62. یعنی زمین کی تہوں میں بیج کو پھاڑ کر اس سے درخت کی کونپل نکالنے والا۔
63. زندہ کو مُردہ سے نکالنے کا مطلب بے جان مادّہ سے زندہ مخلوقات کو پیدا کرنا ہے، اور مُردہ کو زندہ سے خارج کرنے کا مطلب جاندار اجسام میں سے بے جان مادّوں کو خارج کرنا۔
64. یعنی اِس حقیقت کی نشانیاں کہ خدا صرف ایک ہے، کوئی دُوسرا نہ خدائی کی صفات رکھتا ہے، نہ خدائی کے اختیارات میں حصّہ دار ہے، اور نہ خدائی کے حقوق میں سے کسی حق کا مستحق ہے۔ مگر ان نشانیوں اور علامتوں سے حقیقت تک پہنچنا جاہلوں کے بس کی بات نہیں، اس دولت سے بہرہ ور صرف وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو علمی طریق پر آثارِ کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
65. یعنی نسلِ انسانی کی ابتداء ایک متنفس سے کی۔
66. یعنی نوع انسانی کی تخلیق اور اس کے اندر مردو زن کی تفریق اور تناسل کے ذریعہ سے اس کی افزائش، اور رحم مادر میں انسانی بچہ کا نطفہ قرار پا جانے کے بعد سے زمین میں اس کے سونپے جانے تک اس کی زندگی کے مختلف اطوار پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس میں بے شمار کھُلی کھُلی نشانیاں آدمی کے سامنے آئیں گی جن سے وہ اُس حقیقت کو پہچان سکتا ہے جو اُوپر بیان ہوئی ہے۔ مگر ان نشانیوں سے یہ معرفت حاصل کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو سمجھ بُوجھ سے کام لیں۔ جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے والے، جو صرف اپنی خواہشات سے اور انھیں پورا کرنے کی تدبیروں ہی سے غرض رکھتے ہیں، اِن نشانیوں میں کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے۔
67. یعنی اپنے وہم وگمان سے یہ ٹھیرا لیا کہ کائنات کے انتظام میں اور انسان کی قسمت کے بنانے اور بگاڑنے میں اللہ کے ساتھ دُوسری پوشیدہ ہستیاں بھی شریک ہیں، کوئی بارش کا دیوتا ہے تو کوئی روئیدگی کا، کوئی دولت کی دیوی ہے تو کوئی بیماری کی، وغیرہ ذالکَ مِن الخرافات۔ اس قسم کے لغو اعتقادات دُنیا کی تمام مشرک قوموں میں ارواح اور شیاطین اور راکشسوں اور دیوتاؤں اور دیویوں کے متعلق پائے جاتے رہے ہیں۔
68. جُہلائے عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ اِسی طرح دُنیا کی دُوسری مشرک قوموں نے بھی خدا سے سلسلہ ٔ نسب چلایا ہے اور پھر دیوتاؤں اور دیویوں کی ایک پُوری نسل اپنے وہم سے پیدا کر دی ہے۔