کس حد تک صداقت ہے، اور پھر ایک تارا یکایک سامنے آکر کشودِ کار کے لیے کلید بن گیا ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تارے کے مشاہدے ہی سے ذہنی حرکت کی ابتدا ہوئی ہو۔

اس سلسلہ میں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ جب حضرت ابراہیم نے تارے کو دیکھ کر کہا یہ میرا ربّ ہے، اور جب چاند اور سُورج کو دیکھ کر انھیں اپنا رب کہا ، تو کیا اُس وقت عارضی طور پر ہی سہی، وہ شرک میں مبتلا نہ ہوگئے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک طالبِ حق اپنی جستجو کی راہ میں سفر کرتے ہوئے بیچ کی جن منزلوں پر غور و فکر کے لیے ٹھیرتا ہے، اصل اعتبار اُن منزلوں کا نہیں ہوتا بلکہ اصل اعتبار اُس سمت کا ہوتا ہے جس پر وہ پیش قدمی کر رہا ہے اور اُس آخری مقام کا ہوتا ہے جہاں پہنچ کر وہ قیام کرتا ہے۔ بیچ کی منزلیں ہر جویائے حق کے لیے ناگزیر ہیں۔ ان پر ٹھیرنا بسلسلۂ طلب و جستجو ہوتا ہے نہ کہ بصورتِ فیصلہ ۔ اصلاً ٹھیراؤ سوالی و استفہامی ہوا کرتا ہے نہ کہ حُکمی۔ طالب جب اِن میں سے کسی منزل پر رُک کر کہتا ہے کہ ” ایسا ہے“ تو دراصل یہ اس کی آخری رائے نہیں ہوتی بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ”ایسا ہے“؟ اور تحقیق سے اس کا جواب نفی میں پاکر وہ آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ اثنائے راہ میں جہاں جہاں وہ ٹھیرتا رہا وہاں وہ عارضی طور پر کفر یا شرک میں مبتلا رہا۔

54. اصل میں لفظ تَذَکُّر استعمال ہوا ہے جس کا صحیح مفہُوم یہ ہے کہ ایک شخص جو غفلت اور بھلا وے میں پڑا ہوا ہو وہ چونک کر اُس چیز کو یاد کر لے جس سے وہ غافل تھا۔ اسی لیے ہم نے اَفَلَا تَتَذَکَّرُوْنَ کا یہ ترجمہ کیا ہے ۔ حضرت ابرہیم ؑ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ تم جو کچھ کر رہے ہو، تمہارا اصلی و حقیقی ربّ اس سے بے خبر نہیں ہے ، اس کا علم ساری چیزوں پر وسیع ہے، پھر کیا اس حقیقت سے واقف ہو کر بھی تمھیں ہوش نہ آئے گا؟

55. یہ پُوری تقریر اس بات پر شاہد ہے کہ وہ قوم اللہ فاطر السّمٰوات و الارض کی ہستی کی منکر نہ تھی بلکہ اس کا اصلی جُرم اللہ کے ساتھ دُوسروں کو خدائی صفات اور خدا وندانہ حقوق میں شریک قرار دینا تھا۔ اوّل تو حضرت ابراہیم ؑ خود ہی فرما رہے ہیں کہ تم اللہ ساتھ دُوسری چیزوں کو شریک کرتے ہو۔ دوسرے جس طرح آپ ان لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے اللہ کا ذکر فرماتے ہیں، یہ اندازِ بیان صرف اُنہی لوگوں کے مقابلہ میں اختیار کیا جاسکتا ہے جو اللہ کے نفسِ وجود سے منکر نہ ہوں۔ لہٰذا اُن مفسّرین کی رائے درست نہیں ہے جنھوں نے اس مقام پر اور حضرت ابراہیم ؑ کے سلسلہ میں دُوسرے مقامات پر قرآن کے بیانات کی تفسیر اس مفروضہ پر کی ہے کہ قومِ ابراہیم ؑ اللہ کی منکر یا اس سے ناواقف تھی اور صرف اپنے معبُودوں ہی کو خدائی کا بالکلّیہ مالک سمجھتی تھی۔

آخری آیت میں یہ جو فقرہ ہے کہ ”جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا“، اس میں لفظ ظلم سے بعض صحابہ کو غلط فہمی ہوئی تھی کہ شاید اس سے مراد معصیت ہے ۔لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تصریح فرمادی کہ دراصل یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ اللہ کو مانیں اور اپنے اس ماننے کو کسی مشرکانہ عقیدہ و عمل سے آلودہ نہ کریں، امن صرف اُنہی کے لیے ہے اور وہی راہِ راست پر ہیں۔

اس موقع پر یہ جان لینا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ واقعہ جو حضرت ابرہیم ؑ کی عظیم الشان پیغمبرانہ زندگی کا نقطۂ آغاز ہے، بائیبل میں کوئی جگہ نہیں پا سکا ہے ۔ البتہ تَلمُود میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ لیکن اس میں دو باتیں قرآن سے مختلف ہیں۔ ایک یہ کہ وہ حضرت ابرہیم ؑ کی جستجو ئے حقیقت کو سُورج سے شروع کر کے تاروں تک اور پھر خدا تک لے جاتی ہے۔ دُوسرے اس کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جب سُورج کو ھٰذَا رَبِّیْ کہا تو ساتھ ہی اس کی پرستش بھی کر ڈالی اور اسی طرح چاند کو بھی انہوں نے ھٰذَا رَبِّیْ کہہ کر اس کی پرستش کی۔