109. یہ طلبی اس غرض کے لیے ہوئی تھی کہ قوم کے ۷۰ نمائندے کوہ ِ سینا پر پیشی ِ خدا وندی میں حاضر ہو کر قوم کی طرف سے گوسالہ پرستی کے جرم کی معافی مانگیں اور از سرِ نو اطاعت کا عہد استوارکر یں۔ بائیبل اور تلمود میں ا س بات کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ یہ ذکر ہے کہ جو تختیاں حضرت موسیٰ ؑ نے پھینک کر توڑ دی تھیں ان کے بدلے دوسری تختیاں عطاکرنے کے لیے آپ کو سینا پر بلایا گیا تھا(خروج۔باب۳۴)۔
110. مطلب یہ ہے کہ ہر آزمائش کا موقع انسانوں کے درمیان فیصلہ کن ہوتا ہے۔ وہ چھاج کی طرح ایک مخلوط گروہ میں سے کارآمد آدمیوں اور ناکارہ آدمیوں کو پھٹک کر الگ کر دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا عین مقتضیٰ ہے کہ ایسے مواقع وقتاً فوقتاً آتے رہیں۔ ان مواقع پر جو کامیابی کی راہ پاتا ہے وہ اللہ ہی کی توفیق و رہنمائی سے پاتا ہے اور جو ناکام ہوتا ہے وہ اُس کی توفیق ورہنمائی سے محروم ہونے کی بدولت ہی ناکام ہوتا ہے۔ اگرچہ اللہ کی طرف سے توفیق اور رہنمائی ملنے اور نہ ملنے کے لیے بھی ایک ضابطہ ہے جو سراسر حکمت اور عدل پر مبنی ہے، لیکن بہر حال یہ حقیقت اپنی جگہ ثابت ہے کہ آدمی کا آزمائش کے مواقع پر کامیا بی کی رہ پانا یا نہ پانا اللہ کی توفیق و ہدایت پر منحصر ہے۔
111. یعنی اللہ تعالیٰ جس طریقے پر خدائی کر رہا ہے اس میں اصل چیز غضب نہیں ہے جس میں کبھی کبھی رحم اور فضل کی شان نمودار ہو جاتی ہو، بلکہ اصل چیز رحم ہے جس پر سارا نظامِ عالم قائم ہے اور اس میں غضب صرف اس وقت نمودار ہوتا ہے جب بندوں کا تمردُّحد سے فزوں ہوجاتا ہے۔
112. حضرت موسیٰ کی دعا کا جواب اوپر کے فقرے پر ختم ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اب موقع کی مناسبت سے فورًا بنی اسرائیل کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کی دعوت دی گئی ہے ۔ تقریر کا مدعا یہ ہے کہ تم پر خدا کی رحمت نازل ہونے کے لیے جو شرائط موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں عائد کی گئی تھیں وہی آج تک قائم ہیں اور دراصل یہ اُنہی شرائط کا تقاضا ہے کہ تم اِس پیغمبر پر ایمان لاؤ۔ تم سے کہا گیا تھا کہ خدا کی رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے جو نافرمانی سے پر ہیز کریں۔ تو آج سب سے بڑی بنیادی نا فرمانی یہ ہے کہ جس پیغمبر کو خدا نے مامور کیا ہے اس کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے۔ لہٰذا جب تک اِس نافرمانی سے پرہیز نہ کر و گےتقویٰ کی جڑ ہی سرے سے قائم نہ ہوگی خواہ جزئیات و فروعات میں تم کتنا ہی تقویٰ بگھارتے رہو۔ تم سے کہا گیا تھا کہ رحمت ِ الہٰی سے حِصہ پانے کے لیے زکوٰة بھی ایک شرط ہے۔ تو آج کسی انفاق مال پر اُس وقت تک زکوٰة کی تعریف صادق نہیں آسکتی جب تک اقامتِ دینِ حق کی اُس جدوجہد کا ساتھ نہ دیا جائے جو اِس پیغمبر کی قیادت میں ہو رہی ہے۔ لہٰذا جب تک اِس راہ میں مال صرف نہ کرو گے زکوٰة کی بنیاد ہی استوار نہ ہو گی چاہے تم کتنی ہی خیرات اور نذرونیاز کرتے ہو۔ تم سے کہاگیا تھا کہ اللہ نے اپنی رحمت صرف اُن لوگوں کے لیے لکھی ہے جو اللہ کی آیات پر ایمان لائیں۔ تو آج جو آیات اس پیغمبر پر نازل ہو رہی ہیں ان کا انکار کرکے تم کسی طرح بھی آیات ِ الہٰی کے ماننے والے قرار نہیں پا سکتے۔ لہٰذا جب تک اِن پر ایمان نہ لاؤ گے یہ آخری شرط بھی پوری نہ ہو گی خواہ توراة پر ایمان رکھنے کا تم کتنا ہی دعوٰی کرتے رہو۔
یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے”اُمّی“ کا لفظ بہت معنی خیز استعمال ہوا ہے۔ بنی اسرائیل اپنے سوا دوسری قوموں کو اُمّی (Gentiles ) کہتے تھے اور ان کا قومی فخر و غرور کسی اُمّی کی پیشوائی تسلیم کرنا تو درکنار، اِس پر بھی تیار نہ تھا کہ اُمّیوں کے لیے اپنے برابر انسانی حقوق ہی تسلیم کر لیں۔ چناچہ قرآن ہی میں آتا ہے کہ وہ کہتے تھے لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیِّیْنَ سَبِیْلٌ(آل عمران آیت۷۵)”اُمیوں کے مال مار کھانے میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔پس اللہ تعالیٰ انہی کی اصطلاح استعمال کر کے فرماتا ہے کہ اب تو اسی اُمّی کے ساتھ تمہاری قسمت وابستہ ہے، اس کی پیروی قبول کر وگے تو میری رحمت سےحصہ پاؤ گے ورنہ وہی غضب تمہارے لیے مقدر ہے جس میں صدیوں سے گرفتار چلے آرہے ہو۔
113. مثال کے طور پر توراة اور انجیل کے حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے متعلق صاف اشارات موجود ہیں: استشناء، باب ١۸، آیت ١۵ تا١۹۔ متی، باب۲١ تا۴٦۔ یوحنا، باب١، آیت١۹تا ۲١۔ یوحنا باب١۴، آیت١۵تا١۷ و آیت ۲۵تا۳۰ یوحنا، باب١۵، آیت ۲۵۔۲٦ یوحنا، باب١٦، آیت۷تا١۵۔
114. یعنی جن پاک چیزوں کو انہوں نے حرام کر رکھا ہے، وہ انہیں حلال قرار دیتا ہے اور جن ناپاک چیزوں کو یہ لوگ حلال کیے بیٹھے ہیں انہیں وہ حرام قرار دیتا ہے۔
115. یعنی ان کے فقیہوں نے اپنی قانونی موشگافیوں سے ، ان کے روحانی مقتداؤں نے اپنے تورُّع کے مبالغوں سے ، اور ان کے جاہل عوام نے اپنے تو ہمات اور خود ساختہ حدود و ضوابط سے ان کی زندگی کو جن بوجھوں تلے دبا رکھا ہے اور جن جکڑ بندیوں میں کَس رکھا ہے، یہ پیغمبر وہ سارے بوجھ اتار دیتا ہے اور وہ تمام بندشیں توڑ کر زندگی کو آزاد کر دیتا ہے۔