Tafheem ul Quran

Surah 7 Al-A'raf, Ayat 1-10

الۤمّۤصۤ‏ ﴿7:1﴾ كِتٰبٌ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ فَلَا يَكُنۡ فِىۡ صَدۡرِكَ حَرَجٌ مِّنۡهُ لِتُنۡذِرَ بِهٖ وَذِكۡرٰى لِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿7:2﴾ اِتَّبِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكُمۡ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ وَلَا تَتَّبِعُوۡا مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءَ​ ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿7:3﴾ وَكَمۡ مِّنۡ قَرۡيَةٍ اَهۡلَـكۡنٰهَا فَجَآءَهَا بَاۡسُنَا بَيَاتًا اَوۡ هُمۡ قَآئِلُوۡنَ‏ ﴿7:4﴾ فَمَا كَانَ دَعۡوٰٮهُمۡ اِذۡ جَآءَهُمۡ بَاۡسُنَاۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡۤا اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِيۡنَ‏ ﴿7:5﴾ فَلَنَسۡـئَـلَنَّ الَّذِيۡنَ اُرۡسِلَ اِلَيۡهِمۡ وَلَـنَسۡـئَـلَنَّ الۡمُرۡسَلِيۡنَ ۙ‏ ﴿7:6﴾ فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيۡهِمۡ بِعِلۡمٍ وَّمَا كُنَّا غَآئِبِيۡنَ‏ ﴿7:7﴾ وَالۡوَزۡنُ يَوۡمَـئِذِ اۨلۡحَـقُّ​ ۚ فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِيۡنُهٗ فَاُولٰۤـئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ﴿7:8﴾ وَمَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِيۡنُهٗ فَاُولٰۤـئِكَ الَّذِيۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ بِمَا كَانُوۡا بِاٰيٰتِنَا يَظۡلِمُوۡنَ‏ ﴿7:9﴾ وَلَقَدۡ مَكَّـنّٰكُمۡ فِى الۡاَرۡضِ وَجَعَلۡنَا لَـكُمۡ فِيۡهَا مَعَايِشَ ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿7:10﴾

1 - ا،ل،م،ص۔ 2 - یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے،1 پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تمہارے دل میں اس سے کوءی جھجک نہ ہو۔2 اس کے اُتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ (منکرین کو) ڈراؤ اور ایمان لانے والے لوگوں کو یاد دہانی ہو۔3 3 - لوگو، جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اُس کی پیروی کرو اور اپنے ربّ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔۔۔4 مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو۔ 4 - کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا۔ اُن پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت ٹوٹ پڑا، یا دن دہاڑے ایسے وقت آیا جب کہ وہ آرام کر رہے تھے۔ 5 - اور جب ہمارا عذاب اُن پر آگیا تو ان کی زبان پر اِس کے سوا کوئی صدا نہ تھی کہ واقعی ہم ظالم تھے۔ 5 6 - پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے باز پرس کریں، 6جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں( کہ اُنہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیں اس کا کیا جواب ملا) 7 7 - پھر ہم خود پورے علم کے ساتھ ساری سرگزشت ان کے آگے پیش کر دیں گے ، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے۔ 8 - اور وزن اس روز عین حق 8ہوگا۔ جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے 9 - اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے9 کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاوٴ کرتے رہے تھے۔ 10 - ہم نے تمھیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لیے یہاں سامانِ زیست فراہم کیا، مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ ؏ ۱


Notes

1. کتاب سے مراد یہی سورہ اعراف ہے۔

2. یعنی بغیر کسی جھجک اور خوف کے اِسے لوگوں تک پہنچا دو اور اس بات کی کچھ پرواہ نہ کرو کہ مخالفین اس کا کیسا استقبال کریں گے۔ وہ بگڑتے ہیں، بگڑیں۔ مذاق اُڑاتے ہیں، اُڑائیں۔ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں، بنائیں۔ دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوتے ہیں، ہو جائیں۔ تم بے کھٹکے اِس پیغام کو پہنچاؤ اور اس کی تبلیغ میں ذرا باک نہ کرو۔

