21. یعنی تم لوگوں نے جو کچھ سمجھ رکھا ہے بات وہ نہیں ہے۔
22. یہاں رسولِ کریم سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور سورہ تکویر(آیت ۱۹) میں اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہاں قرآن کو رسولِ کریم کا قول کہنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ کسی شاعر یا کاہن کا قول نہیں ہے ، اور ظاہر ہے کہ کفارِ مکہ جبریل ؑ کو نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر اور کاہن کہتے تھے۔ بخلاف اس کےسورہ تکویر میں قرآن کو رسولِ کریم کا قول کہنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ وہ رسول بڑی قوت والا ہے، صاحبِ عرش کے ہاں بلند مرتبہ رکھتا ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے ، وہ امانت در ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو روشن اُفق پر دیکھا ہے۔ قریب قریب یہی مضمون سورہ نجم آیات ۵ تا ۱۰ میں جبریل علیہ السلام کے متعلق بیان ہوا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور جبریل کا قول کس معنی میں کہا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ اس کوحضور ؐ کی زبان سے اور حضور ؐ اسے جبریل ؑ کی زبان سے سُن رہے تھے، اس لیے ایک لحاظ سے یہ حضور ؐ کا قول تھا اور وہ دوسرے لحاظ سے جبریل ؑ کا قول، لیکن آگے چل کر یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ فی الاصل یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جبریل کی زبان سے ، اور لوگوں کےسامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہورہا ہے۔ خود رسول کا لفظ بھی اس حقیقت پر دلالت کر تا ہے کہ یہ ان دونوں کا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ پیغام بر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اس کو پیغام بھیجنے والے کی طرف سے پیش کیا ہے۔
23. ”کم ہی ایمان لاتے ہو“کا ایک مطلب عربی محاورے کے مطابق یہ ہو سکتا ہے کہ تم ایمان نہیں لاتے ۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قرآن کو سُن کر کسی وقت تمہارا دل خود پکار اُٹھتا ہے کہ یہ انسانی کلام نہیں ہو سکتا ، مگر پھر تم اپنی ضدپر اڑ جاتے اور اس پر ایمان لانے سے انکار کر دیتے ہو۔
24. ”حاصلِ کلام یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں نظر آتا ہے اور جو کچھ تم کو نظر نہیں آتا، اُس سب کی قسم میں اس بات پر کھاتا ہوں کہ یہ قرآن کسی شاعر یا کاہن کا کلام نہیں ہے بلکہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے جو ایک ایسے رسول کی زبان سے ادا ہو رہا ہے جو کریم (نہایت معزز اور شریف)ہے۔ اب دیکھیے کہ یہ قسم کس معنی میں کھائی گئی ہے۔ جو کچھ لوگوں کو نظر آ رہا تھا وہ یہ تھا کہ:
(۱)اس کلام کو ایک ایسا شخص پیش کر رہا تھا جس کا شریف النفس ہونا مکہ کے معاشرے میں کسی سے چھپا ہوا نہ تھا۔ سب جانتے تھے کہ اخلاقی حیثیت سے یہ اُن کی قوم کا بہترین آدمی ہے۔ ایسے شخص سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ اتنا بڑا جھوٹ لے کر اٹھ کھڑا ہو گا کہ خدا پر بُہتان باندھے اور اپنے دل سے ایک بات گھڑ کر اُسے خدا وندِ عالم کی طرف منسوب کر دے۔
(۲)وہ یہ بھی علانیہ دیکھ رہے تھے کہ اس کلام کو پیش کرنے میں اپنا کوئی ذاتی مفاد اُس شخص کے پیشِ نظر نہیں ہے، بلکہ یہ کام کر کے تو اُس نے اپنے مفاد کو قربان کر دیا ہے۔ اپنی تجارت کو برباد کیا۔ اپنے عیش و آرام کو تَج دیا۔ جس معاشرے میں اسے سر آنکھوں پر بٹھا یا جاتا تھا، اُسی میں گالیاں کھانے لگا۔ اور نہ صرف خود بلکہ اپنے بال بچوں تک کو ہر قسم کے مصائب میں مبتلا کر لیا۔ ذاتی مفاد کا خواہشمند ان کانٹوں میں اپنے آپ کو کیوں گھسیٹتا؟
(۳)اُن کی آنکھیں یہ بھی دیکھ رہی تھیں کہ اُنہی کے معاشرے میں سے جو لوگ اُس شخص پر ایمان لا رہے تھے ان کی زندگی میں یک لخت ایک انقلاب بر پا ہو جاتا تھا۔ کسی شاعر یا کاہن کے کلام میں یہ تاثیر آخر کب دیکھی گئی ہے کہ وہ لوگوں میں ایسی زبردست اخلاقی تبدیلی پیدا کر دے اور اس کے ماننے والے اُس کی خاطر ہر طرح کے مصائب و آلام برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائیں؟
