Tafheem ul Quran

Surah 67 Al-Mulk, Ayat 1-14

تَبٰرَكَ الَّذِىۡ بِيَدِهِ الۡمُلۡكُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرُۙ‏  ﴿67:1﴾ اۨلَّذِىۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَالۡحَيٰوةَ لِيَبۡلُوَكُمۡ اَيُّكُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡغَفُوۡرُۙ‏ ﴿67:2﴾ الَّذِىۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا​ ؕ مَا تَرٰى فِىۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ​ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَۙ هَلۡ تَرٰى مِنۡ فُطُوۡرٍ‏ ﴿67:3﴾ ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَ كَرَّتَيۡنِ يَنۡقَلِبۡ اِلَيۡكَ الۡبَصَرُ خَاسِئًا وَّهُوَ حَسِيۡرٌ‏ ﴿67:4﴾ وَلَـقَدۡ زَيَّـنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡيَا بِمَصَابِيۡحَ وَجَعَلۡنٰهَا رُجُوۡمًا لِّلشَّيٰطِيۡنِ​ وَاَعۡتَدۡنَا لَهُمۡ عَذَابَ السَّعِيۡرِ‏ ﴿67:5﴾ وَلِلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِرَبِّهِمۡ عَذَابُ جَهَنَّمَ​ؕ وَبِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ‏  ﴿67:6﴾ اِذَاۤ اُلۡقُوۡا فِيۡهَا سَمِعُوۡا لَهَا شَهِيۡقًا وَّهِىَ تَفُوۡرُۙ‏ ﴿67:7﴾ تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الۡغَيۡظِ​ؕ كُلَّمَاۤ اُلۡقِىَ فِيۡهَا فَوۡجٌ سَاَلَهُمۡ خَزَنَـتُهَاۤ اَلَمۡ يَاۡتِكُمۡ نَذِيۡرٌ‏ ﴿67:8﴾ قَالُوۡا بَلٰى قَدۡ جَآءَنَا نَذِيۡرٌ  ۙ فَكَذَّبۡنَا وَقُلۡنَا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ مِنۡ شَىۡءٍ ۖۚ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ كَبِيۡرٍ‏ ﴿67:9﴾ وَقَالُوۡا لَوۡ كُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا كُنَّا فِىۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِيۡرِ‏  ﴿67:10﴾ فَاعۡتَرَفُوۡا بِذَنۡۢبِهِمۡ​ۚ فَسُحۡقًا لِّاَصۡحٰبِ السَّعِيۡرِ‏ ﴿67:11﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَخۡشَوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَيۡبِ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّاَجۡرٌ كَبِيۡرٌ‏ ﴿67:12﴾ وَاَسِرُّوۡا قَوۡلَـكُمۡ اَوِ اجۡهَرُوۡا بِهٖؕ اِنَّهٗ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ‏  ﴿67:13﴾ اَلَا يَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَؕ وَهُوَ اللَّطِيۡفُ الۡخَبِيۡرُ‏ ﴿67:14﴾

