10. تقابل کےلیے ملاحظہ ہو سورہ البقرہ۔ آیات ۳۰ تا ۳۹۔
سورہ بقرہ میں حکم سجدہ کا ذکر جن الفاظ میں آیا ہے ان سے شبہ ہو سکتا تھا کہ فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم صرف آدم علیہ السلام کی شخصیت کے لیے دیا گیا تھا۔ مگر یہاں وہ شبہ دور ہو جاتا ہے۔ یہاں جو اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کو جو سجدہ کرایا گیا تھا وہ آدم ہونے کی حیثیت سےنہیں بلکہ نوع انسانی کا نمایندہ فرد ہونے کی حیثیت سے تھا۔
اور یہ جو فرمایا کہ ”ہم نے تمہاری تخلیق کی ابدا کی، پھر تمہیں صورت بخشی ، پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو،“اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے پہلے تمہاری تخلیق کا منصوبہ بنایا اور تمہار مادہ آفرینش تیار کیا، پھر اس مادے کوانسانی صورت عطا کی ، پھر جب ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے انسان وجود میں آگیا تو اسے سجدہ کرنے کے لیے فرشتوں کو حکم دیا۔اس آیات کی یہ تشریح خود قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ مثلاً سورہ صٓ میں ہے اِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَةِ اِنِّیْ خَالِق ٌۢبَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ ° فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ°(آیات ۷۱ ۔ ۷۲)”تصور کرو اس وقت کا جب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک بشر مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں، پھر جب میں اُسے پوری طرح تیار کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ میں گر جانا۔“اس آیت میں وہی تین مراتب ایک دوسرے انداز میں بیان کیے گئے ہیں، یعنی پہلے مٹی سے ایک بشر کی تخلیق ، پھر اس کا تسویہ، یعنی اس کی شکل و صورت بنانا اور اس کے اعضاء اور اس کی قوتوں کا تناسب قائم کرنا ، پھر اس کے اندر اپنی روح سےکچھ پھونک کر آدم کو وجود میں لے آنا۔اسی مضمون کو سورہِ حِجْرمیں بایں الفاظ ادا کیا گیا ہے، وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَةِ اِنِّیْ خَالِقٌ ۢبَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ° فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ ° (آیات ۲۸۔۲۹)”اور تصور کرو اس وقت کا جب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کے گارے سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں، پھر جب میں اُسے پوری طرح تیار کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا۔“
تخلیقِ انسانی کے اِس آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیّت کے ساتھ سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے ۔ ہم اس حقیقت کا پوری طرح ادراک نہیں کر سکتے کہ موادِارضی سے بشر کس طرح بنایا گیا ، پھر اس کی صورت گری اور تعدیل کیسے ہوئی، اور اس کے اندر روح پھونکنے کی نوعیت کیا تھی۔ لیکن بہرحال یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ قرآن مجید انسانیت کے آغاز کی کیفیت ان نظریات کے خلاف بیان کرتا ہے جو موجودہ زمانہ میں ڈاروِن کے متبعین سائینس کے نام سے پیش کرتے ہیں ۔ ان نظریات کی رو سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبۂ انسانیت تک پہنچتا ہے اور اس تدریجی ارتقاء کے طویل خط میں کوئی نقطۂ خاص ایسا نہیں ہو سکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کو ختم قرار دے کر ”نوعِ انسانی “کا آغاز تسلیم کیا جائے۔ بخلاف اس کے قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے، اُس کی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعاًکوئی رشتہ نہیں رکھتی، وہ اوّل روز سے انسان ہی بنایا گیا تھا اور خدا نے کامل انسانی شعور کے ساتھ پوری روشنی میں اس کی ارضی زندگی کی ابتدا کی تھی۔
انسانیت کی تاریخ کے متعلق یہ دو مختلف نقطۂ نظر ہیں اور ان سے انسانیت کے وہ بالکل مختلف تصوّر پیدا ہوتے ہیں۔ایک تصور کو اختیار کیجیے تو آپ کو انسان اصلِ حیوانی کی ایک فرع نظر آئے گا۔ اس کی زندگی کے جملہ قوانین، حتٰی کہ اخلاقی قوانین کےلیے بھی آپ بنیادی اصول اُن قوانین میں تلاش کریں گے جن کے تحت حیوانی زندگی چل رہی ہے۔ اُس کے لیے حیوانات کاسا طرزِ عمل آپ کو بالکل ایک فطری طرزِ عمل معلوم ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ جو فرق انسانی طرز عمل اور حیوانی طرز عمل میں آپ دیکھنا چاہیں گے وہ بس اتنا ہی ہو گا کہ حیوانات جو کچھ آلات اور صنائع اور تمدنی آرائشوں اور تہذیبی نقش و نگار کے بغیر کرتے ہیں انسان وہی سب کچھ ان چیزوں کے ساتھ کر لے۔ اس کے بر عکس دوسرا تصوّر اختیار کرتے ہی آپ انسان کو جانور کے بجائے”انسان“ہونے کی حیثیت سے دیکھیں گے۔ آپ کی نگاہ میں وہ ”حیوانِ ناطق“یا ”متمدن جانور“(Civilized beast)نہیں ہو گا بلکہ زمین پر خدا کا خلیفہ ہوگا۔ آپ کے نزدیک وہ چیز جو اُسے دوسری مخلوقت سے ممتاز کرتی ہے اس کا نطق یا اس کی اجتماعیت نہ ہو گی بلکہ ا س کی اخلاقی ذمہ داری اور اختیارات کی وہ امانت ہو گی جسے خدا نے اس کے سپرد کیا ہے اور جس کی بنا پر وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس طرح انسانیت اور اس کے جملہ متعلقات پر آپ کی نظر پہلے زاویہ نظر سے یک سر مختلف ہو جائے گی۔ آپ انسان کے لیے ایک دوسرا ہی فلسفہ حیات اور ایک دوسرا ہی نظامِ اخلاق و تمدّن و قانون طلب کرنے لگیں گے اور اس فلسفے اور اس نظام کے اصول و مبادی تلاش کرنے کے لیے آپ کی نگاہ خود بخود عالم اسفل کے بجائے عالم بالا کی طرف اُٹھنے لگے گی۔
اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ دوسرا تصور انسان چاہے اخلاقی اور نفسیاتی حیثیت سے کتنا ہی بلند ہو مگر محض اس تخیل کی خاطر ایک ایسے نظریہ کو کس طرح رد کردیا جائے جو سائنٹیفک دلائل سے ثابت ہے“ لیکن جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیافی الواقع ڈار وینی نظریہ ارتقاء سائنٹیفک دلائل سے”ثابت ہو چکا ہے؟ سائنس سے محض سر سری واقفیت رکھنے والے لوگ تو بے شک اس غلط فہمی میں ہیں کہ یہ نظر یہ ایک ثابت شدہ علمی حقیقت بن چکا ہے، لیکن محققین اس بات کو جانتے ہیں کہ الفاظ اور ہڈیوں کے لمبے چوڑے سرو سامان کے باوجود ابھی تک یہ صرف ایک نظریہ ہی ہے اور اس کے جن دلائل کو غلطی سے دلائل ثبوت کہا جا تا ہے وہ دراصل محض دلائل اِمکان ہیں، یعنی ان کی بنا پر زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈاروینی ارتقاء کا ویسا ہی امکا ن ہے جیسا براہِ راست عملِ تخلیق سے ایک ایک نوع کے الگ الگ وجود میں آنے کا امکان ہے۔
