Tafheem ul Quran

Surah 62 Al-Jumu'ah, Ayat 1-8

يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ الۡمَلِكِ الۡقُدُّوۡسِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَكِيۡمِ‏ ﴿62:1﴾ هُوَ الَّذِىۡ بَعَثَ فِى الۡاُمِّيّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍۙ‏ ﴿62:2﴾ وَّاٰخَرِيۡنَ مِنۡهُمۡ لَمَّا يَلۡحَقُوۡا بِهِمۡ​ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏  ﴿62:3﴾ ذٰ لِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ​ ؕ وَاللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ‏ ﴿62:4﴾ مَثَلُ الَّذِيۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰٮةَ ثُمَّ لَمۡ يَحۡمِلُوۡهَا كَمَثَلِ الۡحِمَارِ يَحۡمِلُ اَسۡفَارًا​ ؕ بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ​ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿62:5﴾ قُلۡ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ هَادُوۡۤا اِنۡ زَعَمۡتُمۡ اَنَّكُمۡ اَوۡلِيَآءُ لِلّٰهِ مِنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿62:6﴾ وَلَا يَتَمَنَّوۡنَهٗۤ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتۡ اَيۡدِيۡهِمۡ​ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِالظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿62:7﴾ قُلۡ اِنَّ الۡمَوۡتَ الَّذِىۡ تَفِرُّوۡنَ مِنۡهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِيۡكُمۡ​ ثُمَّ تُرَدُّوۡنَ اِلٰى عٰلِمِ الۡغَيۡبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿62:8﴾

1 - اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے ۔۔۔۔ بادشاہ ہے، قُدُّوس ہے، زبردست اور حکیم ہے۔ 1 2 - وُہی ہےجس نے اُمّیوں 2 کے اندر ایک رسُول خود اُنہی میں سے اُٹھایا ، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ 3 حالانکہ اِس سے پہلے وہ کُھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ 4 3 - اور (اس رسُول کی بعثت) اُن دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی اُن سے نہیں ملے ہیں۔ 5 اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ 6 4 - یہ اس کا فضل ہے ، جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ 5 - جن لوگوں کو توراة کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اُٹھایا، 7 اُن کی مثال اُس گدھے 8 کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اِس سے بھی زیادہ بُری مثال ہےاُن لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جُھٹلا دیا ہے۔ 9 ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ 6 - اِن سےکہو، ”اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو، 10 اگر تمہیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑکر بس تم ہی اللہ کے چہیتے ہو 11 تو موت کے تمنّا کرو اگر تم اپنے اِس زَعم میں سچے ہو“۔ 12 7 - لیکن یہ ہر گز اس کی تمنّا نہ کریں گے اپنے کرتُوتوں کی وجہ سے جو یہ کر چکے ہیں، 13 اور اللہ اِن ظالموں کوخُوب جانتا ہے۔ 8 - اِن سے کہو،”جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمہیں آکر رہے گی۔ پھر تم اس کے سامنے پیش کیے جاؤ گے جو پوشیدہ و ظاہر کا جاننے والا ہے، اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ ؏۱


