94. یہ انتہائی ہٹ دھرمی و سخن پر وری تھی کہ فرعون کے اہل ِ دربار اُس چیز کو بھی جادو قرار دے رہے تھے جس کے متعلق وہ خود بھی با لیقین جانتے تھے کہ وہ جادو کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ شاید کوئی بے وقوف آدمی بھی یہ باور نہ کرے گا کہ ایک پورے ملک میں قحط پڑ جانا اور زمین کی پیداوار میں مسلسل کمی واقع ہونا کسی جادو کا کرشمہ ہو سکتا ہے۔ اسی بناء پر قرآن مجید کہتا ہے کہ فَلَمَّا جَآ ءَ تْھُمْ اٰیٰتُنَا مُبْصِرَةً قَا لُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِینٌ وَّجَحَدُوا بِھَا و ا ستَیْقَنَتھَٓا اَنفُسُھُمْ ظُلْمًاوَّ عُلُوًّا (النمل آیات ۱۳ ، ۱۴)یعنی”جب ہماری نشانیاں علانیہ ان کی نگاہوں کے سامنے آئیں تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے، حالانکہ ان کے دل اندر سے قائل ہو چکے تھے، مگر انہوں نے محض ظلم اور سر کشی کی راہ سے ان کا انکار کیا۔“
95. غالباً بارش کا طوفان مراد ہے جس میں اولے بھی برسے تھے۔ اگر چہ طوفان دوسری چیزوں کا بھی ہو سکتا ہے ، لیکن بائیبل میں ژالہ باری کے طوفان کا ہی ذکر ہے اس لیے ہم اسی معنی کو ترحیح دیتے ہیں۔
96. اصل میں لفظ قُمَّلْ استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں۔ جُوں مکھی ، چھوٹی ٹڈی ، مچھر، سُرسُری وغیرہ غالباً یہ جامع لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ بیک وقت جُوؤں اور مچھروں نے آدمیوں پر اور سُرسُریوں (گُھن کے کیڑوں)نے غلہ کے ذخیروں پر حملہ کیا ہوگا۔(تقابل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب خروج، باب ۷ تا ۱۲، نیز الزُخرُف، حاشیہ ۴۳)۔
97. یعنی بنی اسرائیل کو فلسطین کی سر زمین کا وارث بنا دیا۔ بعض لوگوں نے اس کا مفہوم یہ لیا ہے کہ بنی اسرائیل خود سر زمین مصر کے مالک بنادیے گئے۔ لیکن اس کے معنی کو تسلیم کرنے کے لیے نہ تو قرآنِ کریم کے اشارات کافی واضح ہیں اور نہ تاریخ و آثارہی سے اس کی کوئی قوی شہادت ملتی ہے، اس لیے اس معنی کو تسلیم کرنے میں ہمیں تامل ہے۔(ملاحظہ ہو الکہف حاشیہ ۵۷ ۔الشعراء حاشیہ ۴۵)۔
98. بنی اسرائیل نے جس مقام سے بحرِ احمر کو عبور کیا وہ غالباً موجودہ سویز اور اسماعیلیہ کے درمیان کوئی مقام تھا۔ یہاں سے گزر کر یہ لوگ جزیرہ نما ئے سینا کے جنوبی علاقے کی طرف ساحل کے کنارے کنارے روانہ ہوئے۔ اُس زمانے میں جزیرہ نمائے سینا کا مغربی اور شمالی حصّہ مصر کی سلطنت میں شامل تھا۔ جنوب کے علاقے میں موجودہ شہر طور اور ابو زَنِیمہ کے درمیان تانبے اور فیروزے کی کانیں تھیں، جن سے اہل مصر بہت فائدہ اُٹھاتے تھے اور ان کانوں کی حفاظت کے لیے مصریوں نے چند مقامات پرچھاؤنیاں قائم کر رکھی تھیں۔ انہی چھاؤنیوں میں سے ایک چھاؤنی مفقَہ کے مقام پر تھی جہاں مصریوں کا یک بہت بڑا بُت خانہ تھا جس کے آثار اب بھی جزیرہ نما کے جنوبی مغربی علاقہ میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے قریب ایک اور مقام بھی تھاجہاں قدیم زمانے سے سامی قوموں کی چاند دیوی کا بُت خانہ تھا۔ غالباً انہی مقامات میں سے کسی کے پاس سے گزرتے ہوئے بنی اسرائیل کو،جن پر مصریوں کی غلامی نے مصر یت زدگی کا اچھا خاصا گہرا ٹھپّا لگا رکھا تھا، ایک مصنوعی خدا کی ضرورت محسوس ہوئی ہو گی۔
بنی اسرائیل کی ذہنیّت کو اہل مصر کی غلامی نے جیسا کچھ بگاڑ دیا تھا اس کا اندازہ اس بات سے بآسانی کیا جا سکتا ہے کہ مصر سے نکل آنے کے ۷۰ برس بعد حضرت موسیٰ کے خلیفہ اوّل حضرت یُوشع بن نُون اپنی آخری تقریر میں بنی اسرائیل کے مجمعِ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”تم خدا کا خوف رکھو اور نیک نیتی اور صداقت کے ساتھ اس کی پرستش کرو اور ان دیوتاؤں کو دور کر دو جن کی پرستش تمہارے باپ دادا بڑے دریا کے پار اور مصر میں کرتے تھے اور خدا وند کی پرستش کرو ۔ اور اگر خداوند کی پرستش تم کو بُری معلوم ہوتی ہو تو آج ہی تم اُسے جس کی پرستش کرو گے چن لو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب رہی میری اور میرے گھرانے کی بات سو ہم تو خدا وند ہی کی پرستش کریں گے“ (یشوع ۲۴:١۴۔١۵)
اس سے انداز ہوتا ہے کہ ۴۰ سال تک حضرت موسیٰ ؑ کی اور ۲۸ سال حضرت یُوشع کی تربیت و رہنمائی میں زندگی بسر کر لینے کے بعد بھی یہ قوم اپنے اندر سے اُن اثرات کو نہ نکال سکی جو فراغنہ مصر کی بندگی کے دور میں اُس کی رگ رگ کے اندر اتر گئے تھے۔ پھر بھلا کیونکر ممکن تھا کہ مصر سے نکلنے کے بعد فورًا ہی جو بُت کدہ سامنے آگیا تھا اس کو دیکھ کر ان بگڑے ہوئے مسلمانوں میں سے بہتوں کی پیشانیاں اُس آستانے پر سجدہ کرنے کے لیے بیتاب نہ ہو جائیں جس پر وہ اپنے سابق آقاؤں کو ماتھا رگڑتے ہوئے دیکھ چکے تھے۔