Tafheem ul Quran

Surah 63 Al-Munafiqun, Ayat 9-11

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡهِكُمۡ اَمۡوَالُكُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُكُمۡ عَنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ​ۚ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰلِكَ فَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ‏  ﴿63:9﴾ وَاَنۡفِقُوۡا مِنۡ مَّا رَزَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِىَ اَحَدَكُمُ الۡمَوۡتُ فَيَقُوۡلَ رَبِّ لَوۡلَاۤ اَخَّرۡتَنِىۡۤ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيۡبٍۙ فَاَصَّدَّقَ وَاَكُنۡ مِّنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ ﴿63:10﴾ وَلَنۡ يُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفۡسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَا​ؕ وَاللّٰهُ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿63:11﴾

9 - 17 اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں۔ 18 جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔ 10 - جو رزق ہم نےتمہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اُس وقت وہ کہے کہ”اے میرے رب، کیوں نہ تُو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اَور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا۔“ 11 - حالانکہ جب کسی کی مُہلتِ عمل پُوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اللہ اُس کو ہرگز مزید مُہلت نہیں دیتا، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔ ؏۲


Notes

17. اب تمام ان لوگوں کو جو دائرہ اسلام میں داخل ہوں ، قطع نظر اس سے کہ سچے مومن ہوں یا محض زبانی اقرار ایمان کرنے والے ، عام خطاب کر کے ایک کلمۂ نصیحت ارشاد فرمایا جا رہا ہے۔ یہ بات اس سے پہلے ہم کئی مرتبہ بیان کر چکے ہیں کہ قرآن مجید میں اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے کبھی تو سچے اہل ایمان کو خطاب کیا جاتا ہے ، اور کبھی اس کے مخاطب منافقین ہوتے ہیں کیونکہ وہ زبانی اقرار ایمان کرنے والے ہوا کرتے ہیں ،اور کبھی ہر طرح کے مسلمان بالعموم اس سے مراد ہوتے ہیں۔ کلام کا موقع و محل یہ بتا دیتا ہے کہ کہاں کونسا گروہ ان الفاظ کا مخاطب ہے۔

18. مال اور اولاد کا ذکر تو خاص طور پر اس لیے کیا گیا ہے کہ انسان زیادہ تر انہی کے مفاد کی خاطر ایمان کے تقاضوں سے منہ موڑ کر منافقت، یا ضعف ایمان، یا فسق و نافرمانی میں مبتلا ہوتا ہے ، ورنہ در حقیقت مراد دنیا کی ہر وہ چیز ہے جو انسان کو اپنے اندر اتنا مشغول کر لے کہ وہ خدا کی یاد سے غافل ہو جائے۔ یہ یاد خدا سے غفلت ہی ساری خرابیوں کی اصل جڑ ہے۔ اگر انسان کو یہ یاد رہے کہ وہ آزاد نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے ، اور وہ خدا اس کے تمام اعمال سے با خبر ہے ، اور اس کے سامنے جا کر ایک دن اسے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے ، تو وہ کبھی کسی گمراہی و بد عملی میں مبتلا نہ ہو، اور بشری کمزوری سے اس کا قدم اگر کسی وقت پھسل بھی جائے تو ہوش آتے ہی وہ فوراً سنبھل جائے۔