11. اصل میں لفظ صاغیرین استعمال ہوا ہے۔ صاغر کے معنی ہیں الراضی بالذُّل، یعنی وہ جو ذلت اور صغا را در چھوٹی حیثیت کوخود اختیار کرے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ بندہ اور مخلوق ہونے کے باوجود تیرا اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہونا اور اپنے رب کےحکم سے اس بنا پر سر تابی کرنا کہ اپنی عزّت و بر تری کا جو تصوّر تو نے خو د قائم کر لیا ہے اس کے لحاظ سے وہ حکم تجھے اپنے لیے موجب توہین نظر آتا ہے ، یہ دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ تو خود اپنی ذلت چاہتا ہے۔بڑائی کا جھوٹا پندار، عزت کا بے بنیا د اِدعا ، اور کسی ذاتی استحقاق کے بغیر اپنے آپ کو خواہ مخواہ بزرگی کےمنصب پر فائز سمجھ بیٹھنا، تجھے بڑا ور ذی عزت اور بزرگ نہیں بنا سکتا بلکہ یہ تجھے چھوٹا اور ذلیل اور پست ہی بنا ئے گا اور اپنی اس ذلّت و خواری کا سبب تو آپ ہی ہو گا۔
12. یہ وہ چیلنج تھا جو ابلیس نے خدا کو دیا ۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ مہلت جو آپ نے مجھے قیامت تک کے لیے دی ہےاِس سے فائدہ اُٹھا کر میں یہ ثابت کرنے کےلیے پورا زور صرف کر دوں گا کہ انسان اُس فضیلت کا مستحق نہیں ہے جو آپ نے میرے مقابلہ میں اسے عطا کی ہے۔ میں آپ کو دکھا دوں گا کہ یہ کیسے ناشکرا، کیسا نمک حرام اور کیسا احسان فراموش ہے۔
یہ مہلت جو شیطان نے مانگی اور خدا نے اسے عطا فرمادی، اس سے مراد محض وقت ہی نہیں ہے بلکہ اُس کام کا موقع دینا بھی ہے جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ یعنی اس کا مطالبہ یہ تھا کہ مجھے انسان کو بہکانے اور اس کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا کر اس کی نا اہلی ثابت کرنے کا موقع دیا جائے، اور یہ موقع اللہ تعالیٰ نے اسے دے دیا ۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل آیات ٦١۔٦۵ میں اِس کی تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے اختیار دے دیا کہ آدم اور اس کی اولاد کو راہ راست سے ہٹا دینے کے لیے جو چالیں وہ چلنا چاہتا ہے، چلے۔ ان چال بازیوں سے اسے روکا نہیں جائے گا بلکہ وہ سب راہیں کُھلی رہیں گی جن سے وہ انسان کو فتنہ میں ڈالنا چاہے گا۔ لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگا دی کہ اِنَّ عِبَا دِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِم سُلْطَانٌ ، یعنی میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار نہ ہو گا۔ تو صرف اس بات کا مجاز ہو گا کہ ان کو غلط فہمیوں میں ڈالے ، جھوٹی امیدیں دلائے، بدی اور گمراہی کو ان کے سامنے خوش نما بنا کر پیش کرے، لذتوں اور فائدوں کے سبز باغ دکھا کر ان کو غلط راستوں کی طرف دعوت دے۔مگر یہ طاقت تجھے نہیں دی جائے گی کہ انہیں ہاتھ پکڑ کر زبردستی اپنے راستے پر کھینچ لے جائے اور اگر وہ خود راہِ راست پر چلنا چاہیں تو انہیں نہ چلنے دے۔ یہی بات سورہ ابراہیم آیت ۲۲ میں فرمائی ہے کہ قیامت میں عدالتِ الہٰی سے فیصلہ صادر ہو جانے کے بعد شیطان اپنے پیرو انسانوں سے کہےگا وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّن سُلْطَا نٍ اِلَّا ٓاَنْ دَعَوْ تَکُمْ فَاسْتَجِبْتُم لِی ْفَلَا تَلُوْ مُوْنِی وَلُوْمُوْٓااَنْفُسَکُمْ ، یعنی میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں کہ میں نےاپنی پیروی پر تمہیں مجبور کیا ہو،میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ تمہیں اپنی راہ پر بلایا اور تم نے میری دعوت قبول کر لی۔ لہذٰا اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔
اور جو شیطان نے خدا پر الزام عائد کیا ہے کہ تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیاتو اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان اپنی معصیّت کی ذمہ داری خدا پر ڈالتا ہے۔ اُس کو شکایت ہے کہ آدم کے آگے سجدہ کرنے کاحکم دے کر تو نے مجھے فتنے میں ڈالا اور میرے نفس کے تکبر کو ٹھیس لگا کر مجھے اس حالت میں مبتلا کر دیا کہ میں نے تیری نافرمانی کی ۔ گویا اس احمق کی خواہش یہ تھی کہ اس کے نفس کی چوری پکڑی نہ جاتی بلکہ جس پندارِ غلط اور جس سرکشی کو اس نے اپنے اندر چھپا رکھا تھا اس پر پردہ ہی پڑا رہنے دیا جاتا۔ یہ ایک کُھلی ہوئی سفیہانہ بات تھی جس کا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سرے سے اس کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔
13. اس قصّے سے چند اہم حقیقتوں پر روشنی پڑتی ہے:
(۱) انسان کے اندر شرم و حیا کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہے اور اس کا اوّلین مظہر وہ شرم ہے جو اپنے جسم کے مخصوص حصّوں کو دوسروں کے سامنے کھو لنے میں آدمی کو فطرةً محسوس ہوتی ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ شرم انسان کے اندر تہذیب کے ارتقاء سے مصنوعی طور پر پیدا نہیں ہوئی ہے اور نہ یہ اکتسابی چیز ہے، جیسا کہ شیطان کے بعض شاگردوں نے قیاس کیا ہے، بلکہ درحقیقت یہ وہ فطری چیز ہے جو اوّل روز سے انسان میں موجود تھی۔
(۲) شیطان کی پہلی چال جو اس نے انسان کو فطرتِ انسانی کی سیدھی راہ سے ہٹانے کے لیے چلی، یہ تھی کہ اُس کے اِس جذبہ شرم وحیا پر ضرب لگائے اور برہنگی کے راستے سے اس کےلیے فواحش کا دروازہ کھولے اور اس کو جنسی معاملات میں بدراہ کردے۔ بالفاظِ دیگر اپنے حریف کے محاذ میں ضعیف ترین مقام جو اس نے حملہ کےلیے تلاش کیا وہ اس کی زندگی کا جنسی پہلو تھا،اور پہلی ضرب جو اس نے لگائی وہ اُس محافظ فصیل پر لگائی جو شرم و حیا کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں رکھی تھی ۔ شیاطین ور ان کے شاگردوں کی یہ روش آج تک جوں کی توں قائم ہے ۔”ترقی“کا کوئی کام ان کے ہاں شروع نہیں ہو سکتا جب تک کہ عورت کو بے پردہ کرکے وہ بازار میں نہ لاکھڑا کریں اور اُسے کسی نہ کسی طرح عریاں نہ کردیں۔
(۳) یہ بھی انسان کی عین فطرت ہے کہ وہ برائی کی کھلی دعوت کو کم ہی قبول کرتا ہے۔ عموماً اُسے جال میں پھانسنے کے لیے ہر داعیِ شر کو خیر خواہ کے بھیس ہی میں آنا پڑتا ہے۔