جس مفہوم کے لیے ہم نے لفظ ِ جھجک استعمال کیا ہے، اصل عبارت میں اس کے لیے لفظ حَرَج ٌاستعمال ہوا ہے ۔ لغت میں حرج اُس گھنی جھاڑی کو کہتے ہیں جس میں سے گزرنا مشکل ہو ۔ دل میں حرج ہونے کا مطلب یہ ہُوا کہ مخالفتوں اور مزاحمتوں کے درمیان اپنا راستہ صاف نہ پاکرآدمی کا دل آگے بڑھنے سے رُکے۔ اسی مضمون کو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ضیق صدر کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ مثلاً وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِيْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ (الحجر۸ ، آیت ۹۷)”اے محمد ؐ ، ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تم دل تنگ ہوتے ہو“۔ یعنی تمہیں پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ جن لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی اور مخالفتِ حق کا یہ حال ہے انہیں آخر کس طرح سیدھی راہ پر لایا جائے۔ فَلَعَلَّکَ تَارِکٌۢ بَعْضَ مَا یُوحٰیٓ اِلَیْکَ وَضَائِقٌۢ بِہٖ صَدْرُکَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَہ مَلَکٌ (ہود، آیت ١۲)”تو کہیں ایسا نہ ہو کہ جو کچھ تم پر وحی کیا جا رہا ہے اس میں سے کوئی چیز تم بیان کرنے سے چھوڑ دو اور اس بات سے دل تنگ ہو کہ وہ تمہاری دعوت کے جواب میں کہیں گے اِس پر کوئی خزانہ کیوں نہ اُترایا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا۔“

3. مطلب یہ ہے کہ اس سورہ کا اصل مقصد تو ہے اِنذار، یعنی لوگوں کو رسول کی دعوت قبول نہ کرنے کے نتائج سے ڈرانا اور غافلوں کو چونکا نا اور متنبہ کرنا، رہی اہلِ ایمان کی تذکیر(یاد دہانی)تو وہ ایک ضمنی فائدہ ہے جو اِنذر کے سلسلہ میں خودبخود حاصل ہو جاتا ہے۔

4. یہ اِس سورة کا مرکزی مضمون ہے۔ اصل دعوت جو اس خطبہ میں دی گئی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جس ہدایت ور رہنمائی کی ضرورت ہے، اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنے وجود کی غرض و غایت سمجھنے کے لیے جو علم اُسے درکار ہے، اور اپنے اخلاق، تہذیب،معاشرہ اور تمدّن کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جن اصولوں کا وہ محتاج ہے،اُن سب کے لیےاُسے صرف اللہ رب العالمٰین کو اپنا رہنما تسلیم کرنا چاہیے اور صرف اُسی ہدایت کی پیروی اختیار کرنی چاہیے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے بھیجی ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے رہنما کی طرف ہدایت کے لیے رجوع کرنا اور اپنے آپ کو اُس کی رہنمائی کے حوالے کردینا انسان کے لیے بنیادی طور پر ایک غلط طریق کار ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں نکلا ہے اور ہمیشہ تباہی کی صورت ہی میں نکلے گا۔

یہاں”اولیاء“ (سر پرستوں)کا لفظ اس معنی میں استعمال ہُواہے کہ انسان جس کی رہنمائی پر چلتا ہے اُسے درحقیقت اپنا ولی و سرپرست بناتا ہے خواہ زبان سے اس کی حمدوثنا کے گیت گاتا ہو یا اس پر لعنت کی بوچھاڑ کرتا ہو، خواہ اس کی سر پرستی کا معترف ہو یا بہ شدّت اس سے انکار کرے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الشوریٰ،حاشیہ ۶)

5. یعنی تمہاری عبرت کے لیے اُن قوموں کی مثالیں موجود ہیں جو خدا کی ہدایت سے منحرف ہو کر انسانوں اور شیطانوں کی رہنمائی پر چلیں اور آخر کار اس قدر بگڑیں کہ زمین پر ان کا وجود ایک ناقابلِ برداشت لعنت بن گیا اور خدا کے عذاب نے آکر اُن کی نجاست سے دنیا کو پاک کر دیا۔

