150. ان آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت تبلیغ اور ہدایت و اصلاح کی حکمت کے چند اہم نکات بتائے گئے ہیں اور مقصودصرف حضور ہی کو تعلیم دینا نہیں ہے بلکہ حضور کے ذریعہ سے اُن سب لوگوں کو بھی حکمت سکھانا ہے جو حضور کے قائم مقام بن کر دنیا کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اُٹھیں۔ ان نکات کو سلسلہ وار دیکھنا چاہیے:۔
(۱) داعی حق کے لیے جو صفات سب سے زیادہ ضروری ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے نرم خو متحمل اور عالی ظرف ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق، عامتہ الناس کے لیے رحیم اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے رفقا کی کمزوریوں کو بھی برداشت کرنا چاہیے اور اپنے مخالفین کی سختیوں کو بھی۔ اسے شدید سے شدید اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے، نہایت ناگوار باتوں کو بھی عالی ظرفی کے ساتھ ٹال دینا چاہیے، مخالفوں کی طرف سے کیسی ہی سخت کلامی بہتان تراشی، ایذا رسانی اور شریرانہ مزاحمت کا اظہار ہو، اُس کو درگزر ہی سے کام لینا چاہیے۔ سخت گیری، درشت خوئی، تلخ گفتاری اور منتقمانہ اشتعال طبع اس کام کے لیے زہر کا حکم رکھتا ہے اور اس سے کام بگڑتا ہے بنتا نہیں ہے۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ ” غضب اور رضا، دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں، جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں، جو مجھے میرے حق سے محروم کرے میں اسے اس کا حق دوں، جو میرے ساتھ ظلم کرے میں اس کو معاف کردوں“۔ اور اسی چیز کی ہدایت آپ ان لوگوں کو کرتے تھے جنہیں آپ دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کہ بشروا ولا تنفر واو یسرواولا تعسروا، یعنی”جہاں تم جاؤ وہاں تمہاری آمد لوگوں کے لیے مژدہ جانفزا ہونہ کہ باعثِ نفرت، اور لوگوں کے لیے تم سہولت کے موجب بنو نہ کہ تنگی و سختی کے “۔ اور اسی چیز کی تعریف اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمائی ہے کہ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْ ا مِنْ حَوْلکَ ۔یعنی”یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم ہو ورنہ اگر تم درشت خو اور سنگدل ہوتےتو یہ سب لوگ تمہارے گردو پیش سے چَھٹ جاتے“۔(آل عمران، ۱۵۹)
(۲) دعوت حق کی کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی اُن سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے جنہیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام (Common sense ) کافی ہوتی ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے۔ اس طرح داعی حق کا اپیل عوام و خواص سب کو متاثر کرتا ہے اور ہر سامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ اب نکال لیتا ہے ۔ ایسی معروف دعوت کے خلاف جو لوگ شورش برپا کرتے ہیں وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔کیونکہ عام انسان، خواہ وہ کتنے ہی تعصبات میں مبتلا ہوں، جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلند اخلاق انسان ہے جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کر رہے ہیں، تو رفتہ رفتہ ان کے دل خود بخود مخالفینِ حق سے پھر تے اور داعی حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ آخر کار میدان مقابلہ میں صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں جن کے ذاتی مفاد نظامِ باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہوں، یا پھر جن کے دلوں میں تقلیدِ اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہی نہ چھوڑی ہو۔ یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آپ کے بعد تھوڑی ہی مدت میں اسلام کا سیلاب قریب کے ملکوں پر اس طرح پھیل گیا کہ کہیں سوفی صدی اور کہیں ۸۰ اور ۹۰ فی صدی باشندے مسلمان ہو گئے۔
