Tafheem ul Quran

Surah 7 Al-A'raf, Ayat 148-151

وَاتَّخَذَ قَوۡمُ مُوۡسٰى مِنۡۢ بَعۡدِهٖ مِنۡ حُلِيِّهِمۡ عِجۡلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ​ ؕ اَلَمۡ يَرَوۡا اَنَّهٗ لَا يُكَلِّمُهُمۡ وَلَا يَهۡدِيۡهِمۡ سَبِيۡلًا ۘ اِتَّخَذُوۡهُ وَكَانُوۡا ظٰلِمِيۡنَ‏ ﴿7:148﴾ وَلَـمَّا سُقِطَ فِىۡۤ اَيۡدِيۡهِمۡ وَرَاَوۡا اَنَّهُمۡ قَدۡ ضَلُّوۡا ۙ قَالُوۡا لَـئِنۡ لَّمۡ يَرۡحَمۡنَا رَبُّنَا وَيَغۡفِرۡ لَـنَا لَنَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ‏  ﴿7:149﴾ وَلَمَّا رَجَعَ مُوۡسٰٓى اِلٰى قَوۡمِهٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۙ قَالَ بِئۡسَمَا خَلَفۡتُمُوۡنِىۡ مِنۡۢ بَعۡدِىۡ ۚ اَعَجِلۡتُمۡ اَمۡرَ رَبِّكُمۡ​ ۚ وَاَلۡقَى الۡاَلۡوَاحَ وَاَخَذَ بِرَاۡسِ اَخِيۡهِ يَجُرُّهٗۤ اِلَيۡهِ​ؕ قَالَ ابۡنَ اُمَّ اِنَّ الۡـقَوۡمَ اسۡتَضۡعَفُوۡنِىۡ وَكَادُوۡا يَقۡتُلُوۡنَنِىۡ ​ۖ  فَلَا تُشۡمِتۡ بِىَ الۡاَعۡدَآءَ وَ لَا تَجۡعَلۡنِىۡ مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿7:150﴾ قَالَ رَبِّ اغۡفِرۡ لِىۡ وَلِاَخِىۡ وَ اَدۡخِلۡنَا فِىۡ رَحۡمَتِكَ ​ۖ  وَاَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِيۡنَ‏ ﴿7:151﴾

148 - موسیٰ کے پیچھے 106اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پُتلا بنایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ کیا اُنہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے؟ مگر پھر بھی اُنہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے۔107 149 - پھر جب ان کی فریب خوردگی کا طلِسم ٹوٹ گیا اور اُنہوں نے دیکھ لیا کہ درحقیقت وہ گمراہ ہوگئے ہیں تو کہنے لگے کہ ”اگر ہمارے ربّ نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہم سے درگزر نہ کیا تو ہم برباد ہوجائیں گے۔“ 150 - اُدھر سے موسیٰ غصّے اور رنج میں بھرا ہوا اپنی قوم کی طرف پلٹا۔ آتے ہی اس نے کہا ”بہت بُری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد! کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوا کہ اپنے ربّ کے حکم کا انتظار کر لیتے؟“ اور تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی (ہارون) کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا۔ ہارون نے کہا ”اے میری ماں کے بیٹے، اِن لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے، پس تُو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ کے ساتھ مجھے نہ شامل کر۔“108 151 - تب موسیٰ نے کہا ”اے ربّ، مجھے اور میرے بھائی کو معاف کر اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تُو سب سے بڑھ کر رحیم ہے۔“ ؏ ۱۸


Notes

106. یعنی اُن چالیس دِنوں کے دوران میں جب کہ حضرت موسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ کی طلبی پر کوہ سینا گئے ہوئے تھے اور یہ قوم پہاڑ کے نیچے میدانُ الرَّاحَہ میں ٹھیری ہوئی تھی۔

107. یہ اُس مصریّت زدگی کا دوسرا ظہور تھا جسے لیے ہوئے بنی اسرائیل مصر سے نکلے تھے۔ مصر میں گائے کی پرستش اور تقدیس کا جو رواج تھا اس سے یہ قوم اتنی شدّت کے ساتھ متاثر ہو چکی تھی کہ قرآن کہتا ہے وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ العِجْلَ۔یعنی ان کے دلوں میں بچھڑا بس کر رہ گیا تھا۔سب سے زیادہ حیرت کا مقام یہ ہے کہ ابھی مصر سے نکلے ہوئے ان کو صرف تین مہینے ہی گزرے تھے۔ سمندر کا پھٹنا ، فرعون کا غرق ہونا ، اِن لوگوں کا بخیریت اُس بندِ غلامی سے نِکل آنا جس کے ٹوٹنے کی کوئی اُمید نہ تھی ، اور اس سلسلے کے دوسرے واقعات ابھی بالکل تازہ تھے، اور انہیں خوب معلوم تھا کہ یہ جو کچھ ہوا محض اللہ کی قدرت سے ہوا ہے ، کِسی دوسرے کی طاقت و تصرف کا اس میں کچھ دخل نہ تھا۔ مگر اس پر بھی انہوں نے پہلے تو پیغمبر سے ایک مصنوعی خدا طلب کیا ، اور پھر پیغمبر کے پیٹھ موڑتے ہی خود ایک مصنوعی خدا بنا ڈالا ۔ یہی وہ حرکت ہے جس پر بعض انبیاء بنی اسرا ئیل نے اپنی قوم کو اُس بدکار عورت سے تشبیہ دی ہے جو اپنے شوہر کے سوا ہر دوسرے مرد سے دل لگاتی ہو اور جو شب اوّل میں بھی بے وفائی سے نہ چُوکی ہو۔