Notes

1. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ حدید، حواشی 1،2، الحشر، حواشی 36، 37،41۔ آگے کے مضمون سے یہ تمہید بڑی گہری مناسبت رکھتی ہے۔ عرب کے یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات و صفات اور کارناموں میں رسالت کی صریح نشانیاں بہ چشم سر دیکھ لینے کے باوجود، اور اس کے باوجود کہ تَوراۃ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کے آنے کی صریح بشارت دی تھی جو آپ کے سوا کسی اور پر چسپاں نہیں ہوتی تھی، صرف اس بنا پر آپ کا انکار کر رہے تھے کہ اپنی قوم اور نسل سے باہر کے کسی شخص کی رسالت مان لینا انہیں سخت ناگوار تھا۔ وہ صاف کہتے تھے کہ جو کچھ ہمارے ہاں آیا ہے ہم صرف اسی کو مانیں گے۔ دوسری کسی تعلیم کو، جو کسی غیر اسرائیلی نبی کے ذریعہ سے آئے ، خواہ وہ خدا ہی کی طرف سے ہو، تسلیم کرنے کے لیے وہ قطعی تیار نہ تھے۔ آگے کی آیتوں میں اسی رویہ پر انہیں ملامت کی جا رہی ہے ، اس لیے کلام کا آغاز اس تمہیدی فقرے سے کیا گیا ہے۔ اس میں پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کر رہی ہے۔ یعنی یہ پوری کائنات اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ ان تمام نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جن کی بنا پر یہودیوں نے اپنی نسلی برتری کا تصور قائم کر رکھا ہے۔ وہ کسی کا رشتہ دار نہیں ہے۔ جانب داری (Favoritism) کا اس کے ہاں کوئی کام نہیں۔ اپنی ساری مخلوق کے ساتھ اس کا معاملہ یکساں عدل اور رحمت اور ربوبیت کا ہے۔ کوئی خاص نسل اور قوم اس کی چہیتی نہیں ہے کہ وہ خواہ کچھ کرے ، بہر حال اس کی نوازشیں اسی کے لیے مخصوص رہیں، اور کسی دوسری نسل یا قوم سے اس کو عداوت نہیں ہے کہ وہ اپنے اندر خوبیاں بھی رکھتی ہو تو وہ اس کی عنایات سے محروم رہے۔ پھر فرمایا گیا کہ وہ بادشاہ ہے ، یعنی دنیا کی کوئی طاقت اس کے اختیارات کو محدود کرنے والی نہیں ہے۔ تم بندے اور رعیت ہو۔ تمہارا یہ منصب کب سے ہو گیا کہ تم یہ طے کرو کہ وہ تمہاری ہدایت کے لیے اپنا پیغمبر کسے بنائے اور کسے نہ بنائے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ وہ قدوس ہے۔ یعنی اس سے بدر جہا منزہ اور پاک ہے کہ اس کے فیصلے میں کسی خطا اور غلطی کا امکان ہو۔ غلطی تمہاری سمجھ بوجھ میں ہو سکتی ہے۔ اس کے فیصلے میں نہیں ہو سکتی۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کی دو مزید صفتیں بیان فرمائی گئیں۔ ایک یہ کہ وہ زبردست ہے ، یعنی اس سے لڑ کر کوئی جیت نہیں سکتا۔ دوسری یہ کہ وہ حکیم ہے ، یعنی جو کچھ کرتا ہے وہ عین مقتضائے دانش ہوتا ہے ، اور اس کی تدبیریں ایسی محکم ہوتی ہیں کہ دنیا میں کوئی ان کا توڑ نہیں کر سکتا۔

2. یہاں امی کا لفظ یہودی اصطلاح کے طور پر آیا ہے ، اور اس میں ایک لطیف طنز پوشیدہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن کو یہودی حقارت کے ساتھ امی کہتے اور اپنے مقابلہ میں ذلیل سمجھتے ہیں، انہیں میں اللہ غالب و دانا نے ایک رسول اٹھایا ہے۔ وہ خود نہیں اٹھ کھڑا ہوا ہے بلکہ اس کا اٹھانے والا وہ ہے جو کائنات کا بادشاہ ہے ، زبردست اور حکیم ہے ، جس کی قوت سے لڑ کر یہ لوگ اپنا ہی کچھ بگاڑیں گے ، اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید میں ’’اُمی‘‘ کا لفظ متعدد مقامات پر آیا ہے اور سب جگہ اس کے معنی ایک ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف مواقع پر وہ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کہیں وہ اہل کتاب کے مقابلہ میں ان لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جن کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے جس کی پیروی وہ کرتے ہوں۔ مثلاً فرمایا : قَلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتٰبَ وَا لْاُمِّیِّنَءَ اَسْلَمْتُمْ (آل عمران۔ 20)۔ ’’ اہل کتاب اور امیوں سے پوچھو کیا تم نے اسلام قبول کیا؟’’ یہاں امیوں سے مراد مشرکین عرب ہیں، اور ان کو اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ سے الگ ایک گروہ قرار دیا گیا ہے۔ کسی جگہ یہ لفظ خود اہل کتاب کے اَن پڑھ اور کتاب اللہ سے نا واقف لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جیسے فرمایا : وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّا اَمَا نِیَّ (البقرہ۔ 78)۔’’ اِن یہودیوں میں کچھ لوگ امی ہیں، کتاب کا کوئی علم نہیں رکھتے ، بس اپنی آرزوؤں ہی کو جانتے ہیں ‘‘۔ اور کسی جگہ یہ لفظ خالص یہودی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے جس سے مراد دنیا کے تمام غیر یہودی ہیں۔ مثلاً فرمایا: ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْ ا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ (آل عمران۔ 75 )۔ یعنی ’’ ان کے اندر یہ بد دیانتی پیدا ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں امیوں کا مال مار کھانے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے ’’۔ یہی تیسرے معنی ہیں جو آیت زیر بحث میں مراد لیے گئے ہیں۔ یہ لفظ عبرانی زبان کے لفظ گوئیم کا ہم معنی ہے ، جس کا ترجمہ انگریزی بائیبل میں Gentiles کیا گیا ہے ، اور اس سے مراد تمام غیر یہودی یا غیر اسرائیلی لوگ ہیں۔

