Tafheem ul Quran

Surah 63 Al-Munafiqun, Ayat 1-8

اِذَا جَآءَكَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوۡلُ اللّٰهِ ​ۘ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوۡلُهٗ ؕ وَاللّٰهُ يَشۡهَدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ لَـكٰذِبُوۡنَ​ ۚ‏ ﴿63:1﴾ اِتَّخَذُوۡۤا اَيۡمَانَهُمۡ جُنَّةً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ​ؕ اِنَّهُمۡ سَآءَ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿63:2﴾ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمۡ اٰمَنُوۡا ثُمَّ كَفَرُوۡا فَطُبِعَ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ فَهُمۡ لَا يَفۡقَهُوۡنَ‏ ﴿63:3﴾ وَاِذَا رَاَيۡتَهُمۡ تُعۡجِبُكَ اَجۡسَامُهُمۡ​ ؕ وَاِنۡ يَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِهِمۡ​ ؕ كَاَنَّهُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ   ​ؕ يَحۡسَبُوۡنَ كُلَّ صَيۡحَةٍ عَلَيۡهِمۡ​ ؕ هُمُ الۡعَدُوُّ فَاحۡذَرۡهُمۡ​ ؕ قَاتَلَهُمُ اللّٰهُ​ اَنّٰى يُـؤۡفَكُوۡنَ‏  ﴿63:4﴾ وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ تَعَالَوۡا يَسۡتَغۡفِرۡ لَـكُمۡ رَسُوۡلُ اللّٰهِ لَـوَّوۡا رُءُوۡسَهُمۡ وَرَاَيۡتَهُمۡ يَصُدُّوۡنَ وَهُمۡ مُّسۡتَكۡبِرُوۡنَ‏ ﴿63:5﴾ سَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ اَسۡتَغۡفَرۡتَ لَهُمۡ اَمۡ لَمۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡؕ لَنۡ يَّغۡفِرَ اللّٰهُ لَهُمۡ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِيۡنَ‏ ﴿63:6﴾ هُمُ الَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ لَا تُنۡفِقُوۡا عَلٰى مَنۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰهِ حَتّٰى يَنۡفَضُّوۡا​ؕ وَلِلّٰهِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَلٰـكِنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ لَا يَفۡقَهُوۡنَ‏ ﴿63:7﴾ يَقُوۡلُوۡنَ لَـئِنۡ رَّجَعۡنَاۤ اِلَى الۡمَدِيۡنَةِ لَيُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡهَا الۡاَذَلَّ ​ؕ وَلِلّٰهِ الۡعِزَّةُ وَلِرَسُوۡلِهٖ وَلِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَلٰـكِنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿63:8﴾

1 - اے نبیؐ ، جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں،”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقیناً اللہ کے رسُول ہیں“۔ ہاں، اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اُس کے رسُول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جُھوٹے ہیں۔ 1 2 - انہوں نے اپنی قَسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے 2 اور اِس طرح یہ اللہ کے راستے سےخود رُکتے اور دنیا کو روکتے ہیں۔ 3 کیسی بُری حرکتیں ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ 3 - یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لا کر پھر کفر کیا اس لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، اب یہ کچھ نہیں سمجھتے۔ 4 4 - اِنہیں دیکھو تو اِن کے جُثّے تمہیں بڑے شاندار نظر آئیں۔ بولیں تو تم ان کی باتیں سُنتے رہ جاؤ۔ 5 مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کُندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چُن کر رکھ دیے گئے ہوں۔ 6 ہر روز کی آواز کو یہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ 7 یہ پکّے دشمن ہیں، 8 ان سے بچ کر رہو، 9 اللہ کی مار ان پر، 10 یہ کدھر اُلٹے پِھر ائے جا رہے ہیں۔ 11 5 - اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تاکہ اللہ کا رسُول تمہارے لیے مغفرت کی دُعا کرے ، تو سر جھٹکتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے رُکتے ہیں۔ 12 6 - اے نبیؐ ، تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی دُعا کرو یا نہ کرو، ان کے لیے یکساں ہے، اللہ ہر گز انہیں معاف نہ کرے گا، 13 اللہ فاسق لوگوں کو ہر گز ہدایت نہیں دیتا۔ 14 7 - یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسُول کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کردو تا کہ یہ منتشر ہو جائیں۔ حالانکہ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کامالک اللہ ہی ہے، مگر یہ منافق سمجھتے نہیں ہیں۔ 8 - یہ کہتے ہیں کہ ہم مدینے واپس پہنچ جائیں تو جو عزّت والا ہے وہ ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔ 15 حالانکہ عزّت تو اللہ اور اُس کے رسُولؐ اور مومنین کے لیے ہے، 16 مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں۔ ؏۱


