1. امام تفسیر مُجاہد کہتے کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے ذکر، یعنی قرآن لکھا جا رہا تھا۔ اِس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ چیز جو لکھی جا رہی تھی اُس سے مراد قرآن مجید ہے۔
2. یہ ہے وہ بات جس پر قلم اور کتاب کی قسم کھائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن جو کا تبین وحی کے ہاتھوں سے ثبت ہورہا ہے ، بجائے خود کفار کے اس بہتا ن کی تردید کے لیے کافی ہے کہ معاذ اللہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجنون ہیں۔ حضورؐ کے دعوائے نبوت سے پہلے تو اہلِ مکہ آپ کو اپنی قوم کا بہترین آدمی مانتے تھے اور آپ کی دیانت و امانت اور عقل و فراست پر اعتماد رکھتے تھے ۔ مگر جب آپ نے اُن کے سامنے قرآن پیش کرنا شروع کیا تو وہ آپ کو دیوانہ قرار دینے لگے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ قرآن ہی اُن کے نزدیک وہ سبب تھا جس کی بنا پر اُنہوں نے آپ پر دیوانگی کی تہمت لگائی۔ اس لیے فرمایا گیا کہ قرآن ہی اِس تُہمت کی تردید کے لیے کافی ثبوت ہے ۔ یہ اعلیٰ درجہ کا فصیح و بلیغ کلام، جو ایسے بلند پایہ مضامین پر مشتمل ہے، اِ س کا پیش کرنا تو اس بات کی دلیل ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کا خاص فضل ہوا ہے، کجا کہ اسے اس امر کی دلیل بنا یا جائے کہ آپ معاذ اللہ دیوانے ہوگئے ہیں۔ اس مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہاں خطاب تو بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن اصل مقصود کفار کو ان کی تُہمت کا جواب دینا ہے۔ لہٰذا کسی شخص کو یہ شبہ نہ ہو کہ یہ آیت حضورؐ کو یہ اطمینان دلانے کے لیے نازل ہوئی ہے کہ آپ مجنون نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ حضورؐ کو اپنے متعلق تو ایسا کوئی شبہ نہ تھا کہ اسے دُور کرنے کے لیے آپ کو یہ اطمینان دلانے کی ضرورت ہوتی۔ مدعا کفار سے یہ کہنا ہے کہ تم جس قرآن کی وجہ سے اُس کے پیش کرنے والے کو مجنون کہہ رہے ہو وہی تمہارے اس الزام کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ طور، حاشیہ۲۲)۔
3. یعنی آپ کے لیے اِس بات پر بے حساب اور لازوال اجر ہے کہ آپ خلقِ خدا کی ہدایت کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں اُن کے جواب میں آپ کو ایسی ایسی اذیت ناک باتیں سُننی پڑ رہی ہیں اور پھر بھی آپ اپنے اِس فرض کو انجام دیے چلے جا رہے ہیں۔
4. اس مقام پر یہ فقرہ دو معنی دے رہا ہے ۔ ایک یہ کہ آپ اخلاق کے بہت بلند مرتبے پر فائز ہیں اسی وجہ سے آپ ہدایتِ خلق کے کام میں یہ اذیتیں بر داشت کر رہے ہیں، ورنہ ایک کمزور اخلاق کا انسان یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ دوسرے یہ کہ قرآن کے علاوہ آپ کے بلند اخلاق بھی اس بات کا صریح ثبوت ہیں کہ کفار آپ پر دیوانگی کی جو تُہمت رکھ رہے ہیں وہ سراسر جھوٹی ہے ، کیونکہ اخلاق کی بلندی اور دیوانگی ، دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ دیوانہ وہ شخص ہوتا ہے جس کا ذہنی توازُن بگڑا ہوا ہو اور جس کے مزاج میں اعتدال باقی نہ رہا ہو۔ اس کے بر عکس آدمی کے بلند اخلاق اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ نہایت صحیح الدماغ اور سلیم الفطرت ہے اور اُس کا ذہن اور مزاج غایت درجہ مُتوازن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق جیسے کچھ تھے، اہلِ مکہ اُن سے نا واقف نہ تھے۔ اس لیے اُن کی طرف محض اشار ہ کر دینا ہی اِ س بات کے لیے کافی تھا کہ مکہ کا ہر معقول آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ وہ لوگ کس قدر بےشرم ہیں جو ایسے بلند اخلاق آدمی کو مجنون کہہ رہے ہیں۔ اُن کی یہ بیہودگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہیں بلکہ خود اُن کے لیے نقصان دہ تھی کہ مخالفت کے جوش میں پاگل ہو کر وہ آپ کے متعلق ایسی بات کہہ رہے تھے جسے کوئی ذی فہم آدمی قابل تصور نہ مان سکتا تھا۔ یہی معاملہ اُن مدعیانِ علم و تحقیق کا بھی ہے جو اِس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مِرگی اور جنون کی تہمت رکھ رہے ہیں۔ قرآن پاک دنیا میں ہر جگہ مل سکتا ہے، اور حضور کی سیرت بھی اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ لکھی ہوئی موجود ہے ۔ ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ جو لوگ اِس بے مثل کتاب کے پیش کرنے والے اور ایسے بلند اخلاق اکھنے والے انسان کو ذہنی مریض قرار دیتے ہیں وہ عداوت کے اندھے جذبے سے مغلوب ہو کر کیسی لغو بات کہہ رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بہترین تعریف حضرت عائشہؓ نے اپنے اس قول میں فرمائی ہے کہ کان خلقہ القراٰن۔ ”قرآن آپ کا اخلاق تھا“۔امام احمد، مسلم ،ابو داؤد، نسائی،ابن ماجہ،دارمی، اور ابن جریر نے تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ اُن کا یہ قول متعدد سندوں سے نقل کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے محض قرآن کی تعلیم ہی پیش نہیں کی تھی بلکہ خود اس کا مجسم نمونہ بن کر دکھادیا تھا۔ جس چیز کا قرآن میں حکم دیا گیا آپ ؐ نے خود سب سے بڑھ کر اس پر عمل کیا، جس چیز سے اس میں روکا گیا آپ نے خود سب سے زیادہ اُس سے اجتناب فرمایا، جن اخلاقی صفات کو اس میں فضیلت قرار دیا گیا سب سے بڑھ کر آپ کی ذات اُن سے متصف تھی، اور جن صفات کو اس میں نا پسندیدہ ٹھیرا یا گیا سب سے زیادہ آپ اُن سے پاک تھے۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم کونہیں مارا ، کبھی کسی عورت پر ہاتھ نہ اُٹھایا، جہاد فی سبیل اللہ کے سوا کبھی آپ نے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا، اپنی ذات کے لیے کبھی کسی ایسی تکلیف کا انتقام نہیں لیا جو آپ کو پہنچائی گئی ہو الّا یہ کہ اللہ کی حُرمتوں کو توڑا گیا ہو اور آپ نے اللہ کی خاطر اُس کا بدلہ لیا ہو، اور آپ کا طریقہ یہ تھا کہ جب دو کاموں میں سے ایک کا آپ کو انتخاب کرنا ہوتا تو آپ آسان تر کام کو پسند فرماتے تھے، الّا یہ کہ وہ گناہ ہو، اور اگر کوئی کام گناہ ہوتا تو آپ سب سے زیادہ دور رہتے تھے“(مسند احمد)۔حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ”میں نے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے ۔ آپ نے کبھی میری کسی بات پر اُف تک نہ کی، کبھی میرے کسی کام پر یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کیوں کیا، اور کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کیوں نہ کیا“۔(بخاری ومسلم)۔
5. یعنی تم اسلام کی تبلیغ میں کچھ ڈھیلے پڑ جاؤ تو یہ بھی تمہاری مخالفت میں کچھ نرمی اختیار کر لیں، یا تم ان کی گمراہیوں کی رعایت کر کے اپنے دین میں کچھ ترمیم کرنے پر آمادہ ہو جاؤ تو یہ تمہارے ساتھ مصالحت کرلیں۔
6. اصل میں لفظ مَھِیْن استعمال ہوا ہے جو حقیر و ذلیل اور گھٹیا آدمی کے لیے بولا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ بہت قسمیں کھانے والے آدمی کی لازمی صفت ہے۔وہ بات بات پر اس لیے قسم کھاتا ہے کہ اُسے خود یہ احساس ہوتا ہے کہ لوگ اسے جھوٹا سمجھتے ہیں اور اس کی اس بات پر اُ س وقت تک یقین نہیں کریں گے جب تک وہ قسم نہ کھائے۔ اس بنا پر وہ اپنی نگاہ میں خود بھی ذلیل ہوتا ہے اور معاشرے میں بھی اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔
7. اصل میں مَنَّاعٍ لِلْخَیْر کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ خیر عربی زبان میں مال کو بھی کہتے ہیں اور بھلائی کو بھی ۔ اگر اس کو مال کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ سخت بخیل اور کنجوس آدمی ہے، کسی کو پھوٹی کوڑی دینے کا بھی روادار نہیں ۔ اور اگر خیر کو نیکی اور بھلائی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ہر نیک کام میں رکاوٹ ڈالتا ہے، اور یہ بھی کہ وہ اسلام سے لوگوں کو روکنے میں بہت سرگرم ہے۔
