Tafheem ul Quran

Surah 7 Al-A'raf, Ayat 158-162

قُلۡ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّىۡ رَسُوۡلُ اللّٰهِ اِلَيۡكُمۡ جَمِيۡعَاْ ۨالَّذِىۡ لَهٗ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُحۡىٖ وَيُمِيۡتُ​ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهِ النَّبِىِّ الۡاُمِّىِّ الَّذِىۡ يُؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوۡهُ لَعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿7:158﴾ وَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰٓى اُمَّةٌ يَّهۡدُوۡنَ بِالۡحَـقِّ وَبِهٖ يَعۡدِلُوۡنَ‏  ﴿7:159﴾ وَقَطَّعۡنٰهُمُ اثۡنَتَىۡ عَشۡرَةَ اَسۡبَاطًا اُمَمًا​ ؕ وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰى مُوۡسٰٓى اِذِ اسۡتَسۡقٰٮهُ قَوۡمُهٗۤ اَنِ اضۡرِبْ بِّعَصَاكَ الۡحَجَرَ​ ۚ فَاْنۢبَجَسَتۡ مِنۡهُ اثۡنَتَا عَشۡرَةَ عَيۡنًا​ ؕ قَدۡ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشۡرَبَهُمۡ​ؕ وَظَلَّلۡنَا عَلَيۡهِمُ الۡغَمَامَ وَاَنۡزَلۡنَا عَلَيۡهِمُ الۡمَنَّ وَالسَّلۡوٰىؕ كُلُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰكُمۡ​ؕ وَ مَا ظَلَمُوۡنَا وَلٰـكِنۡ كَانُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ يَظۡلِمُوۡنَ‏ ﴿7:160﴾ وَاِذۡ قِيۡلَ لَهُمُ اسۡكُنُوۡا هٰذِهِ الۡقَرۡيَةَ وَكُلُوۡا مِنۡهَا حَيۡثُ شِئۡتُمۡ وَقُوۡلُوۡا حِطَّةٌ وَّادۡخُلُوا الۡبَابَ سُجَّدًا نَّـغۡفِرۡ لَـكُمۡ خَطِيْٓـٰٔـتِكُمۡ​ ؕ سَنَزِيۡدُ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿7:161﴾ فَبَدَّلَ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡهُمۡ قَوۡلًا غَيۡرَ الَّذِىۡ قِيۡلَ لَهُمۡ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَيۡهِمۡ رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوۡا يَظۡلِمُوۡنَ‏  ﴿7:162﴾

158 - اے محمد ؐ، کہو کہ ”اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمیں اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اُس کے سِوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمّی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اُس کی ، اُمید ہے کہ تم راہِ راست پالو گے۔“ 159 - 116موسٰی کی قوم میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو حق کے مطابق ہدایت کرتا اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا تھا۔117 160 - اور ہم نے اس قوم کو بارہ گھرانوں میں تقسیم کرکے انہیں مستقل گرہوں کی شکل دے دی تھی۔118 اور جب موسٰی سے اس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اس کو اشارہ کیا کہ فلاح چٹان پر اپنی لاٹھی مارو۔ چناچہ اس چٹان سے یکایک بارہ چشمے پُھوٹ نِکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متعیّن کرلی، ہم نے اُن پر بادل کا سایہ کیا اور اُن پر من و سلوٰی اُتارا۔119 کھاؤ وہ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو بخشی ہیں۔ مگر اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا تو ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے۔ 161 - 120یاد کرو وہ وقت جب ان سے کہا گیا تھا کہ اِس بستی میں جاکر بس جاؤ اور اس کی پیداوار سے اپنے حسبِ منشا روزی حاصل کرو اور حِطَّةُٗ حِطَّةُٗ کہتے جاؤ اور شہر کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہو، ہم تمہاری خطائیں معاف کریں گے اور نیک رویہ رکھنے والوں مزید فضل سے نوازیں گے۔“ 162 - مگر جو لوگ اُن میں ظالم تھے اُنھوں نے اُس بات کو جو اُن سے کہی گئی تھی بدل ڈالا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اُن کے ظلم کی پاداش میں اُن پر آسمان سے عذاب بھیج دیا۔121 ؏ ۲۰


Notes

116. اصل سلسلہ کلام بنی اسرائیل سے متعلق چل رہا تھا ۔ بیچ میں موقع کی مناسبت سے رسالت محمدی پر ایمان لانے کی دعوت بطور جملہ معترضہ آگئی۔ اب پھر تقریر کا رخ اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جو پچھلے کئی رکوعوں سے بیان ہورہا ہے۔

117. بیشتر مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ ایسا ہے جو حق کے مطابق ہدایت اور انصاف کرتا ہے ،یعنی ان کے نزدیک اس آیت میں بنی اسرائیل کی وہ اخلاقی و ذہنی حالت بیان کی گئی ہے جو نزولِ قرآن کے وقت تھی۔ لیکن سیاق و سباق پر نظر کرتے ہوئے ہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس آیت میں بنی اسرائیل کا وہ حال بیان ہوا ہے جو حضرت موسیٰ کے زمانے میں تھا، اور اس سے مدعا یہ ظاہر کرنا ہے کہ جب اس قوم میں گوسالہ پرستی کے جرم کا ارتکاب کیا گیا اور حضرت حق کی طرف سے اس پر گرفت ہوئی تو اس وقت ساری قوم بگڑی ہوئی نہ تھی بلکہ اس میں ایک اچھا خاصا صالح عنصر موجود تھا ۔

