143. رفیق سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ انہی لوگوں میں پیدا ہوئے، انہی کے درمیان رہے بسے، بچے سے جوان اور جوان سے بوڑھے ہوئے۔ نبوت سے پہلے ساری قوم آپ کو ایک نہایت سلیم الطبع اور صحیح الدماغ آدمی کی حیثیت سے جانتی تھی۔ نبوت کے بعد جب آپ نے خدا کا پیغام پہنچانا شروع کیا تو یکا یک آپ کو مجنون کہنے لگی۔ ظاہر ہے کہ یہ حکمِ جُنون اُن باتوں پر نہ تھا جو آپ نبی ہونے سے پہلے کرتے تھے بلکہ صرف اُنہی باتوں پر لگایا جارہا تھا جن کی آپ نے نبی ہونے کے بعد تبلیغ شروع کی۔ اسی وجہ سے فرمایا جارہا ہے کہ ان لوگوں نے کبھی سوچا بھی ہے ، آخر ان باتوں میں کونسی بات جنون کی ہے؟ کونسی بات بے تُکی، بے اصل اور غیر معقول ہے؟ اگر یہ آسمان و زمین کے نظام پر غور کرتے ، یا خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کو بھی بنظرِ تامل دیکھتے تو انہیں خود معلوم ہو جاتا کہ شرک کی تردید، توحید کے اثبات، بندگی رب کی دعوت اور انسان کی ذمہ داری و جواب دہی کے بارے میں جو کچھ اُن کا بھائی انہیں سمجھا رہا ہے اس کی صداقت پر یہ پورا نظامِ کائنات اور خلق اللہ کا ذرہ ذرہ شہادت دے رہا ہے۔
144. یعنی نادان اتنا بھی نہیں سوچتے کہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے، کچھ خبر نہیں کہ کب کس کی اجل آن پوری ہو۔ پھر اگر ان میں سے کسی کا آخری وقت آگیا اور اپنے رویہ کی اصلاح کے لیے جو مہلت اسے ملی ہوئی ہے وہ انہی گمراہیوں اور بداعمالیوں میں ضائع ہوگئی تو آخر اس کا حشر کیا ہوگا۔
145. مطلب یہ ہے کہ قیامت کی ٹھیک تاریخ وہی بتا سکتا ہے جسے غیب کا علم ہو، اور میرا حال یہ ہے کہ میں کل کے متعلق بھی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ یا میرے بال بچوں کے ساتھ کیا کچھ پیش آنے والا ہے۔ تم خود سمجھ سکتے ہو کہ اگر یہ علم مجھے حاصل ہوتا تو میں کتنے نقصانات سے قبل از وقت آگاہ ہو کر بچ جاتا اور کتنے فائدے محض پیشگی علم کی بدولت اپنی ذات کے لیے سمیٹ لیتا پھر یہ تمہاری کتنی بڑی نادانی ہے کہ تم مجھ سے پو چھتے ہو کہ قیامت کب آئے گی۔