79. یعنی ایک گرنے والی قوم کی جگہ جو دوسری قوم اُٹھتی ہے اس کے لیے اپنی پیش رو قوم کے زوال میں کافی رہنمائی موجود ہوتی ہے۔ وہ اگر عقل سے کام لے تو سمجھ سکتی ہے کہ کچھ مدّت پہلے جو لوگ اِسی جگہ دادِ عیش دے رہے تھے اور جن کی عظمت کا جھنڈا یہاں لہرا رہا تھا انہیں فکر وعمل کی کن غلطیوں نے برباد کیا، اور یہ بھی محسوس کر سکتی ہے کہ جس بالا تر اقتدار نے کل اُنہیں اُ ن کی غلطیوں پر پکڑا تھا اور اُن سے یہ جگہ خالی کرا لی تھی، وہ آج کہیں چلا نہیں گیا ہے، نہ اس سے کسی نے یہ مقدرت چھین لی ہے کہ اس جگہ کے موجود ہ ساکنین اگر وہی غلطیاں کریں جو سابق ساکنین کر رہے تھے تو وہ اِن سے بھی اسی طرح جگہ خالی نہ کراسکے گا جس طرح اس نے اُن سے خالی کرائی تھی۔
80. یعنی جب وہ تاریخ سے اور عبرتناک آثار کے مشاہدے سےسبق نہیں لیتے اور اپنے آپ کو خود بھلا وے میں ڈالتے ہیں تو پھر خدا کی طرف سے بھی انہیں سوچنے سمجھنے اور کسی ناصح کی بات سننے کی توفیق نہیں ملتی ۔ خدا کا قانونِ فطرت یہی ہے کہ جو اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اس کی بینائی تک آفتا بِ روشن کی کوئی کرن نہیں پہنچ سکتی اور جو خود نہیں سننا چاہتا اسے پھر کو ئی کچھ نہیں سنا سکتا ۔
81. پچھلی آیت میں جو ارشاد ہوا تھا کہ ”ہم ان کے دلوں پر مُہر لگا دیتے ہیں ، پھر وہ کچھ نہیں سنتے “، اس کی تشریح اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خود فرمادی ہے۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دلوں پر مہر لگانے سے مراد ذہنِ انسانی کا اُس نفسیاتی قانون کی زد میں آجانا ہے جس کی رُو سے ایک دفعہ جاہلی تعصبات یا نفسانی اغراض کی بنا پر حق سے مُنہ موڑ لینے کے بعد پھر انسان اپنی ضد اور ہٹ دھر می کے اُلجھاؤمیں اُلجھتا ہی چلا جاتا ہے اور کسی دلیل، کسی مشاہدے اور کسی تجر بے سے اس کے دل کے دروازے قبول ِ حق کے لیے نہیں کُھلتے۔
82. ”کوئی پاس ِ عہد نہ پایا“ یعنی کسی قسم کے عہد کا پاس بھی نہ پایا ، نہ اُس فطری عہد کا پاس جس میں پیدائشی طور پر ہر انسان خدا کا بندہ اور پروردہ ہونے کی حیثیّت سے بندھا ہوا ہے، نہ اُس اجتماعی عہد کا پاس جس میں ہر فرد بشر انسانی برادری کا ایک رکن ہونے کی حیثیّت سے بندھا ہوا ہے، اور نہ اُس ذاتی عہد کا پاس جو آدمی اپنی مصیبت اور پرشانی کے لمحوں میں یا کسی جذبہ خیر کے موقع پر خدا سے بطور خود باندھا کرتا ہے۔ انہی تینوں عہدوں کے توڑنے کو یہاں فسق قرار دیا گیاہے۔
83. اوپرجو قصے بیان ہوئے ان سے مقصود یہ ذہن نشین کرانا تھا کہ جو قوم خدا کا پیغام پانے کے بعد اسے رد کر دیتی ہے اسے پھر ہلاک کیے بغیر نہیں چھوڑا جاتا ۔ اس کے بعد اب موسیٰ و فرعون اوربنی اسرائیل کا قصہ کئی رکوعوں تک مسلسل چلتا ہے جس میں اس مضمون کے علاوہ چند اور اہم سبق بھی کفار قریش، یہود اور ایمان لانے والے گروہ کو دیے گئے ہیں۔
