19. مکّہ کے بڑے بڑے سردار مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ہم کو یہ نعمتیں جو دنیا میں مل رہی ہیں ، یہ خدا کے ہاں ہمارے مقبول ہونے کی علامت ہیں، اور تم جس بد حالی میں مبتلا ہو یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ تم خدا کے مغضوب ہو۔ لہٰذا اگر کوئی آخرت ہوئی بھی، جیسا کہ تم کہتے ہو، تو ہم وہاں بھی مزے کریں گے اور عذاب تم پر ہوگا نہ کہ ہم پر ۔ اس کا جواب اِن آیات میں دیا گیا ہے۔
20. یعنی یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ خدا فرمانبردار اور مجرم میں تمیز نہ کرے۔ تمہاری سمجھ میں آخر کیسے یہ بات آتی ہے کہ کائنات کا خالق کوئی اندھا راجہ ہے جو یہ نہیں دیکھے گا کہ کن لوگوں نے دنیا میں اس کے احکام کی اطاعت کی اور بُرے کاموں سے پرہیز کیا، اور کون لوگ تھے جو اُس سے بے خوف ہو کر ہر طرح کے گناہ اور جرائم اور ظلم و ستم کرتے رہے؟ تم نے ایمان لانے والوں کی خستہ حالی اور اپنی خوشحالی تو دیکھ لی، مگر اپنے اور اُن کے اخلاق و اعمال کا فرق نہیں دیکھا اور بے تکلف حکم لگا دیا کہ خدا کے ہاں اِن فرمانبرداروں کے ساتھ تو مجرموں کا سا معاملہ کیا جائے گا، اور تم جیسے مجرموں کو جنت عطا کر دی جائے گی۔
21. یعنی اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب۔
22. اصل میں لفظ زَعِیْم استعمال ہوا ہے ۔ کلامِ عرب میں زعیم اس شخص کو کہتے ہیں جو کفیل، یا ضامن یا کسی قوم کی طرف سے بولنے والا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کون آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اللہ سے تمہارے لیے ایسا کوئی عہدوپیمان لے رکھا ہے۔
23. یعنی تم اپنے حق میں جو حکم لگا رہے ہو اس کے لیے سرے سے کوئی بنیاد نہیں ہے۔ یہ عقل کے بھی خلاف ہے۔ خدا کی کسی کتاب میں بھی تم یہ لکھا ہوانہیں دکھا سکتے۔ تم میں سے کوئی یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتا کہ اُس نے خدا سے ایسا کوئی عہد لے لیا ہے۔ اور جن کو تم نے معبود بنا رکھا ہے اُن میں سے بھی کسی سے تم یہ شہادت نہیں دلوا سکتے کہ خدا کے ہاں تمہیں جنت دلوادینے کا وہ ذمّہ لیتا ہے۔ پھر یہ غلط فہمی آخر تمہیں کہاں سے لاحق ہو گئی؟
24. اصل الفاظ ہیں یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ،”جس روز پنڈلی کھولی جائے گی“۔صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ محاورے کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ عربی محاورے کے مطابق سخت وقت آپڑنے کو کشفِ ساق سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے بھی اس کے یہی معنی بیان کیے ہیں اور ثبوت میں کلامِ عرب سے استشہاد کیا ہے۔ ایک اور قول جو ابن عباس اور ربیع بن انس سے منقول ہے اس میں کشفِ ساق سے مراد حقائق پر سے پردہ اٹھانا لیا گیا ہے۔ اس تاویل کی رو سے معنی یہ ہوں گے کہ جس روز تمام حقیقتیں بے نقاب ہو جائیں گی اور لوگوں کے اعمال کھل کر سامنے آجائیں گے۔
25. اس کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے روز علی الاعلان اس بات کا مظاہرہ کرا یا جائے گا کہ دنیا میں کون اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا تھا اور کون اُس سے منحرف تھا۔ اس غرض کے لیے لوگوں کو بلایا جائے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ بجا لائیں۔ جو لوگ دنیا میں عبادت گزارتھے وہ سجدہ ریز ہو جائیں گے ۔ اور جن لوگوں نے دنیا میں اللہ کے آگے سرِ نیاز جھکانے سے انکار کر دیا تھا اُن کی کمر تختہ ہو جائے گی۔ اُن کے لیے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہاں عبادت گزار ہونے کا جھوٹا مظاہرہ کر سکیں۔ اس لیے وہ ذلّت اور پشیمانی کے ساتھ کھڑے کے کھڑے رہ جائیں گے۔
26. یعنی ان سے نمٹنے کی فکر میں نہ پڑو۔ ان سے نمٹنا میرا کام ہے۔
27. بے خبری میں کسی کو تباہی کی طرف لے جانے کی صورت یہ ہے کہ ایک دشمن حق اور ظالم کو دنیا میں نعمتوں سے نوازا جائے، صحت ، مال ، اولاد اور دنیوی کامیابیاں عطا کی جائیں ، جن سے دھوکا کھا کر وہ سمجھے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں خوب کر رہا ہوں، میرے عمل میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ اس طرح وہ حق دشمنی اور ظلم و طغیان میں زیادہ سے زیادہ غرق ہوتا چلا جاتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ جو نعمتیں اسے مل رہی ہیں وہ انعام نہیں ہیں بلکہ درحقیقت یہ اس کی ہلاکت کا ساما ن ہے۔
