Tafheem ul Quran

Surah 7 Al-A'raf, Ayat 142-147

وَوٰعَدۡنَا مُوۡسٰى ثَلٰثِيۡنَ لَيۡلَةً وَّاَتۡمَمۡنٰهَا بِعَشۡرٍ فَتَمَّ مِيۡقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرۡبَعِيۡنَ لَيۡلَةً ​ ۚ وَقَالَ مُوۡسٰى لِاَخِيۡهِ هٰرُوۡنَ اخۡلُفۡنِىۡ فِىۡ قَوۡمِىۡ وَاَصۡلِحۡ وَلَا تَتَّبِعۡ سَبِيۡلَ الۡمُفۡسِدِيۡنَ‏ ﴿7:142﴾ وَلَمَّا جَآءَ مُوۡسٰى لِمِيۡقَاتِنَا وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِىۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَيۡكَ​ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰٮنِىۡ وَلٰـكِنِ انْظُرۡ اِلَى الۡجَـبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوۡفَ تَرٰٮنِىۡ​ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّخَرَّ مُوۡسٰى صَعِقًا​ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبۡحٰنَكَ تُبۡتُ اِلَيۡكَ وَاَنَا اَوَّلُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿7:143﴾ قَالَ يٰمُوۡسٰٓى اِنِّى اصۡطَفَيۡتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِىۡ وَ بِكَلَامِىۡ ​ۖ  فَخُذۡ مَاۤ اٰتَيۡتُكَ وَكُنۡ مِّنَ الشّٰكِرِيۡنَ‏ ﴿7:144﴾ وَكَتَبۡنَا لَهٗ فِى الۡاَلۡوَاحِ مِنۡ كُلِّ شَىۡءٍ مَّوۡعِظَةً وَّتَفۡصِيۡلًا لِّـكُلِّ شَىۡءٍ​ ۚ فَخُذۡهَا بِقُوَّةٍ وَّاۡمُرۡ قَوۡمَكَ يَاۡخُذُوۡا بِاَحۡسَنِهَا​ ؕ سَاُورِيۡكُمۡ دَارَ الۡفٰسِقِيۡنَ‏ ﴿7:145﴾ سَاَصۡرِفُ عَنۡ اٰيٰتِىَ الَّذِيۡنَ يَتَكَبَّرُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ بِغَيۡرِ الۡحَـقِّ ؕ وَاِنۡ يَّرَوۡا كُلَّ اٰيَةٍ لَّا يُؤۡمِنُوۡا بِهَا​ ۚ وَاِنۡ يَّرَوۡا سَبِيۡلَ الرُّشۡدِ لَا يَتَّخِذُوۡهُ سَبِيۡلًا​ ۚ وَّاِنۡ يَّرَوۡا سَبِيۡلَ الۡغَىِّ يَتَّخِذُوۡهُ سَبِيۡلًا​ ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوۡا عَنۡهَا غٰفِلِيۡنَ‏ ﴿7:146﴾ وَالَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا وَلِقَآءِ الۡاٰخِرَةِ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ​ؕ هَلۡ يُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿7:147﴾

142 - ہم نے موسیٰ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہِ سینا پر) طلب کیا اور بعد میں دس(۱۰)دن کا اور اضافہ کر دیا، اِس طرح اُس کے ربّ کی مقرر کردہ مُدّت پُورے چالیس (۴۰)دن ہوگئی۔99 موسیٰ نے چلتے ہوئے اپنے بھائی سے کہا کہ ”میرے پیچھے تم میرے قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلنا۔“100 143 - جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے ربّ نے اس سے کلام کیا تو اس نے التجا کی کہ ”اے ربّ، مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں۔“ فرمایا ”تُو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں ذرا سامنے کے پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تُو مجھے دیکھ سکے گا۔“ چنانچہ اُس کے ربّ نے جب پہاڑ پر تجلّی کی تو اُسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گِر پڑا۔ جب ہوش آیا تو بولا ”پاک ہے تیری ذات، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والا میں ہوں۔“ 144 - فرمایا ”اے موسیٰ، میں نے تمام لوگوں پر ترجیح دے کر تجھے منتخب کیا کہ میری پیغمبری کرے اور مجھ سے ہم کلام ہو، پس جو کچھ میں تجھے دُوں اُسے لے اور شکر بجا لا۔“ 145 - اس کے بعد ہم نے موسیٰ کو ہر شعبہٴ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی101 اور اس سے کہا ”اِن ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں۔ 102عنقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاوٴں گا۔103 146 - میں اپنی نشانیوں سے اُن لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کِسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں 104، وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں کبھی اس پر ایمان نہ لائیں گے، اگر سیدھا راستہ اُن کے سامنے آئے تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ٹیڑھا راستہ نظر آئے تو اس پر چل پڑیں گے، اس لیے کہ اُنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھُٹلایا اور ان سے بے پروائی کرتے رہے۔ 147 - ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھُٹلایا اور آخرت کی پیشی کا اِنکار کیا اُس کے سارے اعمال ضائع ہوگئے۔105 کیا لوگ اِس کے سِوا کچھ اور جزا پا سکتے ہیں کہ جیسا کریں ویسا بھریں؟“ ؏ ۱۷