1 - نہایت بزرگ و برتر ہے 1 وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے، 2 اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ 3 2 - جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، 4 اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔ 5 3 - جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے۔ 6 تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاوٴ گے۔ 7 4 - پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ 8 بار بار نگاہ دوڑاوٴ، تمہای نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔ 5 - ہم نے تمہارے قریب کے آسمان 9 کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے 10 اور اُنہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ 11 اِن شیطانوں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ ہم نے مہیّا کر رکھی ہے۔ 6 - جن لوگوں نے اپنے ربّ سے کفر کیا ہے 12 ان کے لیے جہنّم کا عذاب ہے اور وہ بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔ 7 - جب وہ اُس میں پھینکے جائیں گے تو اس کے دَھاڑنے کی ہولناک آوازیں سُنیں گے 13 اور وہ جوش کھا رہی ہوگی، 8 - شِدّتِ غضب سے پھٹی جاتی ہو گی۔ ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا، اُس کے کارندے اُن لوگوں سے پوچھیں گے” کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا؟“ 14 9 - وہ جواب دیں گے” ہاں، خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا ، مگر ہم نے اسے جھٹلا دیا اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے، تم بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔“ 15 10 - اور وہ کہیں گے ”کاش ہم سُنتے اور سمجھتے 16 تو آج اِس بھَڑکتی ہوئی آگ کے سزا واروں میں نہ شامل ہوتے۔“ 11 - اس طرح وہ اپنے قصورکا 17 خود اعتراف کر لیں گے، لعنت ہے ان دوزخیوں پر۔ 12 - جو لوگ بے دیکھے اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں، 18 یقیناً اُن کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر۔ 19 13 - تم خواہ چُپکے سے بات کرو یا اُونچی آواز سے (اللہ کے لیے یکساں ہے)، وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ 20 14 - کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟ 21 حالانکہ وہ باریک بیں 22 اور باخبر ہے۔ ؏۱


Notes

1. تَبَا رَکَ برکت سے مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ برکت میں رفعت و عظمت ، افزائش اور فراوانی ، دوام و ثبات اور کثرتِ خیرات و حَسَنات کے مفہومات شامل ہیں۔ اس سے جب مبالغہ کا صیغہ تَبَارَکَ بنایا جائے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ بے انتہا بزرگ و عظیم ہے ، اپنی ذات وصفات و افعال میں اپنے سوا ہر ایک سے بالا تر ہے، بے حد وحساب بھلائیوں کا فیضان اُس کی ذات سے ہو رہا ہے ، اور اُس کے کمالا ت لازوال ہیں(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ ۴۳۔جلد سوم، المومنون،حاشیہ۱۴۔ الفرقان، حواشی۱،۹)

2. اَلْمُلْکُ کا لفظ چونکہ مطلقاً استعمال ہوا ہے اس لیے اسے کسی محدود معنوں میں نہیں لیا جا سکتا۔ لا محالہ اس سے مراد تمام موجودات ِ عالم پر شاہا نہ اقتدار ہی ہو سکتا ہے۔ اور اُس کے ہاتھ میں اقتدار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ جسمانی ہاتھ رکھتا ہے ، بلکہ یہ لفظ محاورہ کے طور پر قبضہ کے معنی میں استعمال ہوا ے ۔ عربی کی طرح ہماری زبان میں بھی جب یہ کہتے ہیں کہ اختیارات فلاں کے ہاتھ میں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہی سارے اختیارات کا مالک ہے ، کسی دوسرے کا اس میں دخل نہیں ہے۔

3. یعنی وہ جو کچھ چاہے کر سکتا ہے ۔ کوئی چیز اُسے عاجز کرنے والی نہیں ہے کہ وہ کوئی کام کرنا چاہے اور نہ کر سکے۔

