1. اصل میں لفظ الحاقہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں وہ واقعہ جس کو لازماً پیش آکر رہنا ہے جس کا آنا برحق ہے ،جس کے آنے میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔قیامت کے لیے یہ لفظ استعمال کر نا اور پھر کلام کا آغاز ہی اس سے کرنا خود بخود یہ ظاہر کرتا ہے کہ مُخاطب وہ لوگ ہیں جو اُس کے آنے کو جھٹلا رہے تھے۔ اُن کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ جس چیز کی تم تکذیب کر رہے ہو وہ ہونی شُدنی ہے ، تمہارے انکار سے اُس کا آنا رُک نہیں جائے گا۔
2. یکے بعد دیگرے یہ دوسوالات سامعین کو چونکانے کے لیے کیے گئے ہیں تا کہ وہ بات کی اہمیت کو سمجھیں اور پوری توجہ کے ساتھ آگے کی بات سُنیں۔
3. کفارِ مکہ چونکہ قیامت کو جھٹلا رہے تھے اور اُس کے آنے کی خبر کو مذاق سمجھتے تھے اس لیے پہلے اُن کو خبردار کیاگیا کہ وہ تو ہونی شُدنی ہے، تم چاہے مانو یا نہ مانو، وہ بہر حال آکر رہے گی۔ اس کے بعد اب اُن کو بتایا جارہا ہے کہ یہ معاملہ صرف اتنا سادہ سا معاملہ نہیں ہے کہ کوئی شخص ایک پیش آنے والے واقعہ کی خبر کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں، بلکہ اس کا نہایت گہرا تعلق قوموں کےاخلاق اور پھر اُن کے مستقبل سے ہے۔ تم سے پہلے گزری ہوئی قوموں کی تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم نے بھی آخرت کا انکار کر کے اسی دنیا کی زندگی کو اصل زندگی سمجھا اور اس بات کو جھٹلا دیا کہ انسان کو آخر کار خدا کی عدالت میں اپنا حساب دینا ہوگا ، وہ سخت اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہوئی، یہاں تک کہ خدا کے عذاب نے آکر دنیا کو اس کے وجود سے پاک کر دیا۔
4. اصل لفظ القارعہ ہے۔ قرع عربی زبا ن میں ٹھوکنے، کوٹنے، کھڑ کھڑا دینے ، اور ایک چیز کو دوسری چیز پر مار دینے کے لیے بولا جاتا ہے۔ قیامت کے لیے یہ دوسرا لفظ اُس کی ہولناکی کا تصور دلانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
5. سورہ اعراف ، آیت ۷۸ میں اس کو الرّجْفہ (زبردست زلزلہ)کہا گیا ہے۔ سورہ ہود ، آیت ٦۷ میں اس کے لیے الصَّیْحَہ (زور کے دھماکے)کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ سورہ حٰم السجدہ، آیت ١۷ میں فرمایا گیا ہے کہ ان کو صَاعِقَةُ الْعَذَاب (عذاب کے کڑکے) نے آلیا۔ اور یہاں اُسی عذاب کو الطَّاغیہ (حد سے زیادہ سخت حادثہ)سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ یہ ایک ہی واقعہ کی مختلف کیفیات کا بیا ن ہے۔
6. مراد ہیں قومِ لوط کی بستیاں جن کے متعلق سورہ ہود ؑ (آیت ۸۲) اور سورہ حجر(آیت ۷۴) میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ان کو تلپٹ کر کے رکھ دیا۔
7. اشارہ ہے طوفانِ نوح کی طرف جس میں ایک پوری قوم اسی خطائے عظیم کی بنا پر غرق کردی گئی اور صرف وہ لوگ بچا لیے گئے جنہوں نے اللہ کے رسول کی بات مان لی تھی۔
8. اگرچہ کشتی میں سوار وہ لوگ کیے گئے تھے جو ہزاروں برس پہلے گزر چکے تھے، لیکن چونکہ بعد کی پوری انسانی نسل اُنہی لوگوں کی اولا دہے جو اُس وقت طوفان سے بچائے گئے تھے، اس لیے فرمایا کہ ہم نے تم کو کشتی میں سوار کر ادیا۔ مطلب یہ ہے کہ تم آج دنیا میں اسی لیے موجود ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اُس طوفان میں صرف مُنکر ین کو غرق کیا تھا اور ایمان لانے والوں کو بچا لیا تھا۔
9. یعنی وہ کان نہیں جو سُنی اَن سنی کر دیں اور جن کے پر دے پر سے آواز اُچٹ کر گزر جائے، بلکہ وہ کان جو سُنیں اور بات کو دل تک اُتاردیں۔ یہاں بظاہر کان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، مگر مراد ہیں سننے والے لوگ جو اس واقعہ کو سن کر اُسے یاد رکھیں ، اُس سے عبرت حاصل کریں اور اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ آخرت کے انکا راور خدا کے رسول کی تکذیب کا انجام کیسا ہولناک ہوتا ہے۔