کفار قریش کو اس قصے کے پیرائے میں یہ سمجھا نے کی کو شش کی گئی ہے کہ دعوتِ حق کے ابتدائی مر حلوں میں حق اور باطل کی قوتوں کا جو تنا سب بظاہر نظر آتا ہے، اُس سے دھوکا نہ کھاناچاہیے۔ حق کی تو پوری تاریخ ہی اس بات پر گواہ ہے کہ وہ ایک فی قوم بلکہ ایک فی دنیا کی اقلیت سے شروع ہوتا ہے اور بغیر کسی سرو سامان کے اُس باطل کےخلاف لڑائی چھیڑ دیتا ہے جس کی پشت پر بڑی بڑی قوموں اور سلطنتوں کی طاقت ہوتی ہے، پھر بھی آخر کار وہی غالب آکر رہتا ہے۔ نیز اس قصے میں ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ داعی حق کے مقابلہ میں جو چالیں چلی جاتی ہیں اور جن تدبیروں سےا س کی دعوت کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ کس طرح اُلٹی پڑتی ہیں۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ منکریں حق کی ہلاکت کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے اُن کو کتنی کتنی طویل مدّت تک سنبھلنے اور درست ہونے کے مواقع دیتا چلا جاتا ہے اور جب کسی تنبیہ، کسی سبق آموز واقعے اور کسی روشن نشانی سے بھی وہ اثر نہیں لیتے تو پھر وہ انہیں کیسی عبرتناک سزا دیتا ہے۔
جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے ان کو اس قصے میں دوہرا سبق دیا گیا ہے۔ پہلا سبق اس بات کا کہ اپنی قلت و کمزوری کو اور مخالفین حق کی کثرت و شوکت کو دیکھ کر اُن کی ہمت نہ ٹوٹے اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوتے دیکھ کر وہ دل شکستہ نہ ہوں۔ دوسرا سبق اس بات کا کہ ایمان لانے کے بعد جو گروہ یہودیوں کی سی روش اختیار کرتا ہے وہ پھر یہودیوں ہی کی طرح خدا کی لعنت میں گرفتا ربھی ہوتا ہے۔
بنی اسرائیل کے سامنے ان کی عبرتناک تاریخ پیش کرکے انہیں باطل پرستی کے بُرے نتائج پر متنبہ کیا گیا ہے اور اُس پیغمبر پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے جو پچھلے پیغمبروں کے لائے ہوئے دین کو تمام آمیزشوں سے پاک کر کے پھر اس کی اصلی صورت میں پیش کر رہا ہے۔
84. نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا، یعنی ان کو نہ مانا اور انہیں جادو گری قرار دے کر ٹالنے کی کو شش کی ۔ جس طرح کسی شعر کو شعریت کا مکمل نمونہ ہو: تک بندی سے تعبیر کرنا اور اس کا مذاق اڑانا نہ صرف اس شعر کے ساتھ بلکہ نفسِ شاعری اور ذوقِ شعری کے ساتھ بھی ظلم ہے، اسی طرح وہ نشانیاں جو خود اپنے من جانب اللہ ہونے پر صریح گواہی دے رہی ہوں اور جن کے متعلق کوئی صاحبِ عقل آدمی یہ گمان تک نہ کر سکتا ہو کہ سحر کے زور سے بھی ایسی نشانیاں ظاہر ہو سکتی ہیں، بلکہ جن کے متعلق خود فنِ سحر کے ماہرین نے شہادت دے دی ہو کہ وہ ان کے فن کی دست رس سے بالا تر ہیں، ان کو سحر قرار دینا نہ صرف ان نشانیوں کے ساتھ بلکہ عقلِ سلیم اور صداقت کے ساتھ بھی ظلمِ عظیم ہے۔