4. یعنی دنیا میں انسانوں کے مرنے اور جینے کا یہ سلسلہ اُس نے اِس لیے شروع کیا ہے کہ اُن کا امتحان لے اور یہ دیکھنے کہ کس انسان کا عمل زیادہ بہتر ہے ۔ اس مختصر سے فقرے میں بہت سی حقیقتوں کا طرف اشارہ کر دیا گیا ہے۔ اول یہ کہ موت اور حیات اُسی کی طرف سے ہے ، کوئی دوسرا نہ زندگی بخشنے والا ہے نہ موت دینے والا۔ دوسرے یہ کہ انسان جیسی ایک مخلوق، جسے نیکی اور بدی کرنے کی قدرت عطا کی گئی ہے ، اُس کی نہ زندگی بے مقصد ہے نہ موت۔ خالق نے اُسے یہاں امتحان کے لیے پیدا کیا ہے۔ زندگی اُس کے لیے امتحان کی مہلت ہے اور موت کے معنی یہ ہیں کہ اُس کے امتحان کا وقت ختم ہو گیا ۔ تیسرے یہ کہ اِسی امتحان کی غرض سے خالق نے ہر ایک کو عمل کا موقع دیا ہے تا کہ وہ دنیا میں کام کر کے اپنی اچھائی یا برائی کا اظہار کر سکے اور عملاً یہ دکھادے کہ وہ کیسا انسان ہے ۔ چوتھے یہ کہ خالق ہی دراصل اِس بات کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس کا عمل اچھا ہے اور کس کا بُرا۔ اعمال کی اچھائی اور بُرائی کا معیار تجویز کرنا امتحان دینے والوں کا کام نہیں ہے بلکہ امتحان لینے والے کا کام ہے ۔ لہٰذا جو بھی امتحان میں کامیاب ہونا چاہے اُسے یہ معلوم کرنا ہو گا کہ ممتحن کے نزدیک حسن عمل کیا ہے۔ پانچواں نکتہ خود امتحان کے مفہوم میں پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ جس شخص کا جیسا عمل ہو گا اس کے مطابق اس کو جزا دی جائے گی، کیونکہ اگر جزا نہ ہو تو سرے سے امتحان لینے کے کوئی معنی ہی نہیں رہتے ۔

5. اس کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ بے انتہا زبردست اور سب پر پوری طرح غالب ہونے کے باوجود اپنی مخلوق کے حق میں رحیم و غفور ہے، ظالم اور سخت گیر نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ بُرے عمل کرنے والوں کو سزا دینے کی وہ پوری قدرت رکھتا ہے ، کسی میں یہ طاقت نہیں کہ اُس کی سزا سے بچ سکے۔ مگر جو نادم ہو کر بُرائی سے باز آجائے اور معافی مانگ لے اس کے ساتھ وہ درگزر کا معاملہ کرنے والا ہے۔

6. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ، حاشیہ۳۴۔جلد دوم،الرعد،حاشیہ۔٢ الحجر، حاشیہ ۸۔جلد سوم، الحج، حاشیہ ۱۱۳۔ المومنون، حاشیہ ۱۵۔ جلد چہارم، الصافات، حاشیہ ۵ ۔ المومن، حاشیہ ۹۰۔

7. اصل میں تَفاوُت کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی ہیں ، عدم تناسُب ۔ ایک چیز کا دوسری چیز سے میل نہ کھانا۔ اَنْمِل بے جُوڑ ہونا۔ پس اِس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ پُوری کائنات میں تم کہیں بد نظمی، بے تربیتی اور بے ربطی نہ پاؤ گے۔ اللہ کی پیدا کردہ اِس دنیا میں کو ئی چیز اَنْمِل بے جوڑ نہیں ہے۔ اس کے تمام اجزاء باہم مربوط ہیں اور ان میں کمال درجے کا تناسُب پایا جاتا ہے۔

8. ”اصل میں لفظ فُطور استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں دراڑ، شگاف ، رخنہ، پھٹا ہواہونا ، ٹوٹا پھوٹا ہونا۔ مطلب یہ ہے کہ پُوری کائنات کی بندش ایسی چُست ہے ، اور زمین کے ایک ذرّے سے لے کر عظیم الشان کہکشانوں تک ہر چیز ایسی مربوط ہے کہ کہیں نظم ِ کائنات کا تسلسل نہیں ٹوٹتا۔ تم خواہ کتنی ہی جستجو کر لو، تمہیں اس میں کسی جگہ کوئی رخنہ نہیں مل سکتا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم، تفسیر سورہ ق، حاشیہ۸)۔

9. قریب کے آسمان سے مراد وہ آسمان ہے جس کے تاروں اور سیاروں کو ہم برہنہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ اس سے آگے جن چیزوں کے مشاہدے کے لیے آلات کی ضرورت پیش آتی ہو وہ دُور کے آسمان ہیں۔ اور ان سے بھی زیادہ دُور کے آسمان وہ ہیں جس تک آلات کی رسائی بھی نہیں ہے۔