(۴)اُن سے یہ بات بھی چھپی ہوئی نہ تھی کہ شعر کی زبان کیا ہوتی ہے اور کاہنوں کا کلام کیسا ہوتا ہے۔ ایک ہٹ دھرم آدمی کے سوا کون یہ کہہ سکتا تھا کہ قرآن کی زبان شاعری یا کہانت کی زبان ہے(اس پر مفصل بحث ہم تفہیم القرآن ، جلد سوم، الانبیاء، حاشیہ ۷۔ جلد چہارم، الشعراء، حواشی ۱۴۲ تا۱۴۵۔ اور جلد پنجم، الطور حاشیہ ۲۲ میں کر چکے ہیں۔
(۵)یہ بات بھی اُن کی نگاہوں کےسامنے تھی کہ پورے عرب میں کوئی شخص ایسا فصیح و بلیغ نہ تھا جس کا کلام قرآن کے مقابلے میں لایا جا سکتا ہو۔ اُس کے برابر تو درکنار ، اس کے قریب تک کسی کی فصاحت و بلاغت نہیں پہنچتی تھی۔
(۶)ان سے یہ بات بھی پوشیدہ نہ تھی کہ خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان بھی اپنی ادبی شان کے لحاظ سے قرآن کی ادبی شان سے بہت مختلف تھی۔ کوئی اہل زبان حضور ؐ کی اپنی تقریر ، اور قرآن کو سُن کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ دونوں ایک ہی شخص کے کلام ہیں۔
(۷)قرآن جن مضامین اور علوم پر مشتمل تھا، دعوائے نبوت سے ایک دن پہلے تک بھی مکہ کے لوگوں نے کبھی وہ باتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نہ سنی تھیں، اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان معلومات کے حصول کا کوئی ذریعہ آپ کے پاس نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے آپ کے مخالفین اگر یہ الزامات لگاتے بھی تھےکہ آپ کہیں سے خفیہ طریقے پر یہ معلومات حاصل کرتے ہیں تو مکہ میں کوئی شخص اُن کو باور کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا(اس کی تشریح ہم تفہیم القرآن جلد دوم، النحل حاشیہ ۱۰۷، اور جلد سوم، الفرقان، حاشیہ۱۲ میں کر چکے ہیں)۔
(۸)زمین سے لے کر آسمان تک اس عظیم الشان کارخانہ ہستی کو بھی وہ اپنی آنکھوں سے چلتا ہوا دیکھ رہےتھے جس میں ایک زبردست حکیمانہ قانون اور ہمہ گیر نظم و ضبط کا ر فرما نظر آرہا تھا۔ اس کے اندر کہیں اُس شرک اور انکارِ آخرت کے لیے کوئی شہادت نہیں پائی جاتی تھی جس کے اہلِ عرب معتقد تھے، بلکہ ہر طرف توحید اور آخرت ہی کی صداقت کے شواہد ملتے تھے جسے قرآن پیش کر رہا تھا۔
یہ سب کچھ تو دیکھ رہے تھے۔ اور جو کچھ وہ نہیں دیکھ رہے تھے وہ یہ تھا کہ فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کا خالق و مالک اور فرمانروا ہے، کائنات میں سب بندے ہی بندے ہیں، خدا اُس کے سوا کوئی نہیں ہے، قیامت ضرور برپا ہونے والی ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعی اللہ تعالیٰ ہی نے اپنا رسول مقرر کیا ہے، اور اُن پر اللہ ہی کی طرف سے یہ قرآن نازل ہو رہا ہے ۔ ان دونوں قسم کے حقائق کی قسم کھا کر وہ بات کہی گئی ہے جو اوپر کی آیا ت میں ارشاد ہوئی ہے۔
25. اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ نبی کو اپنی طرف سے وحی میں کوئی کمی بیشی کر نے کا اختیار نہیں ہے، اور اگر وہ ایسا کرے تو ہم اس کو سخت سزا دیں۔ مگر اس بات کو ایسے انداز سے بیان کیا گیا ہے جس سے آنکھوں کے سامنے یہ تصویر کھینچ جاتی ہے کہ ایک بادشاہ کا مقرر کردہ افسر اُس کے نام سے کوئی جعلسازی کرے توبادشاہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اُس کا سر قلم کر دے۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ غلط استدلال کیا ہے کہ جو شخص بھی نبوت کا دعوٰی کرے، اُس کی رگِ دل یا رگِ گردن اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوراً نہ کاٹ ڈالی جائے تو یہ اُس کے نبی ہونے کا ثبوت ہے۔ حالانکہ اس آیت میں جو بات فرمائی گئی ہے وہ سچے نبی کے بارے میں ہے، نبوت کے جھوٹے مدعیوں کے بارے میں نہیں ہے ۔ جھوٹے مدعی تو نبوت ہی نہیں خدائی تک کے دعوتے کرتے ہیں اور زمین پر مدتّوں دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ اُن کی صداقت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس مسئلے پر مفصل بحث ہم تفہیم القرآن، جلد دوم، تفسیر سورہ یونس حاشیہ ۲۳ میں کر چکے ہیں۔
26. یعنی قرآن اُن لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو غلط روی اور اُس کے بُرے نتائج سے بچنا چاہتے ہیں (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ۳)۔
27. یعنی آخر کار انہیں اس بات پر پچھتا نا پڑے گا کہ انہوں نے کیوں اس قرآن کی تکذیب کی۔