Notes

1. یعنی جو بات وہ زبان سے کہہ رہے ہیں وہ ہے تو بجائے خود سچی، لیکن چونکہ ان کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جسے وہ زبان سے ظاہر کر رہے ہیں ،اس لیے اپنے اس قول میں وہ جھو ٹے ہیں کہ وہ آپ کے رسول ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شہادت دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے۔ ایک وہ اصل بات جس کی شہادت دی جائے۔ دوسرے اس بات کے متعلق شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ اب اگر بات بجائے خود بھی سچی ہو، اور شہادت دینے والے کا عقیدہ بھی وہی ہو جس کو وہ زبان سے بیان کر رہا ہو، تو ہر لحاظ سے وہ سچا ہو گا۔ اور اگر بات اپنی جگہ جھوٹی ہو، لیکن شہادت دینے والا اسی کے حق ہونے کا عقیدہ بیان کرنے میں صادق ہے ، اور ایک دوسرے لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے ، کیونکہ جس بات کی وہ شہادت دے رہا ہے وہ بجائے خود غلط ہے۔ اس کے برعکس اگر بات اپنی جگہ سچی ہو لیکن شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ اس کے خلاف ہو، تو ہم اس لحاظ سے اس کو سچا کہیں گے کہ وہ صحیح بات کی شہادت دے رہا ہے ، اور اس لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے کہ اس کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جس کا وہ زبان سے اظہار کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مومن اگر اسلام کو بر حق کہے تو وہ ہر لحاظ سچا ہے۔ لیکن ایک یہودی اپنی یہودیت پر قائم رہتے ہوئے اس دین کو اگر بر حق کہے تو بات اس کی سچی ہو گی مگر شہادت اس کی جھوٹی قرار دی جائے گی، کیونکہ وہ اپنے عقیدے کے خلاف شہادت دے رہا ہے۔ اور اگر وہ اس دین کو باطل کہے ، تو ہم کہیں گے کہ بات اس کی جھوٹی ہے ، مگر شہادت وہ اپنے عقیدے کے مطابق سچی دے رہا ہے۔

2. یعنی اپنے مسلمان اور مومن ہونے کا یقین دلانے کے لیے جو قَسمیں وہ کھاتے ہیں ، ان سے وہ ڈھال کا کام لیتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے غصے سے بچے رہیں اور ان کے ساتھ مسلمان وہ برتاؤ نہ کر سکیں جو کھُلے کھُلے دشمنوں سے کیا جاتا ہے۔

