Tafheem ul Quran

Surah 64 At-Taghabun, Ayat 11-18

مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِيۡبَةٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰهِ​ؕ وَمَنۡ يُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ يَهۡدِ قَلۡبَهٗ​ؕ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ‏ ﴿64:11﴾ وَاَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡعُوا الرَّسُوۡلَ​ۚ فَاِنۡ تَوَلَّيۡتُمۡ فَاِنَّمَا عَلٰى رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ‏ ﴿64:12﴾ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ​ؕ وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ‏  ﴿64:13﴾ ​يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِكُمۡ وَاَوۡلَادِكُمۡ عَدُوًّا لَّكُمۡ فَاحۡذَرُوۡهُمۡ​ۚ وَاِنۡ تَعۡفُوۡا وَتَصۡفَحُوۡا وَتَغۡفِرُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿64:14﴾ اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُـكُمۡ وَاَوۡلَادُكُمۡ فِتۡنَةٌ ​ؕ وَاللّٰهُ عِنۡدَهٗۤ اَجۡرٌ عَظِيۡمٌ‏ ﴿64:15﴾ فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ وَاسۡمَعُوۡا وَاَطِيۡعُوۡا وَاَنۡفِقُوۡا خَيۡرًا لِّاَنۡفُسِكُمۡ​ؕ وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِهٖ فَاُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏  ﴿64:16﴾ اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا يُّضٰعِفۡهُ لَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ​ؕ وَاللّٰهُ شَكُوۡرٌ حَلِيۡمٌۙ‏ ﴿64:17﴾ عٰلِمُ الۡغَيۡبِ وَالشَّهَادَةِ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿64:18﴾

11 - 23 کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اِذن ہی سے آتی ہے۔ 24 جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے، 25 اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔ 26 12 - اللہ کی اطاعت کرو اوررسُول کی طاعت کرو۔ لیکن اگر تم اطاعت سےمُنہ موڑتے ہو تو ہمارے رسُول پر صاف صاف حق پہنچادینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ 27 13 - اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں، لہٰذا ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ 28 14 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم عفوودرگزر سے کام لو اور معاف کردو تو اللہ غفور و رحیم ہے۔ 29 15 - تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔ 30 16 - لہٰذا جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو، 31 اور سنو اور اطاعت کرو، اوراپنے مال خرچ کرو، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے۔ جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں۔ 32 17 - اگر تم اللہ کو قرضِ حَسَن دو تو وہ تمہیں کئی گُنا بڑھا کر دے گا 33 اور تمہارے قصوروں سے در گزر فرمائے گا، اللہ بڑا قدردان اور بردبار ہے، 34 18 - حاضر اور غائب ہر چیز کو جانتا ہے، زبردست اور دانا ہے۔ ؏۲


Notes

23. اب روئے سخن اہل ایمان کی طرف ہے۔ اس سلسلہ کلام کو پڑھتے ہوئے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں وہ مسلمانوں کے لیے سخت مصائب کا زمانہ تھا۔ مکہ سے برسوں ظلم سہنے کے بعد سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آ گئے تھے۔ اور مدینے میں جن حق پر ستوں نے ان کو پناہ دی تھی ان پر دہری مصیبت آ پڑی تھی۔ ایک طرف انہیں سینکڑوں مہاجرین کو سہارا دینا تھا جو عرب کے مختلف حصوں سے ان کی طرف چلے آ رہے تھے ، اور دوسری طرف پورے عرب کے اعدائے اسلام ان کے درپے آزار ہو گئے تھے۔

24. یہ مضمون سورہ الحدید، آیات 22۔ 23 میں بھی گزر چکا ہے اور وہاں حواشی نمبر 39 تا 42 میں ہم اس کی تشریح کر چکے ہیں۔ جن حالات میں اور جس مقصد کے لیے یہ بات وہاں فرمائی گئی تھی، اسی طرح کے حالات میں اسی مقصد کے لیے اسے یہاں دہرایا گیا ہے۔ جو حقیقت مسلمانوں کے ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ نہ مصائب خود آ جاتے ہیں ، نہ دنیا میں کسی کی یہ طاقت ہے کہ اپنے اختیار سے جس پر جو مصیبت چاہے نازل کر دے۔ یہ تو سراسر اللہ کے اِذن پر موقوف ہے کہ کسی پر کوئی مصیبت نازل ہونے دے یا نہ ہونے دے۔ اور اللہ کا اذن بہر حال کسی نہ کسی مصلحت کی بنا پر ہوتا ہے جسے انسان نہ جانتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے۔