108. یہاں قرآن مجید نے ایک بہت بڑے الزام سےحضرت ہارون کی براءت ثابت کی ہے جو یہودیوں نے زبردستی اُن پر چسپاں کر رکھا تھا ۔ بائیبل میں بچھڑے کی پرستش کا واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ کو پہاڑ سے آنے میں دیر لگی تو بنی اسرائیل نے بے صبر ہو کر حضرت ہارون سے کہا کہ ہمارے لیے ایک معبود بنا دو، حضرت ہارون نے ان کی فرمائش کے مطابق سونے کا ایک بچھڑا بنا دیا جسے دیکھتے ہی بنی اسرائیل پکار اُٹھے کہ اے اسرائیل ، یہی تیرا وہ خدا ہے جو تجھے ملک مصر سے نکال کر لایا ہے۔ پھر حضرت ہارون نے اس کے لیے ایک قربان گاہ بنائی اور اعلان کر کے دوسرے روز تمام بنی اسرائیل کو جمع کیا اور اس کے آگے قربانیاں چڑھائیں (خروج ۔ باب ۳۲ ۔ آیت ۱ ۔ ۶) ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بصراحت اس غلط بیانی کی تردید کی گئی ہے اور حقیقت واقعہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس جرم عظیم کا مرتکب خدا کا نبی ہارون نہیں بلکہ خدا کا باغی سامری تھا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ طہٰ، آیات ۹۰۔۹۴)۔

بظاہر یہ بات بڑی حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل جن لوگوں کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں ان میں سے کسی کی سیرت کو بھی انہوں نے داغدار کیے بغیر نہیں چھوڑا ہے، اور داغ بھی ایسے سخت لگائے ہیں جو اخلاق و شریعت کی نگاہ میں بدترین جرائم شمار ہوتے ہیں، مثلاً شرک،جادوگری، زنا،جھوٹ، دغابازی اور ایسے ہی دوسرے شدید معاصی جن سے آلودہ ہونا پیغمبر تو درکنار ایک معمولی مومن اور شریف انسان کے لیے بھی سخت شرمناک ہے۔ یہ بات بجائے خود نہایت عجیب ہے لیکن بنی اسرائیل کی اخلاقی تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ فی الحقیقت اس قوم کے معاملہ میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ یہ قوم جب اخلاقی و مذہبی انحطاط میں مبتلا ہوئی اور عوام سے گزر کر ان کے خواص تک کو ، حتٰی کہ علماءو مشائخ اور دینی منصب داروں کو بھی گمراہیوں اور بد اخلاقیوں کا سیلاب بہالے گیا تو اُن کے مجرم ضمیر نے اپنی اس حالت کے لیے عذرات تراشنے شروع کیے اور اسی سلسلہ میں انہوں نے وہ تمام جرائم جو یہ خود کرتے تھے،انبیاء علیہم السلام کی طرف منسوب کر ڈالے تا کہ یہ کہا جا سکے کہ جب نبی تک ان چیزوں سے نہ بچ سکے تو بھلا اور کون بچ سکتا ہے۔ اس معاملہ میں یہودیوں کا حال ہندوؤں سے ملتا جلتا ہے۔ ہندوؤں میں بھی جب اخلاقی انحطاط انتہا کو پہنچ گیا تو وہ لٹریچر تیار ہوا جس میں دیوتاؤں، رشیوں ، مُنیوں اور اوتاروں کی ، غرض جو بلند ترین آئیڈیل قوم کے سامنے ہو سکتے تھے اُن سب کی زندگیاں بد اخلاقی کے تارکول سے سیاہ کر ڈالی گئیں تا کہ یہ کہا جا سکے کہ جب ایسی ایسی عظیم الشان ہستیاں اِن قبائح میں مبتلا ہو سکتی ہیں تو بھلا ہم معمولی فانی انسان اِن میں مبتلا ہوئے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں ، اور پھر جب یہ افعال اتنے اُونچے مرتبے والوں کے لیے بھی شرمناک نہیں ہیں تو ہمارے لیے کیوں ہوں۔