(۳) اس دعوت کے کام میں جہاں یہ بات ضروری ہے کہ طالبینِ خیر کو معروف کی تلقین کی جائے وہاں یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھنے اور اُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں۔ داعی کو اس معاملہ میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں۔ اور جب کوئی شخص جہالت پر اُتر آئے اور حجت بازی، جھگڑالوپن اور طعن و تشنیع شروع کر دے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں اُلجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعتِ دعوت اور اصلاح نفوس میں خرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہوجاتی ہے۔
(۴) نمبر ۳ میں جو ہدایت کی گئی ہے اسی کے سلسلہ میں مزید ہدایت یہ ہے کہ جب کبھی داعی حق مخالفین کے ظلم اور ان کی شرارتوں اور ان کے جاہلانہ اعتراضات و الزامات پر اپنی طبیعت میں اشتعال محسوس کرے تو اسے فوراً سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نزغِ شیطانی (یعنی شیطان کی اکساہٹ)ہے اور اسی وقت خدا سے پناہ مانگنی چاہیے کہ اپنے بندےکو اس جوش میں بہ نکلنے سے بچائے اور ایسا بے قابو نہ ہونے دے کہ اُس سے دعوتِ حق کو نقصان پہنچانے والی کوئی حرکت سرزد ہو جائے۔ دعوت حق کا کام بہر حال ٹھنڈے دل سے ہی ہو سکتا ہے اور وہی قدم صحیح اُٹھ سکتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں بلکہ موقع و محل کو دیکھ کر، خوب سوچ سمجھ کر اُٹھایا جائے۔ لیکن شیطان، جو اس کام کو فروغ پاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتا، ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتاہے کہ اپنے بھائی بندوں سے داعی حق پر طرح طرح کے حملے کرائے اور پھر ہر حملے پر داعی حق کو اکسائے کہ اس حملے کا جواب تو ضرور ہونا چاہیے۔ یہ اپیل جو داعی کے نفس سے کرتا ہے، اکثر بڑی بڑی پر فریب تاویلوں اور مذہبی اصلاحو ں کے غلاف میں لپٹا ہوا ہوتا ہے لیکن اس کی تہ میں بجز نفسانیت کے اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اسی لیے آخری دو آیتوں میں فرمایا کہ جو لوگ متقی(یعنی خدا ترس اور بدی سے بچنے کے خواہشمند) ہیں وہ تو اپنے نفس میں کسی شیطانی تحریک کا اثر اور کسی بُرے خیال کی کھٹک محسوس کرتے ہی فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آجاتا ہے کہ اس موقع پر دعوتِ دین کا مفاد کس طرزِ عمل کے اختیار کرنے میں ہے اور حق پرستی کا تقاضا کیا ہے ۔ رہے وہ لوگ جن کے کام میں نفسانیت کی لاگ لگی ہوئی ہے اور اس وجہ سے جن کا شیاطین کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق ہے، تو وہ شیطانی تحریک کے مقابلہ میں نہیں ٹھیر سکتے اور اس سے مغلوب ہو کر غلط راہ پر چل نکلتے ہیں۔ پھر جس جس وادی میں شیطان چاہتا ہے انہیں لیے پھرتا ہے اور کہیں جا کر ان کے قدم نہیں رُکتے ۔ مخالف کی ہر گالی کے جواب میں ان کے پاس گالی اور ہر چال کے جواب میں اس سے بڑھ کر چال موجود ہوتی ہے۔
اس ارشاد کا ایک عمومی محمل بھی ہے اور وہ یہ کہ اہلِ تقوایٰ کا طریقہ بالعموم اپنی زندگی میں غیر متقی لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ جو لوگ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ برائی سے بچیں اُن کاحال یہ ہوتا ہے کہ بُرے خیالات کا ایک ذرا ساغبار بھی اگر ان کے دل کو چھو جاتا ہے تو انہیں ویسی ہی کھٹک محسوس ہونے لگتی ہے جیسی کھٹک اُنگلی میں پھانس چُبھ جانے یا آنکھ میں کسی ذرے کے گُر جانے سے محسوس ہوتی ہے۔ چونکہ وہ بُرے خیالات، بُری خواہشات اور بُری نیتوں کے خو گر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اُسی طرح خلاف مزاج ہوتی ہے۔ چونکہ وہ بُرے خیالات ، بُری خواہشات اور بُری نیتوں کے خو گر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اُسی طرح خلاف مزاج ہوتی ہیں جس طرح اُنگلی کے لیے پھانس یا آنکھ کے لیے ذرہ یا ایک نفیس طبع اور صفائی پسند آدمی کے لیے کپڑوں پرسیاہی کا ایک داغ یا گندگی کی ایک چھینٹ۔ پھر جب یہ کھٹک انہیں محسوس ہو جاتی ہے تو اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کاضمیر بیدار ہو کر اس غبار ِ شر کو اپنے اوپر سے جھاڑ دینے میں لگ جاتا ہے ۔ بخلاف اس کے جو لوگ نہ خدا سے ڈرتے ہیں، نہ بدی سے بچنا چاہتے ہیں، اور جن کی شیطان سے لاگ لگی ہوئی ہے، ان کے نفس میں بُرے خیالات ، بُرے ارادے، بُرے مقاصد پکتے رہتے ہیں اور وہ ان گندی چیزوں سے کوئی اُپراہٹ اپنے اندر محسوس نہیں کرتے ، بالکل اسی طرح جیسے کسی دیگچی میں سور کا گوشت پک رہا ہو اور وہ بے خبر ہو کہ اس کے اندر کیا پک رہا ہے ، یا جیسے کسی بھنگی کا جسم اور اس کے کپڑے غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہوں اور اسے کچھ احساس نہ ہو کہ وہ کن چیزوں میں آلودہ ہے۔
