Tafheem ul Quran

Surah 61 As-Saf, Ayat 10-14

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا هَلۡ اَدُلُّكُمۡ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنۡجِيۡكُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِيۡمٍ‏ ﴿61:10﴾ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَتُجَاهِدُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ بِاَمۡوَالِكُمۡ وَاَنۡفُسِكُمۡ​ؕ ذٰلِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَۙ‏  ﴿61:11﴾ يَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡ وَيُدۡخِلۡكُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِىۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ​ؕ ذٰلِكَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُۙ‏  ﴿61:12﴾ وَاُخۡرٰى تُحِبُّوۡنَهَا​ ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَفَـتۡحٌ قَرِيۡبٌ​ ؕ وَبَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿61:13﴾ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِيۡسَى ابۡنُ مَرۡيَمَ لِلۡحَوٰارِيّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ​ؕ قَالَ الۡحَـوٰرِيُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰهِ​ فَاٰمَنَتۡ طَّآئِفَةٌ مِّنۡۢ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ وَكَفَرَتۡ طَّآئِفَةٌ ۚ فَاَيَّدۡنَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا عَلٰى عَدُوِّهِمۡ فَاَصۡبَحُوۡا ظٰهِرِيۡنَ‏ ﴿61:14﴾

10 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت 14 جو تمہیں عذابِ الیم سے بچا دے؟ 11 - ایمان لاؤ اللہ اور اُس کے رسُول پر، 15 اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ 16 12 - اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرےگا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنّتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ 17 13 - اور وہ دُوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمہیں دے گا، اللہ کی طرف سے نُصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح۔ 18 اے نبیؐ ، اہل ایمان کو اِس کی بشارت دے دو۔ 14 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسٰیؑ ابنِ مریمؑ نے حواریوں 19 کو خطاب کرکے کہا تھا: ”کون ہے اللہ کی طرف (بلانے) میں میرا مددگار“؟ اور حواریوں نے جواب دیا تھا:”ہم ہیں اللہ کے مددگار“ 20۔ اُس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دُوسرے گروہ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی اُن کے دُشمنوں کےمقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہو کر رہے۔21 ؏۲


Notes

14. تجارت وہ چیز ہے جس میں آدمی اپنا مال، وقت، محنت اور ذہانت و قابلیت اس لیے کھپاتا ہے کہ اس سے نفع حاصل ہو۔ اسی رعایت سے یہاں ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کو تجارت کہا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس راہ میں اپنا سب کچھ کھپاؤ گے تو وہ نفع تمہیں حاصل ہو گا جو آگے بیان کیا جا رہا ہے ۔ یہی مضمون سورہ توبہ آیت 111 میں ایک اور طریقہ سے بیان کیا گیا ہے (ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، حاشیہ 106 )۔

15. ایمان لانے والوں سے جب کہا جائے کہ ایمان لاؤ، تو اس سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں کہ مخلص مسلمان بنو۔ ایمان کے محض زبانی دعوے پر اکتفا نہ کرو بلکہ جس چیز پر ایمان لائے ہو اس کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ

16. یعنی یہ تجارت تمہارے لیے دنیا کی تجارتوں سے زیادہ بہتر ہے ۔

17. یہ اس تجارت کے اصل فوائد ہیں جو آخرت کی ابدی زندگی میں حاصل ہوں گے ۔ ایک، خدا کے عذاب سے محفوظ رہنا۔ دوسرے ، گناہوں کی معافی۔ تیسرے ، خدا کی اس جنت میں داخل ہونا جس کی نعمتیں لازوال ہیں ۔

18. دنیا میں فتح و کامرانی بھی اگر چہ اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے ، لیکن مومن کے لیے اصلی اہمیت کی چیز یہ نہیں ہے بلکہ آخرت کی کامیابی ہے ۔ اسی لیے جو نتیجہ دنیا کی اس زندگی میں حاصل ہونے والا ہے اس کا ذکر بعد میں کیا گیا، اور جو نتیجہ آخرت میں رونما ہونے والا ہے اس کے ذکر کو مقدم رکھا گیا۔

19. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے لیے بائیبل میں عموماً لفظ ’’شاگرد‘‘ استعمال کیا گیا ہے ، لیکن بعد میں ان کے لیے ’’رسول‘‘ (Apostles) کی اصطلاح عیسائیوں میں رائج ہو گئی، اس معنی میں نہیں کہ وہ خدا کے رسول تھے ، بلکہ اس معنی میں کہ حضرت عیسیٰ ان کو اپنی طرف سے مبلغ بنا کر اطراف فلسطین میں بھیجا کرتے تھے ۔ یہودیوں کے ہاں یہ لفظ پہلے سے ان لوگوں کے لیے بولا جاتا تھا جو ہیکل کے لیے چندہ جمع کرنے بھیجے جاتے تھے ۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کی اصطلاح ’’ حواری ‘‘ ان دونوں مسیحی اصطلاحوں سے بہتر ہے ۔ اس لفظ کی اصل حور ہے جس کے معنی سفیدی کے ہیں ۔ دھوبی کو حواری کہتے ہیں کیونکہ وہ کپڑے دھو کر سفید کر دیتا ہے ۔ خالص اور بے آمیز چیز کو بھی حواری کہا جاتا ہے ۔ جس آٹے کو چھان کر بھوسی نکال دی گئی ہو اسے حُوّاریٰ کہتے ہیں ۔ اسی معنی میں خالص دوست اور بے غرض حامی کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ ابن سیدہ کہتا ہے”ہر وہ شخص جو کسی کی مدد کرنے میں مبالغہ کرے وہ اس کا حواری ہے ‘‘ (لسان العرب)۔