10. اصل میں لفظ”مصابیح“نکرہ استعمال ہوا ہے ، اورا س کے نکرہ ہونے سے خود بخود ان چراغوں کے عظیم الشان ہونے کا مفہوم پیدا ہوتا ہے ۔ ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ کائنات ہم نے اندھیری اور سُنسان نہیں بنائی ہے بلکہ اسے ستاروں سے خوب مزین اور آراستہ کیا ہے جس کی شان اور جگمگاہٹ رات کے اندھیروں میں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔

11. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہی تارے شیطانوں پر پھینک مارے جاتے ہیں، اور یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ شہاب ثاقب صرف شیطانوں کو مارنے ہی کے لیے گرتے ہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ تاروں سے جو بے حدو حساب شہابِ ثاقب نکل کر کائنات میں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گھومتے رہتے ہیں، اور جن کی بارش زمین پر بھی ہر وقت ہوتی رہتی ہے ، وہ اس امر میں مانع ہے کہ زمین کے شیاطین عالمِ بالا میں جا سکیں۔ اگر وہ اوپر جانے کی کوشش کریں بھی تو یہ شہاب انہیں مار بھگاتے ہیں۔ اس چیز کو بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ عرب کے لوگ کاہنوں کے متعلق یہ خیال رکھتے تھے اور یہی خود کاہنوں کا دعوٰی بھی تھا، کہ شیاطین اُن کے تابع ہیں، یا شیاطین سے اُن کا رابطہ ہے ، اور اُن کے ذریعہ سے اُنہیں غیب کی خبریں حاصل ہوتی ہیں اور وہ صحیح طور پر لوگوں کی قسمتوں کا حال بتا سکتے ہیں۔ اس لیے قرآن میں متعدد مقامات پر یہ بتایا گیا ہے کہ شیاطین کے عالمِ بالا میں جانے اور وہاں سے غیب کی خبریں معلوم کرنے کا قطعاً کوئی امکان نہیں ہے(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم،الحجر،حواشی۹تا۱۲۔جلد چہارم، الصافات، حواشی۶،۷)۔

رہا یہ سوال کہ ان شہابوں کی حقیقت کیا ہے ، تو اس کے بارے میں انسان کی معلومات اس وقت تک کسی قطعی تحقیق سے قاصر ہیں۔ تاہم جس قدر بھی حقائق اور واقعات جدید ترین دور تک انسان کے علم میں آئے ہیں، اور زمین پر گرے ہوئے شہابیوں کے معائنے سے جو معلومات حاصل کی گئی ہیں، ان کی بنا ء پر سائنس دانوں میں سب سے زیادہ مقبول نظر یہ یہی ہے کہ یہ شہابیے کسی سیارے کے انفجار کی بدولت نکل کر خلا میں گھومتے رہتے ہیں اور پھر کسی وقت زمین کی کشش کے دائرے میں آکر ادھر کا رُخ کر لیتے ہیں(ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا بر ٹا نیکا، ایڈیشن ۱۹۶۷؁۔ جلد ۱۵۔لفظ(Meteorites)۔

12. یعنی انسان ہو ں، یا شیطان، جن لوگوں نے بھی اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کا یہ انجام ہے (رب سے کفر کرنے کے مفہوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ۱۶۱۔ النساء، حاشیہ ۱۷۸۔ جلد سوم، الکہف، حاشیہ ۳۹۔ جلد چہارم، المومن، حاشیہ۳)۔

13. اصل میں لفظ شھیق استعمال ہوا ہے جو گدھے کی سی آواز کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اس فقرے کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ خود جہنم کی آواز ہوگی، اور یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ آواز جہنم سے آرہی ہو گی جہاں اُن لوگوں سے پہلے گرے ہوئے لوگ چیخیں مار رہے ہوں گے۔ اس دوسرے مفہوم کی تائید سورہ ہود ؑ کی آیات ۱۰۶ سے ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ دوزخ میں یہ دوزخی لوگ”ہانپیں گے اور پُھنکارے ماریں گے“۔اور پہلے مفہوم کی تائید سورہ فرقان آیت ۱۲ سے ہوتی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ دوزخ میں جاتے ہوئے یہ لوگ دور ہی سے اُس کے غضب اور جوش کی آوازیں سنیں گے۔ اس بنا پر صحیح یہ ہے کہ یہ شور خود جہنم کا بھی ہوگا اور جہنمیوں کا بھی۔