25. یعنی مصائب کے ہجوم میں جو چیز انسان کو راہ راست پر قائم رکھتی ہے اور کسی سخت سے سخت حالت میں بھی اس کے قدم ڈگمگانے نہیں دیتی وہ صرف ایمان باللہ ہے۔ جس کے دل میں ایمان نہ ہو وہ آفات کو یا تو اتفاقات کا نتیجہ سمجھتا ہے ، یا دنیوی طاقتوں کو ان کے لانے اور روکنے میں مؤثر مانتا ہے ، یا انہیں ایسی خیالی طاقتوں کا عمل سمجھتا ہے جنہیں انسانی اوہام نے نفع و ضرر پہنچانے پر قادر فرض کر لیا ہے ، یا خدا کو فاعِل مختار مانتا تو ہے مگر صحیح ایمان کے ساتھ نہیں مانتا۔ ان تمام مختلف صورتوں میں آدمی کم ظرف ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایک خاص حد تک تو وہ مصیبت سہہ لیتا ہے ، لیکن اس کے بعد وہ گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ ہر آستانے پر جھک جاتا ہے۔ ہر ذلت قبول کر لیتا ہے۔ ہر کمینہ حرکت کر سکتا ہے۔ ہر غلط کام کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ خدا کو گالیاں دینے سے بھی نہیں چوکتا۔ حتیٰ کہ خود کشی تک کر گزرتا ہے۔ اس کے بر عکس جو شخص یہ جانتا اور سچے دل سے مانتا ہو کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس کائنات کا مالک و فرمانروا ہے ، اور اسی کے اذن سے مصیبت آتی اور اسی کے حکم سے ٹل سکتی ہے ، اس کے دل کو اللہ صبر و تسلیم اور رضا بقضاء کی توفیق دیتا ہے ، اس کو عزم اور ہمت کے ساتھ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت بخشتا ہے ، تاریک سے تاریک حالات میں بھی اس کے سامنے اللہ کے فضل کی امید کا چراغ روشن رہتا ہے ،اور کوئی بڑی سے بڑی آفت بھی اس کو اتنا پست ہمت نہیں ہونے دیتی کہ وہ راہ راست سے ہٹ جائے، یا باطل کے آگے سر جھکا دے ، یا اللہ کے سوا کسی اور کے در پر اپنے درد کا مداوا ڈھونڈنے لگے۔ اس طرح ہر اس کے لئے مزید خیر کے دروازے کھول دیتی ہے۔اور کوئی مصیبت بھی حقیقت میں اس کے لئے مصیبت نہیں رہتی بلکہ نتیجے کے اعتبار سے سراسر رحمت بن جاتی ہے ، کیونکہ خواہ وہ اس کا شکار ہو کر رہ جائے یا اس سے بخیریت گزر جائے، دونوں صورتوں میں وہ اپنے رب کی ڈالی ہوئی آزمائش سے کامیاب ہو کر نکلتا ہے۔ اسی چیز کو ایک متفق علیہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے : عجباً للمؤمن، لا یقضی اللہ لہ قضاءً الا کان خیراً الہٰ، ان اصا بتْہ ضَرّاء صبرٌ، فکان خیراً لہٗ، وان اصابَتہ سرّاء شکر، فکان خیراً الہ، ولیس ذالک لِاَ حدٍ الّا المؤمن۔ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اللہ اس کے حق میں جو فیصلہ بھی کرتا ہے وہ اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔ مصیبت پڑے تو صبر کرتا ہے ، اور وہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے۔ خوشحالی میسر آئے تو شکر کرتا ہے ، اور وہ بھی اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔ یہ بات مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوتی‘‘۔

26. اس سلسلہ کلام میں اس ارشاد کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کو معلوم ہے کہ کون شخص واقعی ایمان رکھتا ہے اور کس شان کا ایمان رکھتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے علم کی بنا پر اسی قلب کو ہدایت بخشتا ہے جس میں ایمان ہو، اور اسی شان کی ہدایت بخشتا ہے جس شان کا ایمان اس میں ہو۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے مومن بندوں کے حالات سے اللہ بے خبر نہیں ہے۔ اس نے ایمان کی دعوت دے کر، اور اس ایمان کے ساتھ دنیا کی شدید آزمائشوں میں ڈال کر انہیں ان کے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کس مومن پر دنیا میں کیا کچھ گزر رہی ہے اور وہ کن حالات میں اپنے ایمان کے تقاضے کس طرح پورے کر رہا ہے۔ اس لیے اطمینان رکھو کہ جو مصیبت بھی اللہ کے اذن سے تم پر نازل ہوتی ہے ، اللہ کے علم میں ضرور اس کی کوئی عظیم مصلحت ہوتی ہے اور اس کے اندر کوئی بڑی خیر پوشیدہ ہوتی ہے ، کیونکہ اللہ اپنے مومن بندوں کا خیر خواہ ہے ، بلا وجہ انہیں مصائب میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا۔