آخری فقرے سے مقصد دو باتوں پر متنبہ کرنا ہے۔ ایک یہ کہ تلافی کا وقت گزر جانے کے بعد کسی کا ہوش میں نہ آنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا بے کار ہے۔ سخت نادان ہے وہ شخص اور وہ قوم جوخدا کی دی ہوئی مہلت کو غفلتوں اور سر شاریوں میں ضائع کردے اور داعیانِ حق کی صداؤں کو بہرے کانوں سے سُنے جائے او ر ہوش میں صرف اس وقت آئے جب اللہ کی گرفت کا مضبوط ہاتھ اس پرپڑ چکا ہو۔ دوسرے یہ کہ افراد کی زندگیوں میں بھی اور اقوام کی زندگیوں میں بھی ایک دو نہیں بے شمار مثالیں تمہارے سامنے گزر چکی ہیں کہ جب کسی کی غلط کاریوں کا پیمانہ لبریز ہو چکتا ہے اور وہ اپنی مہلت کی حد کو پہنچ جاتا ہے تو پھر خداکی گرفت اچانک اسے آپکڑتی ہے، اور ایک مرتبہ پکڑ میں آجانے کے بعد چھٹکارے کی کوئی سبیل اسے نہیں ملتی۔ پھر جب تاریخ کے دوران میں ایک دو دفعہ نہیں سینکڑوں اور ہزاروںمرتبہ یہی کچھ ہو چکا ہے تو آخر کیا ضرور ہے کہ انسان اسی غلطی کا بار بار اعادہ کیے چلا جائے اور ہوش میں آنے کے لیے اُسی آخری ساعت کا انتظار کرتا رہے جب ہوش میں آنے کا کوئی فائدہ حسرت و اندوہ کے سوا نہیں ہوتا۔

6. باز پرس سے مراد روز قیامت کی باز پرس ہے۔ بد کار افراد اور قوموں پر دنیا میں جو عذاب آتا ہےوہ دراصل ان کے اعمال کی باز پرس نہیں ہے اور نہ وہ ان کے جرائم کی پوری سزا ہے۔ بلکہ اس کی حیثیت تو بالکل ایسی ہے جیسے کوئی مجرم جو چھوٹا پھر رہا تھا، اچانک گرفتا ر کر لیا جائے اور مزید ظلم وفساد کے مواقع اُس سے چھین لیے جائیں۔ تاریخ انسانی اس قسم کی گرفتاریوں کی بے شمار نظیروں سے بھر پڑی ہے اور یہ نظیریں اس بات کی ایک صریح علامت ہیں کہ انسان کو دنیا میں شتر بےمہار کی طرح چھوڑ نہیں دیا گیا ہےکہ جو چاہے کرتا پھرے، بلکہ اُوپر کوئی طاقت ہے جو ایک حدِ خاص تک اسے ڈھیل دیتی ہے، تنبیہات پر تنبیہات بھیجتی ہے کہ اپنی شرارتوں سے باز آجائے ، اور جب وہ کسی طرح باز نہیں آتا تو اسے اچانک پکڑ لیتی ہے۔پھراگر کوئی اس تاریخی تجربہ پر غور کرے تو بآسانی یہ نتیجہ بھی نکال سکتا ہے کہ جو فرمان روا اس کائنات پر حکومت کررہا ہےاس نے ضرور ایسا ایک وقت مقرر کیا ہوگا جب اِن سارے مجرموں پر عدالت قائم ہو گی اور ان سے ان کے اعمال کی باز پرس کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اُوپر کی آیت کو جس میں دنیوی عذاب کا ذکر کیا گیا ہے، بعد والی آیت کے ساتھ”پس“کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، گویا اس دنیوی عذاب کا باربار واقع ہونا آخرت کی باز پرس کے یقیناً واقع ہونے پر ایک دلیل ہے۔