8. اصل میں لفظ عُتُل استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں ا یسے شخص کے لیے بولا جاتا ہے جو خوب ہٹاکٹا اور بہت کھانے پینے والا ہو، اور اس کے ساتھ نہایت بُد خُلق، جھگڑلو اور سفّاک ہو۔
9. اصل میں لفظ زَنِیْم استعمال ہوا ہے ۔ کلامِ عرب میں یہ لفظ اُس ولدالزنا کے لیے بولا جاتا ہے جو دراصل ایک خاندان کا فرد نہ ہو مگر اس میں شامل ہوگیا ہو۔ سعید بن جُبَیر ا ور شعبی کہتے ہیں کہ یہ لفظ اُس شخص کے لیےبھی بولا جاتا ہے جو لوگوں میں اپنے شر کی وجہ سے معروف و مشہور ہو۔
اِن آیت میں جس شخص کے یہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں اُس کےبارے میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں۔ کسی نے کہا ہےکہ یہ شخص وَلید بن مغیرہ تھا۔ کسی نے اَسْود بن عَبدِ لَغُیوث کا نام لیا ہے ۔ کسی نے اَخْنَس بن شُرَیق کو اس کا مصداق ٹھیرا یا ہے ۔ اور بعض لوگوں نے کچھ دوسرے اشخاص کی نشاندہی کی ہے ۔ لیکن قرآن مجید میں نام لیے بغیر صرف اُس کے اوصاف بیان کر دیے گئے ہیں۔ اِس سے معلو م ہوتا ہے کہ مکہ میں وہ اپنے اِن اوصاف کے لیے اتنا مشہور تھا کہ اس کانام لینے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کی یہ صفات سنتے ہی ہر شخص سمجھ سکتا تھا کہ اشارہ کس کی طرف ہے۔
10. اس فقرے کا تعلق اُوپر کے سلسلہ کلام سے بھی ہوسکتا ہے اور بعد کے فقرے سے بھی ۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ایسے آدمی کی دھونس اس بنا پر قبول نہ کرو کہ وہ بہت مال اولاد رکھتا ہے۔ دوسری صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ بہت مال اولاد والا ہونے کی بنا پر وہ مغرور ہو گیا ہے، جب ہماری آیات اُس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ اگلے وقتوں کے افسانے ہیں۔
11. چونکہ وہ اپنے آپ کو بڑی ناک والا سمجھتا تھا اس لیے اس کی ناک کو سونڈ کہا گیا ہے۔ اور ناک پر داغ لگانے سے مراد تذلیل ہے۔ یعنی ہم دنیا اور آخرت میں اس کو ایسا ذلیل و خوار کریں گے کہ ابدتک یہ عار اس کا پیچھا نہ چھوڑے گا۔
12. اس مقام پر سورہ کہف رکوع 5 بھی پیش نظر رہے جس میں اسی طرح عبرت دلانے کے لئے دو باغ والوں کی مثال پیش کی گئی ہے۔
13. یعنی انہیں اپنی قدرت اور اپنے اختیار پر ایسا بھروسہ تھا کہ قسم کھا کر بے تکلّف کہہ دیا کہ ہم ضرور کل اپنے باغ کے پھل توڑیں گے اور یہ کہنے کی کوئی ضرورت وہ محسوس نہیں کرتے تھے کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم یہ کام کریں گے۔
14. کھیتی کالفظ غالباً اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ باغ میں درختوں کے درمیان کھیت بھی تھے۔
15. اصل الفاظ ہیں عَلٰی حَرْد۔ عربی زبان میں روکنے اور نہ دینے کے لیے بھی بولا جاتا ہے، قصد اور طے شدہ فیصلے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اور سُرعت کے معنی میں بھی متعمل ہے۔ اسی لیے ہم نے ترجمے میں تینوں معنوں کی رعایت ملحوظ رکھی ہے۔
16. یعنی پہلے تو انہیں باغ کو دیکھ کر یقین نہ آیا کہ یہ انہی کا باغ ہے اور کہنے لگے شاید ہم راستہ بھول کر کسی اور جگہ نکل آئے ہیں، پھر جب غور کیا اور معلوم ہوا کہ یہ ان کا اپنا باغ ہی ہے تو چیخ اٹھے کہ ہماری قسمت پھوٹ گئی۔
17. اس کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ قسم کھا کر کہہ رہے تھے کہ کل ہم اپنے باغ کے پھل توڑدیں گے اُس وقت اِس شخص نے ان کو تنبیہ کی تھی کہ تم خدا کو بھول گئے، ان شاء اللہ کیوں نہیں کہتے؟ مگر انہوں نے اس کی پروا نہ کی۔ پھر جب وہ مسکینوں کو کچھ نہ دینے کا فیصلہ کر رہے تھے اُس وقت بھی اس نے انہیں نصیحت کی کہ اللہ کو یاد کر و اور اس بُری نیت سے باز آجاؤ، مگر وہ اپنی بات پر جمے رہے۔
18. یعنی ہر ایک نے دوسرے کو الزام دینا شروع کیا کہ اُس کے بہکانے سے ہم اِس خدا فراموشی اور بد نیتی میں مبتلا ہوئے۔