Tafheem ul Quran

Surah 67 Al-Mulk, Ayat 15-30

هُوَ الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الۡاَرۡضَ ذَلُوۡلًا فَامۡشُوۡا فِىۡ مَنَاكِبِهَا وَكُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِهٖ​ؕ وَاِلَيۡهِ النُّشُوۡرُ‏ ﴿67:15﴾ ءَاَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِىۡ السَّمَآءِ اَنۡ يَّخۡسِفَ بِكُمُ الۡاَرۡضَ فَاِذَا هِىَ تَمُوۡرُۙ‏ ﴿67:16﴾ اَمۡ اَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِى السَّمَآءِ اَنۡ يُّرۡسِلَ عَلَيۡكُمۡ حَاصِبًا​ ؕ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ كَيۡفَ نَذِيۡرِ‏ ﴿67:17﴾ وَلَـقَدۡ كَذَّبَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ فَكَيۡفَ كَانَ نَكِيۡرِ‏ ﴿67:18﴾ اَوَلَمۡ يَرَوۡا اِلَى الطَّيۡرِ فَوۡقَهُمۡ صٰٓفّٰتٍ وَّيَقۡبِضۡنَؕ ۘ مَا يُمۡسِكُهُنَّ اِلَّا الرَّحۡمٰنُ​ؕ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَىۡءٍۢ بَصِيۡرٌ‏ ﴿67:19﴾ اَمَّنۡ هٰذَا الَّذِىۡ هُوَ جُنۡدٌ لَّكُمۡ يَنۡصُرُكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ الرَّحۡمٰنِ​ؕ اِنِ الۡكٰفِرُوۡنَ اِلَّا فِىۡ غُرُوۡرٍ​ۚ‏ ﴿67:20﴾ اَمَّنۡ هٰذَا الَّذِىۡ يَرۡزُقُكُمۡ اِنۡ اَمۡسَكَ رِزۡقَهٗ​ ۚ بَلۡ لَّجُّوۡا فِىۡ عُتُوٍّ وَّنُفُوۡرٍ‏ ﴿67:21﴾ اَفَمَنۡ يَّمۡشِىۡ مُكِبًّا عَلٰى وَجۡهِهٖۤ اَهۡدٰٓى اَمَّنۡ يَّمۡشِىۡ سَوِيًّا عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ‏ ﴿67:22﴾ قُلۡ هُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡشَاَكُمۡ وَجَعَلَ لَـكُمُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡـئِدَةَ ​ ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿67:23﴾ قُلۡ هُوَ الَّذِىۡ ذَرَاَكُمۡ فِى الۡاَرۡضِ وَاِلَيۡهِ تُحۡشَرُوۡنَ‏ ﴿67:24﴾ وَيَقُوۡلُوۡنَ مَتٰى هٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ﴿67:25﴾ قُلۡ اِنَّمَا الۡعِلۡمُ عِنۡدَ اللّٰهِ وَاِنَّمَاۤ اَنَا نَذِيۡرٌ مُّبِيۡنٌ‏  ﴿67:26﴾ فَلَمَّا رَاَوۡهُ زُلۡفَةً سِیْٓـئَتۡ وُجُوۡهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَقِيۡلَ هٰذَا الَّذِىۡ كُنۡتُمۡ بِهٖ تَدَّعُوۡنَ‏ ﴿67:27﴾ قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ اَهۡلَـكَنِىَ اللّٰهُ وَمَنۡ مَّعِىَ اَوۡ رَحِمَنَا ۙ فَمَنۡ يُّجِيۡرُ الۡكٰفِرِيۡنَ مِنۡ عَذَابٍ اَلِيۡمٍ‏ ﴿67:28﴾ قُلۡ هُوَ الرَّحۡمٰنُ اٰمَنَّا بِهٖ وَعَلَيۡهِ تَوَكَّلۡنَا​ۚ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ مَنۡ هُوَ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ﴿67:29﴾ قُلۡ اَرَءَيۡتُمۡ اِنۡ اَصۡبَحَ مَآؤُكُمۡ غَوۡرًا فَمَنۡ يَّاۡتِيۡكُمۡ بِمَآءٍ مَّعِيۡنٍ‏ ﴿67:30﴾