14. اس سوال کی اصل نوعیت سوال کی نہیں ہوگی کہ جہنم کے کارندے ان لوگوں سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہوں کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خبر دار کرنے والا آیا تھا یا نہیں، بلکہ اس سے مقصود اُن کو اِ س بات کا قائل کرنا ہوگا کہ انہیں جہنم میں ڈال کر اُن کے ساتھ کوئی بے انصافی نہیں کی جا رہی ہے ۔ اس لیے وہ خود اُن کی زبان سے یہ اقرار کرانا چاہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو بے خبر نہیں رکھا تھا، اُن کے پاس انبیاء بھیجے تھے، اُن کو بتا دیا تھا کہ حقیقت کیا ہے اور راہ ِ راست کونسی ہے، اور ان کو متنبہ کر دیا تھا کہ اس راہ راست کے خلاف چلنے کا نتیجہ اِسی جہنم کا ایندھن بننا ہوگا جس میں اب وہ جھونکے گئے ہیں، مگر انہوں نے انبیاء کی بات نہ مانی، لہٰذا اب جو سزااُنہیں دی جا رہی ہے وہ فی الواقع اس کے مستحق ہیں۔

یہ بات قرآن مجید میں بار بار ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس امتحان کے لیے دنیا میں انسان کو بھیجا ہے وہ اِس طرح نہیں لیا جا رہا ہے کہ اُسے بالکل بے خبر رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہو کہ وہ خود راہِ راست پاتا ہے یا نہیں، بلکہ اُسے راہ ِ راست بتانے کا جو معقول ترین انتظام ممکن تھا وہ اللہ نے پوُری طرح کر دیا ہے، اور وہ یہی انتظام ہے کہ انبیاء بھیجے گئے ہیں اور کتابیں نازل کی گئی ہیں۔ اب انسان کا سارا امتحان اِس امر میں ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام اور اُن کی لائی ہوئی کتابوں کو مان کر سیدھا راستہ اختیار کرتا ہے یا ان سے مُنہ مُوڑ کر خود اپنی خواہشات اور تخیّلات کے پیچھے چلتا ہے۔ اس طرح نبوت در حقیقت اللہ تعالیٰ کی وہ حُجّت ہے جو اس نے انسان پر قائم کر دی ہے ، اور اسی کے ماننے یا نہ ماننے پر انسان کے مستقبل کا انحصار ہے۔ انبیاء کے آنے کے بعد کوئی شخص یہ عذر پیش نہیں کر سکتا کہ ہم حقیقت سے آگاہ نہ تھے، ہمیں اندھیرے میں رکھ کر ہم کو اتنے بڑے امتحان میں ڈال دیا گیا، اور اب ہمیں بے قصور سزا دی جا رہی ہے ۔ اس مضمون کو اتنی بار اتنے مختلف طریقوں سے قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کا شمار مشکل ہے۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: تفہیم القرآن ، جلد اول، البقرہ، آیت۲۱۳، حاشیہ۲۳۰۔ النساء،آیات۴۱۔۴۲، حاشیہ۶۴۔آیت۱۶۵، حاشیہ ۲۰۸۔ الانعام، آیات۱۳۰۔۱۳۱، حواشی۹۸ تا ۱۰۰۔ جلد دوم، بنی اسرائیل، آیت۱۵،حاشیہ۱۷۔جلد سوم،طٰہٰ، آیت۱۳۴۔ القصص، آیت۴۷، حاشیہ۶۶۔ آیت۵۹، حاشیہ ۸۳۔ آیت۶۵۔جلد چہارم، فاطر، آیت۳۷۔ المومن، آیت۵۰،حاشیہ۶۶۔