118. اشارہ ہے بنی اسرائیل کی اُس تنظیم کی طرف جو سورہ مائدہ آیت ۱۲ میں بیان ہوئی ہے اور جس کی پوری تفصیل بائیبل کی کتاب گنتی میں ملتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوہِ سینا کے بیابان میں بنی اسرائیل کی مردم شماری کرائی، پھر ان کے ۱۲ گھرانوں کو جو حضرت یعقوب کے دس بیٹوں اور حضرت یوسف کے دو بیٹوں کی نسل سے تھے الگ الگ گروہوں کی شکل میں منظم کیا، اور ہر گروہ پر ایک ایک سردار مقرر کیا تاکہ وہ ان کےاندر اخلاقی، مذہبی، تمدنی و معاشرتی اور فوجی حیثیت سے نظم قائم رکھے اور احکامِ شریعت کا اجراء کرتا رہے۔ نیز حضرت یعقوب کے بارھویں بیٹے لاوِی کی اولاد کو جس کی نسل سے حضرت موسیٰ اور ہارون تھے، ایک الگ جماعت کی شکل میں منظم کیا تاکہ وہ ان سب قبیلوں کےدرمیان شمعِ حق روشن رکھنے کی خدمت انجام دیتی رہے۔

119. اوپر جس تنظیم کا ذکر کیا گیا ہے وہ منجملہ اُن احسانات کے تھی جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر کیے۔ اس کے بعد اب مزید تین احسانات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ایک یہ کہ جزیرہ نمائے سینا کے بیابانی علاقہ میں ان کے لیے پانی کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام کیا گیا۔دوسرے یہ کہ ان کو دھوپ کی تپش سے بچانے کے لیے آسمان پر بادل چھا دیا گیا۔ تیسرے یہ کہ ان کے لیے خوراک کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام من و سلویٰ کے نزول کی شکل میں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اگر ان تین اہم ترین ضروریاتِ زندگی کا بندوبست نہ کیا جاتا تو یہ قوم جس کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچی ہوئی تھی، اس علاقہ میں بھوک پیاس سے بالکل ختم ہو جاتی ۔ آج بھی کوئی شخص وہاں جائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جائے گا کہ اگر یہاں پندرہ بیس لاکھ آدمیوں کا ایک عظیم الشان قافلہ یکایک آ ٹھیرے تو اس کے لیے پانی، خوراک اور سائے کا آخر کیا انتظام ہو سکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں پورے جزیرہ نما کی آبادی ۵۵ ہزار سے زیادہ نہیں ہے اور آج اس بیسویں صدی میں بھی اگر کوئی سلطنت وہاں پانچ چھ لاکھ فوج لے جانا چاہے تو اس کے مُدَبِّروں کو رسد کے انتظام کی فکر میں دردِ سر لاحق ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے بہت سے محققین نے ، جو نہ کتاب کو مانتے ہیں اور نہ معجزات کو تسلیم کرتے ہیں ، یہ ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا کےاُس حصہ سے گزرے ہونگے جس کا ذکر بائیبل اور قرآن میں ہوا ہے۔ ان کا گمان ہے کہ شاید یہ واقعات فلسطین کے جنوبی اور عرب کے شمالی حصہ میں پیش آئے ہوں گے۔ جزیرہ نمائے سینا کے طبعی اور معاشی جغرافیہ کو دیکھتے ہوئے وہ اس بات کو بالکل نا قابلِ تصور سمجھتے ہیں کہ اتنی بڑی قوم یہاں برسوں ایک ایک جگہ پڑاؤ کرتی ہوئی گزر سکی تھی، خصوصاً جب کہ مصر کی طرف سے اس کی رسد کا راستہ بھی منقطع تھا اور دوسری طرف خود اس جزیرہ نما کے مشرق اور شمال میں عَمالِقَہ کے قبیلے اس کی مزاحمت پر آمادہ تھے۔ ان امور کو پیش نظر رکھنے سے صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان چند مختصر آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے جِن احسانات کا ذکر فرمایا ہے وہ درحقیقت کتنے بڑے احسانات تھے اور اس کے بعد یہ کتنی بڑی احسان فراموشی تھی کہ اللہ کے فضل و کرم کی ایسی صریح نشانیاں دیکھ لینے پر بھی یہ قوم مسلسل اُن نا فرمانیوں اور غداریوں کی مر تکب ہوتی رہی جن سے اس کی تاریخ بھری پڑی ہے۔(تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حواشی نمبر ۷۲ ، ۷۳، ۷۶)

120. اب تاریخ بنی اسرائیل کے اُن واقعات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا احسانات کا جواب یہ لوگ کیسی کیسی مجرمانہ بے باکیوں کے ساتھ دیتے رہے اور پھر کس طرح مسلسل تباہی کے گڑھے میں گرتے چلے گئے۔

121. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، حاشیہ ۷۴ و ۷۵ ۔