Tafheem ul Quran

Surah 6 Al-An'am, Ayat 95-100

اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الۡحَبِّ وَالنَّوٰى​ؕ يُخۡرِجُ الۡحَىَّ مِنَ الۡمَيِّتِ وَمُخۡرِجُ الۡمَيِّتِ مِنَ الۡحَىِّ ​ؕ ذٰ لِكُمُ اللّٰهُ​ فَاَنّٰى تُؤۡفَكُوۡنَ‏  ﴿6:95﴾ فَالِقُ الۡاِصۡبَاحِ​ۚ وَ جَعَلَ الَّيۡلَ سَكَنًا وَّالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ حُسۡبَانًا​ ؕ ذٰلِكَ تَقۡدِيۡرُ الۡعَزِيۡزِ الۡعَلِيۡمِ‏ ﴿6:96﴾ وَهُوَ الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ النُّجُوۡمَ لِتَهۡتَدُوۡا بِهَا فِىۡ ظُلُمٰتِ الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ​ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿6:97﴾ وَ هُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡشَاَكُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسۡتَقَرٌّ وَّمُسۡتَوۡدَعٌ​ ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّفۡقَهُوۡنَ‏ ﴿6:98﴾ وَهُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً​ ۚ فَاَخۡرَجۡنَا بِهٖ نَبَاتَ كُلِّ شَىۡءٍ فَاَخۡرَجۡنَا مِنۡهُ خَضِرًا نُّخۡرِجُ مِنۡهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا​ ۚ وَمِنَ النَّخۡلِ مِنۡ طَلۡعِهَا قِنۡوَانٌ دَانِيَةٌ وَّجَنّٰتٍ مِّنۡ اَعۡنَابٍ وَّالزَّيۡتُوۡنَ وَالرُّمَّانَ مُشۡتَبِهًا وَّغَيۡرَ مُتَشَابِهٍ​ ؕ اُنْظُرُوۡۤا اِلٰى ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَيَنۡعِهٖ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكُمۡ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يُّؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿6:99﴾ وَجَعَلُوۡا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الۡجِنَّ وَخَلَقَهُمۡ​ وَخَرَقُوۡا لَهٗ بَنِيۡنَ وَبَنٰتٍۢ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ​ؕ سُبۡحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَصِفُوۡنَ‏ ﴿6:100﴾

95 - دانے اور گھٹلی کو پھاڑنے والا اللہ ہے۔62 وہی زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے اور وہی مُردہ کو زندہ سے خارج کرتا ہے۔63یہ سارے کام تو کرنے والا اللہ ہے، پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو؟ 96 - پردہٴ شب کو چاک کرکے وہی صبح نکالتا ہے۔ اُسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے اُسی نے چاند اور سُورج کے طلوُع و غروب کا حساب مقرّر کیا ہے۔ یہ سب اُسی زبردست قدرت اور علم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں۔ 97 - اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا۔ دیکھو ہم نے نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔64 98 - اور وہی ہے جس نے ایک مُتنفّس سے تم کو پیدا کیا 65پھر ہر ایک کے لیے ایک جائے قرار ہے اور ایک اس کے سونپے جانے کی جگہ۔ یہ نشانیاں ہم نے واضح کردی ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔66 99 - اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات اُگائی، پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیے، پھر ان سے تہ بر تہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے کے گچھے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جُھکے پڑتے ہیں، اور انگور، زیتون اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دُوسرے سے ملتے جُلتے بھی ہیں اور پھر ہر ایک کی خصُوصیات جُدا جُدا بھی ہیں۔ یہ درخت جب پھلتے ہیں تو ان میں پَھل آنے اور پھر اُن کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو، اِن چیزوں میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔ 100 - اِس پر بھی لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرا دیا،67حالانکہ وہ اُن کا خالق ہے، اور بے جانے بوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کر دیں،68حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے اُن باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں۔ ؏۱۲


Notes

62. یعنی زمین کی تہوں میں بیج کو پھاڑ کر اس سے درخت کی کونپل نکالنے والا۔

63. زندہ کو مُردہ سے نکالنے کا مطلب بے جان مادّہ سے زندہ مخلوقات کو پیدا کرنا ہے، اور مُردہ کو زندہ سے خارج کرنے کا مطلب جاندار اجسام میں سے بے جان مادّوں کو خارج کرنا۔

64. یعنی اِس حقیقت کی نشانیاں کہ خدا صرف ایک ہے، کوئی دُوسرا نہ خدائی کی صفات رکھتا ہے، نہ خدائی کے اختیارات میں حصّہ دار ہے، اور نہ خدائی کے حقوق میں سے کسی حق کا مستحق ہے۔ مگر ان نشانیوں اور علامتوں سے حقیقت تک پہنچنا جاہلوں کے بس کی بات نہیں، اس دولت سے بہرہ ور صرف وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو علمی طریق پر آثارِ کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

65. یعنی نسلِ انسانی کی ابتداء ایک متنفس سے کی۔

66. یعنی نوع انسانی کی تخلیق اور اس کے اندر مردو زن کی تفریق اور تناسل کے ذریعہ سے اس کی افزائش، اور رحم مادر میں انسانی بچہ کا نطفہ قرار پا جانے کے بعد سے زمین میں اس کے سونپے جانے تک اس کی زندگی کے مختلف اطوار پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس میں بے شمار کھُلی کھُلی نشانیاں آدمی کے سامنے آئیں گی جن سے وہ اُس حقیقت کو پہچان سکتا ہے جو اُوپر بیان ہوئی ہے۔ مگر ان نشانیوں سے یہ معرفت حاصل کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو سمجھ بُوجھ سے کام لیں۔ جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے والے، جو صرف اپنی خواہشات سے اور انھیں پورا کرنے کی تدبیروں ہی سے غرض رکھتے ہیں، اِن نشانیوں میں کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے۔

67. یعنی اپنے وہم وگمان سے یہ ٹھیرا لیا کہ کائنات کے انتظام میں اور انسان کی قسمت کے بنانے اور بگاڑنے میں اللہ کے ساتھ دُوسری پوشیدہ ہستیاں بھی شریک ہیں، کوئی بارش کا دیوتا ہے تو کوئی روئیدگی کا، کوئی دولت کی دیوی ہے تو کوئی بیماری کی، وغیرہ ذالکَ مِن الخرافات۔ اس قسم کے لغو اعتقادات دُنیا کی تمام مشرک قوموں میں ارواح اور شیاطین اور راکشسوں اور دیوتاؤں اور دیویوں کے متعلق پائے جاتے رہے ہیں۔

68. جُہلائے عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ اِسی طرح دُنیا کی دُوسری مشرک قوموں نے بھی خدا سے سلسلہ ٔ نسب چلایا ہے اور پھر دیوتاؤں اور دیویوں کی ایک پُوری نسل اپنے وہم سے پیدا کر دی ہے۔