15 - وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے ، چلو اُس کی چھاتی پر اور کھاوٴ خدا کا رزق، 23 اُسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔ 24 16 - کیا تم اِس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے 25 تمہیں زمین میں دھنسا دے اور یکایک یہ زمین جَھکو لے کھانے لگے؟ 17 - کیا تم اِس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تم پر پتھراوٴ کرنے والی ہوا بھیج دے؟ 26 پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری تنبیہ کیسی ہوتی ہے۔ 27 18 - اِن سے پہلے گُزرے ہوئے لوگ جُھٹلا چکے ہیں۔ پھر دیکھ لو میری گرفت کیسی تھی۔ 28 19 - کیا یہ لوگ اپنے اُوپر اُڑنے والے پرندوں کو پر پھیلائے اور سکیڑتے نہیں دیکھتے؟ رحمٰن کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھامے ہوئے ہو۔ 29 وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔ 30 20 - بتاوٴ، آخر وہ کون سا لشکر تمہارے پاس ہے جو رحمٰن کے مقابلے میں تمہارے مدد کر سکتا ہے؟ 31 حقیقت یہ ہے کہ یہ منکرین دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ 21 - یا پھر بتاوٴ، کون ہے جو تمہیں رزق دے سکتا ہے اگر رحمٰن اپنا رزق روک لے؟ دراصل یہ لوگ سرکشی اور حق سے گریز پر اَڑے ہوئے ہیں۔ 22 - بھلا سوچو، جو شخص منہ اوندھائے چل رہا ہو 32 وہ زیادہ صحیح راہ پانے والا ہے یا وہ جو سر اُٹھائے سیدھا ایک ہموار سڑک پر چل رہا ہو؟ 23 - اِن سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، تم کو سُننے اور دیکھنے کی طاقتیں دیں اور سوچنے سمجھنے والے دل دیے، مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو۔ 33 24 - اِن سے کہو، اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلا یا ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاوٴ گے۔ 34 25 - یہ کہتے ہیں” اگر تم سچے ہو تو بتاوٴ یہ وعدہ کب پُورا ہوگا؟“ 35 26 - کہو” اِس کا علم تو اللہ کے پاس ہے، میں تو بس صاف صاف خبردار کر دینے والا ہوں۔“ 36 27 - پھر جب یہ اُس چیز کو قریب دیکھ لیں گے تو اُن سب لوگوں کے چہرے بگڑ جائیں گے جنہوں نے انکار کیا ہے، 37 اور اُس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ چیز جس کے لیے تم تقاضے کر رہے تھے۔ 28 - اِن سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اللہ خواہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کر دے یا ہم پر رحم کرے، کافروں کو دردناک عذاب سے کون بچا لے گا؟ 38 29 - اِن سے کہو، وہ بڑا رحیم ہے، اسی پر ہم ایمان لائے ہیں، اور اُسی پر ہمارا بھروسا ہے، 39 عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ صریح گمراہی میں پڑا ہوا کون ہے۔ 30 - اِن سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر تمہارے کنووٴں کا پانی زمین میں اُتر جائے تو کون ہے جو اِس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں تمہیں نکال کر لادے گا؟ 40 ؏۲


Notes

23. یعنی یہ زمین تمہارے لیے آپ سے آپ تابع نہیں بن گئی ہے اور وہ رزق بھی جو تم کھا رہے ہو خود بخود یہاں پیدا نہیں ہوگیا ہے ، بلکہ اللہ نے اپنی حکمت اور قدرت سے اِس کو ایسا بنایا ہے کہ یہاں تمہاری زندگی ممکن ہوئی اور یہ عظیم الشان کُرہ ایسا پُرسکون بن گیا کہ تم اطمینان سے اس پر چل پھر رہے ہو اور ایسا خو انِ نعمت بن گیا کہ اس میں تمہارے لیے زندگی بسر کرنے کا بے حد و حساب سرو سامان موجود ہے ۔ اگر تم غفلت میں مبتلا نہ ہو اور کچھ ہوش سے کام لے دیکھو تو تمہیں معلوم ہو کہ اِس زمین کو تمہاری زندگی کے قابل بنانے اور اس کے اندر رزق کے اتھاہ خزانے جمع کر دینے میں کتنی حکمتیں کار فرما ہیں ۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، النمل،حواشی۷۳۔۷۴۔۸۱۔ جلد چہارم، یٰس،حواشی۲۹۔۳۲۔المومن، حواشی۹۰۔۹۱۔ الزُّخْرُف، حاشیہ۷۔ الجاثیہ، حاشیہ۷۔ جلد پنجم، ق، حاشیہ۱۸)۔

24. یعنی اِ س زمین پر چلتے پھرتے اور خدا کا بخشا ہوا رزق کھاتے ہوئے اِ س بات کو نہ بھولو کہ آخر کار تمہیں ایک دن خدا کے حضور حاضر ہونا ہے۔

25. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں رہتا ہے، بلکہ یہ بات اس لحاظ سے فرمائی گئی ہے کہ انسان فطری طور پر جب خدا سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو آسمان کی طرف دیکھتا ہے ۔ دعا مانگتا ہے تو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے ۔ کسی آفت کے موقع پر سب سہاروں سے مایوس ہوتا ہے تو آسمان کا رُخ کر کے خدا سے فریاد کرتا ہے ۔ کوئی ناگہانی بلا آپڑتی ہے تو کہتا ہے یہ اُوپر سے نازل ہوئی ہے۔ غیر معمولی طور پر حاصل ہونے والی چیز کے متعلق کہتا ہے یہ عالمِ بالا سے آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتابوں کو کتبِ سماوی یا کتبِ آسمانی کہا جاتا ہے۔ ابو داؤد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص ایک کالی لونڈی کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھ پر ا یک مومن غلام آزاد کرنا واجب ہو گیا ہے ، کیا میں اس لونڈی کو آزاد کر سکتا ہوں؟ حضورؐ نے اُس لونڈی سے پو چھا اللہ کہاں ہے؟ اُس نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کر دیا۔ حضورؐ نے پوچھا اور میں کون ہوں؟ اُس نے پہلے آپؐ کی طرف اور پھر آسمان کی طرف اشارہ کیا، جس سے اُس کا یہ مطلب واضح ہو رہا تھا کہ آپ اللہ کی طرف سے آئے ہیں۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا، اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے ( اسی سے ملتا جُلتا قصہ مُوَطَّا، مُسلم اور نسائی میں بھی روایت ہوا ہے)۔ حضرت خَوْلَہ بنت ثعْلَبَہ کے متعلق حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا، وہ خاتون ہیں جن کی شکایت سات آسمانوں پر سُنی گئی (تفسیر سورہ مجادلہ حاشیہ۲ میں ہم اِس کی تفصیل نقل کر چکے ہیں)۔ان ساری باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات کچھ انسان کی فطرت ہی میں ہے کہ وہ جب خدا کا تصور کرتا ہے تو اُس کے ذہن نیچے زمین کی طرف نہیں بلکہ اُوپر آسمان کی طرف جاتا ہے ۔ اسی بات کو ملحوظ رکھ کریہاں اللہ تعالیٰ کے متعلق مَنْ فِی السَّمَآءِ (وہ جو آسمان میں ہے) کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں ۔ اس میں اِس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کو آسمان میں مقیم قرار دیتا ہے ۔ یہ شبہ آخر کیسے پیدا ہو سکتا ہے جبکہ اسی سورہ مُلک کے آغاز میں فرمایا جا چکا ہے کہ اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا (جس نے تہ بر تہ سات آسمان پیدا کیے)اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے، فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْ ا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ ط (پس تم جدھر بھی رُخ کرو اُس طرف اللہ کا رُخ ہے)۔

26. مراد یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اِس زمین پر تمہاری بقا اور تمہاری سلامتی ہر وقت اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے۔ اپنے بل بوتے پر تم یہاں مزے سے نہیں دندنا رہے ہو۔ تمہاری زندگی کا ایک ایک لمحہ جو یہاں گزر رہا ہے، اللہ کی حفاظت اور نگہبانی کا رہینِ مِنّت ہے۔ ورنہ کسی وقت بھی اُس کے ایک اشارے سے ایک زلزلہ ایسا آسکتا ہے کہ یہی زمین تمہارے لیے آغوشِ مادر کے بجائے قبر کا گڑھا بن جائے، یا ہوا کا ایسا طوفان آسکتا ہے جو تمہاری بستیوں کو غارت کر کے رکھ دے۔

27. تنبیہ سے مراد وہ تنبیہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کے ذریعہ سے کفار مکہ کو کی جا رہی تھی کہ اگر کفر و شرک سے باز نہ آؤ گے اور اس دعوتِ توحید کو نہ مانو گے جو تمہیں دی جا رہی ہے تو خدا کے عذاب میں گرفتار ہو جاؤ گے۔

28. اشارہ ہے اُن قوموں کی طرف جو اپنے ہاں آنے والے انبیاء کو جُھٹلا کر اِس سے پہلے مبتلائے عذاب ہوچکی تھی۔