Notes

99. مصر سے نکلنے کے بعد جب بنی اسرئیل کی غلامانہ پابندیاں ختم ہو گئیں اور اُنہیں ایک خود مختار قوم کی حیثیت حاصل ہو گئی تو حکمِ خدا وندی کےتحت حضرت موسیٰ ؑ کوہ سینا پر طلب کیے گئے تا کہ انہیں بنی اسرائیل کے لیے شریعت عطا فرمائی جائے۔ چنانچہ یہ طلبی جس کا یہاں ذکر ہورہا ہے، اس سلسلے کی پہلی طلبی تھی اور اس کے لئے چالیس دن کی میعاد اس لئے مقرر کی گئی تھی کہ حضرت موسیٰ ایک پورا چِلّہ پہاڑ پر گزاریں اور روزے رکھ کر ، شب و روز عبادت اور تفکر و تدبر کر کے اور دل و دماغ کو یکسو کر کے اُس قولِ ثقیل کے اخذ کرنے کی استعداد اپنے اندر پیدا کریں جو ان پر نازل کیا جانے والا تھا۔

حضرت موسیٰ ؑ نے اس ارشاد کی تعمیل میں کوہ سینا جاتے وقت بنی اسرائیل کو اُس مقام پر چھوڑا تھا جو موجودہ نقشہ میں بنی صالح اور کوہ ِ سینا کے درمیان وادی ایشخ کے نام سے موسوم ہے۔ اس وادی کا وہ حصہ جہاں بنی اسرائیل نے پڑاؤ کیا تھا آج کل میدان الراحہ کہلاتا ہے۔ وادی کے ایک سرے پر وہ پہاڑی واقع ہے جہاں مقامی روایت کے بموجب حضرت صالح علیہ السلام ثمود کے علاقے سے ہجرت کر کے تشریف لے آئے تھے۔ آج وہاں ان کی یادگار میں ایک مسجد بنی ہوئی ہے ۔ دوسری طرف ایک اور پہاڑی جبل ہارون نامی ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی سے ناراض ہو کر جابیٹھے تھے۔ تیسری طرف سینا کا بلند پہاڑ ہے جس کا بالائی حصہ اکثر بادلوں سے ڈھنکا رہتا ہے اور جس کی بلندی ۷۳۹۵ فیٹ ہے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر آج تک وہ کھوہ زیارت گاہِ عام بنی ہوئی ہے جہاں حضرت موسیٰ ؑ نے چلّہ کیاتھا۔ اس کے قریب مسلمانوں کی ایک مسجد اور عیسائیوں کا ایک گرِجا موجود ہے اور پہاڑ کے دامن میں رومی قیصر جسٹنین کے زمانہ کی ایک خانقاہ آج تک موجود ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو النمل، حواشی ۹ ، ۱۰)۔

100. حضرت ہارون علیہ السلام اگرچہ حضرت موسیٰ سے تین سال بڑے تھے لیکن کارِ نبوّت میں حضرت موسیٰ کے ماتحت اور مددگار تھے۔ ان کی نبوت مستقل نہ تھی بلکہ حضرت موسیٰ نےاللہ تعالیٰ سے درخواست کر کے ان کو اپنے وزیر کی حیثیت سے مانگا تھا جیسا کہ آگے چل کر قرآن مجید میں تبصریح بیان ہوا ہے۔

101. بائیبل میں تصریح ہے کہ یہ دونوں تختیاں پتھر کی سلیں تھیں، اور ان تختیوں پر لکھنے کا فعل بائیبل اور قرآن دونوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف منسُوب کیا گیا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ذریعہ ایسا نہیں جس سے ہم اس بات کا تعیُّن کر سکیں کہ آیا ان تختیوں پر کتابت کا کام اللہ تعالیٰ نے براہِ راست اپنی قدرت سے کیا تھا، یا کسی فرشتے سے یہ خدمت لی تھی، یا خود حضرت موسیٰ کا ہاتھ استعمال فرمایا تھا۔(تقابل کے لیے ملاحضہ ہو بائیبل، کتاب خروج، باب ۳١، آیت١۸۔باب ۳۲،آیت ١۵،١٦ و استثناء باب ۵ آیت ٦۔۲۲)