15. یعنی تم بھی بہکے ہوئے ہو اور تم پر ایمان لانے والے لوگ بھی سخت گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔

16. یعنی ہم نے طالبِ حق بن کر انبیاء کی بات کو توجہ سے سنا ہوتا، یا عقل سے کام لے کر یہ سمجھنے کی کوشش کی ہوتی کہ فی الواقع وہ بات کیا ہے جو وہ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ یہاں سننے کو سمجھنے پر مقدم رکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے نبی کی تعلیم کو توجہ سے سننا(یا اگر وہ لکھی ہوئی شکل میں ہو تو طالبِ حق بن کر اُسے پڑھنا) ہدایت پانے کے لیے شرط اول ہے۔ اُس پر غور کرکے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا مرتبہ اس کے بعد آتا ہے ۔ نبی کی رہنمائی کے بغیر اپنی عقل سے بطورِ خود کام لے کر انسان براہِ راست حق تک نہیں پہنچ سکتا۔

17. قصور کا لفظ واحد استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اصل قصور جس کی بنا پر وہ جہنم کے مستحق ہوئے رسولوں کا جھٹلا نا اور ان کی پیروی سے انکار کرنا ہے ۔ باقی سارے گناہ اُسی کی فرع ہیں۔

18. یہ دین میں اخلاق کی اصل جڑ ہے۔ کسی کا بُرائی سے اس لیے بچنا کہ اس کی ذاتی رائے میں وہ بُرائی ہے ، یا دنیا اسے بُرا سمجھتی ہے، یا اس کے ارتکاب سے دنیا میں کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ، یا اس پر کسی دنیوی طاقت کی گرفت کا خطرہ ہے ، یہ اخلاق کے لیے ایک بہت ہی ناپائیدار بنیا د ہے ۔ آدمی کی ذاتی رائے غلط بھی ہو سکتی ہے، وہ اپنے کسی فلسفے کی وجہ سے ایک اچھی چیز کو بُرا اور ایک بُری چیز کو اچھا سمجھ سکتا ہے۔ دنیا کے معیارِ خیر وشر اول تو یکساں نہیں ہیں، پھر وہ وقتاً فوقتاً بدلتے بھی رہتے ہیں، کوئی عالمگیر اور ازلی و ابدی معیا ر دنیا کے اخلاقی فلسفوں میں نہ آج پایا جاتا ہے نہ کبھی پایا گیا ہے۔ دنیوی نقصان کا اندیشہ بھی اخلاق کے لیے کوئی مستقل بنیاد فراہم نہیں کرتا۔ جو شخص بُرائی سے اس لیے بچتا ہو کہ وہ دنیا میں اُس کی ذات پر مترتب ہونے والے کسی نقصان سے ڈرتا ہے وہ ایسی حالت میں اُس کے ارتکاب سے باز نہیں رہ سکتا جبکہ اس سے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو۔ اسی طرح کسی دنیوی طاقت کی گرفت کا خطرہ بھی وہ چیز نہیں ہے جو انسان کو ایک شریف انسان بنا سکتی ہو۔ ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی دنیوی طاقت بھی عالم الغیب و الشہادہ نہیں ہے۔ بہت سے جرائم اُس کی نگاہ سے بچ کر کیے جا سکتے ہیں۔ اور ہر دنیوی طاقت کی گرفت سے بچنے کی بے شمار تدبیریں ممکن ہیں۔ پھر کسی دنیو ی طاقت کے قوانین بھِی تمام بُرائیوں کا احاطہ نہیں کرتے۔ بیشتر برائیاں ایسی ہیں جن پر دنیوی قوانین کوئی گرفت سرے سے کرتے ہی نہیں، حالانکہ وہ اُن برائیوں سے قبیح تر ہیں جن پر وہ گرفت کرتے ہیں۔ اس لیے دین حق نے اخلاق کی پوری عمارت اس بنیاد پر کھڑی کی ہے کہ اُس اَن دیکھے خدا سے ڈر کر بُرائی سے اجتناب کیا جائے جو ہر حال میں انسان کو دیکھ رہا ہے ، جس کی گرفت سے انسان بچ کر کہیں نہیں جا سکتا، جس نے خیر و شر کا ایک ہمہ گیر، عالمگیر اور مستقل معیار انسان کو دیا ہے۔ اُسی کے ڈر سے بدی کو چھوڑنا اور نیکی کو اختیار کرنا وہ اصل بھلائی ہے جو دین کی نگاہ میں قابلِ قدر ہے۔ اس کے سوا کسی دوسری وجہ سے اگر کوئی انسان بدی نہیں کرتا ، یا اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے جو افعال نیکی میں شمار ہوتے ہیں اُن کو اختیار کرتا ہے تو آخرت میں اس کے یہ اخلاق کسی قدر اور وزن کے مستحق نہ ہوں گے، کیونکہ ان کی مثال اُس عمارت کی سی ہے جو ریت پر تعمیر ہوئی ہو۔