10. آگے آنے والی آیات کو پڑھتے ہوئے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید کہیں تو قیامت کے تین مراحل الگ الگ بیان کیےگئے ہیں جو یکے بعد دیگرے مختلف اوقات میں پیش آئیں گے ، اور کہیں سب کو سمیٹ کر پہلے مرحلے سے آخری مرحلے تک کے واقعات کو یکجا بیان کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ نمل آیت ۸۷ میں پہلے نفخ سور کا ذکر کیا گیا ہے جب تمام دنیا کے انسان یک لخت ایک ہولناک آواز سے گھبرا اٹھیں گے۔ اُس وقت نظام ِ عالم کے درہم برہم ہونے کی وہ کیفیات اُن کی آنکھوں کے سامنے پیش آئیں گی جو سورہ حج آیات١۔۲، سور ہ یٰس آیات ۴۹۔۵۰،اور سورہ تکویر آیات ١۔٦ میں بیان ہوئی ہیں۔ سورہ زُمر آیات ٦۷ تا ۷۰ میں دوسرے اور تیسرےنفخ صور کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ایک نفخ پر سب لوگ مر کر گر جائیں گے اور اس کے بعد جب پھر صور پھونکا جائے گا تو سب جی اٹھیں گے اور خدا کی عدالت میں پیش ہو جائیں گے۔ سورہ طٰہٰ آیات ۲۔١ تا ١١۲، سورہ انبیاء آیات ١۰١ تا ١۰۳، سورہ یٰس آیات۵١تا۵۳، اور سورہ ق آیات ۲۰ تا ۲۲ میں صرف تیسرے نفخ صور کا ذکر ہے(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم،طٰہٰ حاشیہ ۷۸۔ الحج، حاشیہ١۔ جلد چہارم، یٰس ،حواشی ۴٦۔۴۷)۔ لیکن یہاں اور بہت سے دوسرے مقامات پر قرآن میں پہلے نفخ صور سے لے کر جنت اور جہنم میں لوکوں کے داخل ہونے تک قیامت کے تمام واقعات کو ایک ہی سلسلے میں بیان کر دیا گیا ہے۔
11. یہ آیت متشابہات میں سے ہے جس کے معنی متعین کر نا مشکل ہے۔ ہم نہ یہ جان سکتے ہیں کہ عرش کیا چیز ہے اور نہ یہی سمجھ سکتے ہیں کہ قیامت کے روز آٹھ فرشتوں کے اس کو اٹھانے کی کیفیت کیا ہوگی۔ مگر یہ بات بہر حال قابل تصور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہو گا اور آٹھ فرشتے اس کو عرش سمیت اٹھا ئے ہوئے ہونگے۔ آیات میں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا ہوگا ، اور ذات باری کا جو تصور ہم کو قرآن مجید میں دیا گیا ہے وہ بھی یہ خیال کرنے میں مانع ہے کہ وہ جسم اور جہت اور مقام سے منزہ ہستی کسی جگہ متمکن ہو اور کوئی مخلوق اُسے اٹھا ئے۔اس لیے کھوج کر ید کر کے اس کے معنی متعین کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو گمراہی کے خطرے میں مبتلا کر نا ہے۔ البتہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی حکومت و فرمانروائی اور اس کے معاملات کا تصور دلانے کے لیے لوگوں کے سامنے وہی نقشہ پیش کیا گیا ہے جو دنیا میں بادشاہی کا نقشہ ہوتا ہے، اور اس کے لیے وہی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں جو انسانی زبانوں میں سلطنت اور اس کے مظاہر و لوازم کے لیے مستعمل ہیں، کیونکہ انسانی ذہن اسی نقشے اور انہی اصطلاحات کی مدد سے کسی حد تک کائنات کی سلطانی کے معاملات کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ سب کچھ اصل حقیقت کو انسانی فہم سے قریب تر کرنے کے لیے ہے۔ اس کو بالکل لفظی معنوں میں لے لینا دُرست نہیں ہے۔