27. سلسلہ کلام کے لحاظ سے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اچھے حالات ہوں یا برے حالات، ہر حال میں اللہ اور رسول کی اطاعت پر قائم رہو۔ لیکن اگر مصائب کے ہجوم سے گھبرا کر تم اطاعت سے منہ موڑ گئے تو اپنا ہی نقصان کرو گے۔ ہمارے رسول پر صرف یہ ذمہ داری تھی کہ راہ راست تم کو ٹھیک ٹھیک بتا دے ، سو اس کا حق رسول نے ادا کر دیا ہے۔

28. یعنی خدائی کے سارے اختیارات تنہا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ کوئی دوسرا سرے سے یہ اختیار رکھتا ہی نہیں ہے کہ تمہاری اچھی یا بری تقدیر بنا سکے۔ اچھا وقت آ سکتا ہے تو اسی کے لائے آ سکتا ہے ، اور برا وقت ٹل سکتا ہے تو اسی کے ٹالے ٹل سکتا ہے۔ لہٰذا جو شخص سچے دل سے اللہ کو خدائے واحد مانتا ہو اس کے لیے اس کے سوا سرے سے کوئی راستہ ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ پر بھروسا رکھے اور دنیا میں ایک مومن کی حیثیت سے اپنا فرض اس یقین کے ساتھ انجام دیتا ہے چلا جائے کہ خیر بہر حال اسی راہ میں ہے جس کی طرف اللہ نے رہنمائی فرمائی ہے۔ اس راہ میں کامیابی نصیب ہو گی تو اللہ ہی کی مدد اور تائید و توفیق سے ہو گی، کوئی دوسری طاقت مدد کرنے والی نہیں ہے۔ اور اس راہ میں اگر مشکلات و مصائب اور خطرات و مہالک سے سابقہ پیش آئے گا تو ان سے بھی وہی بچائے گا، کوئی دوسرا بچانے والا نہیں ہے۔