ان قَسموں سے مراد وہ قَسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو وہ بالعموم اپنے ایمان کا یقین دلانے کے لیے کھایا کرتے تھے ، اور وہ قَسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو اپنی کسی منافقانہ حرکت کے پکڑے جانے پر وہ کھاتے تھے تاکہ مسلمانوں کو یہ یقین دلائیں کہ وہ حرکت انہوں نے منافقت کی بنا پر نہیں کی تھی، اور وہ قَسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو عبداللہ بن ابی نے حضرت زید بن اَرقم کی دی ہوئی خبر کو جھٹلانے کے لیے کھائی تھیں۔ ان سب احتمالات کے ساتھ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کو قَسم قرار دیا ہو کہ ’’ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ‘‘۔ اس آخری احتمال کی بنا پر فقہاء کے درمیان یہ بحث پیدا ہوئی ہے کہ کوئی شخص ’’ میں شہادت دیتا ہوں ‘‘ کے الفاظ کہہ کر کوئی بات بیان کرے تو آیا اسے قَسم یا حلف (Oath) قرار دیا جائے گا یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے اصحاب (امام زُفَر کے سوا) اور امام سفیان ثوری اور امام اَوزاعی اسے حلف (شرعی اصطلاح میں یمین ) قرار دیتے ہیں۔ امام زفر کہتے ہیں کہ یہ حلف نہیں ہے۔ امام مالک سے دو قول مروی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مطلقاً حلف ہے ، اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر اس نے ’’ شہادت دیتا ہوں ‘‘ کے الفاظ کہتے وقت نیت یہ کی ہو کہ ’’خدا کی قَسم میں شہادت دیتا ہوں ‘‘، یا ’’ خدا کو گواہ کر کے میں شہادت دیتا ہوں ‘‘ تو اس صورت میں یہ حلفیہ بیان ہو گا ورنہ نہیں۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ اگر کہنے والا یہ الفاظ بھی کہے کہ میں ’’ خدا کو گواہ کر کے شہادت دیتا ہوں ‘‘ تب بھی اس کا یہ بیان حلفیہ بیان نہ ہو گا، الا یہ کہ یہ الفاظ اس نے حلف اٹھانے کی نیت سے کہے ہوں (احکام القرآن للجصاص۔ احکام القرآن لابن العربی)۔

3. صد کا لفظ عربی زبان میں لازم بھی ہے اور متعدی بھی۔ اس لیے صَدُّ وْا عَنْ سَبِیْلِ اللہِ کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہ اللہ کے راستے سے خود رُکتے ہیں ، اور یہ بھی کہ وہ اس راستے سے دوسروں کو روکتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں دونوں معنی درج کر دیے ہیں۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ اپنی ان قَسموں کے ذریعہ سے مسلمانوں کے اندر اپنی جگہ محفوظ کر لینے کے بعد وہ اپنے لیے ایمان کے تقاضے پورے نہ کرنے اور خدا و رسول کی اطاعت سے پہلو تہی کرنے کی آسانیاں پیدا کر لیتے ہیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ اپنی ان جھوٹی قَسموں کی آڑ میں وہ شکار کھیلتے ہیں ، مسلمان بن کر مسلمانوں کی جماعت میں اندر سے رخنے ڈالتے ہیں ، مسلمانوں کے اسرار سے واقف ہو کر دشمنوں کو ان کی خبریں پہنچاتے ہیں ، اسلام سے غیر مسلموں کو بد گمان کرنے اور سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں میں شبہات اور وسوسے ڈالنے کے لیے وہ وہ حربے استعمال کرتے ہیں جو صرف ایک مسلمان بنا ہوا منافق ہی استعمال کر سکتا ہے ، کھلا کھلا دشمن اسلام ان سے کام نہیں لے سکتا۔

4. اس آیت میں ایمان لانے سے مراد ایمان کا اقرار کر کے مسلمانوں میں شامل ہونا ہے۔ اور کفر کر نے سے مراد دل سے ایمان نہ لانا اور اسی کفر پر قائم رہنا ہے جس پر وہ اپنے ظاہری اقرار ایمان سے پہلے قائم تھے۔ کلام کا مدعا یہ ہے کہ جب انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر سیدھے سیدھے ایمان یا صاف صاف کفر کا طریقہ اختیار رکنے کے بجائے یہ منافقانہ روش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اور ان سے یہ توفیق سلب کر لی گئی کہ وہ ایک سچے اور بے لاگ اور شریف انسان کا سا رویہ اختیار کریں۔ اب ان کی سمجھ بوجھ کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے۔ ان کی اخلاقی حس مر چکی ہے۔ انہیں اس راہ پر چلتے ہوئے کبھی یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ شب و روز کا جھوٹ اور یہ ہر وقت کا مکر و فریب اور یہ قول و فعل کا دائمی تضاد، کیسی ذلیل حالت ہے جس میں انہوں نے اپنے آپ کو مبتلا کر لیا ہے۔