لیکن اس یہودی اصطلاح کی اصل معنویت محض اس کی اس تشریح سے سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ در اصل عبرانی زبان کا لفظ گوئیم ابتداءً محض اقوام کے معنی میں بولا جاتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہودیوں نے اسے پہلے تو اپنے سوا دوسری قوموں کے لیے مخصوص کر دیا، پھر اس کے اندر یہ معنی پیدا کر دیے کہ یہودیوں کے سوا باقی تمام اقوام نا شائستہ، بد مذہب، ناپاک اور ذلیل ہیں، حتیٰ کہ حقارت اور نفرت میں یہ لفظ یونانیوں کی اصطلاح Barbarian سے بھی بازی لے گیا جسے وہ تمام غیر یونانیوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ربیوں کے لٹریچر میں گوئیم اس قدر قابل نفرت لوگ ہیں کہ ان کو انسانی بھائی نہیں سمجھا جا سکتا، ان کے ساتھ سفر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ان میں سے کوئی شخص ڈوب رہا ہو تو اسے بچانے کی کوشش بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ آنے والا مسیح تمام گوئیم کو ہلاک کر دے گا اور جلا کر خاکستر کر ڈالے گا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، آل عمران، حاشیہ 64 )۔

3. قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ صفات چار مقامات پر بیان کی گئی ہیں، اور ہر جگہ ان کے بیان کی غرض مختلف ہے۔ البقرہ آیت 129 میں ان کا ذکر اہل عرب کو یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ آنحضورؐ کی بعثت، جسے وہ اپنے لیے زحمت و مصیبت سمجھ رہے تھے ، در حقیقت ایک بڑی نعمت ہے جس کے لیے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام اپنی اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگا کر تے تھے۔ البقرہ آیت 151 میں انہیں اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان حضورؐ کی قدر پہچانیں اور اس نعمت سے پورا پورا فیض حاصل کریں جو حضورؐ کی بعثت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہے۔ آل عمران آیت 164 میں منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کو یہ احساس دلانے کے لیے ان کا اعادہ کیا گیا ہے کہ وہ کتنا بڑا احسان ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان اپنا رسول بھیج کر کیا ہے اور یہ لوگ کتنے نادان ہیں کہ اس کی قدر نہیں کرتے۔ اب چوتھی مرتبہ انہیں اس سورہ میں دہرایا گیا ہے جس سے مقصود یہودیوں کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تمہاری آنکھوں کے سامنے جو کام کر رہے ہیں وہ صریحاً ایک رسول کا کام ہے۔ وہ اللہ کی آیات سنا رہے ہیں جن کی زبان، مضامین، انداز بیان، ہر چیز اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ فی الواقع وہ اللہ ہی کی آیات ہیں۔ وہ لوگوں کی زندگیاں سنوار رہے ہیں، ان کے اخلاق اور عادات اور معاملات کو ہر طرح کی گندگیوں سے پاک کر رہے ہیں، اور ان کو اعلیٰ درجے کو اعلیٰ درجے کے اخلاقی فضائل سے آراستہ کر رہے ہیں۔ یہ وہی کام ہے جو اس سے پہلے تمام انبیاء کرتے رہے ہیں۔ پھر وہ صرف آیات ہی سنانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ہر وقت اپنے قول اور عمل سے اور اپنی زندگی کے نمونے سے لوگوں کو کتاب الٰہی منشا سمجھا رہے ہیں اور ان کو اس حکمت و دانائی کی تعلیم دے رہے ہیں جو انبیاء کے سوا آج تک کسی نے نہیں دی ہے۔ یہی سیرت اور کردار اور کام ہی تو انبیاء کا وہ نمایاں وصف ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ پھر یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ جس کا رسول بر حق ہونا اس کے کارناموں سے علانیہ ثابت ہو رہا ہے اس کو ماننے سے تم نے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ اللہ نے اسے تمہاری قوم کے بجائے اس قوم میں سے اٹھایا جسے تم امی کہتے ہو۔‘‘