7. اس سے معلوم ہو ا کہ آخرت کی باز پرس سراسر رسالت ہی کی بنیاد پر ہوگی۔ ایک طرف پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے نوع انسانی تک خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے کیا کچھ کیا ۔دوسری طرف جن لوگوں تک رسولوں کا پیغام پہنچا ان سے سوال کیا جائے گا کہ اس پیغام کے ساتھ تم نے کیا برتاؤ کیا ۔ جس شخص یا جن انسانی گروہوں تک انبیاء کا پیغام نہ پہنچا ہو،ان کے بارے میں تو قرآن ہمیں کچھ نہیں بتاتا کہ ان کے مقدمہ کا کیا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔ لیکن جن اشخاص و اقوام تک پیغمبروں کی تعلیم پہنچ چکی ہے ان کے متعلق قرآن صاف کہتا ہے کہ وہ اپنے کفر و انکار اور فسق ونافرمانی کے لیے کوئی حجّت نہ پیش کر سکیں گے اور ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ حسرت وندامت کے ساتھ ہاتھ ملتے ہوئے جہنم کی راہ لیں ۔

8. اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس روز خدا کی میزان ِ عدل میں وزن اور حق دونوں ایک دوسرے کے ہم معنی ہوں گے۔ حق کے سوا کوئی چیزوہاں وزنی نہ ہوگیااو ر وزن کے سوا کوئی چیز حق نہ ہوگی۔جس کے ساتھ جتنا حق ہوگا اتنا ہی وہ باوزن ہوگا ۔ اور فیصلہ جو کچھ بھی ہو گا وزن کے لحاظ سے ہوگا، کسی دوسری چیز کا ذرہ برابر لحاظ نہ کیا جائے گا۔ باطل کی پوری زندگی خواہ دنیا میں وہ کتنی ہی طویل وعریض رہی ہو اور کتنے ہی بظاہر شاندا ر کارنامے اس کی پشت پر ہوں ، اس ترازو میں سراسر بے وزن قرار پائےگی۔ باطل پرست جب اُس میزان میں تولے جائیں گےتو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ دنیا میں جو کچھ وہ مدّت العمر کرتے رہے وہ سب ایک پرِکاہ کے برابر بھی وزن نہیں رکھتا۔ یہی بات ہے جو سورہ کہف آیات ١۰۳ تا ١۰۵ میں فرمائی گئی ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی میں سب کچھ دنیا ہی کے لیے کرتے رہے او اللہ کی آیات سے انکار کرکے جن لوگوں نے یہ سمجھتے ہوئےکام کیا کہ انجامِ کار کوئی آخرت نہیں ہے اور کسی کو حساب دینا نہیں ہے، ان کے کارنامئہ زندگی کو ہم آخرت میں کوئی وزن نہ دیں گے۔

9. اس مضمون کو یوں سمجھیے کہ انسان کا کارنامہ زندگی دو پہلووں میں تقسیم ہوگا۔ ایک مثبت پہلو اور دوسرا منفی پہلو۔ مثبت پہلو میں صرف حق کو جاننا اور ماننا اور حق کی پیروی میں حق ہی کی خاطر کام کرنا شمار ہو گا اورآخرت میں اگر کوئی چیز وزنی اور قیمتی ہوگی تو وہ بس یہی ہوگی۔ بخلاف اس کے حق سے غافل ہو کر یا حق سے منحرف ہو کر انسان جو کچھ بھی اپنی خواہشِ نفس یا دوسرے انسانوں اور شیطانوں کی پیروی کرتے ہوئے غیر حق کی راہ میں کرتا ہے وہ سب منفی پہلو میں جگہ پائے گا اور صرف یہی نہیں کہ یہ منفی پہلو بجائے خود بے قدر ہو گا یہ آدمی کے مثبت پہلووں کی قدر بھی گھٹا دے گا۔

پس آخرت میں انسان کی فلاح و کامرانی کا تمام تر انحصار اس پر ہے کہ اس کے کارنامہ زندگی کا مثبت پہلو اس کےمنفی پہلو پر غالب ہو اور نقصانات میں بہت کچھ دے دلا کر بھی اس کے حساب میں کچھ نہ کچھ بچا رہ جائے۔ رہا وہ شخص جس کی زندگی کا منفی پہلو اُس کے تمام مثبت پہلووں کو دبالے تو اُس کاحال بالکل اُس دیوالیہ تاجر کا سا ہوگا جس کی ساری پونجی خساروں کا بھگتان بھگتنے اور مطالبات ادا کرنے ہی میں کھپ جائے اور پھر بھی کچھ نہ کچھ مطالبات اس کے ذمہ باقی رہ جائیں۔