(۴) انسان کے اندر معالیِ امور مثلاً بشریت سے بالا تر مقام پر پہنچنے یا حیاتِ جاوداں حاصل کرنے کی ایک فطری پیاس موجود ہے اور شیطان کو اُسے فریب دینے میں پہلی کامیابی اِسی ذریعہ سے ہوئیٰ کہ اس نے انسان کی اِس خواہش سے اپیل کیا۔ شیطان کا سب سے زیادہ چلتا ہوا حربہ یہ ہے کہ وہ آدمی کو بلندی پرلے جانے اور موجودہ حالت سے بہتر حالت پر پہنچا دینے کی امید دلاتا ہے اور پھر اُس کے لیے وہ راستہ پیش کرتا ہے جو اُسے اُلٹا پستی کی طرف لے جائے۔
(۵) عام طور پر یہ جو مشہور ہو گیا ہے کہ شیطان نے پہلے حضرت حوّا کو دام فریب میں گرفتار کیا اور پھر انہیں حضرت آدمؑ کو پھانسنے کے لیے آلئہ کار بنایا ، قرآن اس کی تردید کرتا ہے۔اس کا بیان یہ ہے کہ شیطان نےدونوں کو دھوکا دیا اور دونوں اس سے دھوکا کھا گئے۔ بظاہر یہ بہت چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے ، لیکن جن لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت حوّا کے متعلق اِس مشہور روایت نے دنیا میں عورت کے اخلاقی، قانونی اور معاشرتی مرتبے کو گرانے میں کتنا زبردست حصہ لیا ہے وہی قرآن کے اس بیان کی حقیقی قدروقیمت سمجھ سکتے ہیں۔
(۶)یہ گمان کرنے کےلیے کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے کہ شجر ممنوعہ کا مزہ چکھتے ہی آدم و حوّا کے ستر کُھل جانا اُس درخت کی کسی خاصیّت کا نتیجہ تھا۔ درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کے سِوا کسی اور چیز کا نتیجہ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کا ستر اپنے انتظام سے ڈھانکاتھا۔ جب انہوں نے حکم کی خلاف ورزی کی تو خدا کی حفاظت اُن سے ہٹا لی گئی، اُن کا پردہ کھول دیا گیا اور انہیں خود اُن کے اپنے نفس کے حوالے کر دیا گیا کہ اپنی پردہ پوشی کا انتظام خود کریں اگر اس کی ضرورت سمجھتے ہیں، اور اگر ضروت نہ سمجھیں یا اس کے لیے سعی نہ کریں تو خدا کو اِس کی کچھ پروا نہیں کہ وہ کس حال میں پھرتے ہیں۔ یہ گویا ہمیشہ کے لیے اس حقیقت کا مظاہرہ تھا کہ انسان جب خدا کی نا فرمانی کرے گا تو دیر یا سویر اس کا پردہ کھل کر رہے گا۔ اور یہ کہ انسان کے ساتھ خدا کی تائید و حمایت اسی وقت تک رہے گی جب تک وہ خدا کا مطیع فرمان رہے گا۔ طاعت کے حدود سے قدم باہر نکالنے کے بعد اسے خدا کی تائید ہرگز حاصل نہ ہو گی بلکہ اسے خود اس کے اپنے نفس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ یہ وہی مضمون ہے جو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے اور اسی کے متعلق حضور ؐ نے دُعا فرمائی ہے کہ اللھم رحمتک ارجو افلا تکلنی الیٰ نفسی طرفة عین (خدایا !میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں پس مجھے ایک لمحہ کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر)۔
(۷) شیطان یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ انسان اُس فضیلت کا مستحق نہیں ہے جو اُس کے مقابلہ میں انسان کو دی گئی ہے۔ لیکن پہلے ہی معرکے میں اس نے شکست کھائی۔ اس میں شک نہیں کہ اس معر کے میں انسان اپنے رب کے امر کی فرمانبرداری کرنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا اور اس کی یہ کمزوری ظاہر ہو گئی کہ وہ اپنے حریف کے فریب میں آکر اطاعت کی راہ سے ہٹ سکتا ہے۔ مگر بہر حال اس اولین مقابلہ میں یہ قطعی ثابت ہو گیا کہ انسان اپنے اخلاقی مرتبہ میں ایک افضل مخلوق ہے۔