4. یہ حضورؐ کی رسالت کا ایک اور ثبوت ہے جو یہودیوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے عرب کی سر زمین میں آباد تھے اور اہل عرب کی مذہبی، اخلاقی، معاشرتی، اور تمدنی زندگی کا کوئی گوشہ ان سے چھپا ہوا نہ تھا۔ ان کی اس سابق حالت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ چند سال کے اندر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت و رہنمائی میں اس قوم کی جیسی کایا پلٹ گئی ہے اس کے تم عینی شاہد ہو۔ تمہارے سامنے وہ حالت بھی ہے جس میں یہ لوگ اسلام قبول کرنے سے پہلے مبتلا تھے۔ وہ حالت بھی ہے جو اسلام لانے کے بعد ان کی ہو گئی، اور اسی قوم کے ان لوگوں کی حالت بھی تم دیکھ رہے ہو جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا ہے۔ کیا یہ کھلا کھلا فرق، جسے ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے ، تمہیں یہ یقین دلانے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ ایک نبی کے سوا کسی کا کارنامہ نہیں ہو سکتا؟ بلکہ اس کے سامنے تو پچھلے انبیاء تک کے کارنامے ماند پڑ گئے ہیں۔

5. یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت صرف عرب قوم تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کی ان دوسری قوموں اور نسلوں کے لیے بھی ہے جو ابھی آ کر اہل ایمان میں شامل نہیں ہوئی ہیں مگر آگے قیامت تک آنے والی ہیں۔ اصل الفاظ ہیں وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ۔ ’’ دوسرے لوگ ان میں سے جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں ‘‘ اس میں لفظ منہم (ان میں سے ) کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ دوسرے لوگ امیوں میں سے ، یعنی دنیا کی غیر اسرائیلی قوموں میں سے ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ماننے والے ہونگے جو ابھی اہل ایمان میں شامل نہیں ہوئے ہیں مگر بعد میں آ کر شامل ہو جائیں گے۔ اس طرح یہ آیت منجملہ ان آیات کے ہے جن میں تصریح کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت تمام نوع انسانی کی طرف ہے اور ابد تک کے لیے ہے۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات جہاں اس مضمون کی صراحت کی گئی ہے ، حسب ذیل ہیں: الانعام، آیت 19۔ الاعراف، 158۔ الانبیاء، 107۔ الفرقان، 1۔ سبا، 28 (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ 47)۔

6. یعنی یہ اسی کی قدرت و حکمت کا کرشمہ ہے کہ ایسی نا تراشیدہ امی قوم میں اس نے ایسا عظیم نبی بیدا کیا جس کی تعلیم و ہدایت اس درجہ انقلاب انگیز ہے ، اور پھر ایسے عالمگیر ابدی اصولوں کی حامل ہے جن پر تمام نوع انسانی مل کر ایک امت بن سکتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ ان اصولوں سے رہنمائی حاصل کر سکتی ہے۔ کوئی بناؤٹی انسان خواہ کتنی ہی کوشش کر لیتا، یہ مقام و مرتبہ کبھی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ عرب جیسی پسماندہ قوم تو درکنار، دنیا کی کسی بڑی سے بڑی قوم کا کوئی ذہین سے ذہین آدمی بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم کی اس طرح مکمل طور پر کایا پلٹ دے ، اور پھر ایسے جامع اصول دنیا کودے دے جن پر ساری نوع انسانی ایک امت بن کر ایک دین اور ایک تہذیب کا عالمگیر و ہمہ گیر نظام ابد تک چلانے کے قابل ہو جائے۔ یہ ایک معجزہ ہے جو اللہ کی قدرت سے رونما ہوا ہے ، اور اللہ ہی نے اپنی حکمت کی بنا پر جس شخص، جس ملک، اور جس قوم کو چاہا ہے اس کے لیے انتخاب کیا ہے۔ اس پر اگر کسی بے وقوف کا دل دکھتا ہے تو دکھتا رہے۔

7. اس فقرے کے دو معنی ہیں۔ ایک عام اور دوسرا خاص۔ عام معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں پر توراۃ کے علم و عمل، اور اس کے مطابق دنیا کی ہدایت کا بار رکھا گیا تھا، مگر نہ انہوں نے اپنی اس ذمہ داری کو سمجھا اور نہ اس کا حق ادا کیا۔ خاص معنی یہ ہیں کہ حامل توراۃ گروہ ہونے کی حیثیت سے جن کا کام یہ تھا کہ سب سے پہلے آگے بڑھ کر اس رسول کا ساتھ دیتے جس کے آنے کی صاف صاف بشارت توراۃ میں دی گئی تھی، مگر انہوں نے سب سے بڑھ کر اس کی مخالف کی اور توراۃ کی تعلیم کے تقاضے کو پورا نہ کیا۔