28. اصل میں لفظ کَیْد استعمال ہوا ہے جس کے معنی کسی کے خلاف خفیہ تدبیر کرنے کے لیے ہیں۔ یہ چیز صرف اُس صورت میں ایک بُرائی ہوتی ہے جب یہ ناحق کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے ہو۔ ورنہ بجائے خود اِس میں کوئی برائی نہیں ہے،خصوصاً جب کسی ایسے شخص کے خلاف یہ طریقہ اختیار کی جائے جس نے اپنے آپ کو اس کا مستحق بنا لیا ہے۔
29. سوال بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا جا رہا ہے ، مگر اصل مخاطب وہ لوگ ہیں جو آپ کی مخالفت میں حد سے گزرے جا رہے تھے۔ اُن سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ہمارا سول تم سے کچھ مانگ رہا ہے کہ تم اس پر اتنا بگڑ رہے ہو؟ تم خود جانتے ہو کہ وہ ایک بے غرض آدمی ہے اور جو کچھ تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے صرف اس لیے کر رہا ہے کہ اس کے نزدیک اسی میں تمہاری بھلائی ہے ۔ تم نہیں ماننا چاہتے تو نہ مانو، مگر اِس تبلیغ پر آخر اتنے چراغ پاکیوں ہوئے جا رہے ہو؟(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ طور، حاشیہ۳۱)۔
30. یہ دوسرا سوال بھی بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر دراصل آپ کے مخالفین اس کے مخاطب ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ کیا تم لوگوں نے پردہ غیب کے پیچھے جھانک کر دیکھ لیا ہے کہ یہ رسول فی الواقع خدا کا بھیجا ہوا رسول نہیں ہے اور جو حقیقتیں یہ تم سے بیان کر رہا ہے وہ بھی غلط ہیں، اس لیے تم اس کو جھٹلانے میں اتنی شدت برت رہے ہو؟( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، تفسیر سورہ طور، حاشیہ ۳۲)۔
31. یعنی وہ وقت ابھی دور ہے جب اللہ تعالیٰ تمہاری فتح و نصرت اور تمہارے اِن مخالفین کی شکست کا فیصلہ فرمادے گا۔ اُس وقت کے آنے تک جو تکلیفیں اور مصیبتیں بھی اس دین کی تبلیغ میں پیش آئیں انہں صبر کے ساتھ براداشت کرتے چلے جاؤ۔
32. یعنی یونس علیہ السلام کی طرح بے صبری سے کام نہ لوجو اپنی بے صبری کی وجہ سے مچھلی کے پیٹ پہنچا دیے گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا فیصلہ آنے تک صبر کی تلقین کرنے کے بعد فوراً ہی یہ فرمانا کہ یونس علیہ السلام کی طرح نہ ہو جاؤ، خود بخود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے اللہ کا فیصلہ آنے سے پہلے بے صبری سے کوئی کام کیا تھا جس کی بنا پر وہ عتاب کے مستحق ہو گئے تھے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،جلد دوم، یونس، آیت۹۸،حاشیہ۹۹۔جلدسو۔،الانبیاء، آیات۸۷۔۸۸۔ حواشی ۸۲ تا ۸۵ ۔ جلد چہارم ، الصّافات، آیات۱۳۹تا ۱۴۸، حواشی۷۸ تا ۸۵)۔
33. سورہ انبیاء میں اس کی تفصیل یہ بیان کی گئی ہے کہ مچھلی کے پیٹ اور سمندر کی تاریکیوں میں حضرت یونس علیہ السلام نے پکارا تھا لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ،"کوئی خدا نہیں تیری پاک ذات کے سوا، میں واقعی خطا وار ہوں"۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی فریاد سن لی اور ان کو غم سے نجات دی(آیات۸۷۔۸۸)۔
34. اس آیت کو سُورہ صافّات کی آیات ۱۴۲ تا ۱۴۶ کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ میں ڈالے گئے تھے اُس وقت تو وہ ملامت میں مبتلا تھے، لیکن جب انہوں نے اللہ کی تسبیح کی اور اپنے قصورکا اعتراف کرلیا تو اگرچہ وہ مچھلی کے پیٹ سے نکال کر بڑی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینکے گئے، مگر وہ اُس وقت مذمت میں مبتلا نہ تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اُس جگہ ایک بیلدار درخت اُگا دیا، تاکہ اُس کے پتّے ان پر سایہ بھی کریں اور وہ اس کے پھل سے بھوک اور تشنگی بھی دور کر سکیں۔
35. یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم اُردو میں کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اسے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے اُس کو کھا جائے گا۔ کفار مکہ کے اس جذبہ غیظ و غضب کی کیفیت سورہ بنی اسرائیل ، آیات۷۳ تا۷۷ میں بھی بیان ہوئی ہے۔