29. یعنی ایک ایک پرندہ جو ہوا میں اڑرہا ہے ، خدائے رحمٰن کی حفاظت میں اڑرہا ہے۔ اُسی نے ہر پرندے کو وہ ساخت عطا فرمائی جس سے وہ اڑنے کے قابل ہوا۔ اسی نے ہر پرندے کو اڑنے کا طریقہ سکھایا۔ اُسی نے ہوا کواُن قوانین کا پابند کیا جن کی بدولت ہوا سے زیادہ بھاری جسم رکھنے والی چیزوں کا اُس میں اڑنا ممکن ہوا۔ اور وہی ہر اڑنے والے کو فضا میں تھامے ہوئے ہے، ورنہ جس وقت بھی اللہ اپنی حفاظت اُس سے ہٹا لے ، وہ زمین پر آرہے ۔

30. یعنی کچھ پرندوں ہی پر موقوف نہیں، جو چیز بھی دنیا میں موجود ہے اللہ کی نگہبانی کی بدولت موجود ہے ۔ وہی ہر شے کے لیے وہ اسباب فراہم کر رہا ہے جو اس کے وجود کے لیے درکار ہیں، اور وہی اس بات کی نگرانی کر رہا ہے کہ اس کی پیدا کر دہ مخلوق کو اس کی ضروریات بہم پہنچیں۔

31. دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”رحمان کے سوا وہ کون ہے جو تمہارا لشکر بنا ہوا تمہاری دستگیری کرتا ہو“۔ہم نے متن میں جو ترجمہ کیا ہے وہ آگے کے فقرے سے مناسبت رکھتا ہے ، اور اس دوسرے ترجمہ کی مناسبت پچھلے سلسلہ کلام سے ہے۔

32. یعنی جانوروں کی طرح منہ نیچا کیے ہوئے اُسی ڈگر پر چلا جا رہا ہو جس پر کسی نے اسے ڈال دیا ہو۔

33. یعنی اللہ نے تو تمہیں انسان بنا یا تھا، جانور نہیں بنایا تھا۔ تمہارا کام یہ نہیں تھا کہ جو گمراہی بھی دنیا میں پھیلی ہوئی ہو اس کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چل پڑو اور کچھ نہ سوچو کہ جس راہ پر تم جا رہے ہو وہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ یہ کان تمہیں اس لیے تو نہیں دیے گئے تھے کہ جو شخص تمہیں صحیح اور غلط کا فرق سمجھانے کی کوشش کرے اس کی بات سُن کر نہ دو اور جو غلط سلط باتیں پہلے سے تمہارے دماغ میں بیٹھی ہوئی ہیں اُنہی پر اَڑے رہو۔ یہ آنکھیں تمہیں اس لیے تو نہیں دی گئی تھیں کہ اندھے بن کر دوسروں کی پیروری کرتے رہو اور خود اپنی بینائی سے کام لے کر یہ نہ دیکھو کہ زمین سے آسمان تک ہر طرف جو نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ آیا اُس توحید کی شہادت دے رہی ہے جسے خدا کا رسول پیش کر رہا ہے یا یہ شہادت دے رہی ہیں کہ یہ سارا نظامِ کائنات بے خدا ہے یا بہت سے خدا اس کو چلا رہے ہیں۔ اسی طرح یہ دل و دماغ بھی تمہیں اس لیے نہیں دیے گئے تھے کہ تم سوچنے سمجھنے کا کام دوسروں کے حوالے کر کے ہر اُس طریقے کی پیروی کرنے لگو جو دنیا میں کسی نے جا ری کر دیا ہے اور اپنی عقل سے کام لے کر یہ سوچنے کی کوئی زحمت گوارا نہ کرو کہ وہ غلط ہے یا صحیح۔ اللہ نے علم و عقل اور سماعت و بینائی کی یہ نعمتیں تمہیں حق شناسی کے لیے دی تھیں۔ تم نا شکری کر رہے ہو کہ ان سے اور سارے کام تو لیتے ہو مگر بس وہی ایک کام نہیں لیتے جس کے لیے یہ دی گئی تھیں ( مزید تشریح کے لیے ملا حظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم ، النحل ، حواشی۷۲۔۷۳،جلد سوم، المومنون، حواشی۷۵۔۷۶۔ جلد چہارم ، السجدہ، حواشی۱۷۔۱۸۔ الاحقاف، حاشیہ ۳۱)۔

34. یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے ہر گوشۂ زمین سے گھیر لائے جاؤ گے اور اس کے سامنے حاضر کر دیے جاؤ گے۔