8. یعنی جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوں اور وہ نہیں جانتا کہ اس کی پیٹھ پر کیا ہے ، اسی طرح یہ توراۃ کو اپنے اوپر لادے ہوئے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ کتاب کس لیے آئی ہے اور ان سے کیا چاہتی ہے۔

9. یعنی ان کا حال گدھے سے بھی بد تر ہے۔ وہ تو سمجھ بوجھ نہیں رکھتا اس لیے مغرور ہے۔ مگر یہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ توراۃ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ اس کے معنی سے ناواقف نہیں ہیں۔ پھر بھی یہ اس کی ہدایات سے دانستہ انحراف کر رہے ہیں، اور اس نبی کو ماننے سے قصداً انکار کر رہے ہیں جو توراۃ کی رو سے سراسر حق پر ہے۔ یہ نا فہمی کے قصور وار نہیں ہیں بلکہ جان بوجھ کر اللہ کی آیات کو جھٹلانے کے مجرم ہیں۔

10. یہ نکتہ قابل توجہ ہے۔’’ اَے یہودیو‘‘ نہیں کہا ہے بلکہ ’’اَے وہ لوگو جو یہودی بن گئے ہو ’’ یا ’’ جنہوں نے یہودیت اختیار کر لی ہے ‘‘ فرمایا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل دین جو موسیٰ علیہ السلام اور ان سے پہلے اور بعد کے انبیاء لائے تھے وہ تو اسلام ہی تھا۔ ان انبیاء میں سے کوئی بھی یہودی نہ تھا، اور نہ ان کے زمانے میں یہودیت پیدا ہوئی تھی۔ یہ مذہب اس نام کے ساتھ بہت بعد کی پیداوار ہے۔ یہ اس خاندان کی طرف منسوب ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے چوتھے بیٹے یہوداہ کی نسل سے تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد جب سلطنت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی تو یہ خاندان اس ریاست کا مالک ہوا جو یہود یہ کے نام سے موسوم ہوئی، اور بنی اسرائیل کے دوسرے قبیلوں نے اپنی الگ ریاست قائم کر لی جو سامِریہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ پھر اسیریا نے نہ صرف یہ کہ سامریہ کو برباد کردیا بلکہ ان اسرائیلی قبیلوں کا بھی نام و نشان مٹادیاجو اس ریاست کے بانی تھے۔اس کے بعد صرف یہوداہ، اور اس کے ساتھ بن یامین کی نسل باقی رہ گئی جس پر یہوداہ کی نسل کے غلبے کی وجہ سے ’’ یہود‘‘ ہی کے لفظ کا اطلاق ہونے لگا۔ اس نسل کے اندر کاہنوں اور ربیوں اور احبار نے اپنے اپنے خیالات و نظریات اور رجحانات کے مطابق عقائد اور رسوم اور مذہبی ضوابط کا جو ڈھانچہ صد ہا برس میں تیار کیا اس کا نام یہودیت ہے۔ یہ ڈھانچا چوتھی صدی قبل مسیح سے بننا شروع ہوا اور پانچویں صدی عیسوی تک بنتا رہا۔ اللہ کے رسولوں کی لائی ہوئی ربانی ہدایت کا بہت تھوڑا ہی عنصر اس میں شامل ہے۔ اور اس کا حلیہ بھی اچھا خاصا بگڑ چکا ہے۔ اسی بنا پر قرآن مجید میں اکثر مقامات پر ان کو الَّذِیْنَ ھَادُوْ ا کہہ کر خطاب کیا گیا ہے ، یعنی ’’ اے وہ لوگو جو یہودی بن کر رہ گئے ہو ‘‘۔ ان میں سب کے سب اسرائیل ہی نہ تھے ، بلکہ وہ غیر اسرائیلی بھی تھے جنہوں نے یہودیت قبول کر لی تھی۔ قرآن میں جہاں بنی اسرائیل کو خطاب کیا گیا ہے وہاں ’’اے نبی اسرائیل ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اور جہاں مذہب یہود کے پیروؤں کو خطاب کیا گیا ہے وہاں اَلَّذِیْنَ ھَادُوْا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

11. قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان کے اس دعوے کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ یہودیوں کے سوا کوئی جنت میں داخل نہ ہو گا (البقرہ۔111) ہمیں دوزخ کی آگ ہر گز نہ چھوئے گی، اگر ہم کو سزا ملے گی بھی تو بس چند روز (البقرہ۔ 80، آل عمران۔ 24)۔ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں(المائدہ۔18 ) ایسے ہی کچھ دعوے خود یہودیوں کی اپنی کتابوں میں بھی ملتے ہیں۔ کم از کم یہ بات تو ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کی بر گزیدہ مخلوق (Chosen People) کہتے ہیں اور اس زعم میں مبتلا ہیں کہ خدا کا ان کے ساتھ ایک خاص رشتہ ہے جو کسی دوسرے انسانی گروہ سے نہیں ہے۔

12. یہ بات قرآن مجید میں دوسری مرتبہ یہودیوں کو خطاب کر کے کہی گئی ہے۔ پہلے سورہ بقرہ میں فرمایا گیا تھا ’’ ان سے کہو، اگر آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے اللہ کے ہاں مخصوص ہے تو پھر تم موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو۔ لیکن یہ ہر گز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے اُن کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کر چکے ہیں، اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ بلکہ تم تمام انسانوں سے بڑھ کر، حتیٰ کہ مشرکین سے بھی بڑھ کر ان کو کسی نہ کسی طرح جینے کا حریص پاؤ گے۔ ان میں سے کوئی یہ چاہتا ہے کہ ہزار برس جیے ، حالانکہ وہ لمبی عمر پائے تب بھی اسے یہ چیز عذاب سے نہیں بچا سکتی۔ ان کے سارے کرتوت اللہ کی نظر میں ہیں‘‘ (آیات 94۔96) اب اسی بات کو پھر یہاں دہرایا گیا ہے۔ لیکن یہ محض تکرار نہیں ہے۔ سورہ بقرہ والی آیات میں یہ بات اس وقت کہی گئی تھی جب یہودیوں سے مسلمانوں کی کوئی جنگ نہ ہوئی تھی۔ اور اس سورۃ میں اس کا اعادہ اس وقت کیا گیا ہے جب ان کے ساتھ متعدد معرکے پیش آنے کے بعد عرب میں آخری اور قطعی طور پر ان کا زور توڑ دیا گیا۔ ان معرکوں نے ، اور ان کے اس انجام نے وہ بات تجربے اور مشاہدے سے ثابت کر دی جو پہلے سورہ بقرہ میں کہی گئی تھی۔ مدینے اور خیبر میں یہودی طاقت بلحاظ تعداد مسلمانوں سے کسی طرح کم نہ تھی، اور بلحاظ وسائل ان سے بہت زیادہ تھی۔ پھر عرب کے مشرکین اور مدینے کے منافقین بھی ان کی پشت پر تھے اور مسلمانوں کو مٹانے پر تلے ہوئے تھے۔لیکن جس چیز نے اس نامساوی مقابلے میں مسلمانوں کو غالب اور یہودیوں کو مغلوب کیا وہ یہ تھی کہ مسلمان راہ خدا میں مرنے سے خائف تو درکنار، تہ دل سے اس کے مشتاق تھے اور سر ہتھیلی پر لیے ہوئے میدان جنگ میں اترتے تھے۔ کیونکہ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ وہ خدا کی راہ میں لڑ رہے ہیں، اور وہ اس بات پر بھی کامل یقین رکھتے تھے کہ اس راہ میں شہید ہونے والے کے لیے جنت ہے۔ اس کے بر عکس یہودیوں کا حال یہ تھا کہ وہ کسی راہ میں بھی جان دینے کے لیے تیار نہ تھے ، نہ خدا کی راہ میں، نہ قوم کی راہ میں، نہ خود اپنی جان اور مال اور عزت کی راہ میں۔ انہیں صرف زندگی درکار تھی، خواہ وہ کیسی ہی زندگی ہو۔ اسی چیز نے ان کو بزدل بنا دیا تھا۔

13. بالفاظ دیگر ان کا موت سے یہ فرار بے سبب نہیں ہے۔ وہ زبان سے خواہ کیسے ہی لمبے چوڑے دعوے کریں، مگر ان کے ضمیر خوب جاتے ہیں کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ان کا معاملہ کیا ہے ، اور آخرت میں ان حرکتوں کے کیا نتائج نکلنے کی توقع کی جا سکتی ہے جو وہ دنیا میں کر رہے ہیں۔ اسی لیے ان کا نفس خدا کی عدالت کا سامنا کرنے سے جی چراتا ہے۔