اولاً ، شیطان اپنی بڑائی کاخود مدعی تھا، اور انسان نے اس کا دعویٰ آپ نہیں کیا بلکہ بڑائی اسے دی گئی ۔ ثانیاً ، شیطان نے خا ص غرور و تکبر کی بنا پر اللہ کے امر کی نا فرمانی آپ اپنے اختیار سے کی اور انسان نے نافرمانی کو خود اختیار نہیں کیا بلکہ شیطان کے بہکانے سے وہ اس میں مبتلا ہوا۔ ثالثاً، انسان نے شرکی کھلی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ داعیِ شرکو داعیِ خیر بن کر اس کے سامنے آنا پڑا۔ وہ پستی کی طرف پستی کی طلب میں نہیں گیا بلکہ اس دھوکے میں مبتلا ہو کر گیا کہ یہ راستہ اُسے بلندی کی طرف لے جائے گا۔ رابعاً، شیطان کو تنبیہ کی گئی تو وہ اپنے قصور کا اعتراف کرنے اور بندگی کی طرف پلٹ آنے کے بجائے نا فرمانی پر اور زیادہ جم گیا، اور جب انسان کو اس کے قصور پر متنبہ کیا گیا تو اس نے شیطان کی طرح سر کشی نہیں کی بلکہ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ نادم ہوا، اپنے قصور کا اعتراف کر کے بغاوت سے اطاعت کی طرف پلٹ آیا اور معافی مانگ کر اپنے رب کے دامنِ رحمت میں پناہ ڈھونڈنے لگا۔
(۸) اس طرح شیطان کی راہ اور وہ راہ جو انسان کے لائق ہے ،دونوں ایک دوسرے سے بالکل متمیّز ہو گئیں۔ خالص شیطانی راہ یہ ہے کہ بندگی سے منہ موڑے، خدا کےمقابلہ میں سرکشی اختیار کرے، متنبہ کیے جانے باوجود پورے استکبار کے ساتھ اپنے باغیانہ طرزِ عمل پر اصراف کیے چلا جائے اور جو لوگ طاعت کی راہ چل رہے ہو ں ان کو بھی بہکائے اور معصیّت کی راہ پر لانے کی کوشش کرے۔ بخلاف اس کے جو راہ انسان کےلائق ہے وہ یہ ہے کہ اوّل تو وہ شیطانی اغوا کی مزاحمت کرے اور اپنے اِس دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور اُن سے بچنے کے لیے ہر وقت چوکنّا رہے،لیکن اگر کبھی اس کا قدم بندگی وطاعت کی راہ سے ہٹ بھی جائےتو اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی ندامت و شرمساری کے ساتھ فورًا اپنے رب کی طرف پلٹے اور اُس قصور کی تلافی کر دے جو اس سے سرزد ہوگیا ہے۔ یہی وہ اصل سبق ہے جو اللہ تعالیٰ اس قصے سے یہاں دینا چاہتا ہے۔ذہن نشین یہ کرنا مقصود ہے کہ جس راہ پر تم لوگ جا رہے ہو یہ شیطان کی راہ ہے۔ یہ تمہارا خدائی ہدایت سے بے نیا ز ہوکر شیاطینِ جن و انس کو اپنا ولی و سرپرست بنانا،اور یہ تمہارا پے در پےتنبیہات کے باوجود اپنی غلطی پر اصرار کیے چلے جانا، یہ دراصل خالص شیطانی رویّہ ہے۔ تم اپنے ازلی دشمن کے دام میں گرفتار ہوگئے ہو اور اس سے مکمل شکست کھا رہے ہو۔ اس کا انجام پھر وہی ہے جس سے شیطان خو دوچار ہونے والا ہے۔اگر تم حقیقت میں خود اپنے دشمن نہیں ہوگئے ہو اور کچھ بھی ہوش تم میں باقی ہے تو سنبھلو اور وہ راہ اختیار کرو جو آخر کار تمہارے باپ اور تمہاری ماں آدم وحوّا نے اختیار کی تھی۔
14. یہ شبہ نہ کیا جائے کہ حضرت آدم وحوا علیہما السلام کو جنت سے اُتر جانے کا یہ حکم سزا کے طور پر دیا گیا تھا۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی اور انہیں معاف کر دیا۔ لہٰذا اس حکم میں سزا کا کوئی پہلو نہیں ہے بلکہ یہ اُس منشاء کی تکمیل ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا تھا۔(تشریح کے لیے ملا حظہ ہو سورة بقرہ، حاشیہ ۴۸ و ۵۳)۔