85. لفظ فرعون کے معنی ہیں”سورج دیوتا کی اولاد۔“ قدیم اہلِ مصر سورج کو، جو اُن کا مہا دیو یا ربِّ اعلیٰ تھا، رَع کہتے تھے اور فرعون اسی کی طرف منسوب تھا۔ اہل مصر کے اعتقاد کی رو سے کسی فرماں روا کی حاکمیت کے لیے اس کے سوا کوئی بنیاد نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ رَع کا جسمانی مظہر اور اُس کا ارضی نمائندہ ہو، اسی لیے ہر شاہی خاندان جو مصر میں بر سرِ اقتدار آتا تھا، اپنے آپ کو سورج بنسی بنا کر پیش کرتا ، اورہر فرماں روا جو تخت نشین ہوتا، ”فرعون“ کا لقب اختیار کر کے باشندگانِ ملک کو یقین دلاتا کہ تمہارا ربِّ اعلیٰ یا مہادیو میں ہوں۔
یہاں یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے قصّے کے سلسلہ میں دو فرعونوں کا ذکر آتا ہے ۔ایک وہ جس کے زمانہ میں آپ پیدا ہوئے اور جس کے گھر میں آپ نے پرورش پائی۔ دوسرا وہ جس کے پاس آپ اسلام کی دعوت اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ لے کر پہنچے اور جو بالآخر غرق ہوا۔ موجودہ زمانہ کے محققین کا عام میلان اس طرف ہے کہ پہلا فرعون رعمسیس دوم تھا جس کا زمانہ حکومت سن١۲۹۲ ءسے سن١۲۲۵ ءقبل مسیح تک رہا۔ اور دوسرا فرعون جس کا یہاں اِن آیات میں ذکر ہو رہا ہے، منفتہ یا منفتاح تھا جو اپنے باپ رعمسیس دوم کی زندگی ہی میں شریک حکومت ہو چکا تھا اور اس کے مرنے کے بعد سلطنت کا مالک ہوا۔ یہ قیاس بظاہر اس لحاظ سے مشتبہ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی تاریخ کے حساب سے حضرت موسیٰؑ کی تاریخ وفات ١۲۷۲ قبل مسیح ہے۔ لیکن بہر حال یہ تاریخی قیاسات ہی ہیں اور مصری، اسرائیلی اور عیسوی جنتریوں کے تطابق سے بالکل صحیح تاریخوں کا حساب لگانا مشکل ہے۔
86. حضرت موسیٰ علیہ السلام دو چیزوں کی دعوت لے کر فرعون کے پاس بھیجے گئے تھے ۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی بندگی (اسلام)قبول کرے، دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل کی قوم کو جو پہلے سے مسلمان تھی اپنے پنجہ ظلم سے رہا کر دے۔ قرآن میں ان دونوں دعوتوں کا کہیں یکجا ذکر کیا گیا ہے اور کہیں موقع و محل کے لحاظ سے صرف ایک ہی کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے۔
87. یہ دو نشانیاں حضرت موسیٰ ؑ کو اس امر کے ثبوت میں دی گئی تھیں کہ وہ اُس خدا کے نمائندے ہیں جو کائنات کاخالق اور فرماں روا ہے ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم اشارہ کر چکے ہیں، پیغمبروں نے جب کبھی اپنے آپ کو فرستادہ رب العالمٰین کی حیثیت سے پیش کیا تو لوگوں نے ان سے یہی مطالبہ کیا کہ اگر تم واقعی رب العالمٰین کے نمائندے ہو تو تمہارے ہاتھوں سے کوئی ایسا واقعہ ظہور میں آنا چاہیے جو قوانین فطرت کی عام روش سے ہٹا ہوا ہو اور جس سےصاف ظاہر ہو رہا ہو کہ رب العالمٰین نے تمہاری صداقت ثابت کرنے کے لیے اپنی براہ راست مداخلت سے یہ واقعہ نشانی کے طور پر صادر کیاہے۔ اسی مطالبہ کے جواب میں انبیاء نے وہ نشانیاں دکھائی ہیں جس کو قرآن کی اصطلاح میں ”آیات “اور متکلمین کی اصطلاح میں”معجزات“کہا جاتا ہے۔ ایسے نشانات یا معجزات کو جو لوگ قوانین فطرت کے تحت صادر ہونے والے عام واقعات قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ درحقیقت کتاب اللہ کو ماننے اور نہ ماننے کے درمیان ایک ایسا موقف اختیار کرتے ہیں جو کسی طرح معقول نہیں سمجھا جا سکتا ۔ اس لیے کہ قرآن جس جگہ صریح طور پر خارق ِ عادت و اقعہ کا ذکر کر رہا ہو وہاں سیاق و سباق کے بالکل خلاف ایک عادی واقعہ بنانے کی جدو جہد محض ایک بھونڈی سخن سازی ہے جس کی ضرورت صرف اُن لوگوں کو پیش آتی ہے جو ایک طرف تو کسی ایسی کتاب پر ایمان نہیں لانا چاہتے جو خارقِ عادت واقعات کا ذکر کرتی ہو اور دوسری طرف آبائی مذہب کے پیدائشی معتقد ہونے کی وجہ سے اُس کتاب کا انکار بھی نہیں کرنا چاہتے جو فی الواقع خارقِ عادت واقعات کا ذکر کرتی ہے۔
معجزات کے باب میں اصل فیصلہ کن سوال صرف یہ ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ نظام ِ کائنات کو ایک قانون پر چلا دینے کے بعد معطل ہو چکا ہے اور اب اس چلتے ہوئے نظام میں کبھی کسی موقع پر مداخلت نہیں کر سکتا ؟ یا وہ بالفعل اپنی سلطنت کی زمام تدبیر و انتظام اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اور ہر آن اس کے احکام اس سلطنت میں نافذ ہوتے ہیں اور اُس کو ہر وقت اختیار حاصل ہے کہ اشیا کی شکلوں اور واقعات کی عادی رفتار میں جزئی طور پر یا کلّی طور پر جیسا چاہے اور جب چاہے تغیر کر دے؟ جو لوگ اس سوال کے جواب میں پہلی بات کے قائل ہیں ان کے لیےمعجزات کو تسلیم کرنا غیر ممکن ہے، کیونکہ معجزہ نہ ان کے تصّور خدا سے میل کھاتا ہے اور نہ تصورِ کائنات سے۔ لیکن ایسے لوگوں کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر و تشریح کرنے کے بجائے اس کا صاف صاف انکار کر دیں کیونکہ قرآن نے تو اپنا زورِ بیان ہی خدا کے مقدم الذکر تصور کا ابطال اور موخر الذکر تصور کا اثبات کرنے پر صرف کیا ہے ۔ بخلاف اس کے جو شخص قرآن کے دلائل سے مطمئن ہو کر دوسرے تصور کو قبول کر لے اُس کے لیے معجزے کو سمجھناا ور تسلیم کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا۔ ظاہر ہے کہ جب آپ کا عقیدہ ہی یہ ہو گا کہ اژدہے جس طرح پیدا ہوا کرتے ہیں اسی طرح وہ پیدا ہو سکتے ہیں، اُس کے سوا کسی دوسرے ڈھنگ پر کوئی اژدہا پیدا کر دینا خدا کی قدرت سے باہر ہےتو آپ مجبور ہیں ایسے بیان کو قطعی طور پر جھٹلا دیں جو آپ کو خبر دے رہا ہو کہ ایک لاٹھی اژدے میں تبدیل ہوئی اور پھر اژدہے سے لاٹھی بن گئی۔ لیکن اس کے بر عکس اگر آپ کا عقیدہ یہ ہو کہ بے جان مادے میں خدا کے حکم سے زندگی پیدا ہو تی ہے اور خدا جس مادے کو جیسی چاہے زندگی عطا کر سکتا ہے، اس کے لیے خدا کے حکم سے لاٹھی کا اژدہا بننا اتنا ہی غیر عجیب واقعہ ہے جتنا اسی خدا کے حکم سے انڈے کے اندر بھرے ہوئے چند بے جان مادوں کا اژدہا بن جانا غیر عجیب ہے۔ مجر د یہ فرق کہ ایک واقعہ ہمیشہ پیش آتا رہتا ہے اور دوسرا واقعہ صرف تین مرتبہ پیش آیا ، ایک کو غیر عجیب اور دوسرے کو عجیب بنا دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