یہ آیت من جملہ ان آیات کے ہے جن میں اللہ کی طرف سے کسی کے دل پر مہر لگانے کا مطلب بالکل واضح طریقہ سے بیان کر دیا گیا ہے۔ ان منافقین کی یہ حالت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی تھی اس لیے ایمان ان کے اندر اتر ہی نہ سکا اور وہ مجبوراً منافق بن کر رہ گئے۔ بلکہ اس نے ان کے دلوں پر یہ مہر اس وقت لگائی جب انہوں نے اظہار ایمان کرنے کے باوجود کفر پر قائم رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ تب ان سے مخلصانہ ایمان اور اس سے پیدا ہونے والے اخلاقی رویہ کی توفیق سلب کر لی گئی اور اس منافقت اور منافقانہ اخلاق ہی کی توفیق انہیں دے دی گئی جسے انہوں نے خود اپنے لیے پسند کیا تھا۔

5. حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی بڑے ڈیل ڈول کا، تندرست، خوش شکل اور چرب زبان آدمی تھا۔اور یہی شان اس کے بہت سے ساتھیوں کی تھی۔ یہ سب مدینہ کے رئیس لوگ تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں آتے تو دیواروں سے تکیے لگا کر بیٹھتے اور بڑی لچھے دار باتیں کرتے۔ ان کے جُثّے change fontبشرے کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر کوئی یہ گمان تک نہ کر سکتا تھا کہ بستی کے یہ معززین اپنے کردار کے لحاظ سے اتنے ذلیل ہوں گے۔

6. ۔ یعنی یہ جو دیواروں کے ساتھ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں ، یہ انسان نہیں ہیں بلکہ لکڑی کے کندے ہیں۔ ان کو لکڑی سے تشبیہ دے کر یہ بتایا گیا کہ یہ اخلاق کی روح سے خالی ہیں جو اصل جو ہر انسانیت ہے۔ پھر انہیں دیوار سے لگے ہوئے کندوں سے تشبیہ دے کر یہ بھی بتا دیا گیا کہ یہ بالکل ناکارہ ہیں۔ کیونکہ لکڑی بھی اگر کوئی فائدہ دیتی ہے تو اس وقت جب کہ وہ کسی چھت میں ، یا کسی دروازے میں یا کسی فرنیچر میں لگ کر استعمال ہو رہی ہو۔ دیوار سے لگا کر کندے کی شکل میں جو لکڑی رکھ دی گئی ہو وہ کوئی فائدہ بھی نہیں دیتی۔

7. اس مختصر سے فقرے میں ان کے مجرم ضمیر کی تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ چونکہ وہ اپنے دلوں میں خوب جانتے تھے کہ وہ ایمان کے ظاہر پردے کی آڑ میں منافقت کا کیا کھیل کھیل رہے ہیں ، اس لیے انہیں ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کب ان کے جرائم کا راز فاش ہو، یا ان کی حرکتوں پر اہل ایمان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور ان کی خبر لے ڈالی جائے۔ بستی میں کسی طرف سے بھی کوئی زور کی آواز آتی یا کہیں کوئی شور بلند ہوتا تھا تو وہ سہم جاتے اور یہ خیال کرتے تھے کہ آ گئی ہماری شامت۔

8. دوسرے الفاظ میں کھلے دشمنوں کی بہ نسبت یہ چھپے ہوئے دشمن زیادہ خطرناک ہیں۔

9. یعنی ان کے ظاہر سے دھوکا نہ کھاؤ۔ ہر وقت خیال رکھو کہ یہ کسی وقت بھی دغا دے سکتے ہیں۔

10. یہ بد دعا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے بارے میں اس فیصلے کا اعلان ہے کہ وہ اس کی مار کے مستحق ہو چکے ہیں ، ان پر اس کی مار پڑ کر رہے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے لُغوی معنی میں استعمال نہ فرمائے ہوں بلکہ عربی محاورے کے مطابق لعنت اور پھٹکار اور مذمّت کے لیے استعمال کیے ہوں ، جیسے اردو میں ہم کسی کی برائی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ستیاناس اس کا، کیسا خبیث آدمی ہے۔ اس لفظ ستیاناس سے مقصود ا س کی خیانت کی شدت ظاہر کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس کے حق میں بد دعا کرنا۔

11. یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کو ایمان سے نفاق کی طرف الٹا پھرانے والا کون ہے۔ اس کی تصریح نہ کرنے سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان کی اس اوندھی چال کا کوئی ایک محرک نہیں ہے بلکہ بہت سے محرکات اس میں کار فرما ہیں۔ شیطان ہے۔ برے دوست ہیں۔ ان کے اپنے نفس کی اغراض ہیں۔ کسی کی بیوی اس کی محرک ہے۔ کسی کے بچے اس کے محرک ہیں۔ کسی کی برادری کے اشرار اس کے محرک ہیں۔ کسی کو حسد اور بغض اور تکبر نے اس راہ پر ہانک دیا ہے۔

12. یعنی صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ رسول کے پاس استغفار کے لیے نہ آئیں ، بلکہ یہ بات سن کر غرور اور تمکنت کے ساتھ سر کو جھٹکا دیتے ہیں اور رسول کے پاس آنے اور معافی طلب کرنے کو اپنی توہین سمجھ کر اپنی جگہ جمے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ ان کے مومن نہ ہونے کی کھلی علامت ہے۔

13. یہ بات سورہ توبہ میں (جو سورہ منافقون کے تین سال بعد نازل ہوئی ہے ) اور زیادہ تاکید کے ساتھ فرما دی گئی۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے منافقین کے متعلق فرمایا کہ ’’ تم چاہے ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو، اگر تم ستر(70) مرتبہ بھی ان کے لیے دعائے مغفرت کرو گے تو اللہ ان کو ہر گز معاف نہ کرے گا۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے ، اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ’’ (التوبہ۔ آیت 80)۔ آگے چل کر پھر فرمایا’’ اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے اور یہ فاسق ہونے کی حالت میں مرے ہیں ‘‘(التوبہ۔ آیت 84)۔

14. اس آیت میں دو مضمون بیان کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ دعائے مغفرت صرف ہدایت یافتہ لوگوں ہی کے حق میں مفید ہو سکتی ہے۔ جو شخص ہدایت سے پھر گیا ہو اور جس نے اطاعت کے بجائے فسق و نا فرمانی کی راہ اختیار کر لی ہو، اس کے لیے کوئی عام آدمی تو در کنار، خود اللہ کا رسول بھی مغفرت کی دعا کرے تو اسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے یہ کہ ایسے لوگوں کو ہدایت بخشنا اللہ کا طریقہ نہیں ہے جو اس کی ہدایت کے طالب نہ ہوں۔اگر ایک بندہ خود اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے منہ موڑ رہا ہو، بلکہ ہدایت کی طرف اسے بلایا جائے تو سر جھٹک کر غرور کے ساتھ اس دعوت کو رد کر دے ، تو اللہ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اس کے پیچھے پیچھے اپنی ہدایت لیے پھرے اور خوشامد کرکے اسے راہ راست پر لائے۔

15. حضرت زید بن ارقم کہتے ہیں کہ جب میں نے عبداللہ بن ابی کا یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچایا، اور اس نے آ کر صاف انکار کر دیا اور اس پر قَسم کھا گیا، تو انصار کے بڑے بوڑھوں نے اور خود میرے اپنے چچا نے مجھے بہت ملامت کی، حتیٰ کہ مجھے یہ محسوس ہو ا کہ حضورؐ نے بھی مجھے جھوٹا اور عبداللہ بن ابی کو سچا سمجھا ہے۔ اس چیز سے مجھے ایسا غم لاحق ہوا جو عمر بھر کبھی نہیں ہوا اور میں دل گرفتہ ہو کر اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے بلا کر ہنستے ہوئے میرا کان پکڑا اور فرمایا لڑکے کا کان سچا تھا، اللہ نے اس کی خود تصدیق فرما دی (ابن جریر۔ترمذی میں بھی اس سے ملتی جلتی روایت موجود ہے )۔

16. یعنی عزت اللہ کے لیے بالذات مخصوص ہے ، اور رسول کے لیے بر بنائے رسالت، اور مومنین کے لیے بر بنائے ایمان۔ رہے کفار و فُسّاق و منافقین، تو حقیقی عزت میں سرے سے ان کا کوئی حصہ ہی نہیں ہے۔