19. یعنی خدا سے بالغیب ڈرنے کے دو لازمی نتائج ہیں۔ ایک یہ کہ جو قصور بھی بشری کمزوریوں کی بنا پر آدمی سے سرزد ہو گئے ہوں وہ معاف کر دیے جائیں گے، بشرطیکہ ان کی تہ میں خدا سے بے خوفی کا ر فرما نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ جو نیک اعمال بھی انسان اِس عقیدے کے ساتھ انجام دے گا اُ س پر وہ بڑا اجر پائیگا۔

20. یہ بات تمام انسانوں کو خطاب کرکے فرمائی گئی ہے، خواہ وہ مومن ہوں یا کافر۔ مومن کے لیے اس میں یہ تلقین ہے کہ اسے دنیا میں زندگی بسر کرتے ہوئے ہر وقت یہ احساس اپنے ذہن میں تازہ رکھنا چاہیے کہ اس کے کھلے اور چھپے اقوال و اعمال ہی نہیں ، اس کی نیتیں اور اس کے خیالات تک اللہ سے مخفی نہیں ہیں۔ اور کافر کے لیے اس میں یہ تنبیہ ہے کہ وہ اپنی جگہ خدا سے بے خوف ہو کر جو کچھ چاہے کرتا رہے، اس کی کوئی بات اللہ کی گرفت سے چھوٹی نہیں رہ سکتی۔

21. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”کیا وہ اپنی مخلوق ہی کو نہ جانے گا؟“اصل میں مَنْ خَلَقَ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی”جس نے پیدا کیا ہے“بھی ہو سکتے ہیں، اور ”جس کو اُس نے پیدا کیا ہے“ًبھی۔ دونوں صورتوں میں مطلب ایک ہی رہتا ہے۔ یہ دلیل ہے اُس بات کی جو اوپر کے فقرے میں ارشاد ہوئی ہے۔ یعنی آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ خالق اپنی مخلوق سے بے خبر ہو؟ مخلوق خود اپنے آپ سے بے خبر ہو سکتی ہے ، مگر خالق اُس سے بے خبر نہیں ہو سکتا۔ تمہاری رگ رگ اس نے بنائی ہے۔ تمہارے دل و دماغ کا ایک ایک ریشہ اس کا بنایا ہو اہے ۔ تمہارا ہر سانس اس کے جاری رکھنے سے جاری ہے۔ تمہارا ہر عضو اس کی تدبیر سے کام کر رہا ہے ۔ اُس سے تمہاری کوئی بات کیسے چُھپی رہ سکتی ہے؟

22. اصل میں لفظ”لطیف“استعمال ہوا ہے جس کے معنی غیر محسوس طریقے سے کام کرنے والے کے بھی ہیں اور پوشیدہ حقائق کو جاننے والے کے بھی۔