29. اس آیت کے دو مفہوم ہیں۔ ایک مفہوم کے لحاظ سے اس کا اطلاق ان بہت سی مشکلات پر ہوتا ہے جو خدا کی راہ پر چلنے میں بکثرت اہل ایمان مردوں کو اپنی بیویوں سے اور عورتوں کو اپنے شوہروں سے اور والدین کو اپنی اولاد سے پیش آتی ہیں۔ دنیا میں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مرد کو ایسی بیوی اور ایک عورت کو ایسا شوہر ملے جو ایمان اور راست روی میں پوری طرح ایک دوسرے کے رفیق و مدد گار ہوں ، اور پھر دونوں کو اولاد بھی ایسی میسر ہو جو عقیدہ و عمل اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنے۔ ورنہ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ شوہر اگر نیک اور ایماندار ہے تو بیوی اور اولاد اسے ایسی ملتی ہے جو اس کی دیانت و امانت اور راست بازی کو اپنے حق میں بد قسمتی سمجھتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ شوہر اور باپ ان کی خاطر جہنم مول لے اور ان کے لیے حرام و حلال کی تمیز چھوڑ کر ہر طریقے سے عیش و طرب اور فسق و فجور کے سامان فراہم کرے۔ اور اس کے برعکس بسا اوقات ایک نیک مومن عورت کو ایسے شوہر سے سابقہ پیش آتا ہے جسے اس کی پابندی شریعت ایک آنکھ نہیں بھاتی، اور اولاد بھی باپ کے نقش قدم پر چل کر اپنی گمراہی اور بد کرداری سے ماں کی زندگی اجیرن کر دیتی ہے۔ پھر خصوصیت کے ساتھ جب کفر و دین کی کشمکش میں ایک انسان کے ایمان کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر نقصانات برداشت کرے ، طرح طرح کے خطرات مول لے ، ملک چھوڑ کر ہجرت کر جائے، یا جہاد میں جا کر اپنی جان تک جوکھوں میں ڈال دے ، تو سب سے بڑھ کر اس کی راہ میں اس کے اہل و عیال ہی رکاوٹ بنتے ہیں۔ دوسرے مفہوم کا تعلق ان مخصوص حالات سے ہے جو ان آیات کے نزول کے زمانہ میں بکثرت مسلمانوں کو پیش آ رہے تھے اور آج بھی ہر اس شخص کو پیش آتے ہیں جو کسی غیر مسلم معاشرے میں اسلام قبول کرتا ہے۔ اس وقت مکہ معظمہ میں اور عرب کے دوسرے حصوں میں عموماً یہ سورت پیش آتی تھی کہ ایک مرد ایمان لے آیا ہے ، مگر بیوی بچے نہ صرف اسلام قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، بلکہ خود اس کو اسلام سے پھیر دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ اور ایسے ہی حالات سے ان خواتین کو سابقہ پیش آتا تھا جو اپنے خاندان میں اکیلی اسلام قبول کرتی تھیں۔ یہ دونوں قسم کے حالات جن اہل ایمان کو در پیش ہوں انہیں خطاب کرتے ہوئے تین باتیں فرمائی گئی ہیں : سب سے پہلے انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیوی رشتے کے لحاظ سے اگر چہ یہ لوگ وہ ہیں جو انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں ، لیکن دین کے لحاظ سے یہ تمہارے ’’ دشمن‘‘ ہیں۔ یہ دشمنی خواہ اس حیثیت سے ہو کہ وہ تمہیں نیکی سے روکتے اور بدی کی طرف مائل کرتے ہوں یا اس حیثیت سے کہ وہ تمہیں ایمان سے روکتے اور کفر کی طرف کھینچتے ہوں ، یا اس حیثیت سے کہ ان کی ہمدردیاں کفار کے ساتھ ہوں اور تمہارے ذریعہ سے اگر کوئی بات بھی مسلمانوں کے جنگی رازوں کے متعلق ان کے علم میں آ جائے تو اسے اسلام کے دشمنوں تک پہنچا دیتے ہوں ، اس سے دشمنی کی نوعیت و کیفیت میں تو فرق ہو سکتا ہے ، لیکن بہر حال یہ ہے دشمنی ہی، اور اگر تمہیں ایمان عزیز ہو تو اس لحاظ سے تمہیں ان کو دشمن ہی سمجھنا چاہیے ، ان کی محبت میں گرفتار ہو کر کبھی اس بات کو نہ بھولنا چاہیے کہ تمہارے اور ان کے درمیان ایمان و کفر، یا طاعت و معصیت کی دیوار حائل ہے۔ اس کے بعد فرمایا گیا کہ ان سے ہوشیار رہی۔ یعنی ان کی دنیا بنانے کے لیے اپنی عاقبت برباد نہ کر لو۔ ان کی محبت کو کبھی اپنے دل میں اس حد تک نہ بڑھنے دو کہ وہ اللہ و رسول کے ساتھ تمہارے تعلق اور اسلام کے ساتھ تمہاری وفاداری میں حائل ہو جائیں۔ ان پر کبھی اتنا اعتماد نہ کرو کہ تمہاری بے احتیاطی سے مسلمانوں کی جماعت کے اسرار انہیں معلوم ہو جائیں اور وہ دشمنوں تک پہنچیں۔ یہ وہی بات ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک حدیث میں مسلمانوں کو خبر دار کیا ہے کہ یُؤْ تیٰ برجلٍ یوم القیٰمۃ فیقالُ اکل عیالہ حَسَنا تِہٖ۔’’ ایک شخص قیامت کے روز لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے بال بچے اس کی ساری نیکیاں کھا گئے‘‘۔ آخر میں فرمایا گیا کہ ’’ اگر تم عفو و در گزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ غفور و رحیم ہے ‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی دشمنی سے تمہیں صرف اس لیے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ تم ان سے ہوشیار رہو اور اپنے دین کو ان سے بچانے کی فکر کرو۔ اس سے آگے بڑھ کر اس تنبیہ کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ بیوی بچوں کو مارنے پیٹنے لگو، یا ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ، یا ان کے ساتھ تعلقات میں ایسی بد مزگی پیدا کر لو کہ تمہاری اور ان کی گھریلو زندگی عذاب بن کر رہ جائے۔ یہ اس لیے کہ ایسا کرنے کے دو نقصانات بالکل واضح ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے بیوی بچوں کی اصلاح کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جانے کا خطرہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اس سے معاشرے میں اسلام کے خلاف الٹی بد گمانیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور گرد و پیش کے لوگوں کی نگاہ میں مسلمان کے اخلاق و کر دار کی یہ تصویر بنتی ہے کہ اسلام قبول کرتے ہی وہ خود اپنے گھر میں اپنے بال بچوں تک کے لیے سخت گیر اور بد مزاج بن جاتا ہے۔