102. یعنی احکامِ الہٰی کا وہ صاف اور سیدھا مفہوم لیں جو عقل ِعام سے ہر وہ شخص سمجھ لے گا جس کی نیت میں فساد، یا جس کے دل میں ٹیڑھ نہ ہو۔ یہ قید اس لیے لگائی گئی کہ جو لوگ احکام کے سیدھے سادھے الفاظ میں سے قانونی اینچ پینچ اورحیلوں کے راستے اور فتنوں کی گنجائشیں نکالتے ہیں ، کہیں ان کی موشگافیوں کو کتاب اللہ کی پیروی نہ سمجھ لیا جائے۔

103. یعنی آگے چل کر تم لوگ اُن قوموں کے آثار قدیمہ پر سے گزروگے جنہوں نےخدا کی بندگی و اطاعت سے منہ موڑا اور غلط روی پر اصرار کیا۔ ان آثار کو دیکھ کر تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ ایسی روش اختیار کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔

104. یعنی میرا قانونِ فطرت یہی ہے کہ ایسے لوگ کسی عبرت ناک چیز سے عبرت اور کسی سبق آموز شے سے سبق حاصل نہیں کر سکتے۔

”بڑا بننا“یا ”تکبّر کرنا“ قرآن مجید اس معنی میں استعمال کرتا ہے کہ بندہ اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے بالا تر سمجھنے لگے اور خدا کے احکام کی کچھ پروا نہ کرے، اور ایسا طرزِ عمل اختیار کرے گویا کہ وہ نہ خدا کا بندہ ہے اور نہ خدا اس کا رب ہے۔ اس خود سری کی کوئی حقیقت ایک پندار غلط کے سوا نہیں ہے ، کیونکہ خدا کی زمین میں رہتے ہوئے ایک بندے کو کسی طرح یہ حق پہنچتا ہی نہیں کہ غیر بندہ بن کر رہے۔ اسی لیے فرمایا کہ ”وہ بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں۔“

105. ضائع ہوگئے، یعنی بار آور نہ ہوئے، غیر مفید اور لاحاصل نکلے۔ اس لیے کہ خدا کےہاں انسانی سعی و عمل کے بار آور ہونے کا انحصار بالکل دو امور پر ہے۔ ایک یہ کہ وہ سعی و عمل خدا کے قانون شرعی کی پابندی میں ہو۔ دوسرے یہ کہ اس سعی و عمل میں دنیا کے بجائے آخرت کی کامیابی پیش نظر ہو۔ یہ دو شرطیں جہاں پوری نہ ہوں گی وہاں لازماً حبطِ عمل واقع ہوگا۔ جس خدا سے ہدایت لیے بغیر بلکہ اس سے منہ موڑ کر باغیانہ انداز پر دنیا میں کام کیا، ظاہر ہے کہ وہ خدا سے کسی اجر کی توقع رکھنے کا کسی طرح حقدار نہیں ہو سکتا۔ اور جس نے سب کچھ دنیا ہی کے لیے کیا ، اور آخرت کے لیےکچھ نہ کیا، کھلی بات ہے کہ آخرت میں اسے کوئی ثمرہ پانے کی اُمید نہ رکھنی چاہیے اور کوئی وجہ نہیں کہ وہاں وہ کسی قسم کا ثمرہ پائے۔ اگر میری مملوکہ زمین میں کوئی شخص میرے منشا کہ خلاف تصرف کرتا رہا ہے تو وہ مجھ سے سزا پانے کے سوا آخر اور کیا پانے کا حق دار ہو سکتا ہے؟ اور اگر اس زمین پر اپنے غاصبانہ قبضہ کے زمانہ میں اس نے سارا کام خود ہی اس ارادہ کے ساتھ کیا ہو کہ جب تک اصل مالک اس کی جرٲت ِ بے جا سے اغماض کر رہا ہے، اسی وقت تک وہ اس سے فائدہ اُٹھائے گا اور مالک کے قبضہ میں زمین واپس چلے جانے کے بعد وہ خود بھی کسیِ فائدے کا متوقع یا طالب نہیں ہے، توآخر کیا وجہ ہے کہ میں اس غاصب سے اپنی زمین واپس لینے کے بعد زمین کی پیداوار میں سے کوئی حصّہ خواہ مخواہ اسے دوں؟