151. کفار کےاس سوال میں ایک صریح طعن کا انداز پایا جاتا تھا۔ یعنی ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میاں جس طرح تم نبی بن بیٹھے ہو اسی طرح کوئی معجزہ بھی چھانٹ کر اپنے لیے بنا لائے ہوتے۔ لیکن آگے ملاحظہ ہو کہ اس طعن کا جواب کس شان سے دیا جاتا ہے۔
152. یعنی میرا منصب یہ نہیں ہے کہ جس چیز کی مانگ ہو یا جس کی میں خود ضرورت محسوس کروں اسے خود ایجاد یا تصنیف کر کے پیش کردوں۔ میں تو ایک رسول ہوں اور میرا منصب صرف یہ ہے کہ جس نے مجھے بھیجا ہے اس کی ہدایت پر عمل کروں۔ معجزے کے بجائے میرے بھیجنے والے نے جو چیز میرے پاس بھیجی ہے وہ یہ قرآن ہے ۔ اس کے اندر بصیرت افروز روشنیاں موجود ہیں اور اس کی نمایاں ترین خوبی یہ ہے کہ جو لوگ اس کو مان لیتے ہیں ان کو زندگی کا سیدھا راستہ مل جاتا ہے اوران کے اخلاقِ حسنہ میں رحمت ِ الہٰی کے آثار صاف ہو یدا ہونے لگتے ہیں۔
153. یعنی یہ جو تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے تم لوگ قرآن کی آواز سنتے ہی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہو اور شور و غل برپا کرتے ہو تا کہ نہ خود سنو اور نہ کوئی دوسرا سن سکے، اس روش کو چھوڑ دو اور غور سے سنو تو سہی کہ اس میں تعلیم کیا دی گئی ہے ۔ کیا عجب کہ اس کی تعلیم سے واقف ہو جانے کے بعد تم خود بھی اُسی رحمت کے حصہ دار بن جاؤ جو ایمان لانے والوں کو نصیب ہو چکی ہے۔ مخالفین کی طعن آمیز بات کے جواب میں یہ ایسا لطیف و شیریں اور ایسا دلوں کو مسخر کرنے والا انداز تبلیغ ہے کہ اس کی خوبی کسی طرح بیان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جو شخص حکمتِ تبلیغ سیکھنا چاہتا ہو وہ اگر غور کرے تو اس جواب میں بڑے سبق پاسکتا ہے۔
اس آیت کا اصل مقصود تو وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے لیکن ضمناً اس سے یہ حکم بھی نکلتا ہے کہ جب خدا کا کلام پڑھا جا رہا ہو تو لوگوں کو ادب سے خاموش ہو جانا چاہیے اور توجہ کے ساتھ اسے سننا چاہیے۔ اسی سے یہ بات بھی مُستَنبَط ہوتی ہے کہ امام جب نماز میں قرآن کی تلاوت کر رہا ہو تو مقتدیوں کو خاموشی کے ساتھ اس کی سماعت کرنی چاہیے۔ لیکن اس مسئلہ میں ائمہ کے درمیان اختلاف واقع ہوگیا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کا مسلک یہ ہے کہ امام کی قرأت خواہ جہری ہو یا سِرّی، مقتدیوں کو خاموش ہی رہنا چاہیے۔ امام مالکؒ اور امام احمدؒ کی رائے یہ ہے کہ صرف جہری قرأت کی صورت میں مقتدیوں کو خاموش رہنا چاہیے۔ لیکن امام شافعیؒ اس طرف گئے ہیں کہ جہری اور سرّی دونوں صورتوں میں مقتدی کو قرأت کرنی چاہیے کیونکہ بعض احادیث کی بنا پر وہ سمجھے ہیں کہ جو شخص نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
154. یاد کرنے سے مراد نماز بھی ہے اور دوسری قسم کی یاد بھی،خواہ وہ زبان سے ہو یا خیا ل سے۔ صبح و شام سے مراد یہی دونوں وقت بھی ہیں اور ان اوقات میں اللہ کی یاد سے مقصود نماز ہے،اور صبح و شام کا لفظ”دائماً“ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس سے مقصود ہمیشہ خدا کی یاد میں مشغول رہنا ہے۔ یہ آخری نصیحت ہے جو خطبہ کو ختم کرتے ہوئے ارشاد فرمائی گئی ہے اور اس کی غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ تمہارا حال کہیں غافلوں کا سا نہ ہو جائے۔ دنیا میں جو کچھ گمراہی پھیلی ہے اور انسان کے اخلاق و اعمال میں جو فساد بھی رونما ہوا ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ انسان اس بات کو بھول جاتا ہے کہ خدا اُس کا رب ہے اور وہ خدا کا بندہ ہے اور دنیا میں اُس کو آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے اور دنیا کی زندگی ختم ہونے کے بعد اسے اپنے رب کو حساب دینا ہوگا۔ پس جو شخص راہ راست پر چلنا اور دنیا کو اُس پر چلانا چاہتا ہو اُس کو سخت اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ بھول کہیں خود اُس کو لاحق نہ ہو جائے۔ اسی لیے نماز اور ذکر الہٰی اور دائمی توجہ الی اللہ کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔
155. مطلب یہ ہے کہ بڑائی کا گھمنڈ اور بندگی سے منہ موڑنا شیاطین کا کام ہے اور اس کا نتیجہ پستی و تنزل ہے۔ بخلاف اس کے خدا کے آگے جھکنا اور بندگی میں ثابت قدم رہنا ملکوتی فعل ہے اور اس کا نتیجہ ترقی و بلندی اور خدا سے تقرب ہے۔ اگر تم اس ترقی کے خواہشمند ہو تو اپنے طرزِعمل کو شیاطین کے بجائے ملائکہ کے طرزِعمل کے مطابق بناؤ۔
156. تسبیح کرتے ہیں ، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا بے عیب اور بے نقص اور بے خطا ہونا، ہر قسم کی کمزوریوں سے اس کا منزہ ہونا، اور اس کا لا شریک اور بے مثل اور بےہمتا ہونا دل سے مانتے ہیں، اس کا اقرار واعتراف کرتے ہیں اور دائماً اس کے اظہار و اعلان میں مشغول رہتے ہیں۔
157. اس مقام پر حکم ہے کہ جو شخص اس آیت کو پڑھے یا سنے وہ سجدہ کرے تا کہ اس کا حال ملائکہ مقر بین کے حال سے مطابق ہو جائے اور ساری کائنات کا انتظام چلانے والے کارکن جس خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں اسی کے آگے وہ بھی ان سب کے ساتھ جھک جائے اور اپنے عمل سے فوراً یہ ثابت کر دے کہ وہ نہ تو کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے اور نہ خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والا ہے۔
قرآن مجید میں ایسے ١۴ مقامات ہیں جہاں آیات سجدہ آئی ہیں۔ ان آیات پر سجدہ کا مشروع ہونا تو متفق علیہ ہے مگر اس کے وجوب میں اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سجدہ تلاوت کو واجب کہتے ہیں اور دوسرے علماء نے اس کو سنت قرار دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے اور اس میں جب آیت سجدہ آتی تو آپ خود بھی سجدہ میں گر جاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا تھا، حتیٰ کہ کسی کو سجدہ کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا ۔ یہ بھی روایات میں آیا ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر قرآن پڑھا اور اس میں جب آیت سجدہ آئی تو جو لوگ زمین پرکھڑے تھے انہوں نے زمین پر سجدہ کیا اور جو گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے وہ اپنی سواریوں پر ہی جھک گئے۔ کبھی آپ نے دوران خطبہ میں آیت سجدہ پڑھی ہے تو منبر سے اتر کر سجدہ کیا ہے اور پھر اوپر جا کر خطبہ شروع کر دیا ہے۔
اس سجدہ کے لیے جمہور اُنہی شرائط کے قائل ہیں جو نماز کی شرطیں ہیں،یعنی یا وضو ہونا، قبلہ رُخ ہونا ، اور نماز کی طرح سجدے میں سر زمین پر رکھنا ۔ لیکن جتنی احایث سجود تلاوة کے باب میں ہم کو ملی ہیں ان میں کہیں ان شرطوں کے لئے کو ئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اُن سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آیت سجدہ سن کر جو شخص جہاں جس حال میں ہو جھک جائے، خواہ با وضو ہو یا نہ ہو، خواہ استقبالِ قبلہ ممکن ہو یا نہ ہو، خواہ زمین پر سر رکھنے کا موقع ہو یا نہ ہو،سلف میں بھی ہم کو ایسی شخصیتیں ملتی ہیں جن کا عمل اس طریقے پر تھا۔ چنانچہ امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمر کے متعلق لکھا ہے کہ وہ وضو کے بغیر سجدہ تلاوت کرتے تھے۔ اور ابو عبدالرحمٰن سُلّمی کے متعلق فتح الباری میں لکھا ہے کہ وہ راستہ چلتے ہوئے قرآن مجید پڑھتے جاتے تھے اور اگر کہیں آیت سجدہ آجاتی تو بس سر جھکا لیتے تھے، خواہ باوضو ہو ں یا نہ ہوں، اور خواہ قبلہ رُخ ہو ں یا نہ ہوں۔ان وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ اگرچہ زیادہ مبنی براحتیاط مسلک جمہور ہی کا ہے، لیکن اگر کوئی شخص جمہور کے مسلک کے خلاف عمل کرے تو اسے ملامت بھی نہیں کی جا سکتی ، کیونکہ جمہور کی تائید میں کوئی سنت ثابتہ موجود نہیں ہے ، اور سلف میں ایسے لوگ پائے گئے ہیں جن کا عمل جمہور کے مسلک سے مختلف تھا۔