12. سیدھے ہاتھ میں نامہ اعمال کا دیا جانا ہی ظاہر کر دے گا کہ اُس کا حساب بے باق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مجرم کی حیثیت سے نہیں بلکہ صالح انسان کی حیثیت سے پیش ہو رہا ہے۔ اغلب یہ ہے کہ اعمال ناموں کی تقسیم کے وقت صالح انسان خود سیدھا ہاتھ بڑھا کر اپنا نامہ اعمال لے گا، کیونکہ موت کے وقت سے میدانِ حشر میں حاضری تک اُس کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہوگا اس کی وجہ سے اس کو پہلے ہی یہ اطمینان حاصل ہو چکا ہوگا کہ میں یہاں انعام پانے کے لیے پیش ہو رہا ہوں نہ کہ سزا پانے کے لیے۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ بڑی صراحت کے ساتھ بتائی گئی ہے کہ موت کے وقت ہی سے یہ بات انسان پر واضح ہوجاتی ہے کہ وہ نیک بخت آدمی کی حیثیت سے دوسرے عالم میں جا رہا ہے یا بدبخت آدمی کی حیثیت سے ۔ پھر موت سے قیامت تک نیک انسان کے ساتھ مہمان کا سا معاملہ ہوتا ہے اور بد انسان کے ساتھ حوالاتی مجرم کا سا۔ اس کے بعد جب قیامت کے روز دوسری زندگی کا آغاز ہوتا ہے اسی وقت سے صالحین کی حالت و کیفیت کچھ اور ہوتی ہے اور کفار و منافقین اور مجرمین کی حالت و کیفیت کچھ اور (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الانفال،آیت۵۰۔النحل، آیات۲۸،۳۲،مع حاشیہ ۲۶۔بنی اسرائیل، آیت۹۷۔ جلد سوم ، طٰہٰ، آیات۱۰۲،۱۰۳،۱۲۴تا۱۲۶،مع حواشی ۸۰،۷۹،۱۰۷ لانبیاء، آیت ۱۰۳، مع حاشیہ ۹۸۔الفرقان،آیت۲۴، مع حاشیہ۳۸۔ النمل، آیت۸۹،مع حاشیہ۱۰۹م جلد چہارم، سبا،آیت ۵۱،مع حاشیہ۷۲۔ یٰس، آیات ۲۶،۲۷،مع حواشی ۲۲۔۲۳۔المومن، آیات۴۵،۴۶،مع حاشیہ ۶۳۔جلد پنجم، محمد ؐ ، آیت۲۷ مع حاشیہ ۳۷۔ق،آیات۱۹تا۲۳۔مع حواشی ۲۵،۲۳،۲۲)۔
13. یعنی نامہ اعمال ملتے ہی وہ خوش ہو جائے گا اور اپنے ساتھیوں کو دکھائے گا ۔ سورہ انشقاق ، آیت ۹ میں بیان ہوا ہے کہ ”وہ خوش خوش اپنے لوگوں کی طرف پلٹے گا۔
14. یعنی وہ اپنی خوش قسمتی کی وجہ یہ بتائے گا کہ وہ دنیا میں آخرت سے غافل نہ تھا بلکہ یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتا رہا کہ ایک روزاُسے خدا کے حضور حاضر ہونا اور اپنا حساب دینا ہے۔
15. سورہ انشقاق میں فرمایا گیا ہے ”اور جس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا“۔غالباً اس کی صورت یہ ہوگی کہ مجرم کو چونکہ پہلے ہی سے اپنے مجرم ہونے کا علم ہو گا اور وہ جانتا ہو گا کہ اس نامہ اعمال میں اس کا کیا کچھا چٹھا در ج ہے، اس لیے وہ نہایت بددلی کے ساتھ اپنا بایاں ہاتھ بڑھا کر اُسے لے گا اور فوراً پیٹھ کے پیچھے چھپا لے گا تا کہ کوئی دیکھنے نہ پائے۔
16. یعنی مجھے یہ نامہ اعمال دے کر میدان ِ حشر میں علانیہ سب کے سامنے ذلیل و رسوا نہ کیا جاتا اور جو سزا بھی دینی تھی دے ڈالی جاتی۔
17. یعنی مجھے نہ بتایا جاتا کہ میں دنیا میں کیا کچھ کر کے آیاہوں۔ دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے کبھی یہ نہ جانا تھا کہ حساب کیا بلا ہوتی ہے، مجھے کبھی یہ خیال تک نہ آیا تھا کہ ایک دن مجھے اپنا حساب بھی دینا ہوگا اور میرا سب کیا کرایا میرے سامنے رکھ دیا جائے گا۔
18. یعنی دنیا میں مرنے کے بعد میں ہمیشہ کے لیے معدوم ہو گیا ہوتا اور کوئی دسری زندگی نہ ہوتی۔
19. اصل الفاظ ہیں ھَلَکَ عَنِّی ْسُلطٰنِیَہْ۔ سلطان کا لفظ دلیل وحجت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور اقتدار کے لیے بھی۔ اگر اُسے دلیل وحُجت کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جو دلیل باز یاں میں کیا کرتا تھا وہ یہاں نہیں چل سکتیں ، میرے پاس اپنی صفائی میں پیش کرنے کے لیے اب کوئی حجت نہیں رہی۔ اور اقتدار کے معنی میں لیا جائے تو مراد یہ ہوگی کہ دنیا میں جس طاقت کے بل بوتے پر میں اکڑتا تھا وہ یہاں ختم ہو چکی ہے۔ اب یہاں کوئی میرا لشکر نہیں، کوئی میرا حکم ماننے والا نہیں، میں ایک بے بس اور لا چار بندے کی حیثیت سے کھڑا ہوں جو اپنے دفاع کے لیے کچھ نہیں کر سکتا ۔
20. یعنی خود کسی غریب کو کھانا کھلانا تو درکنار ، کسی سے یہ کہنا بھی پسند نہ کرتا تھا کہ خدا کے بھوکے بندوں کو روٹی دے دو۔