35. یہ سوال اس غرض کے لیے نہ تھا کہ وہ قیامت کا وقت اور اُس کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے تھے اور اس بات کے لیے تیار تھے کہ اگر انہیں اُس کی آمد کا سال، مہینہ، دن اور وقت بتا دیا جائے تو وہ اسے مان لیں گے ۔ بلکہ دراصل وہ اُس کے آنے کو غیر ممکن اور بعید از عقل سمجھتے تھے اور یہ سوال اس غرض کے لیے کرتے تھے کہ اُسے جھٹلانے کا ایک بہانہ اُن کے ہاتھ آئے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ حشر ونشر کا یہ عجیب و غریب افسانہ جو تم ہمیں سنا رہے ہو آخر یہ کب ظہور میں آئے گا؟ اسے کس وقت کے لیے اٹھا رکھا گیا ہے؟ ہماری آنکھوں کے سامنے لا کر اسے دکھا کیوں نہیں دیتے کہ ہمیں اس کا یقین آجائے؟ اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کوئی شخص اگر قیامت کا قائل ہو سکتا ہے تو عقلی دلائل سے ہو سکتا ہے ، اور قرآن میں جگہ جگہ وہ دلائل تفصیل کے ساتھ دے دیے گئے ہیں۔ رہی اُس کی تاریخ ، تو قیامت کی بحث میں اُس کا سوال اٹھانا ایک جاہل آدمی ہی کا کام ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ اگر بالفرض وہ بتا بھی دی جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ نہ ماننے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ جب وہ تمہاری بتائی ہوئی تاریخ پر آجائے گی تو مان لوں گا، آج آخر میں کیسے یقین کر لوں کہ وہ اُس روز ضرور آجائے گی( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، لقمان، حاشیہ ۶۳۔ الاحزاب ، حاشیہ ۱۱۶۔ سبا، حواشی۵۔۴۸۔ یٰس، حاشیہ ۴۵)۔

36. یعنی یہ تو مجھے معلوم ہے کہ وہ ضرور آئے گی، اور لوگوں کو اس کی آمد سے پہلے خبر دار کر دینے کے لیے یہی جاننا کافی ہے ۔ رہی یہ بات کہ وہ کب آئے گی، تو اس کا علم اللہ کو ہے ، مجھے نہیں ہے، اور خبردار کرنے کے لیے اس علم کی کوئی حاجت نہیں۔ اس معاملہ کو ایک مثال سے اچھی طرح سمجھاجا سکتا ہے ۔ یہ بات کہ کون شخص کب مرے گا، اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ البتہ یہ ہمیں معلو م ہے کہ ہر شخص کو ایک دن مرنا ہے ۔ ہمارا یہ علم اس بات کے لیے کافی ہے کہ ہم اپنے کسی غیر محتاط دوست کو یہ تنبیہ کریں کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے مفاد کی حفاظت کا انتظام کر لے۔ اس تنبیہ کے لیے یہ جاننا ضروری نہیں ہے کہ وہ کس روز مرے گا۔

37. یعنی ان کا وہی حال ہو گا جو پھانسی کے تختہ کی طرف لے جائے جانے والے کسی مجرم کا ہوتا ہے ۔

38. مکہ معظمہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا آغاز ہوا اور قریش کے مختلف خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا تو گھر گھر حضورؐ اور آپ کے ساتھیوں کو بد دعائیں دی جانے لگیں۔ جادو ٹونے کیے جانے لگے تا کہ آپ ہلاک ہو جائیں۔ حتٰی کہ قتل کے منصوبے بھی سوچے جانے لگے ۔ اس پر یہ فرمایا گیا کہ ان سے کہو، خواہ ہم ہلاک ہوں یا خدا کے فضل سے زندہ رہیں، اس سے تمہیں کیا حاصل ہو گا؟ تم اپنی فکر کرو کہ خدا کے عذاب سے تم کیسے بچو گے۔

39. یعنی ہم خدا پر ایمان لائے ہیں اور تم اس سے انکار کر رہے ہو، ہمارا بھروسا خدا پر ہے اور تمہارا اپنے جتھو ں اور اپنے وسائل اور اپنے معبود انِ غیر اللہ پر۔ اس لیے خدا کی رحمت کے مستحق ہم ہو سکتے ہیں نہ کہ تم۔

40. یعنی کیا خدا کے سوا کسی میں یہ طاقت ہے کہ ان سوتوں کو پھر سے جاری کر دے؟ اگر نہیں ہے ، اور تم جانتے ہو کہ نہیں ہے ، تو پھر عبادت کا مستحق خدا ہے ، یا تمہارے وہ معبود جو اُنہیں جاری کرنے کی کوئی قدرت نہیں رکھتے؟ اس کے بعد تم خود اپنے ضمیر سے پوچھو کہ گمراہ خدائے واحد کو ماننے والے ہیں یا وہ جو شرک کر رہے ہیں؟