20. یہ آخری مقام ہے جہاں قرآن مجید میں ان لوگوں کو اللہ کا مدد گار کہا گیا ہے جو خلق خدا کو دین کی طرف بلانے اور اللہ کے دین کو کفر کے مقابلے میں غالب کرنے کی جدوجہد کریں ۔ اس سے پہلے یہی مضمون سورہ آل عمران، آیت 52 سورہ حج، آیت 40، سورہ محمد، آیت 7، سورہ حدید، آیت 25 اور سورہ حشر آیت 8 میں گزر چکا ہے ، اور ان آیات کی تشریح ہم تفہیم القرآن، جلد اول، آل عمران، حاشیہ 50، جلد سوم، الحج، حاشیہ 84، جلد پنجم، سورہ محمد، حاشیہ 12، اور سورہ حدید، حاشیہ 47 میں کر چکے ہیں ، نیز سورہ محمد، حاشیہ 9 میں بھی اس مسئلے کے ایک گوشے پر واضح روشنی ڈالی جاچکی ہے ۔ اس کے باوجود بعض لوگوں کے ذہن میں یہ الجھن پائی جاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ، تمام خلق سے بے نیاز ہے ، کسی کا محتاج نہیں ہے اور سب اس کے محتاج ہیں تو کوئی بندہ آخر اللہ کا مدد گار کیسے ہو سکتا ہے ۔اس الجھن کو رفع کرنے کے لیے ہم یہاں اس مسئلے کی مزید وضاحت کیے دیتے ہیں ۔

دراصل ایسے لوگوں کو اللہ کا مدد گار اس لیے نہیں کہا گیا ہے کہ اللہ رب العالمین معاذاللہ کسی کام کے لیے اپنی کسی مخلوق کی مدد کا محتاج ہے ، بلکہ یہ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ زندگی کے جس دائرے میں اللہ تعالیٰ نے خود انسان کو کفر ایمان اور طاعت و معصیت کی آزادی بخشی ہے اس میں وہ لوگوں کو اپنی قوت قاہرہ سے کام لے کر بجبر مومن و مطیع نہیں بناتا بلکہ اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے ان کو راہ راست دکھانے کے لیے تذکیر و تعلیم اور تفہیم و تلقین کا طریقہ اختیار فرماتا ہے ۔ اس تذکیر و تعلیم کو جو شخص بہ رضا و رغبت قبول کر لے وہ مومن ہے ، جو عملاً مطیع فرمان بن جائے و مسلم و قانت اور عابد ہے ، جو خدا ترسی کا رویہ اختیار کر لے وہ متقی ہے ، جو نیکیوں کی طرف سبقت کرنے لگے وہ محسن ہے ، اور اس سے مزید ایک قدم آگے بڑھ کر جو اسی تذکیر و تعلیم کے ذریعہ سے بندگان خدا کی اصلاح کے لیے اور کفر و فسق کی جگہ اللہ کی اطاعت کا نظام قائم کرنے کے لیے کام کرنے لگے اسے اللہ تعالیٰ خود اپنا مدد گار قرار دیتا ہے ، جیسا کہ آیات مذکورہ بالا میں کئی جگہ بالفاظ صریح ارشاد ہوا ہے ۔ اگر اصل مقصود اللہ کا نہیں بلکہ اللہ کے دین کا مدد گار کہنا ہوتا تو اَنْصَارُاللہ کے بجائے اَنْصَا رُ دِیْنِ اللہِ فرمایا جاتا، یَنْصُرُوْ نَ اللہ کے بجائے یَنْصُرُوْنَ دِیْنِ اللہِ فرمایا جاتا، اِنْ تَنْصُرُوْ اللہَ کے بجائے اِنْتَنْصُرُوْا دِیْنَ اللہِ فرمایا جاتا۔ جب ایک مضمون کو ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پے درپے کئی مقامات پر ایک ہی طرز بیان اختیار فرمایا ہے تو یہ اس بات پر صریح دلالت کرتا ہے کہ اصل مقصود ایسے لوگوں کو اللہ کا مدد گار ہی کہنا ہے ۔ مگر یہ ’’ مدد گاری‘‘ نعوذ بااللہ اس معنی میں نہیں ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی کوئی ضرورت پوری کرتے ہیں جس کے لیے وہ ان کی مدد کا محتاج ہے ، بلکہ یہ اس معنی میں ہے کہ یہ لوگ اسی کام میں حصہ لیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ اپنی قوت قاہرہ کے ذریعہ سے کرنے کے بجائے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے کرنا چاہتا ہے ۔

21. مسیح پر ایمان نہ لانے والوں سے مراد یہودی، اور ایمان لانے والوں سے مراد عیسائی اور مسلمان، دونوں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو مسیح کے منکرین پر غلبہ عطا فرمایا۔ اس بات کو یہاں بیان کرنے سے مقصود مسلمانوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ جس طرح پہلے حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ان کا انکار کرنے والوں پر غالب آ چکے ہیں ، اسی طرح اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ماننے والے آپ کا انکار کرنے والوں پر غالب آئیں گے ۔