اس سلسلے میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ابتدائے اسلام میں جب لوگ نئے نئے مسلمان ہوتے تھے ، تو ان کو ایک مشکل اس وقت پیش آتی تھی جب ان کے والدین کافر ہوتے تھے اور وہ ان پر دباؤ ڈالتے تھے کہ اس نئے دین سے پھر جائیں۔ اور دوسری مشکل اس وقت پیش آتی جب ان کے بیوی بچے (یا عورتوں کے معاملہ میں ان کے شوہر اور بچے ) کفر پر قائم رہتے اور دین حق کی راہ سے انہیں پھیرنے کی کوشش کرتے تھے۔ پہلی صورت کے متعلق سورہ عنکبوت(آیت 8) اور سورہ لقمان(آیات 14۔15) میں یہ ہدایت فرمائی گئی کہ دین کے معاملہ میں والدین کی بات ہر گز نہ مانو، البتہ دنیا کے معاملات میں ان کے سا تھ حسن سلوک کرتے رہو۔ دوسری صورت کا حکم یہاں بیان کیا گیا ہے کہ اپنے دین کو تو اپنے بال بچوں سے بچانے کی فکر ضرور کرو، مگر ان کے ساتھ سخت گیری کا برتاؤ نہ کرو، بلکہ نرمی اور عفو و در گزر سے کام لو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، آیات 23۔ 24۔ جلد پنجم، المجادلہ، حاشیہ 37۔ الممتحنہ، حواشی 1 تا 3۔ المنافقون، حاشیہ 18)۔

30. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الانفال، حاشیہ 23۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جسے طبرانی نے حضرت ابو مالک اشعریؓ سے روایت کیا ہے کہ ’’ تیرا اصل دشمن وہ نہیں ہے جسے اگر تو قتل کر دے تو تیرے لیے کامیابی ہے اور وہ تجھے قتل کر دے تو تیرے لیے جنت ہے ، بلکہ تیرا اصل دشمن، ہو سکتا ہے کہ تیرا اپنا وہ بچہ ہو جو تیری ہی صُلب سے پیدا ہوا ہے ، پھر تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا وہ مال ہے جس کا تو مالک ہے ‘‘۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی اور سورہ انفال میں بھی یہ فرمایا ہے کہ اگر تم مال اور اولاد کے فتنے سے اپنے آپ کو بچا لے جاؤ اور ان کی محبت پر اللہ کی محبت کو غالب رکھنے میں کامیاب رہو۔ تو تمہارے لیے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔

31. قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے : اِتَّقُو ا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ، ’’ اللہ سے ایسا ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے ‘‘ (آل اعمران 102)۔ دوسری جگہ فرمایا لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا، ’’ اللہ کسی متنفس کو اس کی استطاعت سے زیادہ کا مکلف قرار نہیں دیتا ‘‘ (البقرہ۔ 286)۔ اور یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ ’’جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔ ان تینوں آیتوں کو ملا کر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت وہ معیار ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے جس تک پہنچنے کی ہر مومن کو کوشش کرنی چاہیے۔ دوسری آیت یہ اصولی بات ہمیں بتاتی ہے کہ کسی شخص سے بھی اس کی استطاعت سے زیادہ کام کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ اللہ کے دین میں آدمی بس اتنے ہی کا مکلف ہے جس کی وہ مقدرت رکھتا ہو۔ اور یہ آیت ہر مومن کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ اپنی حد تک تقویٰ کی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔ جہاں تک بھی اس کے لیے ممکن ہو اسے اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لانے چاہییں اور اس کی نا فرمانی سے بچنا چاہیے۔ اس معاملہ میں اگر وہ خود تساہل سے کام لے گا تو مواخذہ سے نہ بچ سکے گا۔ البتہ جو چیز اس کی مقدرت سے باہر ہو گی (اور اس کا فیصلہ اللہ ہی بہتر کر سکتا ہے کہ کیا چیز کس کی مقدرت سے واقعی باہر تھی) اس کے معاملہ میں اس سے باز پرس نہ کی جائے گی۔

32. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، الحشر، حاشیہ 19۔

33. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ 267۔ المائدہ، حاشیہ 32۔ جلد پنجم، الحدید، حاشیہ 16۔

34. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، فاطر، حواشی 52۔ 59۔ الشوریٰ، حاشیہ 42۔